|تحریر: آدم پال|
ہندوستان کی سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں جو عالمی سطح پر جاری تیزی ترین تبدیلیوں کا تسلسل ہیں۔ لیکن میڈیا سے آنے والی خبروں اورزیادہ تر تجزیہ نگاروں اور نام نہاد دانشوروں کے تبصرے پڑھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے سیاست کا وہی چکر جو کئی دہائیوں سے ہندوستان میں جاری ہے وہ اپنی جگہ پر موجود ہے اور ہمیشہ ایسا ہی چلتا رہے گا۔ لیکن مارکسی نظریات کی بنیاد پر سیاسی افق پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے ہی محسوس ہو جاتا ہے کہ تمام تر صورتحال یکسر طور پر تبدیل ہو چکی ہے اور ہندوستان کی سیاست میں نئی تحریکوں اور نئی طرزِ سیاست کے لیے زمین ہموار ہو چکی ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں ہندوستان سے آنے والی خبروں سے یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندو بنیاد پرستی تیزی سے پھیل رہی ہے اور پورے ملک پر بنیاد پرستوں کا غلبہ ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں انقلابی قوتیں اور محنت کش طبقہ پسپائی کا شکار ہے۔ یہ سطحی تجزیے صورتحال کے مختلف پہلوؤں کو ایک کُل میں جدلیاتی تعلق میں دیکھنے کی بجائے ایک ہی پہلو کو، خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، مبالغہ آرائی سے پیش کرتے ہیں تاکہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔ جس طرح عالمی ذرائع ابلاغ القاعدہ اور داعش جیسی چھوٹی چھوٹی تنظیموں کو سامراجی مفادات کے تحت بڑھا چڑھا کر عالمی امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کرتے ہیں تا کہ اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافعوں کی شرح میں اضا فہ ہو سکے اسی طرح ہندوستان میں بنیاد پرستی کا ہوا کھڑا کرنے کے پیچھے بھی یہی مقاصد ہیں۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ بھی دہشت گردوں اور اسلامی بنیاد پرستوں کو ہر روز گھنٹوں کے لیے وقت دیتے ہیں جبکہ مزدوروں کے نمائندوں کے لیے چند سیکنڈ بھی موجود نہیں۔ اخبارات میں بھی ان دہشت گردوں کی چند سو کرائے کے افراد پر مبنی ریلیوں کو فرنٹ پیج پر جگہ دی جاتی ہے جبکہ محنت کشوں کے ہزاروں کے احتجاج کے لیے چند سطروں کی گنجائش بھی نہیں ملتی۔ ایسا ہی سب کچھ ہندوستان میں بھی کیا جا رہا ہے۔
ہندوبنیاد پرستوں کے حملوں اور مذہبی تضادات کو میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور تمام تر تجزیے اور تبصرے بھی انہی خبروں کے گرد گھومتے ہیں۔ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی بڑے پیمانے پر کامیابی نے اس تاثر کو مزید مضبوط کیا ہے۔ ان انتخابات میں دیگر تمام پارٹیاں بشمول کانگریس اور ریاست میں برسر اقتدار سماج وادی پارٹی کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح دیگر بہت سی ریاستوں میں بھی بی جے پی حکومتیں بنا رہی ہے۔ انہی نتائج کو بنیاد بنا کر اور ہندو بنیاد پرستوں کے دیگر مختلف اقدامات کی بنا پر ہندوستان میں فاشزم کے ابھار کا واویلا شروع کر دیا گیا ہے اور اس سے لڑنے کے لیے سب پارٹیوں کو اپنے اختلافات بھلا کر اکٹھا ہونے کا درس دیا جا رہا ہے۔ سائنسی بنیادوں پر جتنا یہ تجزیہ غلط ہے ا س سے زیادہ اس کا حل غلط پیش کیا جا رہا ہے جو محنت کشوں کو اس نظام سے نجات دلانے کی بجائے اسے مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔
جو میڈیا آج ہر وقت ہندو بنیاد پرستوں کا خوف عوام پر مسلط کر رہا ہے اسی میڈیا کا گھناؤنا کردار اس وقت واضح نظر آیا جب ہندوستان میں دو ستمبر کو اٹھارہ کروڑ محنت کشوں کی ہڑتال کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا اور انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال کی خبروں کو منظر عام پر آنے سے روکا گیا یا اسے مسخ کر کے پیش کیا گیا۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ جو بظاہر مودی کے دشمن نظر آتے ہیں اور اس کیخلاف آنے والے بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں وہ اسی بنیاد پرست مودی اور بی جے پی کی حکومت کیخلاف ہونے والی محنت کشوں کی اس عظیم ہڑتال پر بالکل خاموش رہے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ اسی طرح کشمیر سے لے کر تامل ناڈو تک جاری مختلف تحریکوں کو ہندوستان اور پاکستان سمیت ہر جگہ مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ صورتحال کا درست سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہوئے حل تلاش کیا جائے۔
ہندوستان میں انتخابی سیاست کا گھن چکر ہندوستان کی تمام پارٹیوں بشمول کمیونسٹ پارٹیوں میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ وہ اس سے باہر سوچنے اور سمجھنے سے ہی عاری ہو چکی ہیں۔ بورژوا جمہوریت جہاں امریکہ اور برطانیہ میں گل سڑ چکی ہے اور اس کی سڑاند سے پورے سماج میں بدبو پھیل چکی ہے اور عوام اس سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں وہاں وہ ہندوستان میں بھی انتہائی تعفن زدہ ہو چکی ہے۔ امریکہ اور یورپ سمیت بہت سے ممالک میں ووٹروں کی ایک بہت بڑی اکثریت انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے رہی جبکہ دوسری جانب احتجاجی تحریکوں اور ہڑتالوں میں شرکت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اسی طرح مروجہ سیاسی پارٹیاں بری طرح ناکام ہو کر صفحہ ہستی سے مٹتی چلی جا رہی ہیں اور ان کی جگہ نئی پارٹیاں لے رہی ہیں۔ ہندوستان میں بھی صورتحال اسی جانب بڑھ رہی ہے۔
ہندوستان کی سیاست میں انتخابات اور ان کے نتائج بہت زیادہ اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ یہی نتائج جہاں کسی بھی سیاسی پارٹی کی مقبولیت یا غیر مقبولیت کی کسوٹی بنتے ہیں وہاں سماج کے تمام رجحانات اور تحریکوں کو بھی اسی ترازو میں تولا جاتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلائے جانے والے اس ملک میں یہ طریقہ کار بڑی حد تک موزوں ہے لیکن اس کے باوجود بہت سی تحریکوں اور سماجی بے چینی کو ماپنے کے لیے یہ آلہ ناکافی بھی نظر آتا ہے۔ گزشتہ عرصے میں جاری یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تحریکوں اور محنت کشوں کی ملک گیر عام ہڑتالوں نے پورے سماج پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر انتخابات میں ان کے برا ہ راست اثرات نظر نہیں آئے۔ لیکن اس کے باوجود ان تحریکوں کی اہمیت کم نہیں ہوتی بلکہ یہ سماج کی بے چینی کا اظہار کرتی ہیں اور موجود صورتحال کے خلاف ان کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں کی شدید نفرت اور غم و غصے کا اظہار ہے جن کے پاس انتخابات کے ذریعے ان جذبات کے اظہار کے مواقع موجود نہیں۔
ان تحریکوں سے ہٹ کر انتخابی میدان میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں لیکن غیر سائنسی تجزیوں کی بنا پر ان کے غلط نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں۔ اس سال کے آغاز پر اترپردیش سمیت پانچ اہم ریاستوں میں انتخابات منعقد ہوئے جن میں سے چار میں بی جے پی نے حکومت بنائی جبکہ پنجاب میں کانگریس کو کامیابی ملی اور بی جے پی اور اکالی دل کے اتحاد کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ریاست اتر پردیش کی کُل 403نشستوں میں سے بی جے پی نے 325نشستیں جیت کر اکیلے ہی بغیر کسی اتحاد کے حکومت بنانے کا حق حاصل کیا۔ گزشتہ پانچ سال سے برسر اقتدار سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادیو اور اس کے وزیر اعلیٰ بیٹے اکلیش یادیو کی سماج وادی پارٹی کو بد ترین شکست ہوئی۔ اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے انتخابات سے قبل اتحاد بنا لیا تھا لیکن اس کے باوجود دونوں پارٹیاں مل کر بھی صرف 54نشستیں ہی جیت سکیں۔ یہ دونوں پارٹیوں کی اس ملک کی سب سے اہم ریاست میں بد ترین شکست تھی۔ تیسرے نمبر پر سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی کی بھوجن سماج پارٹی آئی جو صرف 19نشستیں حاصل کر سکی جبکہ اس سے پچھلی اسمبلی میں اس کی 80نشستیں تھیں۔ اترا کھنڈ، گوا اور منی پور کی ریاستوں میں بھی بی جے پی حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
بی جے پی اس سے پہلے کبھی بھی اتر پردیش میں اتنے بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ بابری مسجد کے واقعے سے لے کر اب تک مختلف مواقع پر ہندو بنیاد پرستی کو ابھارنے کی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن کبھی بھی اتنے بڑے پیمانے پرکامیابی نہیں مل سکی۔ 2014ء میں لوک سبھا کے لیے ہونے والے عام انتخابات میں یہاں سے بی جے پی کو بہت بڑی اکثریت ملی تھی لیکن اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ یہ وفاقی حکومت کے لیے ووٹ ملا ہے ریاستی حکومت کے لیے ووٹروں کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بی جے پی کو یہاں سے کامیابی ملی ہے۔ یہاں تک کہ مسلم اکثریتی علاقوں سے بھی بی جے پی کو بڑے پیمانے پر کامیابی ملی جس پر تمام سیاسی پنڈت انگشت بدنداں رہ گئے۔ اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ ہندو بنیاد پرستی کو بڑے پیمانے پر سماجی حمایت مل رہی ہے اور رجعتیت سماج کی جڑوں میں سرایت کر چکی ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ بی جے پی کی کامیابی کی حقیقی وجہ دوسری تمام پارٹیوں کی ناکامی ہے۔ بی جے پی ان تمام پارٹیوں کی ناکامی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کی عوام دشمن پالیسیاں اس کا حقیقی چہرہ بھی بے نقاب کرتے ہوئے سیاسی افق پر باقی اس پارٹی کے جنازے کا وقت بھی قریب لا رہی ہیں۔
اتر پردیش میں گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے سماج وادی پارٹی اور بھوجن سماج پارٹی ہی حاوی تھیں۔ یہ دونوں پارٹیاں سماج کے مختلف محروم حصوں کی نمائندگی کرنے کی دعوے دار تھیں اور انہی حصوں کی محرومیوں کو ابھار کر انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی تھیں۔ سوشلسٹ پارٹیاں کہلانے والی ان پارٹیوں نے بر سر اقتدار آ کر انہی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو ہی جاری رکھا اور ہندوستان کے امیر ترین افراد کے گٹھ جوڑ سے کرپشن اور لوٹ مار کے نئے ریکارڈ بنائے۔ اس دوران اس ریاست میں غربت اور محرومی کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی۔ بھوجن سماج پارٹی اور اس کی قائد مایا وتی دلتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کرتی رہی اور سرکاری ملازمتوں سمیت مختلف اداروں میں ان کو کوٹے کے بھونڈے ذریعے کے تحت حقوق دلوانے کی ناکام کوششیں کرتی رہیں۔ اس تمام تر سیاست کے نتیجے میں ہندوستان میں ذات پات کی جکڑ بندی کم ہونے کی بجائے زیادہ شدت اختیار کر گئی اور دلتوں کی اکثریت اسی ذلت میں زندگی گزارتی رہی۔ جبکہ وزارتوں پر فائز اور اقتدار کا حصہ بننے والے دلتوں کی ذاتی دولت اور جائیداد میں کئی گنا اضافہ ہوا اور وہ سرمایہ دار طبقے کے مزید قریب ہوتے چلے گئے۔ اسی طرح سماج وادی پارٹی OBCکے نام سے موجود سماج کے پسماندہ حصوں کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے نام پر لوٹ مار کرتی رہی۔ کانگریس بھی مسلمانوں اور دیگر حصوں کے ووٹوں کے حصول کے لیے مختلف کرتب آزماتی رہی جس میں انہیں ناکامی ہوئی۔ ایک لمبا عرصہ بر سر اقتدار رہنے کے بعد ان کی مقبولیت میں بڑے پیمانے پر کمی آئی اور عوام ایک متبادل کی تلاش میں تھے۔ ایسے میں کمیونسٹ پارٹیوں سمیت کسی بھی پارٹی نے عوام کے حقیقی مسائل کے لیے آواز بلند نہیں کی اور حکمران طبقات کے فروعی مسائل کو بنیاد بنا کر ہی انتخابی مہم چلاتے رہے۔ اس دوران بی جے پی نے انتہائی عیاری اور مکاری سے معاشی مسائل کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی اور عوام سے جھوٹ بولا گیا کہ مودی انہیں بیروزگاری سمیت دیگر تمام مسائل سے نجات دلائے گا۔ اس دوران درمیانے طبقے کی پرتوں کو متوجہ کرنے کے لیے مذہبی بنیاد پرستی کو بھی شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا لیکن انتخابی مہم کی بنیاد دیگر پارٹیوں کی کرپشن اور مسائل حل کرنے میں ناکامی کو عیاں کرنا تھا۔ پنجاب میں جہاں بی جے پی اکالی دل کے ساتھ پہلے سے بر سر اقتدار تھی وہاں اسے بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑااور وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کے دس سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ اگر بنیاد پرستی سماج میں عمومی طور پر حاوی ہوتی تو پنجاب میں بھی کانگریس کو کسی طور بھی کامیابی نہ ملتی خاص طور پر ایسی جگہ جہاں گزشتہ دس سال میں بڑے پیمانے پر نام نہاد ترقیاتی کام شروع کروائے گئے۔ ترقی کے تمام دعووں کے باوجود پنجاب میں حکومتی اتحاد کل 117میں سے صرف 15نشستیں حاصل کر سکا اور تیسرے نمبر پر آیا۔ دوسرے نمبر پر عام آدمی پارٹی آئی جس نے 20سیٹیں حاصل کیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عوام درحقیقت تمام پارٹیوں سے اکتا چکے ہیں اور کوئی دوسرا متبادل نہ ہونے کے باعث اپوزیشن میں موجود کسی پارٹی کو ہی منتخب کرنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ عام انتخابات میں بھی نریندرا مودی کی بڑے پیمانے پر کامیابی کی بھی یہی وجوہات تھیں۔ 2014ء کے عام انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور سب سے لمبا عرصہ بر سر اقتدار رہنے والی کانگریس کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ کل 545نشستوں میں سے صرف 44نشستیں جیت سکی۔ جبکہ اس وقت کانگریس دس سال سے مسلسل برسر اقتدار تھی اور بہت سے ریاستوں میں بھی اس کے پاس حکومت تھی۔ یہ کانگریس کی تاریخ کی بد ترین شکست تھی جس میں اس کی نشستوں میں 162کی کمی آئی۔ کانگریس جن پارٹیوں کے ساتھ مل کر یوپی اے کے نام سے اتحاد بنا کر حکومت کر رہی تھی انہیں بھی بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ان تمام پارٹیوں بشمول کانگریس کی سیٹوں کو جمع کیا جائے تو صرف 60سیٹیں بنتی ہیں۔ تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹی تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جے للیتا کی AIADMKتھی جو صرف ایک ریاست میں ہی محدود ہے اور تامل ناڈو سے باہر اس کے پاس کوئی نشست نہیں۔ اس پارٹی نے 37نشستیں جیتیں اور کانگریس سے اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کا حق چھیننے کے بہت قریب آ گئی۔ دوسری جانب مودی کی قیادت میں بی جے پی نے ترقی اور روزگار کے نعروں پر 282نشستیں جیت کر بھی ایک نئی تاریخ رقم کی۔
بہت سے تجزیہ نگاروں نے کانگریس کی شکست کا ذمہ دار راہول گاندھی کو قرار دیا جبکہ بی جے پی کی کامیابی کا تمام تر سہرا مودی کی کرشماتی شخصیت کو قرار دیا۔ لیکن شخصیت پرستی کے گرد ہونے والے تجزیے حقائق کا درست ادراک کرنے کے لیے ناکافی ہیں اور نہ ہی ان بنیادوں پر درست تناظر تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ کانگریس کی شکست کی ذمہ داری اس کی ایک لمبے عرصے سے جاری لبرلائزیشن، پرائیویٹائزیشن اور عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر جاری عوام دشمن پالیسیاں تھیں۔ انہی پالیسیوں کے نتیجے میں ہندوستان میں بیروزگاری میں اضافہ ہو ا اور نام نہاد شرح ترقی 7فیصد کے قریب ہونے کے باوجود کروڑوں لوگ غربت اور ذلت کی دلدل میں مزید پستے چلے گئے۔ ایسے میں معاشی بنیادوں پر ایک نئے پروگرام کی اشد ضرورت تھی اور کمیونسٹ پارٹیاں جو 2004ء میں کانگریس کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں اور پھر مخصوص مفادات کے حصول کے لیے الگ ہو گئیں، کوئی بھی واضح پروگرام دینے میں ناکام رہیں۔
2004ء میں کمیونسٹ پارٹیوں کو لوک سبھا میں تاریخ کی سب سے بڑی نمائندگی ملی تھی لیکن وہ کانگریس کے ساتھ اقتدار میں شامل ہو کر انہی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو لاگو کرنے لگیں۔ ا ن عوام دشمن پالیسیوں کی سزا انہیں اس وقت ملی جب لوک سبھا میں اکثریت کے ساتھ ساتھ مغربی بنگال میں ان کے چونتیس سالہ دور اقتدار کا بھی خاتمہ ہوا اور 2011ء کے ریاستی انتخابات میں دائیں بازو کی پارٹی ترینمول کانگریس ممتا بینرجی کی قیادت میں بر سر اقتدار آئی۔ 2016ء میں کمیونسٹ پارٹیاں پر امید تھیں کہ بینر جی کے پانچ سالہ دور اقتدار کی ناکامی کے بعد انہیں بر سر اقتدار آنے کا موقع ملے گا اور وہ دوبارہ وزارتوں پر براجمان ہو کر اپنی لوٹ مار کے سلسلے کا آغاز کر سکیں گے۔ اس حوالے سے بینر جی کی بد ترین کرپشن کے اسکینڈل سامنے آنے سے بھی ان زوال پذیر کمیونسٹ پارٹیوں کو حوصلہ ملا۔ لیکن انتہائی غیر مقبول حکومت ہونے کے باوجود بینر جی 2016ء میں دوبارہ انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئی اور کمیونسٹ پارٹیوں کی مزید 28سیٹیں کم ہو گئیں اور وہ کانگریس کے بعد تیسرے نمبر پر چلی گئیں۔ اس دوران کمیونسٹ پارٹیاں کیرالا میں حکومت بنانے میں کسی طرح کامیاب ہو گئیں لیکن وہاں اب پہلی دفعہ بی جے پی ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھر رہی ہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کے بہت سے متحرک کارکنا ن اقتدار کے مزے لینے کے لیے بی جے پی میں بھی شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ 2014ء کے عام انتخابات سے پہلے جنوبی اور مشرقی ہندوستان میں بی جے پی کے امیدواروں کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے اور ان کے پاس وہاں سے انتخابات کے لیے امیدوار بھی موجود نہیں ہوتے تھے۔ لیکن بائیں بازو کی پارٹیوں کی مسلسل ناکامی نے اس خطے میں بی جے پی کی صورت میں ایک نئی سیاسی جماعت کو آنے کا موقع دیا ہے۔ عالمی سطح پر ہم مختلف ممالک میں یہ عمل دیکھ چکے ہیں جہاں بائیں بازو کے متبادل کی عدم موجودگی میں عوام کا ایک بڑا حصہ نظام سے اپنی نفرت کا اظہار انتہائی دائیں بازو کو ووٹ دے کر کررہا ہے۔
لیکن اس دوران پہلے سے موجود پارٹیاں بھی شدید بحران کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ تامل ناڈو میں گزشتہ پچاس سال سے دو ہی پارٹیاں DMK اور AIADMK برسراقتدار آتی رہی ہیں۔ دونوں ہی دراوڑ نیشنلسٹ ہیں۔ لیکن دسمبر میں وزیر اعلیٰ جے للیتا کی وفات کے بعد اس کی پارٹی AIADMK شدید بحران کا شکار ہے اور ایک بعد دوسری سپلٹ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح ماضی میں ریاست میں بر سر اقتدار رہنے والی اپوزیشن پارٹی DMK بھی شدید بحران کا شکار ہے اور آنے والے عرصے میں پارٹی کا داخلی خلفشار بڑھتا چلا جائے گا۔ آندھرا پردیش اور اس میں سے نئی ریاست تلنگانہ بننے کے باوجود وہاں بنیادی مسائل حل نہیں ہو سکے۔ ایک لمبے عرصے سے یہاں نئی ریاست کے لیے بڑے پیمانے پر احتجاج جاری تھے جس میں سینکڑوں افراد ہلاک بھی ہوئے۔ ان ریاستوں میں تمام مسائل کا حل نئی ریاست کا قیام بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ لیکن نئی ریاست بننے کے بعد بھی حالات بہتر ہونے کی بجائے بد تر ہوئے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں کا دارلحکومت حیدرآباد ہے جہاں کی یونیورسٹی میں ایک دلت طالبعلم روہت ومولا کی خود کشی کے بعد طلبہ تحریک کا آغاز ہوا تھا جو بعد ازاں دہلی تک پھیل گئی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کے طلبہ سمیت تمام اہم یونیورسٹیوں کے طلبہ بڑے پیمانے پر اپنے مطالبات کے لیے باہر نکل آئے۔ حیدرآباد میں ابھی بھی مختلف تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تحریک جاری ہے اور وہ اپنے مطالبات کے لیے سرگرم ہیں۔
دہلی میں گزشتہ عرصے میں عام آدمی پارٹی کے نام سے ایک نئی پارٹی ابھری تھی اور درمیانے طبقے کی وسیع پرتوں کو اس نے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔ اس پارٹی کی بنیاد 2011ء میں کانگریس حکومت کی کرپشن کے خلاف چلنے والی درمیانے طبقے کے چند حصوں کی ایک تحریک تھی۔ اس تحریک کی قیادت انتہائی دائیں بازو کا بوڑھا شخص انا ہزارے کر رہا تھا اور اس کا مطالبہ تھا کہ لوک پال نامی بل اسمبلی سے منظور کیا جائے تاکہ حکومتی اہلکاروں کا احتساب کیا جا سکے۔ دائیں بازو کی یہ تحریک درمیانے طبقے کے نوجوانوں میں پائی جانے والی بے چینی کی عکاسی کرتی تھی۔ اسی تحریک کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ہی کیجر ی وال نے نئی پارٹی بنانے کا اعلان کیا جسے دہلی کے ریاستی انتخابات میں بڑے پیمانے پر کامیابی ملی۔ دائیں بازو کی اس پارٹی نے پہلی انتخابی مہم میں بجلی اور پانی کے بلوں کو نصف کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن بر سر اقتدار آنے کے بعد وہ اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کر سکی۔ اس پارٹی کا لیڈر اور دہلی کا وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال خود کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے اور اختلافات کے باعث پارٹی کے اہم لیڈر پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں اور کیجری وال کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پارٹی کے سابقہ لیڈروں یوگندرا یادیو اور پرشانت بھوشن نے کیجری وال پر الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ پارٹی کی مسلسل ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ اس نے شفاف سیاست کا رستہ ترک کر دیا ہے۔ اب پارٹی کے ایک اور اہم لیڈر اور مشہور کوی کمار وشواس کے کیجری وال سے اختلافات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ اس سے پہلے پارٹی کی ایک لیڈر شازیہ علمی بی جے پی کا حصہ بن چکی ہے۔ پارٹی اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے اور بکھرنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
بہار میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک لمبے عرصے سے ایک دوسرے کے سیاسی دشمن سابق وزرائے اعلیٰ نتیش کمار اور لالو پرشاد یادیو گزشتہ ریاستی انتخابات میں اکٹھے ہو گئے۔ نتیش کمار اور اس کی جنتا دل( یونائیٹڈ) پارٹی اس سے پہلے بی جے پی کے اتحادی تھے۔ 2005ء سے مسلسل اقتدار میں رہنے کے بعد اس کی مقبولیت میں شدید کمی ہوئی تھی اور 2014ء کے عام انتخابات میں بی جے پی نے بہار میں اس کی پارٹی کا صفایا کر دیا تھا۔ اس کے بعد نتیش کمار نے ناٹک کرتے ہوئے وزارت اعلیٰ سے وقتی طور پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ لیکن 2015ء کے ریاستی انتخابات میں لالو پرشاد یادیو کی راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ اتحاد بنا کر دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوا۔ عالمی مالیاتی ادارے نتیش کمار کو مسیحا بنا کر پیش کرتے رہے اور اس کے نام نہاد فلاحی کاموں کی مثالیں دیتے رہے۔ اسی طرح لالو پرشاد بھی مختلف ذاتوں اور برادریوں کے گٹھ جوڑ کی بنا پر ہی سیاست کرتا رہا۔ لیکن اب ان دونوں پارٹیوں کی مقبولیت میں بھی کمی ہوئی ہے اور آنے والے عرصے میں انہیں نئے ناٹک کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
اس سارے عرصے میں بی جے پی کے داخلی تضادات میں بھی شدت آئی ہے لیکن انتخابات میں کامیابیوں اور اقتدار میں ہونے کے باعث یہ اختلافات کھل کر سامنے نہیں آئے۔ بی جے پی انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہے جس کی نظریاتی سرپرستی ہندو بنیاد پرست راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کرتی ہے۔ اسی لیے اسے سَنگھ پریوار بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی بنیادیں بٹوارے سے پہلے برطانوی سامراج نے رکھی تھیں اور اسے فاشسٹ بنیادوں پر استوار کیا گیا تھا۔ انہی بنیادوں کے باعث بی جے پی کی قیادت شخصیت پرستی سے آزاد تھی۔ حالیہ عرصے میں بی جے پی نے اس پہلو کو اپنا ایک نمایاں وصف بنا کر پیش کیا ہے جہاں کمیونسٹ پارٹیوں کے علاوہ تمام دوسری پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ کانگریس کا نہرو خاندان کے بغیر تصور کرنا بھی محال ہے۔ یہی صورتحال بہار، اتر پردیش، پنجاب، تامل ناڈو، کشمیر اور دوسری ریاستوں کی علاقائی پارٹیوں کی بھی ہے۔ لیکن اس تمام عرصے میں مودی اور اس کے کارِ خاص، قریبی دوست اور پارٹی کے صدر امیت شاہ کی گرفت پارٹی پر بہت زیادہ مضبوط ہوئی ہے اور شخصیت پرستی تیزی سے پروان چڑھی ہے جو پارٹی کی زوال پذیری کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی وجہ سے ایل کے ایڈوانی، وزیر خارجہ سشما سوراج، 2005ء
سے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان اور دیگر لیڈروں کے ساتھ ان کے تضادات ابھرے تھے۔ اتر پردیش میں پارٹی کی حالیہ کامیابی کے بعد وزیراعلیٰ کے چناؤ میں بھی یہ تضادات موجود تھے جس کو حل کر نے کے لیے گورکھ پور کے ایک مندر کے مہانت پجاری یوگی ادتیاناتھ کو وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا جبکہ پارٹی کے دو اہم لیڈروں کو مشترکہ طور پر نائب وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ آنے والے عرصے میں ان تضادات میں اضافہ ہو گا اور خاص طور پر انتخابی میدان میں کوئی بھی بڑی ناکامی مودی اور امیت شاہ پر بڑے پیمانے پر تنقید کے آغاز کا سبب بنے گی۔ مہاراشٹر میں ہندو بنیاد پرست شیو سینا پہلے ہی مودی کو شدید تنقیدکا نشانہ بنا رہی ہے۔ بال ٹھاکرے کی وفات کے بعد خود شیو سینا دوحصوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور مہاراشٹر کی سیاست پر اس کی گرفت پہلے کی نسبت کئی گنا کمزور ہوئی ہے۔ یہاں بھی شیو سینا کے ابھار کی وجہ ریاستی پشت پناہی اور سرمایہ داروں کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ پارٹیوں کی زوال پذیری تھی۔ ما ضی میں ممبئی کی تمام اہم صنعتوں میں مضبوط ٹریڈ یونین موجود تھیں جو کمیونسٹ پارٹیوں کے ساتھ منسلک تھیں۔ ممبئی کے محنت کشوں کی جدوجہد کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ خاص طور پر ممبئی کے ٹیکسٹائل کے مزدور وں کی ہڑتالوں نے پورے خطے کے محنت کشوں کو گزشتہ ایک صدی میں ہمیشہ ہمت اور حوصلہ دیا ہے۔ انہی تحریکوں کو کچلنے کے لیے شیو سینا جیسی بنیاد پرست تنظیم کی ہمیشہ ریاستی پشت پناہی کی جاتی رہی ہے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد اسے زیادہ شدت سے مسلط کیا گیا۔ آج بھی ہندوستان میں محنت کشوں کی ابھرتی ہوئی تحریکوں کو روکنے کے لیے بنیاد پرستی اور مذہبی تضادات کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن آج وہ زرخیز زمین موجود نہیں جو دو دہائیاں قبل موجود تھیں اور اس بنیاد پرستی کے لیے آج مزدوروں میں بنیادیں حاصل کرنا ممکن نہیں۔
آج محنت کشوں کو درپیش مسائل کا سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کوئی حل نہیں۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تیز ترین شرح ترقی حاصل کرنے کے باوجود مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں۔ مودی حکومت نے اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے بھی سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور اس وقت کاغذوں میں ہندوستان کی معیشت دنیا کی سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے۔ لیکن اسی دوران بیروزگاری میں تیز ترین اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں بنگلور اور دیگر جگہوں پر آئی ٹی کمپنیوں نے بڑے پیمانے پر ملازمین کو برطرف کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایک سال میں آئی ٹی کی بڑی کمپنیوں سے ایک لاکھ افراد کو برطرف کیا جائے گا۔ دوسرے شعبوں میں حالات زیادہ بد تر ہیں۔ ایسے میں مودی مزدور دشمن قوانین لاگوکر رہا ہے جس میں محنت کشوں کے پاس موجود روزگار کے تحفظ سمیت بنیادی حقوق سلب کر لیے جائیں گے اور سرمایہ داروں کو لوٹ مار کے نئے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ اسی طرح مالیاتی شعبے میں بڑے پیمانے پر لبرلائزیشن کی جا رہی ہیں۔ نجی کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر متعارف کروایا جا رہا ہے اور لاکھوں سرکاری ملازمین کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے جس کے خلاف متعدد ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ کان کنی سمیت مختلف شعبوں میں محنت کشوں کی تحریکیں بھی شدت اختیا کرتی جا رہی ہیں۔
ایسے میں یہ توقع کرنا کہ بی جے پی کیخلاف تمام پارٹیوں کا سیکولر ازم کے نام پر اتحاد بنا کر عوام کا اعتماد جیتا جا سکتا ہے، محض خام خیالی ہے۔ عوام ان پارٹیوں کو رد کر چکے ہیں اور ان پارٹیوں کے پاس عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی حل نہیں۔ کمیونسٹ پارٹیاں مارکسی نظریات کو فراموش کر چکی ہیں اور سرمایہ داری کی غلاظت کو ہی چاٹ رہی ہیں اسی لیے نوجوانوں اور محنت کشوں میں تمام تر بحران کے باوجود ان کی حمایت بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہے۔ دوسری طرف ہندوستان میں فوری طور پر فاشزم کا بڑے پیمانے پر کوئی خطرہ موجود نہیں اور نہ ہی مودی کوئی فاشسٹ ہے۔ اس کی اور من موہن سنگھ کی پالیسیوں میں زیادہ فرق نہیں۔ نوٹ بندی سے لے کر مزدور دشمن قوانین کا نفاذ انہی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ درحقیقت نوٹ بندی کی پالیسی من موہن سنگھ نے ہی وضع کی تھی گو کہ اس پر عملدرآمد مودی نے کیا ہے۔ اسی طرح دیگر تمام پالیسیوں کے مسودے پچھلی حکومت میں ہی تیار کیے گئے تھے۔ امریکی سامراج سے دوستی کی پینگیں بڑھانے، اسلحے کی بڑے پیمانے پر خریداری اور پاکستان سے دشمنی کا ناٹک سمیت کوئی بھی پالیسی نئی نہیں۔ اسی طرح اتر پردیش میں یوگی ادتیا ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے سے بنیادی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس دوران مذہبی تضادات اور بنیاد پرستوں کے حملوں کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے لیکن گزشتہ حکومت کے دور میں بھی 2013ء کے دوران مظفر نگر میں ہندو مسلم فساد جیسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جس میں 62لوگ ہلاک ہوئے جبکہ پچاس ہزار افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی۔
ریاست کے ان ہتھکنڈوں اور مزدور دشمن حملوں کا جواب صرف انقلابی سوشلزم کے نظریات پر بالشویک بنیادوں پر ایک پارٹی تعمیر کر کے ہی دیا جا سکتا ہے۔ محنت کشوں کی ہڑتالوں اور طلبہ تحریک کی دو دہائیوں بعد نئی اٹھان نے انقلابی مارکسزم کے درست نظریات کی پیاس کو مزید بھڑکایا ہے جو ناگزیر طور پر نئی نظریاتی بحثوں کو جنم دے گی۔ ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک کو سٹالنزم کے زوال پذیر نظریات سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا اور لینن اور ٹراٹسکی کے انقلابی نظریات سے از سر نو رجوع کرنا ہو گا۔ ماؤاسٹوں کی مسلح جدوجہد بھی بند گلی میں داخل ہو چکی ہے اور وہ کبھی بھی مزدوروں کی وسیع حمایت حاصل نہیں کرپائے اور نہ ہی اس طریقہ کار سے ایسا کبھی کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کی بورژوا جمہوریت اور عوام دشمن ریاست کامسلح جدوجہد کی بجائے محنت کش طبقے کی حمایت سے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ کرتے ہوئے ہی تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ انہی نظریات پر مبنی نعرے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کی وسیع تر پرتوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے ان کی تحریکوں کو حتمی منزل کی جانب لے جا سکتے ہیں۔ یہ منزل اس خطے میں تمام مصنوعی سرحدوں کا خاتمہ کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے سوا کچھ نہیں، جو عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کا نقطۂ آغاز بنے گی۔