|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|
صوبہ خیبر پختونخوا میں شعبہ تعلیم کو مکمل طور پر بحران میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اس وقت صوبے کی تمام جامعات معاشی خسارے کا شکار ہیں۔ صوبائی حکومت نے آج سے تین ماہ پہلے تمام جامعات کی نجکاری کرنے کیلئے اقدامات بروئے کار لانے کے احکامات جاری کئے تھے۔ جس پر جنوری میں ریڈ ورکرز فرنٹ نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔ صوبائی حکومت کی جانب سے جامعات کو جاری کئے گئے ایک خط میں صوبے بھر کی جامعات پر واضح کیا گیا تھا کہ وہ اس کے بعد تعلیمی اخراجات، تنخواہوں اور دیگر تعلیمی ضروریات کیلئے خود ہی پیسہ اکھٹا کریں گی۔ ریاست آئندہ ہائیر ایجوکیشن کو کوئی فنڈ نہیں دے گی۔ لہٰذا یونیورسٹیاں اپنے تمام ضروری اخراجات کیلئے صرف طلبہ سے لی گئی فیسوں پر انحصار کریں گی۔ اس کے علاوہ جامعات میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں میں کٹوتی کر کے پیسہ بچایا جائے گا تاکہ انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکاروں کی مراعات جاری و ساری رہیں، ان کے دس دس مرلے کے گھر سلامت رہیں، جبکہ دوسری طرف حکومت بھی تعلیم جیسے بنیادی شعبے کی ذمہ داری سے اپنے آپ دستبردار قرار دے کر عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کو اپنی عیاشیوں میں خرچ کر رہی ہے۔
تعلیم کی نجکاری کی پالیسی موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے احکامات پر لاگو کر رہی ہے تاکہ سامراجی مالیاتی آقاؤں سے لئے گئے قرضوں کی سود سمیت ادائیگیاں بروقت ہوتی رہیں اور مقامی حکمران اپنی عیاشیوں اور آقاؤں سے ملنے والی بھیک حاصل کرنے کے اہل رہیں۔ اس کیلئے تعلیم اور صحت سمیت پورے ملک کو بیچنا پڑے تو بھی پاکستان کے حکمران اس سے دریغ نہیں کریں گے۔
اسی عوام دشمن اور تعلیم دشمن پالیسی اور اس کے نتیجے میں کئے گئے اقدامات کے خلاف ہائیر ایجوکیشن پختونخوا کے ملازمین پچھلے تین ماہ سے سراپا احتجاج ہیں، جن میں سینکڑوں کنٹریکٹ ملازمین کے ساتھ ساتھ کلاس تھری، کلاس فور سے لے کر لیکچررز اور پروفیسرز بھی شامل ہیں۔
مارچ 2021ء میں احتجاجی سلسلے کا آغاز کیا گیا تھا۔ ہزاروں ملازمین نے یونیورسٹی کیمپس میں 10 مارچ 2021ء کو انجینئرنگ یونیورسٹی چوک پر دھرنا بٹھایا جوکہ پانچ دن تک جاری رہا جس کو پھر لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ملتوی کرنا پڑا۔ اب جب کہ کورونا کی تیسری لہر میں پھر سے ادارے کھولنے کا امکان نہیں تھا اور مارچ سے لے کر مئی تک ادارے بند رہے، اس دوران میں یونیورسٹی انتظامیہ نے موقع پاکر بھرپور طریقے سے ملازمین کی تنخواہوں پر حملہ کردیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو لگ رہا تھا کہ ادارے بند ہونے کی صورت میں اسے ملازمین کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، مگر اس کی بجائے ملازمین انتہائی مجبوری کے عالم میں سڑکوں پر نکل آئے۔
31 مئی کو پشاور یونیورسٹی کیمپس میں صوبے بھر کے ملازمین پشاور میں اکٹھے ہوئے اور یونیورسٹی سے صوبائی اسمبلی تک دس کلو میٹر پیدل مارچ کا آغاز کیا۔ صوبائی اسمبلی کے سامنے اس پرامن مارچ کو دھرنے میں تبدیل کر دیا گیا۔
حکومت شروع دن سے لے کر آج تک احتجاجی ملازمین کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ صوبائی اسمبلی کے سامنے پرامن مظاہرین کا سامنا کرنے سے خوفزدہ حکومتی وزراء چوہوں کی طرح اپنی بلوں میں گھس کر سوراخوں سے احتجاج کا نظارہ کرتے رہے۔ احتجاج سے خوفزدہ ہوکر آخر کار پولیس کے ذریعے مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھیاں برسائی گئیں۔ جس کے نتیجے میں درجنوں ملازمین متاثر اور زخمی ہوئے۔ کئی ایک ملازم بے ہوش ہوئے اور درجن بھر ملازمین کو گرفتار کیا گیا جنہیں بعد میں رہا کرنا پڑا۔ اس طرح کی بزدلانہ حرکت کرنے سے پہلے حکومت نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ جبر اور ڈنڈے مارنے سے ملازمین خوفزدہ ہونے کی بجائے مزید غصے اور جوش کے ساتھ اپنی جدوجہد آگے بڑھائیں گے۔ پولیس کے شدید ترین جبر کے کچھ ہی دیر بعد ملازمین دوبارہ اکٹھے ہو گئے اور نعرے بلند کرنے لگے۔ ایسے میں دوبارہ پولیس کو بھیج دیا گیا اور دوبارہ شیلنگ شروع ہو گئی۔ اس طرح پورا دن پولیس اور مظاہرین کے بیچ یہ جھڑپیں جاری رہیں، مگر ملازمین جرات اور مستقل مزاجی کے ساتھ ڈٹے رہے۔ یہ احتجاج ابھی بھی جاری ہے اور اس کا دائرہ کار پھیلتا جارہا ہے۔ جبکہ حکومت ہٹ دھرمی قائم رکھے ہوئے ہے اور ابھی تک مزاکرات کیلئے کوئی بھی حکومتی نمائندہ نہیں آیا۔
ملازمین نے تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے مگر ریاست موجودہ بجٹ کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایسے میں ملازمین کو ڈنڈے کے زور پر مزید بھڑکایا گیا ہے اور آج (یکم جون) کو صوبے بھر کے تمام اداروں کے ملازمین نے نہ صرف احتجاج کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ مکمل ہڑتال کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسیشن (PUTA) کے صدر نے واضح کیا کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کر لیے جاتے، احتجاج جاری رہے گا، اور اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریزنہیں کریں گے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ایمپلائز کے ساتھ مکمل یکجہتی کرتے ہوئے عملی جدوجہد میں ان کے ساتھ شامل ہے۔ ہم ملازمین کے تمام مطالبات کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کل کے احتجاج میں ریاست کی طرف سے ان ملازمین پرہونے والے جبر کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ لاکھوں ملازمین ہی ہیں جو صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں خدمات دے رہے ہیں اور اداروں کو چلا رہے ہیں۔ ہم حکومت کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ انتظامیہ اور حکومت اپنی کرپشن اور لوٹ مار کا سارا ملبہ ان غریب ملازمین پر ڈالنے سے گریز کریں۔ کیونکہ ملازمین کمزور نہیں ہیں۔ جب وہ پورے نظام تعلیم کو چلا سکتے ہیں تو اس کو روک بھی سکتے ہیں۔
ہم ملازمین سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ اب جدوجہد کے دائرہ کار کو کو مزید وسعت دینا ہوگی، محض دھرنوں اور سڑکیں بلاک کرنے تک محدود رہ کر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔ اب ملازمین کو چاہئیے کہ وہ پورے صوبے میں غیر معینہ مدت تک مکمل کام چھوڑ ہڑتال کا آغاز کریں۔ یعنی کہ تب تک ہڑتال جاری رکھیں جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کر لیے جاتے۔
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!
مزدور اتحاد، زندہ باد!