|تحریر: برسٹل مارکسسٹس، ترجمہ: یار یوسفزئی|
ٹوری سرکار کی جانب سے ایک نیا قانون منظور کرانے کی کوشش جاری ہے، جس کے خلاف غصّے اور مظاہروں کی ایک لہر پھیل چکی ہے۔ یہ قانون پولیس کو پہلے کبھی نہ دیکھے گئے جابرانہ اختیارات مہیا کر دے گا۔ برسٹل میں پچھلے ہفتے پولیس کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں 5 ہزار افراد پر مشتمل پُر امن مظاہرہ انتہائی پر انتشار شکل اختیار کر گیا۔ پولیس کی جانب اس شدید غم و غصّے کی وجہ ان کا لندن میں سارہ ایورارڈ کی یاد میں منعقد ہونے والی پر امن اکٹھ پر جابرانہ حملہ تھا۔ سارہ کو دو ہفتے قبل (3 مارچ) قتل کیا گیا تھا جس کی موت کا الزام پولیس افسر کے اوپر لگایا جا رہا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
اتوار (21 مارچ) کو برسٹل میں ہونے والے ”کِل دی بِل“ (بل واپس لو) مظاہرے کے حوالے سے حکومت کافی پریشان ہے، جو پولیس کے ساتھ پر تشدد جھڑپوں پر اختتام پذیر ہوا۔
ہوم سیکرٹری (وزیرِ داخلہ) پریتی پاٹیل نے احتجاجوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ”بد معاشی اور بد نظمی“ ہے، جس میں پولیس وینوں کو جلایا گیا اور پولیس سٹیشن کی کھڑکیوں کو توڑا گیا۔
مگر اصلی بد معاش تو حکومت کے اندر پائے جاتے ہیں؛ اس نظام کا دفاع کرنے والے جو تھوڑے سے لوگوں کی دولت میں اضافے کی خاطر لاکھوں لوگوں کو غربت کا شکار کرتا ہے۔
سفاکیت
احتجاجوں کے حوالے سے ٹوری سرکار کے نئے قانون کے خلاف ’بل واپس لو‘ کے مظاہرے ہفتے کے آخر میں برطانیہ بھر میں منعقد کیے گئے۔ یہ نیا قانون پولیس کو سفاکانہ اختیارات دے گا، جن کو استعمال کرتے ہوئے وہ پر امن احتجاجوں پر ’شور شرابہ کرنے‘ اور ’لوگوں کے کام میں خلل ڈالنے‘ کا الزام لگا کر روکنے کی اہل ہوگی۔ اس کا مطلب احتجاج کرنے کے حق کو ختم کر دیا جائے گا اور پولیس کسی بھی عوامی اکٹھ کے اوپر کھلا جبر کر سکے گی۔
ہمارے بنیادی جمہوری حقوق پر ٹوری سرکار کا حملہ احتجاج کرنے والوں کو درپیش دیگر خطرات کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ ایک ہفتے پہلے ہی لندن میں پولیس نے سارہ ایورارڈ کی یاد میں منعقد ہونے والی پر امن تقریب کے اوپر پر تشدد حملہ کر دیا، جس کو ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر نے قتل کیا تھا۔
پولیس کے خلاف غصّہ کئی سالوں سے، بلکہ دہائیوں سے پنپ رہا ہے۔ لاکھوں عوام روزمرہ کی بنیادوں پر سیاہ فام اور ایشیائی لوگوں کی نسل پرست ہراسانی سے تنگ آ چکے ہیں، جیسا کہ بلیک لائیوز میٹر تحریک میں دیکھا گیا، جب برسٹل کے اندر پچھلے موسمِ گرما میں ہونے والا احتجاج غلاموں کے مالک ایڈورڈ کولسٹن کا مجسمہ گرانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
بے شمار تفتیش اور تحقیقات کے باوجود، پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کا قتل جاری ہے، جبکہ ذمہ داران مکمل طور پر بری الذمہ ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں۔ محمد حسن کی موت کا واقعہ اس لمبی فہرست کا حالیہ پیش آنے والا واقعہ ہے، جو پولیس حراست سے آزاد ہونے کے تھوڑی دیر بعد پیش آیا۔
جن خواتین کو جنسی ہراسانی اور ریپ کا سامنا ہوتا ہے، انہیں پولیس مسلسل نظر انداز کرتی رہتی ہے۔ اور اب ٹوریز کے نئے قوانین کے مطابق، نسل پرستوں کے مجسمے گرانے کے ’جرم‘ میں دس سال قید کی سزا ہو سکتی ہے، جو ریپ کرنے والوں کی سزا سے چھے سال زیادہ ہے!
منافقت
حکومت کے مطابق بلاشبہ ان اقدامات میں سے کچھ بھی ’بد معاشی‘ نہیں ہے، بلکہ ’نظم و ضبط‘ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک ’بد نظمی‘ اور ’جرائم‘ کی بات ہے، ٹوری حکومت خود اس حوالے سے عالمی سطح کی مہارت رکھتی ہے، جو وباء کی تباہ کاریوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ، کورونا سے ہونے والی اموات میں ٹوری حکومت 1 لاکھ 50 ہزار انسانوں کی موت کی ذمہ دار ہے، جبکہ مالکان کے منافعوں کو لوگوں کی زندگیوں پر ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ بے روزگاری میں شدید اضافہ ہو رہا ہے اور نوجوانوں کو خاص کر انتہائی تاریک مستقبل کا سامنا ہے۔ اسی عرصے میں ٹوری سرکار کے امیر دوستوں کو مختلف معاہدوں اور ریاستی امداد کی مد میں اربوں پاؤنڈز دیے جا چکے ہیں۔
لہٰذا یہ بات قطعا حیرت انگیز نہیں ہے جب ہزاروں افراد کہتے ہیں کہ ’بہت ہو چکا‘۔ پولیس کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں جمع شدہ غصّے کا پھٹ جانا بالکل حیرت انگیز بات نہیں ہے۔
یہاں تک کہ مظاہرے سے پہلے بھی، برسٹل انتظامیہ پیغام دے رہی تھی: ’باہر نہ نکلو، احتجاج نہ کرو؛ پولیس آپ کو روکنے کا اختیار رکھتی ہے۔‘ بھاری جرمانوں کی دھمکی دے کر انتظامیہ نے ایک منظم مظاہرہ منعقد کرنا ناممکن بنا دیا۔
اس سے لوگوں کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان دھمکیوں کے باوجود، برسٹل میں 5 ہزار سے زائد افراد نے بل کی منظوری اور ساری بوسیدہ حکومت کے خلاف سیاسی مؤقف پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا۔
ظلم
مظاہرے کی ابتداء سے پولیس کے جتھے مظاہرین کو پریتی پاٹیل کے خلاف نعرے لگانے سے روکتے رہے۔ بینر پکڑنے والوں کو تنبیہہ کی گئی کہ یہ ’غیر قانونی‘ ہے۔ جب مظاہرین کی تعداد بڑھنے لگی تو پولیس کی موجودگی کم ہونے لگی۔ مگر اس بات کو محسوس کیا جا سکتا تھا کہ وہ مزید جارحانہ طریقے سے حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ہجوم کالج گرین کو چھوڑ کر شہر کے وسط میں جاری خودرو مارچ کی طرف گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ناگزیر طور پر تعداد میں کمی آتی گئی، مگر تقریباً ایک ہزار لوگوں کے گروہ نے برائیڈ ویل پولیس سٹیشن کے سامنے دھرنا دے دیا۔
جواباً احتجاج کو روکنے والی پولیس اپنے دستوں اور کتوں کو ساتھ لے کر نکلی۔ جلد ہی انہوں نے مظاہرین پر لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے پیپر سپرے کا استعمال بھی کیا، جس کے نتیجے میں پر امن مارچ کو سڑک کے اوپر ہونے والی جنگ میں تبدیل کر دیا گیا۔
حملوں کے ذریعے اشتعال دلا کر مظاہرین سے کروایا جانے والا تشدد بلاشبہ حکومت کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ وہ ان واقعات کو فوری طور پر بہانہ بنا کر پولیس کو دیے جانے والے نئے جابرانہ اختیارات کے لیے جواز فراہم کر رہے ہیں۔ وہ غصّے سے بھرپور عوام پر حملہ کر کے اس بات کا رونا روتے ہیں کہ انہوں نے اس کا رد عمل کیوں دکھایا!
I was a teenager in 2010 when I saw police on horses charge at school students, after driving a van into the road for protesters to attack and journalists to photograph. Children became "rioters". Last night they did the same in Bristol. Our heroic media will again be pliant.
— Barnaby Raine (@BarnabyRaine) March 22, 2021
بطورِ مارکس وادی، ہم مذمت کے اس منافقانہ ورد میں شامل نہیں ہوتے۔ آخری تجزیے میں، یہ سرمایہ داری اور اس کے ادارے ہی ہیں، بشمول ٹوری حکومت اور پولیس، جو منظم تشدد کے ذمہ دار ہیں۔
البتہ اس کے ساتھ ہمیں یہ نشاندہی بھی کرنی ہوگی کہ پولیس سٹیشن کی چند کھڑکیاں توڑ کر اس بوسیدہ اور جابرانہ نظام کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ یہ محض محنت کش طبقے کی منظم جدوجہد کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے، جو سماج کو تبدیل کرنے والے سوشلسٹ پروگرام سے لیس ہو۔
منظم ہوں!
اس جدوجہد کو اس وقت ٹریڈ یونین اور لیبر پارٹی کی قیادت روکے ہوئے ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر مزدور تحریک کے قائدین اپنی صفوں کو منظم اور متحرک کریں تو کتنی طاقتور تحریک سامنے آ سکتی ہے۔ اور اسی طرح اگر ’سر‘ کیئر سٹارمر حکومت کی دلالی کی بجائے لاکھوں افراد کا شدید غصّہ حکومت کے خلاف منظم کرے تو اس کے کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔
اگر ایسا ہو جائے تو کچھ ہی شہروں میں چند ہزار افراد کے احتجاج کی بجائے ہم لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں پر مشتمل عوامی تحریک دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد ٹوری سرکار کی جانب سے کسی قسم کے بھی جابرانہ قوانین جدوجہد کو روک نہیں پائیں گے۔
ایسی تحریک کی قیادت کے لیے محنت کش اور نوجوان کیئر سٹارمر کے اوپر اعتماد نہیں کر سکتے، نہ ہی مزدور تحریک میں موجود کسی دیگر حکومتی نمائندے پر۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ بایاں بازو تحریک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لے کر ان پرتوں سے چھٹکارا حاصل کرے جو راستے کی رکاوٹ بن رہے ہیں، اور ٹریڈ یونین اور لیبر پارٹی کے ذریعے جدوجہد کو آگے بڑھائے۔
آخر میں یہ کہ پولیس اور ٹوری سرکار حکمران طبقے کے مفادات کی حفاظت پر مامور ہیں۔ صرف ایک پر عزم جدوجہد، جو ارب پتیوں اور ان کے گماشتوں سے ان کا اقتدار چھین لے، کے ذریعے ہی اس نظام کی ساری دہشت اور تشدد کا خاتمہ ممکن ہے۔