|رپورٹ: عمر ریاض، ریڈ ورکرز فرنٹ اسلام آباد|
یکم مارچ کے روز تنخواہوں کے اجرا اور مستقلی کے لئے جدوجہد کرنے والے وفاق کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کے ملازمین نے حکمرانوں کی بے حسی سے تنگ آکر اپنے احتجاج کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے کشمیر ہائی وے بلاک کردی اور دھرنا دے دیا۔ پولیس نے سڑک کھلوانے کے لئے احتجاجی ملازمین، جن میں خواتین بھی شامل تھیں، پر دھاوا بول دیا اور ننگے جبر کا نشانہ بنایا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس ریاستی جبر کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ احتجاجی ملازمین کے مطالبات فی الفور پورے کیے جائیں۔
اسلام آباد میں وفاق کے زیر انتظام محکمہ تعلیم کے تدریسی اور غیر تدریسی ملازمین کی اپنی مستقلی اور تنخواہوں کی ادائیگی کی لڑائی کو پچاس دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس سارے عرصے میں حکومتی، انتظامی، اور سیاسی اہلکاروں نے کئی بار اساتذہ کو مستقل کرنے اور ان کی تنخواہیں (جو دس ماہ سے نہیں ادا کی گئیں) ادا کرنے کی تسلیاں دیتے رہے ہیں۔ اسی سارے عرصے میں اساتذہ اور باقی غیر تدریسی سٹاف نے ناصرف متعلقہ افسران کے دفاتر کے سامنے احتجاج کو جاری رکھا بلکہ مختلف افسران سے ملاقاتیں بھی کی جن میں ہمیشہ کی طرح جھوٹی تسلیاں اور وعدے ہی کیے گئے اور کبھی دس اور کبھی پندرہ دنوں کا وقت طلب کیا گیا لیکن ہر بار وقت پورا ہونے کے بعد کوئی بھی جواب دہی کے لیے نہیں آیا۔
یاد رہے اساتذہ کے اس احتجاج میں تدریسی، غیر تدریسی ، کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے گریڈ1 سے 17 تک تمام لوگ شامل ہیں جو کئی سالوں سے پوری ذمہ داری سے تعلیمی اداروں میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ تمام متعلقہ اداروں کے سامنے احتجاج کرنے کے بعد ان ملازمین نے دو راتیں پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاجی کیمپ بھی لگایا جس میں بڑی تعداد میں خواتین ملازمین اپنے بچوں سمیت موجود رہیں۔ لمبے عرصے سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ملازمین شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کے پاس اپنے بچوں کی تعلیم اور علاج تک کے لیے درکار رقم موجود نہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت کا اساتذہ کی طرف غیر سنجیدہ رویہ حکومت کی مزدور دشمن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔
اس رویے سے تنگ آکر ان ملازمین نے کچھ دن پہلے منسٹر کیڈ کے دفتر کے سامنے احتجاجی دھرنے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن آفس کے سامنے احتجاجی دھرنا ہونے کے باوجود متعلقہ عہدیداروں میں سے کوئی اساتذہ کی بات سننے نہیں آیا۔ اس صورتحال میں پانے احتجاج کو وسعت دیتے ہوئے یکم مارچ کو اپنا احتجاجی دھرنا کشمیر ہائی وے منتقل کردیا اور کشمیر ہائی بلاک کردی۔ 18 روز تک ’’اپنوں‘‘ کے دھرنے کو ’برداشت‘ کرنے والی ریاست کی پولیس نے چند گھنٹوں بعد ہی نہتے ملازمین پر سڑک کھلوانے کیلئے دھاوا بول دیا۔ ملازمین نے ڈٹ کر پولیس کا مقابلہ کیا۔ اس دوران کئی خواتین بھی پولیس تشدد کا نشانہ بنیں۔ پولسی اہلکار قیادت پر تشدد کے ساتھ ساتھ انھیں گھسیٹتے رہے اور گرفتار کر کے گاڑیوں میں ڈال دیا گیا جس پر تمام ملازمین پولیس کی گاڑیوں کے آگے پیچھے روڈ پر لیٹ گئے جس پر پولیس کو مجبوراً گرفتار ملازمین کو رہا کرنا پڑا۔ بلا شبہ یہ اقدام جرات مند تھا جس پر وہ سرخ سلام کے مستحق ہیں۔
اس کے بعد اساتذہ کے منسٹر کیڈ کے ساتھ مذاکرات ہوئے جس میں دوبارہ 15 دنوں کا وقت لیا گیا جس میں گریڈ 1 سے 14 تک ملازمین کو مستقل کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اساتذہ نے واشگاف الفاظ میں یہ بات منسٹر کیڈ کو باور کروا دی ہے کہ اگر پندرہ دنوں میں ملازمین کو مستقل نہیں کیا گیا تو پھر بڑی تعداد میں کشمیر ہائی وے کو بند کریں گے۔ اس دوران احتجاجی ملازمین کا دھرنا پریس کلب اسلام آباد کے سامنے جاری رہے گا۔
اس سارے عمل میں احتجاجی ملازمین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت احتجاج کو لمبا کر کے، تھکا کر ان کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ احتجاجی ملازمین کو اس ساری جہدوجہد کو آگے بڑھانے کیلئے باقی اداروں کے ملازمین کو اپنے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے جس سے احتجاج کے ناصرف حجم میں اضافہ ہوگا بلکہ طاقت میں بھی اضافہ ہوگا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ احتجاجی ملازمین کے تمام مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور اس جدوجہد میں آخری دم تک ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔