کیسا سفاک تماشا ہے میرے چاروں طرف. . .
جیسے ہر شخص پرحیرت کا فسوں طاری ہے
جس میں نہ جیت ہے، نہ مات ہے، نہ انت کوئی
وہی کھلواڑ میرے چاروں طرف جاری ہے
نہ تو چالاک ہے قاتل کی زباں اب کی بار
اور معصوم و مقتول کا سر بھی نہیں
خوش ہے وہ بھی جسے کچھ بھی نہیں ملنا اس میں
کانپتا وہ بھی ہے جس کو کوئی ڈر بھی نہیں
اس ڈرامے کی جو اقساط ابھی باقی ہیں
ان میں دن رات بہت خون خرابا ہو گا
اور اس قتل گاہِ سود و زیاں میں آخر
ایک دن دیکھنا کیا شور شرابا ہو گا
جتنے خاموش تماشائی ہیں بول اٹھیں گے
سارے بے نور اجالوں کو کچلنے کے لیے
سب نکل آئیں گے پھر علم بغاوت لے کر
اپنے سفاک مقدر کو بدلنے کے لیے
پارس جان