ہمیں صاف پانی تو ملتا نہیں تھا
ہمیں اپنے حصے کی گندم
وڈیروں کے کتوں کی تعریف کرنے پہ موصول ہوتی
ہمیں تختِ لاہور کے بادشاہوں کے دلّال
سڑکوں کے تحفے پہ ممنون ہونے کا پیغام دیتے
ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ سڑکیں ہمارے مسائل کا حل ہیں
وہ ہم جن کو پینے کا پانی تو ملتا نہیں تھا
وہی ہم جو سڑکوں پہ بکھرے ہوئے تیل کو دیکھ کر
ایک دیوانہ پن اوڑھ کر بھاگتے تھے
تو حیرانی کیسی؟؟
ہمیں تھے کہ جو مصر کے دشت میں
اپنی پْشتوں پہ فرعون کے
ذوقِ تعمیر کا بوجھ لادے ہوئے تھے
ہمیں تھے کہ جن کے بدن
تاج محلوں کی بنیاد بننے کی خاطر
بْرادے ہوئے تھے
ہمیں ہر زمانے کے چہرے پہ
کالی خراشوں کی صورت ابھرتے رہے ہیں
ہمیں ہیں ہمیشہ جو تاریک راہوں میں مرتے رہے ہیں
ہمیں لالچی کہنے والے بھی سچے
ہمیں حرص زادے،جہنم کے بچے!!
مگر یہ ہمارے سیاہی میں لتھڑے بدن پوچھتے ہیں
کہ جلنے کے زخموں پہ سڑکوں کی بجری لگی
پھر بھی ہم بچ نہ پائے!
(عدنان محسن)