|تحریر: ولید خان|
آج سرمایہ داری کی تباہی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اپنی انقلابی پیدائش پر سرمایہ داری نے سائنس، ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر، حقوق، سماجی رشتوں اور خاندان کی نئی شکلوں سے انسانیت کی ایک وسیع آبادی کو جاگیردارانہ تاریکی اور جہالت سے باہر نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن ہر معاشی نظام اور اس سے جڑے سماجی رشتوں، ثقافت اور روایات کی طرح یہ نظام بھی اب اپنی تاریخی عمر پوری کر کے دم توڑ رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح ان ذلتوں کا سب سے بڑا شکار عورت اور بچے ہیں۔ آج ترقی یافتہ ممالک میں عوام کی آبادی کی وسیع پرتیں روزانہ غربت کی گہرائی میں گرتی جا رہی ہیں اور دو سو سال کی سرمایہ دارانہ تاریخ میں حاصل کی جانے والی انسانی حقوق کی فہرست چاک کی جا رہی ہے۔ اگر نام نہاد تیسری دنیا کی محنت کش خواتین کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان کا کہیں کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک طرف معاشی یلغار ہے تو دوسری طرف سماجی بندھن۔ لیکن پاکستان میں جس طرح سے عورت نشانہ ستم ہے اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔
عورت صنف نازک نہیں!
قدیم اشتراکی نظام میں مردوں اور عورتوں میں فرق صرف سماجی فرائض کے حوالے سے ہوتا تھا لیکن بقائے زندگی کی جنگ میں دونوں برابر کے شریک ہوتے تھے۔ جب انسان نے قدیم اشتراکی نظام سے غلام داری کی طرف سفر کا آغاز کیا تو عورت کو ثانوی حیثیت اپنانے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ ایک تاریخی عمل تھا جس کا مقصد ذاتی ملکیت کے دوام کو یقینی بنانا تھا لیکن آج تک عورت اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کر سکی۔ آج سرمایہ داری میں یہ مظہر خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے کیونکہ اس نظام میں ذاتی ملکیت خود اپنی تاریخی حدود تک پہنچ کر خوفناک ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے ایک اصطلاح ’’صنف نازک‘‘ تشکیل دی گئی جو بظاہر تو بڑی رومانوی اور درست معلوم ہوتی ہے لیکن دراصل اپنے اندر ہزاروں استحصالی خنجر چھپائے ہوئے ہے۔ اس اصطلاح کی آڑ میں عورت کو کم عقل، جذباتی اور جسمانی طور پر کمزور گردان کر قدرتی طور پر اسے مرد پر منحصر اور اس کے تابع گردانا جاتا ہے۔ اس حوالے سے عورت کو بچے پیدا کرنے والی مشین اور ذاتی ملکیت کے وارث کا محافظ بنا کر گھر کی چار دیواری میں بند کر دیا جاتا ہے جس سے گھر کے اندر چوبیس گھنٹوں کی بیگار غلامی کو قدرتی اور واحد مقصد حیات بنا دیا جاتا ہے۔ اول تو یہ کہ قدرت نے نسل انسانی کو یکساں دماغ عطا کیا ہے جس کی بھرپور نشونما کے ذریعے شعور کی معراج کو تمام مرد اور عورت پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دوئم یہ کہ تاریخی مطالعے سے یہ گھٹیا اصطلاح اپنی حیثیت کھو بیٹھتی ہے۔ لیکن پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کس نقطہ نظر سے کیا جائے۔ اگر مطالعہ ذاتی ملکیت کے محافظ حکمران طبقے کی نگاہ سے کیا جائے تو پھر تمام رائج الوقت تعصبات درست معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن مارکس وادی تاریخ کا طبقاتی بنیادوں پر مطالعہ کرتے ہیں اور سیر حاصل سائنسی نتائج اخذ کرتے ہیں۔ محنت کش طبقے کی تاریخ جدوجہد، قربانیوں اور سب سے بڑھ کر خواتین کے ہراول دستے کے کردار سے بھری پڑی ہے۔ چاہے وہ غلاموں کی بغاوتیں ہوں ، جاگیردارانہ عہد میں کسانوں کی بغاوتیں ہوں یا پھر سرمایہ داری کے بھرپور انقلابات ہوں، عورتوں کا اس حوالے سے ہمیشہ کلیدی کردار رہا ہے۔ تاریخ میں 1871ء کے پیرس کمیون انقلاب میں پہلی مرتبہ پسے ہوئے طبقے نے انتظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ذاتی ملکیت سے بالا تر ایک نئے سماج کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی۔ اس کاوش میں خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ ہتھیار اٹھائے، ایمبولینس سروس کا اجرا کیا، کھانے کی ترسیل کو مستحکم بنایا، بچوں کیلئے سکولوں کا اجرا کیا، بالغوں کی لکھت پڑھت کا انتظام کیا، محلوں میں حفاظت کیلئے دستے تشکیل دئیے اور سیاسی بحث مباحثے میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے سرگرم سیاسی کردار ادا کیا۔ انقلاب کی بے شمار کمزوریوں کی وجہ سے ناکامی کے باوجود خواتین نے فعال کردار ادا کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ نئے سماج کی تعمیر ، طبقاتی جدوجہد میں بطور منتظم اور انقلابی ، وہ کسی سے کم نہیں۔ انسانی تاریخ کے سب سے عظیم روسی انقلاب(1917ء) نے ہمیشہ کیلئے ثابت کر دیا گیا کہ محنت کش طبقہ ذرائع پیداوار کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، افسر شاہی اور دیگر ریاستی غنڈوں کے بغیر سماج کو فعال طریقے سے چلا سکتا ہے جس میں مٹھی بھر منافع خوروں کی عیاشی کا نہیں بلکہ سماج کی وسیع ترین پرتوں کی ضرورت کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ اس انقلاب کی شروعات خواتین کے عالمی دن پر، روٹی کیلئے احتجاج کرتی محنت کش خواتین نے کی تھی۔ اگلے چند سالوں میں خانہ جنگی سے لے کر ریاستی امور تک، خواتین نے ہر شعبے میں شاندار کردار ادا کیا۔پھر اس انقلاب کے اثرات صرف سوویت یونین تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل گئے۔ مغربی ممالک کا حکمران طبقہ روسی انقلاب اور محنت کشوں کی ممکنہ تحریکوں سے خوفزدہ ہو کر اصلاحات کرنے پر مجبور ہو گیا جس میں صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر، سفری سہولیات اور سب سے بڑھ کر عوررتوں کے حقوق کو یقینی بنایا گیا۔ لیکن اس عمل کو پھر دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیا اور آج ہر جگہ ان حقوق پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر خواتین کی صحت، اسقاط حمل اور اجرتوں کے حقوق پر خوفناک حملے کر کے انہیں دوبارہ اندھیر نگری میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اگر ہم حالیہ تاریخ کے اوراق گردانیں تو2007-2008ء کے سرمایہ دارانہ بحران کے بعد کرہ ارض پر اٹھنے والی تمام تحریکوں، چاہے وہ برطانیہ، چلی، جنوبی افریقہ، ہندوستان میں طلبا کی تحریکیں ہوں؛ اسپین اور اٹلی میں محنت کشوں کی تحریکیں ہوں؛ وسطی ، شمالی اور مغربی افریقہ کی تحریکیں ہوں،؛امریکہ میں آکوپائی وال سٹریٹ، فائٹ فار ففٹین یا بلیک لائیوز میٹر کی تحریکیں ہوں یا پھر یورپ اور مشرق بعید کے دیگر ممالک کی تحریکیں ہوں ؛ سب میں خواتین نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ مشرق وسطی کی عرب بہار سے پہلے جہاں اس سماج کو جمود اور ہزاروں سال پرانے تعصبات کا شکار قرار دیا جاتا تھا وہیں پر خواتین کو بڑی مہارت سے سماجی اور مذہبی اقدار کا پیروکار بنا کر انتہائی غیر فعال اور خاموش ثانوی تماشائی گردانا جاتا تھا۔ لیکن تحریر چوک سے لے کر غازی پارک تک، بحرین کی رجعتی بادشاہت سے لے کر ترکی، مصر اور لیبیا کی آمریتوں تک ، ہر ملک میں انقلابی تحریکوں میں کروڑوں خواتین سڑکوں پر محنت کش طبقے کے حقوق کیلئے باہر نکلیں۔ حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے اگلے دن امریکہ میں لاکھوں خواتین نہ صرف سڑکوں پر باہر نکلیں بلکہ ان کے ساتھ اظہار یکجہتی میں پوری دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں تھا جہاں خواتین احتجاج میں باہر نہ نکلی ہوں۔
سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکمران طبقہ کئی طریقوں، حیلے بہانوں اور مکار چالبازیوں سے محنت کش طبقے کو منقسم کر نے کی کوشش کرتا ہے تاکہ طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو کر محنت کش ایک دیو ہیکل قوت نہ بن جائیں۔ اس کی وجہ اپنے مالیاتی مفادات اور ذاتی ملکیت کا تحفظ ہے۔ اس کیلئے نسلی، لسانی، مذہبی، علاقائی اورقومی تعصبات کو ہوا دی جاتی ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ تقسیم مرد اور عورت کے قدرتی رشتے پر بھی شدت کے ساتھ حاوی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے محنت کشوں کی آدھی قوت کو ایک دوسرے سے توڑ کر بیگانہ کر دیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی تحریک، کوئی انقلاب اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک عورت ، مرد کے شانہ بشانہ جدوجہد میں شامل نہ ہو۔ یہ جڑت صرف طبقاتی بنیادوں پر ہی ممکن ہے کیونکہ پھر طبقاتی مفادات جہاں پر مردوں کی سوچ سمجھ اور عمل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں وہیں پر خواتین بھی اس سے مبرا نہیں۔
پاکستان کا سماجی ڈھانچہ
پاکستان دنیا کے ان منفرد ممالک میں سے ہے جہاں سماجی ارتقا عجیب و غریب اور مسخ شدہ ہے۔ یہاں نیم قبائلی، نیم جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ رشتے حاوی ہیں۔ یہ خطہ مختلف قوموں اور محنت کشوں کا جیل خانہ ہے۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان کا معاشی نظام ایشیائی طرز پیداوار تھا جس میں ہر گاؤں آزاد حیثیت ، مشترک ملکیت کا حامل اور خود کفیل تھا۔ کچھ علاقوں میں قبائلی نظام رائج تھا لیکن یہ اس طرح کا قبائلی نظام نہیں تھا جس طرح سے آج بتایا جاتا ہے یا سرمایہ داری کی یلغار سے بن گیا ہے۔ برطانوی سامراج نے یہاں آ کر ایشیائی طرز پیداوار اور اس پر مبنی ہر سماجی رشتے کو توڑ کر سرمایہ دارانہ ملکیتی رشتے استوار کئے۔ قبائلیوں اور گاؤں کے مکھیاؤں کو زمینیں الاٹ کی گئیں اور ذاتی ملکیت کو متعارف کرایا گیا۔ مذہب کو پہلی مرتبہ مردم شماری میں جگہ دے کر مذہبی منافرت کے بیج بوئے گئے۔ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے اصولوں کو پوری جانفشانی سے نافذ کیا گیا۔ کسانوں، جولاہوں اور ہنر کاروں کو بے گھر ہو کر نومولود صنعتی شہروں کی طرف بقائے زندگی کیلئے ہجرت کرنا پڑی۔ گھر پر تو قبائلی یا زرعی رشتے استوار تھے لیکن سرمایہ دارنہ منڈی کے سماجی تقاضوں نے سماج کو اپنی جکڑ میں لے لیا۔
تاریخ میں دیر سے وقوع پذیری، سامراج کی یلغار اور اس کے سائے میں جنم و پرورش اور جدید جمہوری انقلابات کے نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کا حکمران طبقہ جدید سماج کا کوئی ایک تقاضا بھی پورا نہ کر سکا جس کی وجہ سے خود تو پست ذہن اور کند رہا ہی لیکن ساتھ ہی سماج کو بھی ذلت و رسوائی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ اس حوالے سے ہمیں جتنے بھی جدید ریاستی ادارے نظر آتے ہیں سب برطانوی سامراج کی دین ہیں جبکہ سرمایہ دار طبقہ ابھی بھی مذہبی و صوفیانہ توہم پرستی اور زرعی ذہنیت میں الجھا ہوا ہے۔ یہ پرانے سماجی رشتوں کو توڑنے کے قابل نہیں ہے اور سرمایہ داری کے لاگو ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دیو ہیکل محنت کش طبقے سے خوفزدہ ہے۔ اسی وجہ سے ریاست خود، سرمایہ دار طبقے کی محافظ ہونے کے ناطے، قرون وسطیٰ کی مذہبی منافرت اور صوفیانہ توہم پرستی ٹھونسنے کے ساتھ ساتھ جدید حملوں کے ذریعے محنت کش طبقے کو دبانے پر مجبور ہے۔ان حربوں میں قومی اشتعال انگیزی، لسانی ابھار کی کوششوں، طلبہ یونینوں پر پابندیوں، نئی صنعتی یونینوں کے اجرا میں دشواریوں اور نام نہاد سماجی واخلاقی اقدار کو خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تمام کام ریاست کے مختلف اداروں فوج، پولیس، عدلیہ ، ذرائع ابلاغ، تعلیمی اداروں ، مذہبی گٹھ جوڑ وغیرہ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
سرمایہ داری کی منڈی میں خریدار کی ضرورت کے تحت یہاں درمیانے طبقے کو ابھارا گیا جسے نظام کا وفادار بنانے کیلئے تھوڑی بہت مراعتوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں، ذرائع ابلاغ اور مختلف مذہبی مہروں کے ذریعے قومی شاونزم، مذہبی رجعتیت اور محنت کش دشمن بنا دیا گیا۔ درمیانہ طبقہ شدید کیرئرازم اور گھٹیا اخلاقیات کا شکار ہوتا ہے، جس کا ایک ہی محور ہوتا ہے اور وہ ہے ذاتی مفادات کا حصول۔ اس وجہ سے وہ حکمران طبقے میں گھسنے کی خواہش میں حکمرانوں سے حسد کرتے کرتے اور محنت کش طبقے کا حصہ بن جانے کے خوف میں اپنی زندگی گزار دیتا ہے۔ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ ’’درمیانے طبقے کا منہ آسمان کی طرف اور پیر کیچڑ میں ہوتے ہیں‘‘ اور اس کی وجہ درمیانے طبقے کی عبوری، ناپائیدار اور غیر مستحکم سماجی حیثیت ہے۔
سرمایہ دار طبقے کے وجود میں آنے اور صنعت کاری کے نتیجے میں محنت کش طبقے کا جنم اور بڑھوتری ناگزیر ہے۔ سرمایہ دارانہ استحصال کے آغاز میں یہ صنعتی فوج کسانوں کو بے زمین کر کے حاصل کی گئی۔ اس وقت کچھ محتاط اندازوں کے مطابق عالمی لیبر فورس 3.3ارب سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان کی لیبر فورس محتاط اندازوں کے مطابق لگ بھگ 10 کروڑ ہے (یہ اعداد و شمار حکومتوں کی طرف سے دئیے گئے ہیں اور سرمایہ دارانہ منافرت کو مد نظر رکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اصل تعداد زیادہ ہی ہو گی)۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی کثیر آبادی رسمی یا غیر رسمی شعبہ جات سے منسلک ہوتے ہوئے محنت کش طبقہ بناتی ہے۔ تاریخ میں مختلف نظاموں میں جہاں حکمران طبقہ آیا ہے، اپنے ساتھ اپنے تاریخی گورکن بھی لے کر آیا ہے۔ آقا اور غلام، جاگیردار اور مزارع اور آج سرمایہ دار اور محنت کش۔ اس تاریخی حقیقت کا احساس حکمران طبقے کو بھی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی قیمت پر تاریخی طور پر معدوم ہونے سے بچنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ محنت کش طبقہ وہ واحد تاریخی طبقہ ہے جو پہلے سے ملکیت نہیں رکھتا اور اس وجہ سے جہاں وہ سرمایہ دار طبقے کی موت ہے وہیں پر وہ اجتماعی ملکیت کے حامل معاشرے کو تشکیل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کی حالت زار
پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں آبادی کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل کام ہے۔ جہاں ہر ادارے کو تباہی وبربادی کا سامنا ہو، وہاں صرف مردم شماری کا ادارہ کیسے فعال ہو سکتا ہے۔لیکن 1998ء اور حالیہ مردم شماری (2017ء، یہ ابھی مکمل نہیں ہوا ہے) کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس میں جنس کی بنیاد پر اگر دیکھا جائے تو خواتین معاشرے کا 45فیصد بناتی ہیں۔ لیکن اگر دیگر اعداد و شمار، خاص طور پر WHO اور UNICEF کے اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو انتہائی گھمبیر تصویر سامنے آتی ہے۔پاکستان کی شرح خواندگی 58 فیصد ہے لیکن خواندگی کا پیمانہ اپنا نام لکھنا اور پڑھنا ہے۔ اس طرح خواتین کی شرح خواندگی 25فیصد بتائی جاتی ہے جو کہ عالمی حوالوں سے انتہائی کم ہے۔ ڈھائی کروڑ بچے سکول ہی نہیں جاتے اور ان میں سے ایک کروڑ 37لاکھ لڑکیاں ہیں۔ محنت کی منڈی میں خواتین کا حصہ 15.8 فیصد ہے جو کہ انتہائی کم ہے۔ پھر حکمران اور درمیانے طبقے کی مخصوص سماجی غلاظتوں کے زیر اثر موجودہ یونینوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابرہے۔ 65فیصد اور کچھ اندازوں کے مطابق 75 فیصد خواتین کو بیماری یا زچگی کی حالت میں جدید صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ۔ ہر ایک لاکھ زچگیوں میں 275 خواتین کی موت واقع ہو جاتی ہے جبکہ کچھ اندازوں کے مطابق یہ ڈھائی لاکھ سالانہ سے زیادہ ہے۔35فیصد خواتین کا وزن نارمل سے کم ہے اور 65 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اعدادوشمار محنت کش خواتین کے استحصال اور ظلم و جبر کی مکمل تصویر پیش نہیں کرتے بلکہ ان تمام اور دیگر اشاریوں کی شرح کہیں زیادہ بلند ہے۔
این جی اوز اور سول سوسائٹی کا بہیمانہ کردار
سوویت یونین کے انہدام اور سرمایہ داری کے ننگے استحصال کے نتیجے میں محنت کش تحریک بہت زیادہ پسپائی کا شکار ہوئی۔ ریاست کے تمام سماجی و فلاحی کاموں سے کنارہ کشی کے نتیجے میں جو خلا پیدا ہوا اسے نام نہاد این جی اوز اور سول سوسائٹی نے پر کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں پیش پیش سابق سٹالنسٹ(جن کے قبلہ و کعبہ ماسکو منہدم اور بیجنگ سرمایہ دارانہ ردانقلاب کا شکار ہو چکے تھے)، مزدور تحریک کی غدار قیادت، گھروں میں بیٹھی بوریت کی ماری حکمران طبقے اور مڈل کلاس کی خواتین اور سماجی بنیادوں سے عاری مذہبی دہشت گرد تنظیمیں تھیں۔ جہاں لبرل اور مزدور حقوق کی لفاظی کرتی ان تنظیموں نے مزدور تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہیں پر ’’حقوق نسواں‘‘ کی علم بردار تنظیموں نے دکان چمکا کر خوب مال کمایا۔ حقوق کی لڑائی بھی حتمی تجزئیے میں طبقاتی لڑائی ہے۔ حکمران طبقے اور مڈل کلاس کی خواتین جب جنسی، معاشی یا سماجی آزادی کی بات کرتی ہیں تو اس سے مراد ان کی اپنی آزادی ہے، نہ کہ محنت کش طبقے کی عورت کی آزادی۔ جائیداد میں حق بھی اسی عورت کا ہے جس کے خاندان کی جائیداد ہو۔ محنت کش عورت کا جائیداد سے کیا تعلق؟ انہی حکمران طبقے کی خواتین کے گھر والے کسی فیکٹری یا کھیتوں میں یا کام کی جگہ پر مردوں اور عورتوں کا استحصال کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خواتین سارا دن ٹھنڈے کمروں میں بیٹھی حقوق کی مالا چبنے کے بعد گھر واپس آ کر غریب کام کرنے والی لڑکیوں اور عورتوں پر تشدد اور ان کا استحصال کرنے میں کسی سے کم نہیں۔ اس کی مثال پچھلے کچھ عرصے میں گھر پر کام کرنے والی معصوم لڑکیوں پر تشدد کے واقعات کا منظر عام پر آنا ہے جو کہ پورے سماج کے ظلم کا ایک انتہائی چھوٹا عکس ہے۔ اسی طرح آئے دن فیکٹریوں میں نوجوان لڑکیوں پر جنسی تشدد کے واقعات عام ہیں جن پر یہ حقوق نسواں کی علمبردار خاموش ہیں۔ ہر روز ہزاروں واقعات میں مرنے والی، اپاہج ہونے والی اور ہر ادارے، چاہے وہ کوئی میڈیکل کالج ہو یا بینک، ملٹی نیشنل کمپنی ہو یا چمکتی دمکتی پرائیویٹ سوسائیٹیوں کے گھروں میں وحشی درندوں کے حملے، کسی معاملے پر آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ عورت، جس کو یا تو مولوی نے چار دیواری اور چادر میں قید کر دیا ہے یا پھر سرمایہ دار نے ننگا کر کے منڈی کی زینت بنا دیا ہے، اس پر تو کوئی بات نہیں کی جاتی۔ صرف کسی ایک واقعے کو ذاتی مشہوری، بیرون ملک ایجنسیوں سے پیسوں کی بھیک مانگنے یا کاروباری مفادات کی بڑھوتری کیلئے استعمال کر کے پھر حالات کے رحم و کرم پر بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے طبقاتی مفادات۔ عورت کی آزادی بڑا دلفریب نعرہ ہے لیکن یہ محنت کش عورت کیلئے ممنوع ہے۔
روسی انقلاب اور خواتین
سوویت یونین کا انقلاب مردوں اور عورتوں، دونوں کیلئے یکساں اہمیت کا حامل تھا اور دونوں کی یکساں کاوشوں سے وقوع پذیر ہوا تھا۔ پہلی مرتبہ عورت کو صرف رسمی ہی نہیں بلکہ حقیقی طور پر مردوں کے برابر حقوق دئیے گئے جن میں طلاق ، اسقاط حمل اور برابر اجرت کے حقوق شامل تھے۔ قبل از زچگی، دوران اور بعد میں شیر خوار بچے کی پرورش کیلئے پوری تنخواہ کے ساتھ چھٹی کا اجرا کیا گیا۔ہر قسم کے جنسی تفریق یا استحصال کی سخت ترین سزائیں مقرر کی گئیں۔ ہر شعبے میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ لا کر کھڑا کر دیا گیا، چاہے وہ خدمات ہوں یا صنعت۔ سیاست اور محنت کش یونینوں میں مساوی نمائندگی دی گئی۔ اجتماعی باورچی خانوں، لانڈریوں اور ڈے کئیر سنٹرز کے ذریعے عورت کو گھر کی بیگار غلامی سے آزاد کر کے بھرپور زندگی گزارنے کا حق دیا گیا۔ جنسی اور شخصی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے قوانین متعارف کرائے گئے۔
ان اقدامات کی بنیادی وجہ نجی ملکیت کا خاتمہ اور خواتین کی معاشی آزادی تھی۔ عورت کو پہلی مرتبہ ایک بچہ پیدا کرنے والی مشین ، وارث کی محافظ اور معاشرے کے کھلونے کے بجائے ایک انسان کا درجہ دیا گیا۔آج اگر ہم حقیقی طور پر مرد و خواتین کو استحصال اور ظلم و جبر سے آزاد ایک دوسرے کے ساتھ برابری کی سطح پر قدرتی سماجی رشتوں میں منسلک دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ نجی ملکیت کا خاتمہ ہے۔
تاریخ میں کوئی بھی تبدیلی آبادی کے نصف حصے کے گھر بیٹھنے سے نہیں آئی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش مرد و خواتین اپنے حقیقی طبقاتی دشمنوں کو پہچانیں، تمام مصنوعی بندشوں کی زنجیروں کو توڑیں اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنے لئے اور آنے والے کل کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کریں تاکہ اس گلے سڑے استحصالی نظام کو اکھاڑ پھینک کر ایک نئے سویرے، ایک سرخ سویرے کو ممکن بنائیں جس کی میٹھی تمازت میں انسان اور انسانی رشتے کھل اٹھیں۔