| تحریر: اسما انقلابی|
اس سرمایہ دارانہ نظام میں یوں تو محکمہ صحت کی جس پرت پر بھی نظر ڈالی جائے وہ مسائل سے نبرد آزما کٹھن زندگی گزارتے نظر آتی ہے۔ وہیں اگر پاکستان میں اس شعبہ میں ایک نرس کی زندگی پر غور کریں تو انگاروں پر لوٹنے کے مترادف ہے۔ 4سال کی انتھک پڑھائی کے بعد گھریلو مسائل کے باوجود نوکری کرتی ہیں۔ اور پھر بھی کام کی جگہ پر سکون کا سانس لینا ممکن نہیں ہو پاتا۔ایک ٹانگ پر کھڑے مسلسل8سے 12 گھنٹے اپنی ذات کو مکمل بھول کر کام میں لگی رہتی ہیں ۔ ہسپتال میں موجود افراد کی بری نظروں اور میل سٹاف کی ہراسمنٹ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ویسے تو نام نہاد گورنمنٹ نے سالانہ 24 چھٹیوں کا حق دے رکھا ہے لیکن اگر اس شعبہ میں نرسز کی بات کی جائے تو ایک بھی چھٹی کے لیے ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ میٹرنٹی لیو کے لیے ہزاروں دھکے کھانا پڑتے ہیں۔ایک دستخط کے لیے گھنٹوں انتظار کروایا جاتا ہے۔ بیسیوں چکر لگوائے جاتے ہیں۔اور ڈاکٹرز اور انتظامیہ کی انتہائی گھٹیا باتوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ان سب کی وجہ سے وہ نرس اپنے عورت ہونے پر شرمندگی اور مجرمانہ احساس کا شکار ہو جاتی ہے۔ ورکنگ کلاس میں ڈلیوری کے دوران مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں پورے 9 ماہ اسی طرح ایسی جانے کتنی فضول باتوں کو سہنا پڑتا ہے جسکی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو کر اکثر موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہاں اس مسئلے کی اہم وجہ اس سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت انتظامیہ کا دھونس اور عورت کو انسان کی بجائے شے سمجھے جانا ہے۔ اپنے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ پڑ جانے کے ڈر سے وہ پھر اپنے 3 ماہ کے چھوٹے سے بچے کو دوسروں کے آسرے پر چھوڑ کر کام پر جا کھڑی ہوتی ہے۔لیکن بات بس یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ڈیوٹی کی شفٹنگ میں بھی ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جاتی۔ فیڈنگ مدر رات کی شفٹ میں 12 گھنٹے اپنے چھوٹے سے بچے سے دور رہتی ہے۔چونکہ محنت کش عورت کے لیے کوئی بھی وسائل مہیا کرنا سرمایہ دارانہ نظام کے بس کی بات ہی نہیں ہے اور فیڈنگ مدر کے بچوں کے لیے ڈے کیئر سنٹر بنوانا تو ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔ ان تمام تر مسائل کے باوجود ایک نرس اپنے چہرے پر مسکراہٹ کا خول چڑھائے اس نظام کی چکی میں پستی چلی جا رہی ہے۔
اگر حکومت اپنی پالیسیوں کے تحت نجکاری کرنے کی طرف جاتی ہے تو یہ بات واضح ہے کہ اس کا سب سے برا اثر محنت کش خواتین پر پڑنا ہے۔مہنگائی کے تابڑ توڑ حملے پہلے ہی تمام تر محنت کشوں کے دل و دماغ میں پلنے والے غم و غصے کے الاؤ کو پھٹنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور کم تنخواہوں میں بھی کٹوتیوں کی وجہ سے آج ایک نرس کی زندگی مکمل طور پر عذاب بن چکی ہے۔نجکاری کا یہ حملہ نرسوں کے ساتھ ساتھ تمام محنت کشوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا کر رکھ دے گا۔ بے روزگاری کا اژدھا منہ کھولے کھڑا ہے۔ اس کے بعد مر جانے یا پھر لڑ جانے کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں بچتا۔ اس عذاب کو ختم کرنے، ان مسائل کو حل کرنے کا واحد راستہ آج صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہے ۔ جس میں نہ صرف یہ نرسز بلکہ محنت کشوں کی تمام پرتیں ملکر ایک ہوتے ہوے اس انقلاب کو کامیاب بنا سکتے۔ وہ وقت دور نہیں جب یہ محنت کش خواتیں محنت کش مردوں کے شانہ بشانہ نکل کر اپنا حق چھینتے ہوئے اس نظام کو اکھاڑ پھینکیں گی۔