|تحریر: اسفند یار شنواری|
تاریخ سے نہ سیکھنے کا نتیجہ تاریخ کو دہرانا ہوتا ہے۔ تاریخی واقعات، انسانی سماج کے معروضی حالات کا آئینہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا ردعمل، اور انسانی نسل کو اپنے کردار سے سیکھنے کا موجب بھی ہوتے ہے۔ اسی تاریخ میں عظیم افراد کے کردار کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی سیاسی و سماجی دانش اورمحنت نے ایک بالشویک تنظیم کی تعمیر کے ساتھ ساتھ سویت یونین کے قیام کے بعد تقریباً ہر سیاسی معمے کا حل نہ صرف پیش کیا بلکہ اس کو کامیابی سے لاگو بھی کیا۔ انہی موضوعات میں سے ایک محکوم قومیتوں کا سوال بھی ہے جوکہ طبقاتی سماج کا ہی جزو ہے۔
قومی مسئلے کا حل جو کہ تاریخ میں بورژوا طبقے کے فریضوں میں سے ایک تھا، پاکستان کے 70 سالہ جابرفوجی اورجمہوری لٹیروں نے تاریخی منظر پرتاخیرسے آنے کے سبب پیش نہیں کیا۔ محکوم اقوام نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے معیارزندگی کو مزید گرتے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں کے محنت کشوں کو انتھائی کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ نے حالات کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔ سرکاری ادارے (محکمہ شماریات) کے اعداد و شمار کے مطابق (جس میں ریاستی مشینری کے حق میں مبالغہ آرائی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا) 2013ء میں فاٹا میں شرح خواندگی 33.3 فی صد تھی جو کہ گر کربالغ مرد و زن میں28.4 فی صد ہو جاتی ہے۔ 1036 سکول بند ہیں اور44.2 فی صد بچے کبھی سکول گئے ہی نہیں۔ 7 فی صد بچے چائلڈ لیبر کی اذیت میں زندگی جی رہے ہیں۔
فاٹا میں روزگار کی تصویر بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ 36.2 فی صد تعمیراتی شعبے میں دیہاڑی کرتے ہیں، 7.5فیصد گھرانے ملک سے باہر اور خصوصاً مشرق وسطیٰ میں مزدوری پر گزارہ کرتے ہیں، جن میں سے اکثریت کو عرب ممالک کے معاشی بحران کے بعد زبردستی واپس بھیج دیا گیا ہے۔ خواتین کے معیار زندگی کی حالت زار بدتر ہے۔ 6.9 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ ساتھ بدترین قسم کا گھریلو اور معاشی و سماجی جبر ایک بھیانک حقیقت ہے۔ صحت کا حال یہ ہے کہ موجودہ ہسپتال میں سے کچھ نجی شعبے کو دے دیے گئے ہیں اور باقی ماندہ بھی نجکاری کا شکار ہونے والے ہیں۔ غربت کے عالم کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سچ ہے کہ قبائلی محنت کش پرائیویٹ ہسپتال کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور غیر سائنسی علاج کرانے پرمجبور ہیں۔ ان تمام عناصرکی جڑیں اجتماعی طور پرقبائلی عوام کی خود ساختہ لیڈرشپ کے اخلاقی فقدان اور ریاستی جبر میں ہمیں نظر آتی ہیں، جن کا کوئی نظریہ کوئی اصول نہیں ہے اور خوفناک حد تک لالچی اور ڈکیت بن چکے ہیں۔
خیبر پختونخواہ کی اگر بات کی جائے توانقلاب کے نام پر منافقت کی آواز، پی ٹی آئی کا بلبلہ بھی پھٹ چکا ہے، کیونکہ یہ جماعت اسلامی کے ساتھ مخلوط صوبائی حکومت میں بھی اپنے آپ کو کالے دھن کی سیاست کرنے سے نہیں روک سکی۔ احتساب کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل کا استعفیٰ جو کہ صوبائی اسمبلی کی ترمیم جس میں ’کرپشن میں ملوث افراد کے ساتھ نرمی‘ کے خلاف ایک ردعمل تھا، کھلم کھلا ماضی کے تمام سیاستدانوں کی لوٹ کھسوٹ کا ہی تسلسل نظر آتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کس طرح اس جماعت کے پختون عہدیداران برملا اپنے جلسوں میں افغان محنت کشوں کا مذاق اڑاتے ہیں جن کا کوئی آشیانہ اُدھر ہے نہ اِدھر۔ اس کے بر عکس افغان ڈالر جہاد میں ملوث مجرم مہاجرین جو کہ امریکی سامراج اور پاکستانی ریاست کی گماشتگی میں کوئی کسرنہیں چھوڑتے، نہ صرف پختون علاقوں میں بلکہ پنجاب اور بالخصوص دارالحکومت اسلام آباد میں بھی عیش و عشرت کی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔
پس منظر
پختون عوام کی موجودہ حالت زار کے اسباب میں سے ایک 1893ء کا ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ بھی ہے جس کے تحت امیر عبدالرحمان (افغانستان کا بادشاہ) نے موجودہ خیبر پختونخوا کے ساتھ قبائلی علاقہ جات بھی انگریز سامراج کو1.8 ملین ہندوستانی روپیہ فی سال کے عوض بیچ دئیے کیونکہ اس کو اپنی شہنشانیت برقرار رکھنی تھی۔ یہ رقم بڑھ کر1897ء میں 1.85 ملین ہوگئی جب واخان کی پٹی کو بھی افغانستان کے کنٹرول میں اسلئے لایا گیا کہ زار روس اور انگریز استعمار کے بیچ باقاعدہ بارڈر نہ ہو۔ امیر عبدالرحمان کو ’آئرن امیر‘ کہا جاتا تھا اور انتہائی جابرحکمران تھا جس نے نہ صرف زندہ انسانوں کے درمیان لکیر کھینچی بلکہ افغانستان کے عوام پر بھی قبائلیت اور مذہبی جنونیت لاگو کی جسے اب تک افغان محنت کش بھگت رہے ہیں۔
انگریز سامراج نے اپنی غلیظ پالیسی، گریٹ گیم کے تحت افغانستان کو ’بفرزون‘ بنا کر اپنے اور روسی حکمرانوں کے درمیان ایک ایسا علاقہ رکھنا چاہا جو کہ کسی عالمی طاقت کی کالونی نہ ہو۔ موجودہ قبائلی علاقوں کو ’بفر ٹو بفر زون‘ بنا دیا گیا اور اس خطے کو فقط سٹریٹیجک ضروریات کے تحت استعمال کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا اور بالخصوص فاٹا میں زراعت، اور صنعتکاری میں اصلاحات نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایف سی آر کا جبر بھی نمایاں نظر آتا ہے۔
لیکن المیہ یہ ہے ڈیورنڈ لکیر کے دونوں طرف بسنے والے محنت کشوں کو بھی حب الوطنی کے ’مقدس‘ جذبات، جو کہ حکمران طبقات کا پسندیدہ اوزار ہے، نے تقسیم کر دیا ہے۔ دوسری طرف قوم پرست لیڈر جو کہ ذات پرست بن چکے ہیں کے کھوکھلے، جعلی اور ناپاک رجحانات بھی ننگے ہو چکے ہیں۔ آج روس نواز سابقہمارکسسٹ جو کہ اے این پی کا حصہ تھے اوراب بھی ہیں اورجو1980ء کی دہائی میں افغان ڈالر جہاد کے ردعمل میں اور سویت یونین کی معاونت سے پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح کاروائیوں میں ملوث تھے، اب پاکستانی ریاست کے حکمران طبقات کے مفادات میں حصہ دار ہیں اور امریکی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی حمایت کررہے ہیں۔ آج ایمل ولی خان بر ملا کہتا ہے کہ اگرپاکستان اور افغانستان میں جنگ برپا ہوئی تو وہ پاکستانی ریاست کی حمایت کریں گے۔ مشال خان کی شہادت میں بھی قوم پرست مذہبی غنڈوں کی شکل میں پی ایس ایف کا بدنما کرداربھی سامنے آگیا۔ کسی زمانے میں یہ تنظیم ترقی پسند ہوا کرتی تھی۔ لیکن پختون ایس ایف کا ترقی پسند آئین جو کہ اجمل خٹک کی تصنیف ہے، پڑھنا تو دور کی بات، مستقبل کے ’نجات دہندوں‘ کی اکثریت نے اس کو دیکھا تک نہیں ہے۔ آج محمود خان اچکزئی ن لیگ کا اتحادی تو ہے ہی، لیکن 14 اگست 2017ء کو اس نے کابل میں خونریز حزب اسلامی کے لیڈروں کے ساتھ مل کر پاکستان کا جھنڈا لہرایا۔ یہ اگر جعلسازی اور منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔
ریاست کا متضاد اور بھیانک کردار
یہ سچ ہے کہ پاکستانی ریاست کی پختون علاقوں اور خصوصاً فاٹا میں پالیسیاں اپنے آغاز سے ہی برطانوی سامراج کی پالیسیوں کا تسلسل تھی۔ اس ریاست کے جنم کے 8 دن بعد اس صوبے کی جمہوری حکومت کو ’جمہوریت پسندوں‘ نے ہی ختم کر دیا۔ بات ادھر ختم نہیں ہوتی۔12 اگست 1948ء کو اسی فیصلے کے خلاف، اور باچا خان سمیت دوسرے خدائی خدمتگاروں کی رہائی کے حق میں نکلنے والے نہتے جلوس کو چارسدہ کے ایک گاؤں، بابڑہ کے مقام پر گولیوں سے چھلنی کرنا، اور پھر یہ بیان کہ، ’اگر گولیاں ختم نہیں ہوتی، تو کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جاتا‘، ریاست کی استعماری حکمت عملی ہی تھی۔ اس واقعے میں648 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
یہ سچ ہے ذوالفقار علی بھٹو نے قبائلی علاقوں میں اصلاحات کی کوشش کی اور کسی حد تک کامیابی اور عوامی حمایت بھی لی، لیکن اس عمل کاتضاد افغان مذہبی بنیاد پرستوں (جن میں گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی نمایاں ہے) کی سپورٹ میں نظر آتا ہے، جو کہ اب ایک بڑا فساد بن چکے ہیں۔ ضیاالباطل کا ڈالر جہاد اور کالے دھن کا ابھار بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ نائن الیون کے بعد طالبان کو تورہ بورہ سے افغان بارڈر لاکر سپورٹ دلوانا، اور قبائلی عوام کا اس سے متاثرہونا بھی ایک قابل غور بات ہی ہے۔ آج پورے محسود قبیلے میں خاص طور پر، ایک بھی گھر، ایک بھی دکان یا سکول نہیں جو اس تباہی سے بچا ہو۔ پاڑہ چنار میں بسنے والے شیعہ مسلک کے عام لوگوں کا ادھر کے سنی عوام سے کوئی دشمنی، کوئی سماجی اختلافات نہیں تھے، بلکہ محبت کے رشتوں کے تحت رہنا معمول تھا۔ سعودی عیاش شیخوں اور ایرانی ملاؤں کی گماشتگی کا نتیجہ ایک خوفناک فرقہ واریت میں رونما ہوا جس میں سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوگئی۔ اور موجودہ دور میں قبائلی حکمران طبقات کے خصی پن اور ناپاک ریاستی عزائم کی وجہ سے ایف سی آر کے خاتمے کی متزلزل تحریک بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ کس حد تک ان دونوں گروہوں کے مفادات ایک ہیں!
تحریک کی ناگزیری
انقلاب روس کے عظیم سیاسی ورکر، ریڈ آرمی کے منتظم اورمستند سائنسی تجزیہ نگار، کامریڈ ٹراٹسکی نے اپنی تقریر’’اکتوبر کے دفاع میں‘ کہا تھا کہ ’انسانی اجتماعی شعور کسی بھی مخصوص سماجی حالات کا صرف عکس نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات انسانی اجتماعی شعور ان حالات کو بدلنے کیلئے ان پراپنا رد عمل بھی کرتا ہے‘‘۔ اگردیکھا جائے یہ بات بالکل اسی طرح ہے کہ ایک حقیقی فنکار کا کام تصویر کشی میں صرف منظر کی تقلید کرنا نہیں ہے (جو کہ وہ پوری طرح کر بھی نہیں سکتا)، بلکہ اس کو اپنے انفرادی شعور سے تشکیل دینا ہے جس میں اس کے نفسیاتی جھکاؤ اور یکطرفہ نقطہ نظرکے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس کا مقصد صرف تصویر نقل کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات کی تصویر کشی بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے، ماضی کی تحریکوں اور موجودہ دور کے اس خطے کا اگر تجزیہ کیا جائے تو بالکل ممکن ہے کہ یہ انسان اپنی تقدیراپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں، اور اگر اس باغی شعور کو ایک درست اور مارکسزم کے افکار پر مبنی بالشویک طرز کی حقیقی پارٹی میسر ہوئی جو پختون قومی مسئلے اور پختون قوم کے اندر موجود طبقاتی تفریق کو، پورے ملک کی طبقاتی کشمکش سے جوڑدے تو ایک حقیقیسوشلسٹ انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔
جہاں تک سماجی تحریک کا تعلق ہے تو ایسا ہرگز نہیں کہ فاٹا اور خیبر پختونخوا ہ آج ایک انقلابی کیفیت میں ہے۔ لیکن ایسا بھی قطعاً نہیں ہے کہ حالات معمول کے مطابق ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ڈاکٹرز، اساتذہ، نرسز، کسان، صنعتی مزدور اور طلبا کی بہت بڑی تعداد نہ صرف اس بوسیدہ نظام سے اکتا گئے ہیں بلکہ اس کے خلاف آواز بھی بلند کر رہے ہیں۔ ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتالیں ہوں یا اساتذہ کے ہزاروں کی تعداد میں دھرنے، مشال خان کی شہادت کے خلاف احتجاجوں کی صورت میں ردعمل ہو، یا پاڑہ چنار میں توری قبائل کا ریاستی استعمار کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا اور اپنے مطالبات منوانا،اس بات کی دلیل ہے کہ پوری دنیا کے محکوم اور استحصال زدہ کروڑوں انسانوں کا ردعمل جو کہ اس وحشیانہ نظام کا شکار ہیں، اور اس خطے کے مظلوم طبقات کے درد کا ردعمل ایک ہی ہے۔ تاریخی حوالے سے بھی اس خطے میں بے شمار مثالیں ہے۔ ثور انقلاب میں پختونخوا کے ترقی پسندوں کا کردار تو اپنی جگہ، لیکن آج بنیاد پرستی کا جعلی لیبل لگنے والے اس سماج کے ماضی میں ہمیں مزدوروں اور کسانوں کی بڑی تحریکیں بھی نظر آتی ہیں۔ جس میں حشت نگر (چارسدہ) کے کسانوں کی بدنما جاگیردارخوانین کے خلاف ’مسلح جدوجہد‘ تھی۔ یہ محض ایک حادثہ نہیں ہے۔ اس تحریک کے دیگر علاقوں میں پھیل نہ سکنے اور مکمل کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکنے کا سبب اس وقت کا کرداراور ایک حقیقی مارکسی تنظیم کی عدم دستیابی تھی۔ کسانوں کی اکثریت زمینوں کی منصفانہ تقسیم میں کامیاب تو ضرور ہوئی، لیکن اگر اس وقت کے کسانوں کو حقیقی مارکسی نظریات پر ماسکو اور بیجنگ کے سٹالنسٹ شکنجے سے آزاد ایک بالشویک تنظیم میسر ہوتی تو خونریزی اور تحریک کے خاتمے کی بجائے آج اس خطے کی تاریخ مختلف ہوتی۔
مگر آج ہم اسی حقیقی بالشویک تنظیم کو نظریاتی بنیادوں پر کھڑا کرنے کیلئے نکلے ہیں جو کہ اس تحریک کے اندر عوام کی حقیقی امنگوں سے باخبر ہو تاکہ وہ محنت کش عوام کی تحریکوں کو مارکسی نظریات پر مبنی وہ ٹھوس بنیادیں فراہم کر سکے جس پر وہ اپنے بنیادی مطالبات کے حصول کے لیے اس سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی جانب بڑھیں۔ آج ہمیں اس منزل تک، نسل انسانی کی بقا کیلئے محنت کشوں کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر درست سمت کا تعین کرنا ہے۔پیرس کمیون کے محنت کش شہیدوں، انقلاب روس کے معماروں، ثور انقلاب کی تاریخی ضرورت اور انسانی تاریخ کی سچائی کی قسم ہم اس تحریک کو کامیاب بنا کر ہی دم لیں گے۔