|تحریر: زلمی پاسون|
12 جولائی 2022ء کو زیارت میں پاکستانی آرمی کے حاضر سروس کرنل کے اغواء اور قتل کے بعد سیکورٹی اداروں کی جانب سے جعلی واقعے میں 9 افراد کو قتل کیا گیا، جس میں 7 افراد کی شناخت مسنگ پرسنز کے نام سے کی گئی۔ مگر اب تک 2 افراد کی لاشیں سول ہسپتال میں پڑی ہیں۔ واقعے کے بعد بلوچستان میں تمام سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا، اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جبکہ کوئٹہ میں ریڈ زون پر تین اہم مطالبات کے گرد 22 جولائی سے احتجاجی دھرنا بھی چل رہا ہے جس کا بنیادی مطالبہ زیارت واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل، تمام لاپتہ افراد کی بازیابی، اور لاپتہ افراد کے کسی جعلی مقدمے میں قتل نہ ہونے کی ضمانت شامل ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کو مختلف جعلی مقدمات میں مارنے کا سلسلہ مختلف طریقوں سے چل رہا ہے جس میں مسخ شدہ لاشیں، اور سی ٹی ڈی کے ذریعے جعلی انکاؤنٹرز اور مقابلوں میں مارنا شامل ہے۔ نااہل صوبائی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے بالکل بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا اور محض بلوچستان ہائی کورٹ کو کمیشن بنانے کیلئے خط لکھا گیا جس کو سیاسی حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ ایسے کئی کمیشن پہلے بھی بن چکے ہیں جن سے آج تک کوئی عملی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ یہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہی ہوا ہے۔ واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے کمیشن بنانے کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس کمیشن کے ذریعے اہم اداروں پر لگے ہوئے الزامات کو صاف کیا جائے گا۔ درحقیقت یہ ریاست کے جابرانہ کردار کی ہی عکاسی ہے اور شکست خوردگی کا اظہار ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے بلوچستان بھر میں ایف سی (فرنٹیر کور) کی تمام چیک پوسٹوں کو دوبارہ بحال کرنا شامل ہے، جبکہ رہائشی منصوبوں کے حوالے سے دیگر قبضہ جات اس کے علاوہ ہیں۔
اس طرح کے گھناؤنے اور ماورائے عدالت قتل عام کے حوالے سے ریاست کے پاس مختلف جواز اور من گھڑت دلیلیں ہوتی ہیں، اور اپنی طاقت کے ذریعے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے وہ مختلف حربوں کا استعمال کرتی ہے۔ اس سے وہ اپنے آپ کو اس طرح کے واقعات میں بری الذمہ کرنے کے لئے تمام تر ریاستی مشینری کو بروئے کار لاتی ہے۔ مگر ظلم کو چھپانا ممکن نہیں، کم از کم ایسی حالت میں تو بالکل بھی نہیں جب ظلم کی شدت میں اضافہ کیا جا رہا ہو۔ اس پوری بحث اور لاپتہ افراد کے معاملے کو سمجھنے کے لئے انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف اگر ریاست کی جانب سے ان کی ہولناکیوں اور بربریت میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب مسلح آزادی پسند تنظیموں کی حالیہ عرصے میں کی گئی سرگرمیوں کے نتیجے میں ریاست کو جبر میں اضافہ کرنے کا جواز بھی میسر آرہا ہے۔
بلوچستان میں ریاستی جبر کا آغاز سامراجی گماشتہ مصنوعی ریاست کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ جب ریاست قلات کی آزادانہ حیثیت کو مسترد کرتے ہوئے ریاست پاکستان نے بزور شمشیر اپنے قبضے میں لے لیا۔ یوں اس قبضے کے خلاف سلسلہ وار مختلف مزاحمتی تحریکیں مختلف ادوار میں چلتی رہی ہیں، جوکہ آج تک مختلف شکلوں میں برسر پیکار ہیں۔ اس سامراجی گماشتہ مصنوعی ریاست کی تخلیق کا بنیادی مقصد اس خطے میں انقلابی و ترقی پسند قوتوں کو کمزور کرنا تھا، مگر اپنے آغاز سے ہی یہ ریاست مظلوم قومیتوں کیلئے ایک جیل خانہ ہی رہی۔ جہاں پشتون، بلوچ، سندھی، کشمیری، گلگتی اور بنگالی، سب محصور و محکوم ہوگئے۔ 1971ء میں بنگال کی آزادی کے بعد مذکورہ بالا مظلوم قومیتوں میں ایک مظلوم قوم کم ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی اس سراب کا پردہ بھی فاش ہو گیا کہ پاکستان ایک رضاکارانی فیڈریشن ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار اگر کہیں حقیقی معنوں میں رضاکارانہ فیڈریشن قائم ہوئی تو وہ 1917ء کے انقلاب روس کے بعد سویت یونین کی شکل میں تھی۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کسی بھی خطے میں ایک رضاکارانہ فیڈریشن قائم ہو ہی نہیں سکتی۔ صرف ایک نکتے کے حوالے سے بات کریں، تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ رضاکارانہ فیڈریشن میں شامل تمام اکائیوں کو حق خودرادیت سمیت حق علیحدگی کا مکمل حق حاصل ہوتا ہے جس طرح سوویت یونین میں شامل ریاستوں کو حاصل تھا اور سوویت یونین میں شامل تمام اکائیاں / ریاستیں اپنے اندرونی معاملات میں مکمل آزاد تھیں، جبکہ خارجہ امور، دفاع اور خزانہ سمیت چند ایسے معاملات میں فیڈریشن ذمہ دار تھی۔ روسی انقلاب سے پہلے زار شاہی کا روس مظلوم قومیتوں کے لیے لینن کے بقول ”جیل خانہ تھا“۔ مگر وہی جیل خانہ انقلاب کے بعد ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن میں تبدیل ہوگیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ نظام میں بورژوا رضاکارانہ فیڈریشن بن سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہم پہلے ہی دے چکے ہیں کہ ایسا بالکل بھی ممکن نہیں۔ اس تحریر میں ہم صرف بلوچستان میں جاری قومی جبر اور اس کے خلاف پنپنے والی مزاحمتی تحریکوں کا مختصراً جائزہ لینے کی کوشش کرینگے۔
مسلح جدوجہد اور اس کے اثرات
بلوچستان میں جاری مسئلے کی حساسیت اور پیچیدگی کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ہم صرف رواں سال کے ان چند واقعات کا جائزہ لینگے جن کے نتیجے میں ریاستی جبر میں اضافہ ہوا، اور بالعموم قومی سوال اور بالخصوص مسلح جدوجہد کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کرینگے۔
26 اپریل 2022ء کو کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے سامنے ایک خاتون خودکش بمبار نے چینی شہریوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔ رواں سال پاکستان میں چینی مفادات کے خلاف یہ پہلا حملہ ہے۔ اس حملے میں ایک بلوچ خاتون نے خود کش حملے کے ذریعے اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنایا۔ حملے کی ذمہ داری بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ پاکستان میں چینی اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی توسیع کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مزید حملے کرنے کا بھی اعلان کیا۔ واضح رہے کہ مجید بریگیڈ کی جانب سے پاکستان کے مختلف حصوں میں چینی شہریوں اور ان کے منصوبوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2018ء میں دالبندین میں چینی انجینئروں کی بس کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ اُسی سال کراچی میں چینی قونصل خانے کو حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ علاوہ ازیں 2019ء میں گوادر کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل، جون 2020ء میں سٹاک ایکسچینج اور اگست 2019ء میں گوادر میں ایک چینی انجینئر کو نشانہ بنایا گیا۔
دوسری جانب 28 جنوری 2022ء کو کیچ میں دس سے زیادہ سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا، 2 فروری 2022ء کو نوشکی اور 10 فروری 2022ء کو پنجگور میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے ہیڈکوارٹرز پر مسلح حریت پسندوں نے دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں ہلاکتوں اور دیگر نقصانات کے حوالے سے متضاد خبریں آرہی تھیں مگر ان دونوں حملوں میں سکیورٹی فورسز کو کافی نقصان پہنچا۔ جہاں کئی روز ان کے ہیڈ کوارٹرز میں گھسے ہوئے حملہ آوروں نے اپنے حملے جاری رکھے اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان کے مضافاتی علاقوں میں سکیورٹی اہلکاروں پر مختلف طریقوں سے مختلف اوقات میں حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
وسائل کی لوٹ مار، سامراجی یلغار، موقع پرستی اور مہم جوئی کی وجہ سے اس وقت بلوچستان جس اذیت کا شکار ہے شاید تاریخ میں اس کی کم مثالیں موجود ہوں۔ ایک طرف جمہوری حقوق پر قدغنیں لگاتے ہوئے جبری گمشدگیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ برقرار ہے جبکہ دوسری جانب ان جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کو مختلف جعلی مقدمات میں قتل کیا جاتا ہے۔ ان واقعات کا مقصد صرف خوف و ہراس پھیلانا ہے، جبکہ جعلی مقدمات کے نتیجے میں قتل ہونے والے لاپتہ افراد کا معاملہ لواحقین سمیت مختلف سیاسی و انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ اس کے علاوہ مسلح جدوجہد سمیت دیگر اہم وجوہات کی بنا پر سماج میں سیاسی بیگانگی سے بلوچ سماج کو سیاسی طور پر بہت پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اس وقت ریاستی زندانوں میں بلوچ قوم سے تعلق رکھنے والے ایسے ہزاروں نوجوان مقید ہیں جوکہ بلوچ سماج میں سیاسی طور پر ایک اہم کردار ادا کر سکتے تھے۔ جبکہ اب بھی بلوچ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس وقت پہاڑوں پر مسلح جدوجہد میں مصروف ہے۔ ان مذکورہ حالات کی وجہ سے سماج میں عمومی طور پر مختلف قسم کے رجحانات جنم لے چکے ہیں۔ ایک طرف موقع پرستی کی سیاست دم توڑتے ہوئے اپنی بنیادیں کھو چکی ہے، اور اب صرف بالواسطہ ریاستی بیساکھیوں پر ہی کھڑی ہے۔ دوسری جانب ریاستی دلالوں کی اس وقت بلوچ سماج کے اندر بھر مار ہے، جو مختلف ناموں سے اس وقت ریاستی دلالی میں عیاشیوں کی زندگی گزارتے ہوئے بلوچ سماج کے اندر ریاست کی مصنوعی حب الوطنی کا جذبہ فروغ دینے اور شعوری طور پر آزادی پسند اور ریاست مخالف بلوچ نوجوانوں کو قتل کرنے میں مگن ہیں۔ ان ریاستی دلالوں میں ڈیتھ سکواڈز اور اس وقت برسراقتدار حکمران ٹولہ شامل ہیں۔ اسی طرح بلوچ نوجوان مارکسزم کے انقلابی نظریات سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے مایوسی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں اور ان میں غیر سیاسی رویے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ آخری آپشن عوامی جدوجہد ہی ہے جس کی کامیابی کا دارومدار اس تحریک کی قیادت کے پرولتاریہ کے ہاتھوں میں ہونا ہے۔ بہر حال گزشتہ چار سالوں میں بلوچ سماج کے اندر مختلف شکلوں میں عوامی جدوجہد کی کئی جھلکیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ ان عوامی احتجاجی تحریکوں نے تمام تر روایتی سیاسی ڈھانچوں کو مسترد کرتے ہوئے نئے ڈھانچوں کا قیام عمل میں لایا مگر واضح نظریاتی اور سیاسی پروگرام کی عدم موجودگی سے ان سیاسی ڈھانچوں نے بلوچ نوجوانوں کو کوئی نیا متبادل فراہم نہیں کیا اور اب تک سماج میں نئے متبادل کی تلاش بلوچ نوجوانوں کے لیے بدستور جاری ہے۔ جبکہ اس وقت بلوچ سماج میں ایک عوامی سیاسی قوت کی عدم موجودگی سے بلوچ قوم کے وسائل کی لوٹ مار بدستور جاری ہے۔
ان تمام تر حملوں اور اس کے بلوچ سماج پر پڑنے والی اثرات کے حوالے سے لکھنا اس لئے ضروری تھا کیونکہ ان واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم ان تمام تر واقعات کے نتائج میں مسلح جدوجہد کے طریقہ کار و نظریات کی محدودیت پر نظریاتی اور سیاسی نقطہ نظر سے بات رکھیں۔ اس تحریر میں ہم چند اہم سوالات کے جوابات لکھیں گے، اور چند سوالات کے جوابات کے متمنی ہوں گے۔
مسلح جدوجہد کے طریقہ پر مارکسی موقف
دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلح جدوجہد کے طریقہ کار نے چند ایسی کامیابیاں حاصل کیں جن کو بنیاد بناتے ہوئے مسلح جدوجہد کو آزادی کے حصول کا واحد اور کارآمد طریقہ تسلیم کرتے ہوئے آزمایا جارہا ہے، حالانکہ وقت اور حالات، اور عالمی سطح پر ریاستوں کے مابین طاقت کا توازن اب مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ لیکن ممکنہ نتائج (آزادی) حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ان خطوں کی تحریکیں مسلح جدوجہد کے ہاتھوں لہولہاں ہوئیں اور آج بھی ان خطوں میں حکمران ریاستوں کا جبر پہلے سے زیادہ بھیانک شکل میں مسلط ہے۔ مارکسزم کے نقطہ نظر سے مسلح جدوجہد عوام اور محنت کش طبقے کی شعوری سیاسی جدوجہد کا نعم البدل نہیں ہے اور نہ ہی مارکس وادیوں کے لئے یہ کبھی ترجیحی طریقہ کار رہا ہے۔ مارکس وادی ہمیشہ عوام اور محنت کش طبقے کے آزادانہ اور منظم سیاسی عمل کو ہی جدوجہد کا سب سے اہم اور کلیدی طریقہ کار قرار دیتے آئے ہیں اور یہی ان کی جدوجہد کی بنیاد ہے۔ کسی بھی طریقہ کار کی مخالفت یا حمایت کا سوال ہمیشہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے عوام کے اس جدوجہد میں شمولیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہر ایسا طریقہ کار درست قراردیا جاسکتا جو محنت کش عوام کے سیاسی شعور کو تیز کرے اور اس کے اتحاد کو مظبوط کرے۔ ایسا ہر طریقہ کار غلط ہوگا جو محنت کش عوام کو سیاست سے کنارہ کشی کی جانب دھکیلے اور ان کے اتحاد کو کمزور کرے۔ کسی بھی سیاسی طریقہ کار کو اس پیمانے پر پرکھنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ ہر خطے کی محنت کش عوام ہی وہ اصل طاقت ہیں جو اپنے منظم شعوری عمل کے ذریعے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کر سکتے ہیں۔ ایک ایسی تبدیلی جو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قومی جبر کی بنیادوں کا ہی خاتمہ کر ڈالے گی۔ اگر کسی خطے کی محنت کش عوام کی اکثریت آج بھی مسلح جدوجہد کا حصہ بننے کو تیار ہے تو پھر اس مسلح جدوجہد کا عوامی بنیادیں حاصل کر لینا خود اس مسلح جدوجہد کے کردار کو تبدیل کر دے گا اور اس کو ایک عوامی مسلح بغاوت بنا دے گا جس کی درست نظریاتی رہنمائی کرتے ہوئے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور مسلح جدوجہد چھوٹے سے گروہ تک ہی محدود رہتی ہے اور عوام کی اکثریت سے نہیں جڑ پاتی تو یہ گروہی لڑائی تک محدود ہوکر زوال پذیر ہو جائے گی۔ دوسری جانب ویسی مسلح کاروائیاں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ریاست کی مسلح مشین کو کمزور کرنے کی بجائے زیادہ مضبوط کرتی ہیں اور سماج پر اس کے ننگے جبر کا جواز فراہم کرتی ہیں۔ مسلح کاروائیاں سماج میں جاری سیاسی عمل میں تعطل پیدا کرتی ہیں اور حکمرانوں کو
یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ انہیں دہشتگردی کے واقعات قرار دے کر پورے سماج میں جمہوری آزادیوں پر پابندی لگائے۔ اس طرح جو عمل سماج پر مسلط ریاستی جبر کو ختم کرنے کے لیے شروع کیا جاتا ہے اس کا انجام ہمیشہ سماج پر پہلے سے شدید جبر کے مسلط ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ اسی طرح حکمران طبقہ بھی مذہبی یا نسلی فرقہ واریت میں دھکیلنے کے لیے ریاستی پشت پناہی سے ایسے مسلح گروہوں کو تیار کرتا ہے جو اس لڑائی کو فرقہ وارانہ بنانے کے لیے کارروائیاں کرسکیں۔ مسلح جدوجہد ایسی بارود سے بھری زمین ہے جو کبھی بھی اس کو شروع کرنے والوں کے مکمل کنٹرول میں نہیں رہتی۔ آپ ایک بار اس میں داخل ہوجاتے ہیں تو ضروری نہیں کہ یہ بارود آپ کی لگائی ہوئی آگ سے بھٹی گا بلکہ یہ آگ کسی اور کی لگائی ہوئی بھی ہوسکتی ہے لیکن اس آگ کے شعلے آپ کو لازمی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
ٹراٹسکی نے 1911ء میں انفرادی دہشت گردی پر مارکسی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا:
”ایک درمیانی شدت کی ہڑتال کے بھی محنت کش طبقہ کے خود پر اعتماد کو بڑھانے، ٹریڈ یونین کو مضبوط کرنے اور اکثر پیداواری تکنیک میں بہتری جیسے سماجی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جبکہ ایک فیکٹری کے مالک کا قتل جس قسم کے اثرات مرتب کرتا ہے ان کی نوعیت پولیس کے متعلقہ ہوتی ہے یا فیکٹری کا مالک بدل جاتا ہے جس کی کوئی سماجی اہمیت نہیں ہوتی۔ دہشت گردی کی ایک کامیاب کاروائی حکمرانوں کو کس درجے کی الجھن میں ڈالتی ہے اس کا انحصار بھی ٹھوس سیاسی صورتحال پر ہوتا ہے۔ بہر صورت یہ الجھن لمحاتی ہوتی ہے اور سرمایہ دارانہ ریاست وزیروں کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتی کہ ان کو مار کر ریاست کا بھی خاتمہ کر دیا جائے، جن طبقات کی خدمت پر یہ مامور ہے وہ نئے لوگ تلاش کر لیتے ہیں، ڈانچہ قائم رہتا ہے اور اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ لیکن یہ دہشت گردانہ کارروائی محنت کش طبقے میں زیادہ گہری بدنظمی پیدا کرتی ہے جیسا کہ، اگر صرف ایک پستول سے مسلح ہو کر اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں تو طبقاتی جدوجہد کی کیا ضرورت ہے؟ اگر تھوڑا سا بارود اور سیسہ دشمن کی گردن اڑانے کے لیے کافی ہے تو طبقے کی تنظیم کی کیا ضرورت ہے؟ اگر دھماکے کی زور دار گونج سے حکمرانوں کو خوفزدہ کیا جا سکتا ہے تو پارٹی کی ضرورت کہاں رہتی ہے؟ پھر کس لیے اجلاس منعقد کیے جائیں؟ عوامی احتجاج کیوں کیے جائیں؟۔۔۔ہماری نظر میں انفرادی دہشت گردی کی گنجائش اس لیے نہیں ہے کیونکہ یہ محنت کش طبقے کے شعور اور ان کے اپنے کردار کو کم تر کرنے کا باعث بنتی ہے، ان کو اپنی کمزوری سے مصالحت کرنا سکھاتی ہے، اور ان کو اپنی آنکھیں موند کر کسی نجات دہندہ کی آمد کی آس لگانے پر مجبور کرتی ہے جو ایک دن آکر اپنے فریضے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔۔۔جتنی پُر اثر دہشت گردی کی کارروائی ہوگی اور جتنے زیادہ اس کے اثرات ہوں گے اتنا ہی یہ محنت کشوں کی اپنی تنظیم اور سیاسی تربیت میں دلچسپی کو کم کر دے گی۔ لیکن جلد ہی ایسی کارروائی کی دُھند چھٹ جاتی ہے، خوف و ہراس ختم ہوجاتا ہے اور مقتول وزیر کی جگہ نیا وزیر لے لیتا ہے، زندگی اپنی پرانی ڈگر پر دوبارہ رواں دواں ہوجاتی ہے، سرمایہ دارانہ استحصال کاپہیہ پہلے کی طرح گھومنا شروع کر دیتا ہے، صرف پولیس کا جبر پہلے کی نسبت زیادہ وحشیانہ اور خوفناک ہو جاتا ہے۔۔۔اگر ہم انفرادی دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ انفرادی انتقام ہمیں مطمئن نہیں کر سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام سے ہم نے جو حساب چکانا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے چند کارندوں میں اور وزیروں سے ممکن نہیں۔ پوری نسل انسانی کے خلاف کیے جانے والے جرائم اور ان سبھی ذلتوں کو دیکھنا سیکھا جائے، جس کا شکار انسانی جسم اور اس کی روح (ذات) اس سماجی نظام کی بے ہنگم ترقی کے باعث ہوئے ہیں اور اس نظام کے خلاف اجتماعی جدوجہد پر اپنی تمام تر توانائیاں مرکوز کی جائیں، یہی وہ راستہ ہے جہاں انفرادی انتقام لیتے ہوئے جذبات اعلیٰ اخلاقی تشکیل پا سکتے ہیں۔“ (لیون ٹراٹسکی: مارکسسٹ کیوں انفرادی دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں 1911ء)
جدوجہد اور طبقاتی تقسیم
”کسی بھی جدوجہد کا اہم پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں شامل لوگوں کی سماجی ساخت کیا ہے؟ لوگوں کی اپنی سماجی و معاشی حیثیت اور مقام ہی ان کی جدوجہد کے طریقوں کو متعین کرتا ہے۔ ایک فیکٹری کے مزدور اپنے مسائل کے حل کے لیے اجتماعی سیاسی جدوجہد کا راستہ اپناتے ہیں یعنی احتجاج اور ہڑتال جیسے سیاسی اوزار استعمال کرتے ہیں اور وہ کبھی بھی بندوق اٹھا کر گوریلے نہیں بن جاتے۔ اسی طرح اساتذہ، ڈاکٹر اور دیگر اداروں میں کام کرنے والے پیشہ ور بھی احتجاج اور ہڑتالوں کے ذریعے ہی اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتے ہیں حتی کہ طلبہ بھی یہی طریقہ کار اپناتے ہیں۔ ان ہڑتالوں کی بار بار کی ناکامیاں بھی ان محنت کشوں کو انفرادی دہشت گردی کا راستہ اپنانے پر مجبور نہیں کرسکتیں۔ مسلح جدوجہد کی جانب آج کے عہد میں دیہی یا شہری درمیانے طبقے کے کچھ حصے ہی انفرادی طور پر اپنے بے صبرے پن اور طبقاتی کمزوری کے باعث راغب ہو سکتے ہیں جن کے ساتھ کے کچھ ایسے حصے بھی شامل ہو جاتے ہیں جو فوری انتقام کے جذبے کے تحت اس کا حصہ بنتے ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران محکوم خطوں میں سرمایہ داری کی سرائیت نے ان سماجوں کی ساخت کو تبدیل کر دیا ہے۔ ان علاقوں میں بھی آبادی کا ایک قابل ذکر حصہ خدمات کے شعبے اور دیگر صنعتوں سے وابستہ ہو کر محنت کش طبقہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ محنت کش طبقہ ہی ہے جس کے وجود نے ان خطوں کی تحریک کے کردار کو تبدیل کردیا ہے اور اسی کے باعث ان خطوں میں مسلح جدوجہد کی عوامی بنیادیں کمزور ہوگئی ہیں اور مستقبل میں کوئی عوامی بنیاد حاصل نہیں کر سکتیں۔ فیکٹریوں کا مزدور ہو یا ڈاک خانے کا کلرک، بینک میں کام کرنے والے ہوں یا ہسپتالوں میں ریلوے، پی آئی اے، ٹیلی کمیونیکیشن، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، ماہی گیری، بارڈر ٹریڈ سمیت درجنوں دیگر شعبوں کے ملازمین حتیٰ کہ چھوٹے درمیانے تاجر اور ٹرانسپورٹر بھی جس معاشی سرگرمی سے وابستہ ہیں اس کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ یہ لوگ کسی مسلح جدوجہد کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ان کا اس نظام کو چلانے میں کلیدی کردار ہے اور یہی کردار ان کو یہ طاقت و صلاحیت عطا کرتا ہے کہ یہ منظم ہوکر اس نظام کو روک بھی سکتے ہیں اور تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ اُن کو اس کا شعوری ادراک ہوتا ہے کہ ان کی ہڑتال کی طاقت ہزاروں بم دھماکوں سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ محنت کش کبھی بھی اپنی اس طاقت کو چھوڑ کر کسی ناراض پیٹی بورژوا کی طرح بندوق اٹھا کر اپنی اور سماج کی تباہی کی راہ ہموار نہیں کرتے۔ نہ ہی یہ محنت کش کسی یوٹوپیائی آزادی کے لیے ہر وقت ہڑتالیں اور احتجاج کرتے رہتے ہیں بلکہ ان کی جدوجہد کا محور ان کے اپنے اجتماعی مسائل ہوتے ہیں۔ اس تبدیل شدہ صورت حال کو نظر انداز کرکے مسلح جدوجہد کے فرسودہ طریقہ کار کو جاری رکھنے کے باعث ہی آج یہ تحریکیں گروہی تقسیم اور ان گوریلا گروہوں کی قیادت سامراجی ممالک سے مدد لینے اور ان کے پراکسی بننے کی لڑائیوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔“ (کتاب کشمیر کی آزادی ایک سوشلسٹ حل: سے اقتباس، مصنف یاسرارشاد، صفحہ نمبر 125، 126)
بلوچستان میں بھی یہ عمل واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں بہت بڑی تعداد خدمات کے شعبے سے منسلک ہے اور اچھی خاصی تعداد کراچی سمیت دیگر شہروں میں فیکٹریوں میں کام کر رہے ہیں۔ اسی بدولت بلوچستان میں مسلح جدوجہد کی بنیادیں خاصی کمزور ہوئی ہیں۔ البتہ ابھی بھی کچھ بلوچ طلبہ میں کسی حد تک مسلح جدوجہد کی حمایت پائی جاتی ہے، جو اپنے مخصوص پیٹی بورژوا کردار، سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور جبر کی وجہ سے پھیلی ہوئی مایوسی، اور ایک بڑی سوشلسٹ پارٹی اور ملک گیر مزدور تحریک کی عدم موجودگی کے باعث مسلح جدوجہد کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
بلاشبہ بلوچ ایک مظلوم قوم ہیں اور خوفناک ریاستی جبر کا شکار ہیں، مگر یہ قوم طبقاتی تضاد سے مبرا نہیں ہے۔ قومی جبر کے نتیجے کسی بھی قوم کا نچلا اور درمیانہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، جبکہ دلال یا حکمران طبقے کو اس ضمن میں کسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ واضح رہے کہ قومی جبر کا مقصد صرف مارنا اور مرنا نہیں ہوتا بلکہ قومی جبر اپنے اندر ہر حوالے سے سماجی محرومیوں کا گڑھ ہوتا ہے۔ قومی جبر کا سب سے زیادہ اثر کسی بھی قوم کے نچلے طبقے پر محرومیوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس ضمن میں صرف ایک مثال کافی ہے کہ ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں پچھلے 70 سالوں سے گیس کی پنجاب تک سپلائی ہوتی ہے مگر وہاں پر عام بلوچ عوام اس گیس کی سہولت سے یکسر محروم ہیں۔ اس کے علاوہ گوادر جہاں سمندر ہے اور سی پیک کا دل ہے مگر وہاں پر عام عوام پینے کے صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں، لیکن ان ہی دو علاقوں کے اندر بلوچ قوم کے نواب، سردار اور ریاستی دلالوں کو ان محرومیوں کا پتا تک نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس اہم موضوع پر عظیم روسی رہنما لینن کے الفاظ انتہائی درست ثابت ہوتے ہیں کہ ”قومی سوال آخری تجزیے میں روٹی کا سوال ہے۔“
اس تمام تر بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ مسلح جدجہد کا طریقہ کار مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اس کو مزید مشکل اور پیچیدہ بنا رہا ہے۔ بالخصوص حالیہ عرصے میں پشتون بیلٹ میں مختلف اطلاعات و شواہد کے مطابق زیارت کو ”ڈی ایچ اے“ کے فیز تھری کے طور پر متعارف کیا جا رہا ہے۔ مضحکہ خیز طور پر اس کا جواز بھی دہشت گردی بنایا جا رہا ہے، جس میں آئی جی ایف سی کے بیان کے مطابق آرمی کے کرنل کے اغواء اور قتل کے بعد زیارت کو بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم بی ایل اے کا گڑھ قرار دیا گیا تھا۔ جبکہ گزشتہ سال مانگی ڈیم پر لیویز کے اہلکاروں کے قتل کے بعد نامعلوم افراد کی جانب سے زیارت کے آس پاس علاقوں میں قتل و اغواء کے درجنوں واقعات ہوئے ہیں، اور زیارت شہر میں دو قبیلوں کے درمیان مصنوعی جھگڑے کو فروغ دیا گیا جس کا تصفیہ اب تک نہیں ہوا ہے۔ ان سارے مسائل کے حوالے سے عوامی شعور اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ انہیں صحیح اور غلط کے ادراک کیساتھ ہر مسئلہ کے پیچھے جو لوازمات ہوتے ہیں ان کا بھی پتہ ہوتا ہے۔ بالخصوص عوام کی جانب سے گزشتہ سال سے ہونے والے مسلسل حملوں میں ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر ریاستی اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانا، اور اس کے پیچھے ریاستی اداروں کے عزائم کا کھل کر اظہار کرنا واضح مثال ہے۔ اس کے علاوہ پشتون بیلٹ کے اندر بلوچ مسلح حریت پسندوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کو اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو یہ حملے آنے والے وقت میں پشتون بیلٹ میں عوامی جدوجہد کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں۔ جس پر پشتون عوام کی جانب سے تحفظات کا اظہار کرنا بالکل جائز ہے۔
قومی سوال اور انقلابی سوشلزم
پاکستان جیسے ممالک میں مظلوم قومیتوں کی جدوجہد کرنے والی تحریکوں کی نظر ہمیشہ مظلوم عوام کی جڑت اور جدوجہد کے بجائے عالمی سامراجی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ اور دیگر عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں سے اخلاقی و سیاسی حمایت پر ہوتی ہے اور ان تحریکوں کی قیادتیں اس حمایت کی طلبگار بھی رہتی ہیں۔ ان عوام دشمن قوتوں سے حمایت کا مطالبہ سب سے پہلے اس عوامی قوت کی توہین ہوتی ہے جو ان کے ساتھ ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ان سامراجی اداروں یا دیگر سامراجی قوتوں نے اپنے ممالک کے اندر مظلوم قومیتوں کیساتھ کیا رویہ روا رکھا ہے۔ ان سامراجی قوتوں کی عالمی طور پر مظلوم قومیتوں کو اپنے سامراجی عزائم کے لیے استعمال کرنے کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس میں عراق اور شام کے اندر کرد قومی تحریک کا امریکی سامراج کے عزائم کے لیے استعمال ہونا واضح مثال ہے۔
موجودہ عہد سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی نامیاتی بحران کا عہد ہے جس میں دنیا کا ہر خطہ خوفناک مہنگائی، بیروزگاری اور عدم استحکام کا شکار ہے جس میں مزید شدت آئے گی۔ جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کے اس خصی پن کیخلاف پوری دنیا میں محنت کش طبقے کی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ سری لنکا اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اسی طرح پاکستانی ریاستی بھی شدید ترین بحران اور توٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ معیشت کا بحران جہاں ریاستی اداروں کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے، وہیں سیاسی اتھل پتھل کو مہمیز دے رہا ہے اور مسلسل بڑھتا ہوا سیاسی تناؤ معاشی گراوٹ کی رفتار کو تیز سے تیز تر کرتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں استحصال سمیت قومی جبر کا بڑھنا ایک ناگزیر عمل ہے، مگر مسلے کا حل کیا ہے؟ بلوچستان کے مسئلے کو بھی اسی عالمی منظر نامے میں دیکھنا ہوگا۔
بلوچستان کے حریت پسند عوام ہر دور میں پاکستانی حکمران طبقے کی پرودہ ریاست کے خلاف درخشاں جدوجہد کی میراث کے امین ہیں لیکن ہر دور میں بلوچستان کے حکمران پاکستانی ریاست کے آلہ کار کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ بلوچستان کے تمام وسائل بلوچستان کے عوام کی اجتماعی ملکیت ہیں لیکن ان وسائل کی سامراجی لوٹ میں جہاں پاکستان کے حکمران کمیشن ایجنٹ ہیں وہیں بلوچستان کے حکمران ان ایجنٹوں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال صرف بلوچستان کی ہی نہیں ہے بلکہ اس وقت نام نہاد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے وسائل کی بھی اسی طرح لوٹ مار کی جا رہی ہے جس میں نام نہاد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حکمران بھی دلالوں کے دلال بنے ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان کے بے پناہ قدرتی وسائل کی لوٹ مار کے لئے بڑھتی ہوئی چینی سامراج کی سرمایہ کاری نہ صرف خطے کے عام لوگوں کی محرومیوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہے بلکہ مختلف سامراجی طاقتوں کی مداخلت آنے والے وقتوں میں نئے تصادموں کو جنم دے گی جو اس قدرتی دولت سے مالامال خطے کے باسیوں کی مزید خونریزی اور بربادی کا موجب ہو گی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قومی سوال کا حل اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ منسلک ہے۔ جب تک یہ نظام رہے گا تب تک قومی سوال موجود رہے گا۔ آج اس شدید ترین بحران کی صورت حال میں کوئی بھی سرمایہ دارانہ ملک مظلوم قومیتوں کے حق خودارادیت یا حق آزادی کو تسلیم کر نہیں کر سکتا۔ بلکہ الٹا اپنے سامراجی عزائم کے دوام کے لیے ان مظلوم قومیتوں اور مظلوم طبقات پر جبر میں اضافے کا مرتکب بن رہا ہے۔ اس ریاستی دہشت گردی، قومی جبراور طبقاتی استحصال سے چھٹکارا پانے کیلئے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان سمیت اس پورے خطے کا محنت کش طبقہ ایک بڑی لرائی میں جلد ہی اترے گا، جس کی معمولی سی جھلکیاں انڈیا میں کسانوں کی تحریک سمیت متعدد عام ہڑتالوں کیصورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مگر اس طبقاتی جنگ میں محنت کش طبقے کی قیادت میں لڑنے والی مظلوم قومیتوں سمیت سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کی کامیابی کا انحصار ایک ایسی انقلابی پارٹی کی موجودگی کے ساتھ مشروط ہے جو سرمایہ داری کے خاتمے کا سائنسی پروگرام رکھتی ہو اور اسے بروئے کار لانے کیلئے محنت کش طبقے اور مظلوم قومیتوں کو منظم کرے۔ کسی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں ہم نے عرب بہار، کیٹالونیا، ایکواڈور، سری لنکا، چلی، لبنان، عراق، ایران، فرانس، کردستان، پاکستان میں پی ٹی ایم سمیت کئی اور عوامی تحریکوں کی زوال پذیری دیکھی ہے۔