|تحریر: | ولید خان
تیسری دنیا کی تاریخ حکمران طبقے اور سامراجی لوٹ کھسوٹ کی تاریخ ہے۔ سامراج اپنے مفادات کیلئے جہاں وسائل، قوتِ محنت اور قومی منڈی کو تخت و تاراج کرتا رہا ہے وہیں مقامی حکمران اپنی تاریخی اور تکنیکی کمزوریوں اور ذاتی لوٹ مار کیلئے سامراج کے دلالوں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ سرمایہ داری کے خوش حال دور میں اگرانفراسٹرکچر، صحت اور تعلیم وغیرہ کی لولی لنگڑی سہولیات عوام کو ملتی رہی ہیں تو اب سرمایہ داری کے تاریخ کے بد ترین بحران میں یہ واپس چھینی جا رہی ہیں۔ بھاری صنعت کے مختلف شعبوں کی نجکاری کی جا رہی ہے تاکہ سرمایہ دار اپنے منافعوں میں کسی بھی طرح سے اضافہ جاری رکھ سکیں۔ قومی اداروں کی نجکای کا سرمایہ دار کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کھربوں روپے کی مالیت سے عوام کے ٹیکسوں سے بنی قدرتی اجارہ داریاں کوڑیوں کے مول لمبے عرصے کی کاوش کے بغیر مل جاتے ہیں اور کیونکہ دوبارہ ایسے ادارے قائم کرنا ممکن نہیں ہوتا، اس وجہ سے اپنی مرضی اور منشا کا منافع عوام سے لوٹا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں نجکاری کی پالیسی پر 1968-69ء کی شاندار اور تاریخی عوامی تحریک کے پسپا ہونے کے بعد 1988 ء سے لگاتار عمل کیا جا رہا ہے۔ حکومت چاہے سرمایہ داروں کسی کی ہو، اس پالیسی کو نا کبھی روکا گیا اور نا ہی کوئی ردوبدل ہوئی بلکہ اس پالیسی میں تواتر کے ساتھ تیزی ہی آتی گئی ہے اور اب نظام کے شدید بحران کے نتیجے میں عمل کو تیز تر کر کے 68 اداروں کی نجکاری کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔
انہی کاسہ لیسیوں کا شکار پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز (PIA) ہے جس کی کئی سالوں سے نجکاری کرنے کوشش کی جا رہی ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں ائر لائن کو جس طرح ممکن تھا اپنے حواریوں اور ٹوڈیوں کو منیجمنٹ کی کرسیوں پر بٹھا کر بے رحمی سے لوٹا گیا یہاں تک کہ دو سابقہ ایم ڈی (MD) اس لوٹ مار سے اپنی ائرلائنز بنا گئے ہیں۔پی آئے اے دہائیوں پہلے دنیا کی چوٹی کی ائر لائنز میں شامل ہوتی تھی۔ اس ائر لائن نے نا صرف ایشیا کے اندر کئی جدتوں میں اپنا نام بنایا بلکہ دنیا کی بیسیوں ائر لائنز، مشرقِ وسطٰی سے لے کر افریقہ تک بیسیوں قومی ائر لائنز کو بنانے اور کھڑا کرنے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ یہ دعویٰ کرنا بعیداز قیاس نا ہو گا کہ جہاز اور اس کے سپئیر پارٹس بنانے کے علاوہ یہ ائر لائن پائلٹ کی ٹریننگ سے لے کر کارگو اور انجنیئرنگ تک ہر شعبے میں نمایاں حیثیت کی حامل رہی ہے۔ ایک وقت میں کئی درجن ملکی اور غیر ملکی روٹس پر ائر لائن کا پھریرا لہراتا تھا۔ اگر آج دیکھا جائے تو دہائیوں کی اربوں ڈالر کی لوٹ مار کے باوجود یہ ائر لائن کمزور سہی، لڑکھڑاتی سہی اگر چل رہی ہے تو یہ ائر لائن کے محنت کشوں کی انتھک کوششوں اور محنت کا نتیجہ ہے۔
PIA کی بربادی کی داستان 1992-93ء میں اوپن سکائی (Open Sky) پالیسی کے اجرا سے شروع ہوئی جس کے تحت غیر ملکی ائر لائنز کو قومی ائر لائن کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی روٹس پر مسابقت کی اجازت مل گئی۔ ساتھ ہی لوٹ مار کی ان دیکھی ان کہی داستان شروع ہو گئی جس میں مینجمنٹ، مقامی انتظامیہ اور تمام حکومتیں برابر کی شریک ہیں۔ نجی اور غیر ملکی ائر لائنز کو ترجیحی بنیادوں پر تمام سہولیات دینے کے ساتھ ساتھ PIA کی لوٹ مار سے ائر لائن جہاں کمزور اور برباد ہوئی وہیں2007-08ء کے عالمی معاشی بحران سے اس تباہی کو مہمیز ملی اور ائر لائن قریب المرگ ہی ہو گئی۔ ایسے میں ہمیشہ کی طرح سرمایہ داروں کے غمگسار اور مزدور دشمن ادارے IMF نے ائر لائن کو بیچنے کا نسخہ دیا جس پر حکمران پچھلے چند سالوں سے کاربند ہیں۔ مختلف کوششوں کے باوجود حکومتیں اس معاملے میں کوئی خاص پیش رفت حاصل نہیں کر سکیں۔
2013ء میں دائیں بازو کی رجعتی اور پاکستان کے سرمایہ داروں کی لونڈی جماعت ن لیگ کی حکومت نام نہاد الیکشن کے نتیجہ میں آتے ہی زیادہ سختی اور تندہی سے نجکاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہوئی کیونکہ گہرے ہوتے عالمی بحران کی وجہ سے اب تاخیر یا تردد کی گنجائش نہیں ہے۔ اس سلسلے میں حکومت وقتاً فوقتاً مختلف اداروں کی نجکاری کی کوشش کرتی ہے مگر نیچے سے محنت کشوں کی شدید مزاحمت کی وجہ سے پیچھے ہٹ کر کسی دوسے ادارے پر زور آزمائی کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی مثال ہمیں واپڈا، واسا، اساتذہ، صحت کے شعبے، OGDCL وغیرہ کی تحریکوں ملتی ہے۔
اس حوالے سے PIA کی نجکاری انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کا شمار پاکستان کے چوٹی کے اداروں میں ہوتا ہے اور یہاں کا محنت کش بلند سیاسی شعور رکھتا ہے۔IMF کے ساتھ معاہدے کے مطابق 2014ء دسمبر تکPIA کی نجکاری کرنی تھی جسے حکومت نے تین مرتبہ موخر کروایا ہے مگر اب گنجائش موجود نہیں۔ حکومت نے پہلے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے PIA کو پرائیویٹ کمپنی میں تبدیل کیا جس کی مخالفت سینیٹ میں ہونے بعد آرڈیننس کو بل میں تبدیل کر دیا گیااور اسے بحث کیلئے پارلیمان میں پیش کر دیا گیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت چاہے اس کا کوئی بھی نام یا ڈھونگ ہو، نجکاری کے خلاف نہیں۔ اگر کسی سیاسی جماعت کی طرف سے نجکاری کی مخالفت سامنے آتی ہے تو وہ صرف اس لئے کہ لٹتے بکتے ادارے میں کس کا حصہ کتنا ہو گا۔ PIA میں مختلف ڈیپارٹمنٹس کی یونینوں نے نجکاری کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنے کیلئے جوائینٹ ایکشن کمیٹی (JAC-PIAE) تشکیل دی۔ PIA کے محنت کش 2015ء دسمبر سے نجکاری کے خلاف وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے رہے ہیں لیکن بل کے معاملے کے پیش ہونے کے بعد 2 فروری 2016 ء تک حکومت کو الٹی میٹم دیا گیا جس کے بعد فلائٹ آپریشن بند کرنے کا عندیہ دیا گیا۔
حکومت نے مکمل ہڑتال کو روکنے کی کوشش میں Essential Services Act نافذ کر دیا جس کی رو سے ہڑتال غیر قانونی اور تمام یونینیں غیر فعال کر دی گئیں۔ حکومت کے ٹس سے مس نا ہونے کے نتیجے میں پورے ملک کے ائر پورٹس میں ٹرمینل کی طرف مارچ کا اعلان کیا گیا جس کی شروعات کراچی میں ٹرمینل کی طرف مارچ سے ہوئی۔ درندہ صفت ن لیگ اور سندھ میں نام نہاد مزدوروں کی جماعت PPP نے ملی بھگت کر کے پولیس اور رینجرز کے ذریعے پرامن نہتے کارکنوں پر لاٹھی چارج، آنسو گیس شیلنگ اور آخر میں گولیاں چلوائیں جس کے نتیجے میں دو کارکن شہید ہو گئے۔ اس واقعہ کے فوراً بعد PIA کے محنت کشوں نے پورے ملک میں تمام فلائٹ آپریشن، گراؤنڈ ورک اور ٹکٹ آفس بند کر دئے۔ نیچے سے اتنا بے پناہ دباؤ تھا کہ پائلٹس کی یونینPALPA کودرمیان میں آ کر فلائٹس کا مکمل بائیکاٹ کرنا پڑا۔ تمام ملکی ائر پورٹس پر روزانہ صبح سویرے سے لے کر رات تک دھرنا اور احتجاج چلتے رہے۔ عام ورکرز نے جدوجہد کی کوئی کسر نا چھوڑی۔ بالآخر 10 فروری کو ایک ’’نامعلوم‘‘ ہمدرد کے کہنے پر احتجاج ختم کر دیا گیا!
یہاں اس ہڑتال سے ہمیں سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے وقت میں زیادہ فعال طریقے سے جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔
مکمل ہڑتال کیلئے PIA کی زیادہ تر قیادت رضا مند نہیں تھی لیکن دو کارکنوں کی شہادت کے بعد عام ورکروں کے شدید دباؤ میں مکمل ہڑتال کی طرف جانا پڑا جس سے مقامی اور ملکی قیادت دو لخت ہو گئی اور ملکی قیادت حکومت کی گود میں جا بیٹھی۔ پہلے دن ہی JAC-PIAE کی مرکزی قیادت میں سے چار کو نا معلوم مقام پر لے جایا گیا جس سے کارکنوں کے اوپر ذہنی دباؤ بھی پڑا۔ انہیں ہڑتال ختم کرنے سے ایک دن پہلے بخیر و عافیت واپس پہنچا دیا گیا۔ حکومت ہڑتال کو توڑنے کی سر توڑ کوشش کرتی رہی جس میں کارکنوں کے گھر پولیس سمیت جا کر دھمکیاں دینا، قیادت کو خرید کر ساتھ شامل کرنے کی کوششیں کرنا، نجی ائر لائنز کے عملے کے ذریعے معاملات کو چلانا، تادیبی کاروائیاں کرنا اور دیگر ہتھکنڈے شامل ہیں۔خواتین ورکرز کو سب سے زیادہ ہراساں کیا گیا۔بکی ہوئی قیادت کے ذریعے ہڑتال کو مسلسل توڑنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ہڑتال شروع ہونے کے اگلے دن اسحاق ڈار دوڑا دوڑا اپنے سامراجی آقاؤں IMFسے ملنے دبئی پہنچا اور پیری پڑنے کے نتیجے میں حکومت کو دسمبر 2016ء تک کی مہلت مل گئی۔ تمام سیاسی جماعتیں شہید ہوئے کارکنان کیلئے زبانی جمع خرچ کرتے رہے اور نجکاری کا ذکر تک نہیں کیا۔ قیادت نے جب ہڑتال ختم کی تو نا اس وقت تک کوئی مذاکرات ہوئے تھے اور نا ہی کوئی لکھا ہوا معاہدہ۔ صرف اس بچگانہ دلاسے پر قیادت نے ہڑتال ختم کر دی کہ ہماری جائزشکایات پر کھلے دل سے غور کیا جائے گا! لڑاکا اور ایماندار قیادت کا فقدان، ٹھوس لائحہ عمل کی کمی،جارحانہ حکومتی ہتھکنڈوں، کسی بھی سیاسی حمایت کا نا ہونا، باقی اداروں کے ساتھ نہ شامل ہونے کی وجہ سے تحریک کا تنہا رہ جانا اور اعصابی تھکن کا شکار ہو نے کی وجہ سے ہڑتال ختم ہوئی۔
جہاں ہڑتال کی خامیاں سامنے آئی ہیں وہیں پر ہمیں اس ہڑتال کے مثبت اثرات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ PIA نے آٹھ دن تک مکمل ہڑتال کئے رکھی جس کی وجہ سے باقی اداروں کے محنت کشوں کو بے پناہ ہمت و حوصلہ ملا۔ پہلی مرتبہ باقی اداروں خاص کر واپڈا اور ریلوے میں عام ورکر نے عام ہڑتال کا سوال اٹھایا۔ مختلف اداروں کے عام ورکرز نے ہڑتال کی حمایت میں ملک بھر میں یکجہتی احتجاج کئے۔ لیکن ٹھوس بنیادوں پر باقی اداروں کی حمایت حاصل نہ کرنا بھی ایک بہت بڑی خامی رہی۔ یہ محنت کشوں کی قربانیاں اور حوصلہ تھا جس کے آگے حکومت کو گھٹنے ٹیک کر مزید چھ ماہ کیلئے نجکاری کو موخر کرنا پڑا۔ تاحال حکومت کی نجکاری کی پالیسی کا شیرازہ بکھرا پڑا ہے جس کی وجہ سے وہ اداروں کی مزید نجکاری خاص کر واپڈ کی لاہور ، فیصل آباد اور اسلام آبادکی کمپنیوں کی نجکاری پر عملدرآمد نہیں کر سکی۔
تاحال حکومت کاPIA کے حوالے سے انتہائی انتقامی رویہ ہے جس میں تقریباً 305 شو کاز نوٹس، زبردستی تبادلے اور مختلف نوعیت کی تادیبی کاروئیاں شامل ہیں۔ ورکروں کو ہراساں کرنے کیلئے ایک نئی نام نہاد ائر لائن کا اجرا کیا جا رہا ہے جو صرف کاغذوں میں ہی پنپ رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے حالیہ بیانات سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نجکاری کے معاملات طے پا چکے ہیں اور پارلیمان سے ہمیشہ کی طرح مزاحمت کے امکانات نہیں۔ حکومت اب دوبارہ سے نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کیلئے کمر بستہ ہو رہی ہے اور آئے دن نت نئے بیانات داغے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی نجکاری بل دوبارہ پیش ہو گیا ہے۔
PIA کے محنت کشوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان میں ہمت، حوصلے اور بہادری کی کمی نہیں۔ اپنی تحریک میں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے محنت کشوں نے ثابت کیا ہے کہ نجکاری کے خلاف وہ آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ مسئلہ قیادت میں اعتماد کا فقدان، قیادت کا بذاتِ خود انتشار اور ذاتی مفادات کیلئے جھکاؤ اور محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں اور مختلف اداروں کے ساتھ ایک جڑت کی کمی ہے۔ آنے والے دنوں میں PIA کے محنت کش دوبارہ تحریک میں اتریں گے اور ان تمام کمزوریوں پر قابو پاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں PIA کی نجکاری کا خاتمہ ہو گا وہیں پر نجکاری کمیشن اور نجکاری کی وزارت کا بھی ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو جائے گا۔