|تحریر: صبغت وائیں|
1۔ فلسفہ
فلسفے کی دو اقسام
فلسفے کی شروعات پر پیچیدہ بحثوں کی بجائے یہ کہنا کافی ہو گا جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ فلسفے کی ابتدا بہرحال طبقاتی سماجوں میں ہوئی تھی، اس کو دیکھتے ہوئے اور فلسفوں پر نظر ڈالتے ہوئے ہم خاصے وثوق سے اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ فلسفے ابتدا ہی سے دو طرح کے رہے ہیں (یا یہ کہ فلسفے کا استعمال دو طرح سے رہا ہے) ایک وہ جو حکمران طبقے کے مفاد میں جاتا ہے اور دوسرا وہ جو کہ محکوموں کے مفاد میں جاتا ہے۔ اب ہم ان کی واضح تقسیم کر سکنے کے قابل ہیں، کہ ایک انسان دوست فلسفہ ہے اور دوسرا انسان دشمن فلسفہ۔ ہمیں آج تک یہی تقسیم نظر آتی ہے۔
اپنے گرد موجود دنیا کو ماننا، اور اس کو جاننے کی کوشش کرنا اور اس کے متعلق ایک نقطہ نظر رکھناایک قسم کا فلسفہ ہے۔ اور اپنے گرد دنیا کو اپنے خیالات کی تخلیق قرار دینا، اس کو واہمہ اور سراب قرار دینا، اس کو جاننے کی کوششوں کو بے معنی قرار دینا، دنیا ہی کو بے معنی قرار دینا، اس دنیا کی بجائے اپنے خیالات میں موجود دنیاکے متعلق نقطہ نظر کو باہر موجود دنیا پر ثبت کرنے کی کوششیں کرنا دوسری قسم کا فلسفہ ہے۔
اگر ہم اردگرد کی دنیا کو مانیں گے، اس کو جاننے کی کوشش کریں گے، تو ہمیں نظر آ جائے گا کہ اس میں بہت کچھ ایسا ہے جو کہ منطق اور فلسفے کے خلاف ہے، مثلاً یہ کہ جو انسان فطرت پر کام کر کے اس کی شکل کو تبدیل کرتے ہوئے نوعِ انسان کے لیے کارآمد بناتا ہے، اس کا اپنے کیے گئے کام میں حصہ اس سے کم ہے، جتنا کہ اس کا حصہ ہے، جس نے فطرت پر کوئی کام نہیں کیا، یعنی کہ کام کرنے والے انسان کا استحصال ہوتا ہے۔ اس طرح فلسفیانہ غور و فکر کرنے والا ہر شخص جلد یا بدیر اپنی فہم کے مطابق استحصال تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ اس چیز کو حکمران طبقات بہت دیر پہلے پہچان گئے تھے۔ اس کے بہت سے حل ایک ہی ساتھ نکالنے کی کوششیں کی گئیں۔ جو کہ ساتھ ساتھ چلتی گئیں۔ مثلاً یہ کہ بہت سے فلسفیانہ رجحانات گھڑے گئے، جن کو بطور فلسفے کے عوام میں اتار دیا گیا۔
سچائی کی بات کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا کہ اس کو مشکل بنا دیا گیا۔ سچ سادہ ہوتا ہے اور ایک ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے کے ان گنت راستے ہو سکتے ہیں۔ یہی فلسفے کے ساتھ بھی ہوا۔ عام معمولی اور سیدھی نظر آنے والی باتوں کو منطق دانوں اور فلسفے دانوں نے گھمانا شروع کیا۔ اور سچائی پر سوال کھڑے کرنے شروع کر دیئے۔ ان سوالوں کی تفصیل میں نہیں جاتے، بس یوں سمجھ لیجئے کہ بات یہاں سے شروع ہوتی ہے، کہ ”دنیا کی کوئی چیز تبدیل نہیں ہو رہی“ کو بڑے ہی شان والے طریقے سے ”ثابت کر دیا گیا“۔ اس کے بعد یہ ”ثابت کر دیا گیا“ کہ ”حرکت کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے“۔ یہاں تک کہ چلا ہوا تیر جو ہوا میں ہے، ساکن ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ ”ہمارے اردگرد کی دنیا ہے ہی نہیں“، ”ہے تو جانی نہیں جا سکتی“، ”جان لی جائے تو آگے اس کو بتانا ممکن نہیں ہے“ یہ سب کچھ اور بہت کچھ ہزاروں سال پہلے بڑی محنت سے اور واقعی شان والے طریقے سے ثابت کیا گیا۔ اس کے علاوہ یہ بات کہ ”مادے کا وجود نہیں ہے“، خیال ہی خیال میں اس کو توڑتے چلے جاؤ۔۔۔بالآخر ایک ایسا وقت آئے گا، کہ ”کچھ بھی نہیں رہے گا“۔۔ یہ ”کچھ بھی نہیں رہے گا“ والی بات بھی۔۔۔ جو آج لوگ اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے کوئی نئی دریافت ہے، ہزاروں سال پرانی ہے۔
ایسے لوگوں کے متعلق کچھ بات ہو چکی ہے۔ لیکن ان کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی ہر دور میں موجود رہے ہیں، جو کہ ان کے جواب دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ، فلسفے کا آغاز سچائی سے اور سچائی کو جاننے کی کوشش سے ہی ہوا تھا۔ لیکن جب سچائی کو چھپانے کے لیے بھی فلسفے کا استعمال شروع ہو گیا، تو فلسفہ نہ صرف یہ کہ سچائی کو جاننے کی کوشش بنا بلکہ ان سوالات کا جواب دینا بھی فلسفے ہی کا کام ٹھہرا جو کہ اس پر فلسفے ہی کا استعمال کرنے والے وقتاً فوقتاً اٹھاتے رہے۔ اس طرح فلسفے کے طریق کار کو کئی محاذوں پر بیک وقت لڑائی لڑنی پڑی۔ ایک تو اس کے سامنے ساری دنیا پڑی تھی، جس کی اس نے ابھی تشریح کرنی تھی کہ یہ سب چیزیں، مظاہر اور عوامل کیا ہیں، دوسرے اس کو مسلسل پیچیدہ ہوتے جا رہے سماج کا مطالعہ بھی کرنا تھا، تیسرے مختلف تشریحات کو دیکھنا تھا، اس پر تنقید اور تفسیر کی ذمہ داری بھی تھی، اور اس کے علاوہ ایسے سوالات کے جوابات بھی دینے تھے، جو کہ صرف سچائی کو چھپانے اور بسا اوقات محض دھول اڑانے کے لیے اٹھائے جا رہے تھے کہ دوسروں کو بھی کچھ نظر نہ آئے۔
اور ایسا ہی ہوا۔ انتہائی ابتدا میں فلسفیوں نے، ان لوگوں نے جو تفلسف (Philosophize)کرتے رہے، فلسفے میں سوچتے رہے، دونوں کام کیے۔ سچائی کو تلاش کرنے کی کوشش، اور اس کو چھپانے کی کوشش۔ سچائی جو کہ ہر جگہ تھی، اس کو ہر جگہ سے تلاش کیا جانا تھا، لیکن بہت سی جگہیں ایسی تھیں، جہاں سے سچائی اگر سامنے آتی تو اس سے مقتدر طبقات کا وجود ناجائز قرار پا جاتا تھا۔ یقینا آج کی مانند یہ سب کچھ دو اور دو چار جیسا سیدھے سبھاؤ نہیں ہو گا، پھر بھی ابتدائی فلسفوں میں ہمیں مقتدر حلقوں کے خلاف بغاوت کے آثارملتے ہیں۔ جن میں سب سے پہلی مثالیں ہم خود اپنے خطے یعنی ہندوستان میں سے دیکھ سکتے ہیں۔
مادیت پسندی: سائنس اور فلسفے کی ابتدا
’چارواک‘ یا ’لوکایاتا‘ اور’ویدک‘ فلسفہ یہاں پچیس چھبیس سو سال پہلے نمودار ہوتا ہے۔ جس کا بانی برھسپتیؔ نام کے ایک فلسفی کو کہا جاتا ہے۔ ان کے مطابق یہ دنیا مادی ہے جو کہ آگ، ہوا، پانی اور مٹی سے مل کر بنی ہے۔ تمام زندہ اشیا بشمول انسان انہی عناصر سے بنے ہیں، اور مرنے کے بعد انہی اجزا کی صورت بکھر جاتے ہیں۔ یہ خدا کا، ایسی روح کا جو کہ لافانی ہے، اور اس جیون کا انکار کرتے تھے جس کے متعلق پروہتوں کا کہنا تھا کہ مرنے کے بعد ہو گا۔ وہ اس بات پر دلائل دیتے تھے کہ ”انسان کے مر جانے کے بعد اس کا شعور معدوم ہو جاتا ہے“۔ اور ”وہ جسم جو کہ جلا دیا گیا، دوبارہ کس طرح سے بن سکتا ہے“۔ ”خدا کا تصور حکمران طبقے کی طرف سے غریبوں کو دیے گئے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں“۔۔۔ وغیرہ
اسی طرح، ہمیں مصر، بابل (موجودہ عراق)، چین اور یونان میں بھی جو ابتدائی فلسفے ملتے ہیں وہ اپنی بنیاد میں مادیت پسند ہیں، اور حکمران طبقے کے خلاف ہیں۔ جس پر حکمران طبقے نے اپنے نظریہ سازوں کو متحرک کر کے اپنی پسند کے فلسفے لکھوائے۔ کیوں کہ جس طرح کی باتیں یہ چار واک کے فلسفی کرتے تھے حکمران طبقے کے لیے قابل قبول نہیں تھیں، جو کہ غریب عوام کو دوسری دنیا کے سہانے خواب دکھا کر اِس دنیا میں ان کا سارا خون نچوڑ کر اپنے محلات کھڑے کر رہا تھا۔ اس طرح مادیت پسند فلسفہ ہر حال میں حکمران طبقے کے استحصال کے خلاف تھا۔
یہاں ہمیں یہ یاد رکھنا ہے، کہ مادیت پسندی کا سیدھا مطلب اپنے گرد موجود دنیا کو حقیقی طور پر موجود ماننا ہے، کہ ہم اس کے متعلق سوچیں یا نہ سوچیں یہ موجود ہے۔ لیکن حکمران طبقے نے مادی دنیا کے وسائل پر قبضہ تو کیا سو کیا، انہوں نے غریبوں سے درست سوچ کا حق بھی چھین لیا۔ اپنے گرد کی دنیا کو مایا جال، چھل، فریب، دھوکا، واہمہ، سراب، عارضی، فانی اور فضول قرار دیتے ہوئے غریب محنت کش عوام کو اسے ترک کر دینے کو اعلیٰ فضیلت بتایا جس کو ہم عینیت پرستی کے نام سے جانتے ہیں۔ اگر کوئی اپنی اجرت میں اضافے کا بھی کہتا تو اس کو بھی ”مادہ پرست“، ”دنیا دار“ اور”لالچی“ باور کیا جاتا۔ دوسری جانب ساری دنیا، دولت، سونا، چاندی، مال، مویشی، زمین اور جائیداد پر یہ طبقہ اس کو حقیر قرار دیتے دیتے قابض ہو گیا۔ مذہبی پنڈت، پروہت، پادری وغیرہ کا وہ طبقہ جو حکمران طبقے کو خدا کی جانب سے اِس ”عارضی اور فانی“ چھل کپٹ و مایا جال سے بھری دنیا کو ہڑپ کرنے کا آدیش دیتا، اس کو اس کی اوقات کے مطابق حصہ ہر دور میں ملتا رہا۔ اپنے اسی حصے کو برقرار رکھنے کے لیے وہ حکمران طبقے کے مقبوضات کو خدا کی طرف سے ودیعت کردہ بتا کر اس کو مقدس ”حق“ میں ڈھالتے چلے گئے۔
تو اس طرح سے دنیا کو دیکھنے کے دو نظریات فلسفے کے آغاز کے ساتھ ہی پیدا ہو گئے، مادیت اور عینیت۔
انسان دوست اور انسان دشمن فلسفے کی پہچان
جو فلسفے اس بات پر قائم ہیں کہ اشیا کی حقیقت کو جانا جا سکتاہے، ان کو تعقلی یا Rational فلسفے کہتے ہیں، اور جو فلسفے اس بات پر مصر ہیں، کہ اشیا کی ماہیت کو انسان نہیں جان سکتا، ان کو عدم تعقلی یا Irrational فلسفے کہتے ہیں۔ ان تمام فلسفوں کو جو کہ مادی دنیا کا انکار کرتے ہیں، یا پھر یہ کہتے ہیں کہ مادی دنیا (کی حقیقت) کو جانا نہیں جا سکتا، عدم تعقلی کہتے ہیں، اور عمومی طور پر اس رویے کو ”لاادریت“ (Agnosticism) 2؎ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہم نے آخری تجزیوں میں ہمیشہ یہی پایا ہے کہ وہ تمام فلسفے جو کہ لاادریت کی ترویج یا توثیق کرتے ہیں، یہ نہیں مانتے کہ ہمارے گرد کی دنیا کا ہماری سوچ سے باہر آزاد حالت میں وجود ممکن ہے، یا یہ کہ ہمارے گرد موجود دنیا موجود تو ہے، لیکن اس کو، یا اس کی حقیقت کو جاننا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے، یا یہ کہ ہم اس دنیا کو جو ہمارے ارد گرد موجود ہے، اپنے ذہن میں موجود تعقلی اصولوں یا مقولوں کی وجہ سے جانتے ہیں، یا یہ کہ ہم اپنے گرد موجود دنیا کا صرف مشاہدہ کرسکتے ہیں، اور اس کی خود کی حرکت کے صرف نتیجوں کو نوٹ کر سکتے ہیں، جو کہ اگلی مرتبہ مختلف ہوں گے، تمام کے تمام سماج میں جاری عوامل اور مظاہر کی حقیقت کے جانے جانے کے انکار اور استحصال اور جبر کی جڑوں کی کھوج کو لاحاصل قرار دینے پر نہ صرف عقل دشمن ہیں، بلکہ انسان دشمن بھی ہیں۔ ہمارے نزدیک انسان سے مراد بہرحال انسانوں کی وہ کثیر تعداد ہے، جو کہ طبقاتی نظاموں کے حامل سماجوں میں جبر و استبداد کی چکی میں پستی رہی ہے، اور آج یہ جبر اور استبداد اپنی نوعیت میں مختلف تو ہے، لیکن پہلے سے کئی گنا حد تک ہولناک اور وحشت ناک ہے، کہ پہلے نظاموں مثلاً غلام داری میں غلام کو خوراک، پوشاک، جائے پناہ اور شادی و بال بچے کی فکر تو نہیں تھی، جبکہ سرمایہ داری میں محنت کش طبقے سے وہ آسائشات بھی چھین لی گئی ہیں۔
آخر فلسفے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ فلسفے کا مقصد سچائی کو جاننا یا سچائی کی تلاش تھایہاں تک کہ، جن فلسفوں نے عام طور پر سچائی پر پردہ ڈالنے کا اور اس کو چھپانے کا کام بھی کیا انہوں نے بھی ایسا اس کو سچائی کی یا حقیقت ہی کی تلاش بتاتے ہوئے کیا، اور ان فلسفیوں نے بھی خود کو حقیقت کے متلاشی ہی کے روپ میں پیش کیا۔
لمبی تفاصیل اور بحثوں سے کتراتے ہوئے ہم یہاں ایک بیان پر اکتفا کرتے ہیں، کہ دنیا کے کسی آرٹ، کسی سائنس او رکسی فلسفے کا بنیادی ترین مقصد بہرحال انسان کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ تمام فنون، تمام علوم اور تمام فلسفے صرف اور صرف انسان کے لیے ہیں، اور انسان ہی سے متعلق ہیں، اور ان کا مقصد انسان ہی کی خواہشوں کی تکمیل کرنا ہے، یہ خواہشیں جسمانی ہوں یا روحانی، اس سے قطع نظر۔
لیکن حکمران طبقہ تمام آرٹس، تمام سائنسوں اور تمام فلسفوں کو اپنے ایک ہی مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا رہاہے، کہ اس کے مقبوضات پر اس کی ملکیت قائم رہے، اس ملکیت کو قائم رکھنے کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرتا رہا ہے۔ حکمران طبقے کے افراد اپنی ساری زندگیاں مال ودولت کے حصول کے لیے تگ و دو میں گزار دیتے ہیں، خواہ اس کے لیے ساری زندگی ان کو خاک چھاننی پڑے، تخت پر بیٹھنا پڑے یا تختے پر چڑھنا پڑے، لیکن مقصد وہی ہے، نجی ملکیت اور اپنے اقتدار کا تحفظ۔ اس نجی ملکیت کے اور اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ہزارہا سال سے اس چھوٹی سی اقلیت نے بنی نوعِ انسان کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ فلسفے میں سوچنے والے جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں، کہ جب ہم سب ایک جیسے پیدا ہوتے ہیں، تو ہمارے حقوق ایک جیسے کیوں نہیں۔ اس طرح گہرائی میں سوچنا استحصال کی نشاندہی تک پہنچا دیتا تھا۔ دنیا کے تمام بڑے ادیب اور فلسفی اس نتیجے پر پہنچے اور انہوں نے عدل کے حق میں اور ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف لکھا۔ہزاروں سال پرانے ادیبوں کی چیزیں پڑھ کر اس مظہر کو دیکھا جا سکتا ہے۔
”پرومیتھیوس پابستہ“ ایسکِلسؔ نے ڈھائی ہزار سال پہلے لکھا تھا۔ اس کو آج پڑھ کر دیکھیں تو یوں لگتا ہے گویا آج ہی کسی نے آج ہی کے محنت کشوں کی حالتِ زار پر لکھا ہے۔
یوں عمومی طور پر، تمام فلسفے اور ادب انسان ہی کی فلاح کے لیے کام کرتے رہے، ماسوائے ان چند کے جن کو حکمرانوں نے اپنے لیے بطورِ خاص گھڑوایا۔ لیکن وہاں بھی یہ چیز ضرور تھی، کہ حکمران طبقہ صرف خود کو انسان ہونے کا درجہ دیتا تھا، اور لکھنے والا ادیب یا فلسفی بھی خود کو ہی انسان باور کرتے ہوئے اپنی فلاح کر رہا ہوتا تھا۔
فلسفے کا خاتمہ
ہزاروں سال تک یہ کش مکش جاری رہی۔ سچ اور جھوٹ کا یہ یُدھ کسی دور میں، اور کسی جگہ پر نہیں رُکا۔ ہمیں دنیا کے ہر خطے میں فلسفے، حکائتیں، داستانیں، شاعری اور کہاوتیں ملتی ہیں۔ بعض جگہوں پر فلسفے نے بڑی شاندار ترقی کی جیسے یونانی فلسفے کو دیکھا جا سکتا ہے، اور نشاۃ ثانیہ کے دور کے بعد انگلستان، فرانس، اٹلی، ہالینڈ اور سب سے بڑھ کر جرمنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس میں قابل غور بات یہ ہے، کہ فلسفے کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس میں موجود بہت سی شاخیں علیحدہ ہوتی گئیں۔ بہت سے علوم نے خود مختاری سے اپنا کام شروع کر دیا۔ دنیا پر غور کرنے کا کام دنیا کے مشاہدے اور تجربے کے نزدیک ہوتا چلا گیا۔ جس قدر ان علوم کا دامن نئی معلومات سے لبریز ہوتا گیا اتنا ہی فلسفہ بھی آگے بڑھتا گیا۔ اس تاریخ میں دھیرے دھیرے ایسا مقام آیا جہاں فلسفے کے اٹھائے ہوئے سب سے بڑے سوالوں کے جواب دے دیے گئے۔ کم از کم فلسفے کی حد تک یہ بات درست تھی۔ جس کے سب سے بڑے سوالوں کا جواب مارکس تک آتے آتے دیا جا چکا تھا۔ اسی لیے مارکس نے اپنے فیوئرباخ پر سب سے مشہور گیارھویں تھیسس میں لکھا ہے کہ ”اب تک فلسفیوں نے مختلف طرز سے دنیاکی تشریح کر دی ہے، اصل کام اس کو تبدیل کرنا ہے“۔
اس تھیسس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ان تمام مارکس دشمن عینیت پرستوں کی ان کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھیسس لے کر ان کی عینیت پرستانہ تشریح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس میں صاف اور واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ ]فلسفے کے ذریعے جتنا ممکن تھا[ دنیا کی تشریح ہو چکی ہے اب ]فلسفے کے ذریعے بھی[ اصل کام دنیا کو تبدیل کرنا ہے۔اور مارکس کی دیگر زندگی کو اور اس کے کیے گئے تمام کام کو نظر میں رکھتے ہوئے اس کی اس بات کے علاوہ کوئی تشریح ممکن نہیں کہ دنیا کو تبدیل کرنے کا مطلب استحصال اور استحصالی نظام کا خاتمہ ہے۔
اس بات کا ہم جتنا بھی جائزہ لیں اس کے سوا کوئی مطلب نہیں نکلتا کہ دنیا کی تشریح کرنا اب فلسفے کا کام نہیں رہا۔ جب مارکس اینگلزؔ کہتے ہیں کہ ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!“ تو اس کا مفہوم یہی بنتا ہے کہ عالمی نظامِ استعمار کا مقابلہ یک مٹھ ہو کر محنت کشوں کو کرنا ہو گا۔ یہی فلسفہ ہے اور یہی اس کا اخیر ہے۔
البتہ خاتمے (End) کا معنی فلسفے میں تکمیل (Completion) کے بطور آتا ہے، بطورنابود ہو جانے (Termination) کے نہیں۔ یعنی کسی چیز کا اپنے مقصد کی تکمیل کر لینا یا وہ مقصد حاصل کر لینا۔ جیسا کہ ہمیں ارسطو کے فلسفے (میٹافزکس، ایتھکس، پوئٹکس وغیرہ) میں End کا مفہوم ملتا ہے۔
اینگلز نے بعد میں بھی متعدد مرتبہ یہ بات لکھی ہے کہ فلسفے کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن بطور ایک ایسے منطقہ کے جو دنیاکی یعنی فطرت کی اور تاریخ کی تشریح کیا کرتا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس خاتمے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آئندہ کی دنیا فلسفہ نہیں پڑھے گی، یا اس کو فلسفہ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس نے لکھا ہے کہ اب دنیا کی تشریح بہت سی سائنسیں کریں گی۔ مثال کے طور پر وہ دنیا جو کہ ہمارے خیالات سے باہر موجود ہے، جس کو جانا جاسکتا ہے، اس میں رُونما ہونے والے واقعات ’تاریخ‘ ہیں۔ اور تاریخ کی سائنس کسی کی پسند ناپسند یا داخلی خیالات پر مرتب نہیں ہو گی، بلکہ تاریخ جاننے کے لیے ان واقعات ہی کو دیکھنا ہو گاجو ہمارے ارد گرد رُونما ہو رہے ہیں۔ اسی طرح، مادی دنیا کو یا فطرت کو جاننے کے لیے بھی اسی مادی دنیا ہی کو دیکھنا ہو گا، نہ کہ کوئی ایسا نظریہ یا ایسا فلسفہ ہو جو ایک سمت مہیا کرے کہ فطرت کو ایسے دیکھا جائے۔ اس طرح دنیا کا یا فطرت کا مطالعہ بہت سی مختلف سائنسیں کھوج کر کے، معلومات اکٹھی کرکے کریں گی۔ موجود فلسفہ یعنی جدلیاتی مادیت دنیا کی تفہیم اور تشریح کے معاملے میں اپنی ضرورت کے مطابق، سوچ اور اس کے قوانین پر بات، ان تمام اصولوں کی روشنی میں کرے گاجو دیگر متعلقہ سائنسیں تجربے سے، مشاہدے سے اور یقینا سوچ سے4؎ تشکیل دیں گی۔ اس طرح ”صوری منطق اور جدلیات ابھی تک بقا پذیر ہیں“۔5؎
فلسفے کے خاتمے کا دوسرا مطلب ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ درست ہے بندہ سوچ کے قوانین پر سوچے اور مطالعہ کرے۔ لیکن جو مسائل ہمیں پیچیدگی میں سوچنے کی تربیت اور عادت کی وجہ سے اس دنیا میں نظر آئیں ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کو یا سماج کو درست انداز میں دیکھا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کو درست انداز میں دیکھنے کا طریقہ وہی ہے، جس انداز سے دنیا اور سماج چلتے ہیں، یعنی جدلیاتی۔ جدلیاتی انداز میں دنیا کو دیکھنا ہمیں تاریخ کی تفہیم کی جانب لے جاتا ہے، جس کو ہم ’تاریخی مادیت‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ ضروری ہے کہ تاریخ لفظ سے ہمارا تعارف ہو اور ہم اس کو انہی معنوں میں سمجھیں جن میں کہ ہیگل، مارکس اور اینگلز وغیرہ استعمال کرتے رہے ہیں۔ ولگر ماہرین تاریخ سے مراد کوئی ایسا علم لیتے ہیں، جو گزرے ہوئے واقعات کو مشہور لوگوں کی پیدائش کے حوالے سے یا ان کے کارہائے نمایاں کے حوالے سے جانتا ہے۔ لیکن اوپر جہاں ہم نے اینگلز کی اس بات کا مفہوم بیان کیا ہے جو اس نے اینٹی ڈوہرنگؔ اور لڈوگ فیوئر باخؔ والی کتاب میں کی ہے، وہاں تاریخ سے وہ والی تاریخ قطعاً مراد نہیں ہے، کہ اب سماج کو فلسفیانہ اندازمیں سمجھنے کی بجائے تاریخ کی ولگر کتابوں میں سے پڑھنا ہو گا۔ یہاں تاریخ کو جاننے کے لیے جدلیاتی مادیت کے مفہوم کو جاننا ہو گا۔ جس میں چیزوں کو ویسے ہی دیکھا جاتا ہے جیسی کہ وہ ہیں (مادیت) اور ان کو دوسری چیزوں سے تنہا کر کے، کاٹ کے نہیں دیکھا جاتا، اور ان کو اسی طرح وقت کے دھارے سے کاٹ کے محض ”اب“کی صورت میں نہیں دیکھا جاتا۔ کسی بھی چیز کو دنیا سے اور دوسری ہر چیز سے تعلق میں ماضی، حال اور مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جاتا ہے (جدلیات)۔ یہی اصول تاریخی مادیت میں کسی بھی واقعے کے متعلق ہو گا کہ کوئی بھی واقعہ خود اسی کی اپنی حرکت میں اور باقی دنیا، سماج اور واقعات کے تعلق میں متحرک عمل کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اس طرح، انسان سے تعلق رکھنے والی ہر چیز، ہر مظہر اور تمام عوامل تاریخی ہیں، خواہ وہ ماضی کے ہوں یا حال کے، اور یہ آنے والے وقت سے کٹے ہوئے نہیں ہیں بلکہ منسلک ہیں۔ آنے والا دور انہی واقعات میں سے جنم لیتا ہے، جو گزر چکے ہیں، اور جو وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ اس طرح سے تاریخی مادیت سماج سے کٹی ہوئی لیبارٹری میں یا سروے رپورٹس میں بند سائنس نہیں ہے، بلکہ دنیا میں ہونے والے واقعات کے فلسفیانہ اور ’سائنسی تجزیے‘ کا نام ہے۔ جو صرف تجزیے پر بات ختم نہیں کرتا بلکہ اس سے آگے جا کر دنیا کو تبدیل کرنے کی جانب پیش قدمی کی تحریک دیتا ہے۔
مارکس نے اپنے پڑھے ہوئے فلسفے کا اطلاق اپنے سامنے موجود سماج پر کیا ہے۔ اس نے پہلی انٹرنیشنل کی تعمیر کی۔ اس نے محض نعرہ نہیں دیا، کہ ساری دنیا کے محنت کش اکٹھے ہو جائیں بلکہ اس نے ان کو اکٹھا کرنے کی کاوشیں بھی کیں۔ ہم سے ہمارے نکتہ چیں پوچھتے ہیں کہ ”مارکس نے فلسفے میں کیا اضافہ کیا ہے“۔ ان کے علم میں یہ نہیں کہ اس نے فلسفے کو استعمال کرنا پہلی بار بتایا ہے، کہ دنیا کو تبدیل کرنے کے لیے موجود کو فلاسفائز کیا جائے اور اس کو سوادِ اعظم کے لیے پُرآسائش بنانے کے لیے ان لوگوں کو اکٹھا کر کے جدوجہد کی جائے جن کے لیے موجود دنیا یا سماج تکلیف دہ ہے۔ اس نے بے شک فلسفے کی موُشگافیوں پر بہت کچھ نہیں لکھا، لیکن اس نے اپنے سیکھے ہوئے فلسفے کو پہلی مرتبہ انسانیت کو دکھ اور تکلیف سے نجات دلانے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے موجود استحصالی نظام کا نہ صرف جائزہ فلسفے کے ذریعے لیا، بلکہ آئندہ کے لیے جائزہ لینے کا ایک شان والا طریق کار بھی وضع کر دیا (معیشتی اور فلسفیانہ مسودات، سیاسی معیشت پر تنقید اور سرمایہ وغیرہ)۔ اسی نے موجود سماج کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی پیشین گوئی کرنے کا سائنسی کلیہ انسان کو دیا جس کو آج ہم مارکسی تناظر کے نام سے جانتے ہیں۔ یقینا متحرک اوراپنے ہی اندر کی چیزوں (مظاہر اور عوامل) کے تعلقات میں بری طرح سے بندھی ہوئی دنیا کی سو فیصد پیش گوئی ممکن نہیں ہے، لیکن جدلیاتی اور تاریخی مادیت کا طریق کار جو کہ دنیا کو یا سماج کو دیکھتا ہی اس کی اپنی حرکت میں، اور اس کے اجزا کو مدنظر رکھتے ہوئے بطور کُل مشاہدہ کرتا ہے، اور کسی بھی چیز، مظہر یا عمل کو دنیا یا سماج کی باقی اشیا (مظاہر اور عوامل) سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھتا، اس لیے یہ ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کرنے کی ایسی سائنس بن جاتا ہے، جو کہ ولگر سماجی سائنسوں (یونیورٹیوں میں پڑھائے جانے والے دیگر سطحی علوم) کے مقابلے میں اعلیٰ درجے کی سچائی مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح، ہمیں لینن کا سماج کو سمجھنے اور اس کو تبدیل کرنے کے لیے کیا گیا فلسفے کا اطلاق دیگر کاموں کے علاوہ خاص طو رپر ”سامراج، سرمایہ داری کی آخری منزل“ اور ”ریاست اور انقلاب“ میں نظر آتا ہے، اور لیننؔ اور اس کے ساتھیوں نے اپنے دور کو کیسے تبدیل کر کے رکھ دیا اس پر نہ یہاں بحث کی گنجائش ہے اور نہ ہی یہ ایسی بات ہے، جس کو ہماری جانب سے دلائل کی ضرورت ہو۔
2۔ سائنس
یہاں تک ہم نے چند مسائل کاانتہائی مختصر سا جائزہ لیاہے جو فلسفے کی ابتداسے لے کر اب تک ہمیں نظر آتے ہیں۔ لیکن آج ہمیں بہت سے ایسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے جو کہ بیک وقت ”فلسفے“ اور ”سائنس“ کی جانب سے درپیش ہیں۔ وہ بھی ”جدیدیت“ کے نام پر۔ کہ ”جدید فلسفہ“، ”جدید سائنس“ اور یہاں تک کہ ”جدید مارکسزم“ بھی ہمارے سامنے ہے۔ فلسفے اور سائنس میں جدیدیت (اور مابعد جدیدیت اور اس سے آگے)کے یہ پرچارک آج ہر سُو دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ یونیورسٹیوں میں ہیں، بازار بکنے والی(اور نہ بکنے والی) کتابوں میں، سوشل میڈیا پر، جرائد، رسائل اور اخبارات میں اور بہت سی تقریبات میں۔ کبھی سائنس کے نام پر اور کبھی فلسفے کے نام پر یہ لوگ فلسفے کے اوپر بیان کردہ سفر سے جدید دور کے طلبہ کو بھٹکا کر واپس انہی دلدلوں میں پھنسانے کے چکر میں رہتے ہیں، جن سے نکل کر آنے کی داستان کو تاریخِ فلسفہ بیان کرتی ہے۔
ہم کوشش کرتے ہیں کہ انتہائی مختصر انداز میں ان کا ہلکا پھلکا جائزہ لیں، کیوں کہ یہ ”جدید“ کو اس طرح سے پیش کرتے ہیں گویا ہم مارکسسٹ دقیانوسیت کے حامی ہوں۔
ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ اردو میں ”فلسفے پر“ اور”سائنس پر“ لکھنے والے تقریباً تمام لوگ ہی مدرسانہ انداز میں لکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے، جس کا اپنا خود کا کوئی نظریہ ہو، یا وہ کسی بھی ایک فلسفے کا ماننے والا ہو۔ یہ لوگ ہر طرح کے فلسفے کو اپناتے ہیں۔ ہر نظریے کو اپناتے ہیں۔ اور دوسری طرف یہ کسی کو بھی رد کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ ان نظریات کو بھی رد کر دیتے ہیں جن کو سابقہ تحریر میں انہوں نے مانا ہوتا ہے۔ مقصد صرف ایک ہوتا ہے کہ کسی طرح سے مخبوط الحواسی پیدا کر دی جائے۔ ہر کوئی یہ سمجھے کہ ”فلسفے یا سائنس کو جانا نہیں جا سکتا۔ اس پر بات کرنا صرف چند خاص لوگوں کا کام ہے“۔
مدرسانہ طریقِ کار کی تباہ کاریاں
مدرسانہ طریقے کو پہچاننا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ جو لوگ اصلی فلسفے کا کوئی ایک پیرا بھی پڑھ لیتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح سے جان جاتے ہیں کہ فلسفہ دماغ کی ایک مشق کا نام ہے۔ اس کو پڑھنے والا مسلسل ایک مشقت سے گزرتا ہے۔ تقریباً اسی مشقت سے جس سے لکھنے والا گزرا تھا۔ یہ بات الگ ہے کہ فلسفے کو لکھنے والے نے اس مشقت کو خود پر جھیل کر پڑھنے والے کے لیے قدرے آسان کر دیا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے مدرسانہ طریقے سے ”فلسفہ“ لکھنے والے دوستوں کی تحریروں میں ”بتانے“ کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ ان کا طریق کار فرائرےؔ کے بتائے بینکنگ نظام والا ہوتا ہے۔ مکمل طور پر یکطرفہ اور مثبت۔ مثبت ان معنوں میں کہ جو ہم نے کہا ہے، درست ہے۔ ایسی تحریریں قاری کو مجہولِ محض مان کر لکھی جاتی ہیں اور اس کو مجہول بناتی بھی ہیں۔ اس میں لکھنے والا سمجھ دار ہے، پڑھنے والا ناسمجھ۔ لکھنے والا بتاتا ہے، پڑھنے والا مان لیتا ہے، اس کو یاد کر لیتا ہے۔ لکھنے والا فاعل ہے، پڑھنے والا مفعول ہے۔
”بتانے والے“ مدرسانہ میتھڈ کے زہر کا نوخیز ذہنوں پر چھڑکاؤ کرتے ہیں۔ ان کی پڑھی ہوئی کتابوں میں بہت سی تھیوریاں ہوتی ہیں۔ یہ سب تھیوریوں کو اس طرح سے ”بتاتے“ ہیں، گویا سب کی سب درست ہیں۔ اس طرح پڑھانے کو، لکھنے کو، بتانے کو یہ لوگ ”غیر جانب داری“، ”معروضیت“، ”سائنسی تجزیے“ وغیرہ کے پُر رعب ناموں سے ”بتاتے“ ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ طلبہ کو ”غیر جانب داری“ سے ”بتانا“ ہی استاد اپنا فرض سمجھتا ہو۔ لیکن استاد دیکھے کہ کیا وہ جو کچھ بتاتا ہے، وہ سب کچھ غیر جانب دار ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے، تو جانب دار علم کو ”غیر جانبداری“ سے بتا دینا کیا بجائے خود جانب دارانہ اقدام نہیں؟
اس میتھڈ سے تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کے سامنے بات بھی اپنے سیکھے ہوئے طریقے ہی سے رکھتے ہیں۔ خطاب کرنے والے اور لکھنے والے کی گویا ہر بات ناقابلِ سوال ہے۔ طالب علم سوال کر سکتا ہے۔ لیکن اس کو جواب مل جائے گا۔ اگر وہ جواب پر سوال کرنا چاہے تو اس کو اجازت نہیں ہے۔ یہ ہمارا تعلیمی طریق کار ہے۔ اس کے برعکس ہم مارکسسٹوں کی تعلیم گاہیں ہمارے سٹڈی سرکلز ہیں، جہاں کوئی چیز مقدس نہیں، اور کوئی چیز حرفِ آخر نہیں۔ کوئی استاد ایسا نہیں جس کو سوال نہیں کیا جا سکتا اور جس کی بات کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے سٹڈی سرکلوں میں سچائی کو غلط، نادرست اور جھوٹ سے الگ کر کے دکھانا نہ صرف ہر استاد کی ذمہ داری ہے، بلکہ ہر طالب علم کی بھی۔ جس کے ذہن میں کوئی سوال ہے، پوچھے گا، جس کے ذہن میں کومنٹ ہے، کرے گا۔ کیوں کہ مارکسی تعلیم میں دیانتداری کا تقاضا یہی ہے۔ ان سٹڈی سرکلوں میں کسی کے متعلق یہ تاثر نہیں ہوتا کہ اس کو علم نہیں، اور کوئی ایسا نہیں ہوتا جو سب کچھ جانتا ہے۔ ہر کوئی سیکھتا ہے، اور ہر کوئی سکھاتا ہے۔
مدرسانہ طریقے سے سکھانے والے یا لکھنے والے بہت سی چیزوں پر لکھتے یا بولتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ان چیزوں کا آپسی موازنہ نہیں کرتے، نہ ہی کسی ایک کا فلسفیانہ جائزہ لیتے ہیں۔ ان کی تعلیم میں ”بتانے“ ہی کا عنصر حاوی رہتا ہے۔ جس طرح ٹی وی کے مذاکروں کے شرکاء حقائق کے مقابلے میں حقائق پیش کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ سب کچھ دھندلا جاتا ہے۔ یہی کچھ یہ مدرسانہ طریق کے ”دانشور“ کرتے ہیں۔ تھیوریوں پر تھیوریاں پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی بھی بات بتانے لگیں اقتباسات کی بوچھاڑ کر دیں گے۔ ”یہ ہے، یہ ہے، یہ بھی ہے، یہ بھی ہے۔“ اس کو فلسفے کی اصطلاح میں ”تشکیک“ (Skepticism) کہا جاتا ہے۔ ایسی تشکیک جس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بالآخر بندہ ہر چیز کو جھوٹ سمجھنے لگتا ہے، ہر شے، حتیٰ کہ پوری دنیا بے معنی نظر آنے لگتی ہے۔ اور یہی ان کا، اور ظاہر ہے ان کے آقاؤں کا بھی مقصد ہے۔
ان سے بات کریں، مکالمہ کرلیں۔ موضوع کچھ بھی ہو۔ یہ فلسفیوں کا لکھا بتانا شروع کر دیں گے۔ تھیوریاں (یاد کی ہوئی) آنکھیں بند کر کے سنانا شروع کر دیں گے۔ رٹی ہوئی تعریفیں۔ اور فلسفیوں کے ناموں کی بارش۔ فلاں نے یہ لکھا، اور فلاں نے یہ۔ مخالفت کرنی ہے تو موضوع کے خلاف فلسفیوں کے فرمان سنانا شروع کر دیں گے۔ اور اگر مخالفت نہیں کرنی تو موضوع کے حق میں فلسفیوں کے فرمودات ان کی پوٹلی سے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان سے بس اتنا پوچھیں کہ آپ کس کو درست مانتے ہیں، تو مختلف اوقات میں ان کے مختلف جوابات ملیں گے۔ اس کو یہ لوگ مابعد جدیدیت کہتے ہیں۔
اگر ان سے پوچھ لیا جائے کہ آپ اتنے ناموں اور اقتباسات کے بوجھ تلے مخاطب کو دبانے کی بجائے اپنی رائے کا اظہار کر دیں۔ تو مجھے ایک صاحب سے یادگار جواب ملا تھا، ”کہ ایسا کرنے سے معروضیت، جو جدید سائنس کا تقاضا ہے، متاثر ہوتی ہے“۔
ایسے لوگ مارکسزم اور مادی فلسفے کے متعلق یوں بات کرتے ہیں گویا جدید سائنس مارکسزم یا مادیت سے بُعد میں ہے، یا ا س کو رد کرتی ہے۔
کیا جدید سائنس مارکسی مادیت کو رد کرتی ہے؟
اپنے طور پر اپنی بات (نظریے، سوچ، فلسفے) کو درست قرار دے دینا فلسفیانہ طریق کار بہرحال نہیں ہے۔ سچائی کے حصول کی خاطر دوسرے لوگوں کی، نظریاتی مخالفین کی یا دیگر نظریات رکھنے والے لوگوں کی باتوں کے ساتھ اپنے نظریات کو ٹکرانے کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے، اور رہے گی۔ ہم بھی یہ کام مسلسل صبر سے اور مستقل مزاجی سے کرتے چلے آ رہے ہیں، اور آگے بھی کرتے رہنا ہو گا۔ ان کی باتوں کو محض یہ کہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ہمارے نظریے کے خلاف ہیں، اس کے برخلاف ان کی باتوں (نظریات، فلسفے) کا جائزہ لینا ہو گا۔
ہمارے اردگرد بہت سی آراء ہمیں ایسی نظر آتی ہیں، جو کہ پچھلے سب نظریات اور فلسفے کو یہ کہ کر رد کرنے کا کہتی ہیں کہ ”وہ پرانے ہو چکے ہیں اور یہ ایک نئی بات ہے“۔ ظاہر ہے کوئی مارکسسٹ کسی نئی بات کا مخالف صرف اس لیے تو نہیں ہو سکتا کہ وہ بات نئی ہے، یا وہ بات اس کے نظریے سے ٹکراتی ہے۔ مارکسسٹوں کے لیے کسی ”نئی بات“ کی پرکھ مندرجہ ذیل طریقے سے ہو سکتی ہے:
آیا کہ وہ نئی بات سچ ہے؟
آیا کہ وہ نئی بات انسان دوست(عوام دوست ہے۔ محکوم طبقے کی مخالفت میں تو نہیں)ہے؟
آیا کہ وہ نئی بات سائنسی ہے، کسی کی محض رائے تو نہیں؟
آیا کہ وہ نئی بات منطقی ہے، دلائل اور شواہد کے تقاضے پورے کرتی ہے؟
اگر ایسا نہیں ہے، تو اس بات پر بحث کرنا ہو گی اور مخالفت تو ہو گی ہی۔
ہمارے ارد گرد ہر روز بہت کچھ ”جدید“ کے نام پر پیش کیا جاتا ہے۔ فلسفے اور سائنس کے نام پر۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ قدیم اور جدید میں ارتقا تسلسل میں ہونے کے باوجود بہت سی ایسی جگہوں سے گزرا ہے، جہاں اس کو ”معیاری جستیں“لگی ہیں جس کی وجہ سے وہ چیز جس پر بات کی جا رہی ہے، پہلے سے یکسر مختلف ہو جاتی ہے، خواہ وہ فلسفہ ہے، یا سائنس۔ لیکن یہ باور کرنا کہ جدید میں قدیم رہا ہی نہیں، یا پھر قدیم کو محض ’رد کر دیا گیا‘ باور کر لینا درست نہیں ہے۔ چند مثالیں دیکھ کر وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(الف) منطقی مغالطے
مثلاً آج دنیا ایٹم کے نظریے میں ڈیما کریٹسؔ کے نظریے سے بہت آگے آ چکی ہے۔ ڈیماکریٹسؔ جس چیز کو بطور ایٹم پیش کرتا تھا، وہ آج کے نظریے کے مطابق جرثومے کے مقابلے ہاتھی کو لانے سے بھی مختلف ہوں گے۔ لیکن اس کی سوچ کو غلط قرار دینا ابھی ممکن نہیں ہو ا۔ اس نے سب سے چھوٹے ذرے کو ایٹم کہا تھا، نہ کہ اُس ایٹم کو ایٹم کہا تھا، جس کو ہم بطور ایٹم جانتے ہیں، کیوں کہ اس کے بیان کیے گئے ایٹم کا مطلب ہی ”ناقابلِ تقسیم“ تھا، جس کو توڑنا ممکن نہیں تھا، اگر ہم نے ایک ذرے کا نام ایٹم رکھا اور بعد میں اس کو توڑ دیا تو یہ ڈیماکریٹسؔ کے مادی نظریے کی شکست نہیں ہوئی، بلکہ ہم بھوسے کے آدمی (Straw Man Fallacy) والے منطقی مغالطے کا شکار ہو گئے ہیں، جس میں خود ہی گھاس پھونس کا ایک پتلا بنا دیا جاتا ہے، اور پھر اس کو آگ لگا دی جاتی ہے۔
اس مثال میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سوائے اس کے کچھ ثابت نہیں ہوتا کہ ڈیماکریٹسؔ کی سائنس کی شکست ہو چکی ہے، سائنس اس کے نظریے کو خود میں سمو کر بہت آگے جا چکی ہے، خود میں سمونے کا ثبوت’سائنس کے مانے ہوئے ”ایٹم“ کو ”ایٹم“ کے نام سے موسوم کرنا ہے۔ لیکن ڈیماکریٹس ؔکے فلسفے کی شکست ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی، کیوں کہ جس چیز کو اس نے ناقابل تقسیم قرار دیا تھا، وہ ہر بار اس معلوم ذرے سے چھوٹا ذرہ قرار پائے گی، جس کو ہم بطور ”ناقابلِ تقسیم“ کے مان لیتے ہیں۔ بہرحال، یہ مثال دینے سے ہمارا مقصد ڈیماکریٹسؔ کے کسی فلسفے کا دفاع وغیرہ ہرگز نہیں تھا، بلکہ بہت سی ایسی باتوں کی جانب اشارہ تھا جو کہ اسی طرز سے کی جا رہی ہیں۔
دوسری مثال ہم مادے کی لیے لیتے ہیں۔ مادے کی بحث بھی ڈیماکریٹس کے دور سے پہلے کی چلتی آ رہی ہے۔ ہم تک پہنچتے پہنچتے یہ بے شمار شکلیں تبدیل کر چکی ہے۔ جہاں ساری دنیا کے نہ صرف عام انسان بشمول موضوعی عینیت پرست فلسفیوں کے، اپنے روزمرہ کے تمام کام اس حقیقت کو مان کر کرتے پائے جاتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد موجود مادی دنیا کا ہماری سوچ سے باہر وجود ہے، بلکہ تمام طبعی اور فطرتی سائنسیں بھی یہی مان کر اپنی تحقیقات کے دائرے کو وسیع تر کرتی چلی جا رہی ہیں کہ ہمارے گرد دنیا حقیقت ہے، اس پر کام ہو سکتا ہے، اس کو مسلسل جانا جا رہا ہے، اور اس پر کام کرتے ہوئے اس کو اپنے کام میں استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے انسان کی سہولیات کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے، وہیں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کہ مسلسل یاد کیا ہواایک ہی پہاڑا سنانے میں مصروف ہیں کہ ہمارے گرد موجود دنیا کی حقیقت ’غیر مادی‘ ہے۔ یاد رہے کہ یہ باتیں کوئی جاہل یا سنکی انسان نہیں کر رہے بلکہ یونیورسٹیوں کے پروفیسر، ”فلسفی“، ”دانش ور“، شاعر اور ادیب لوگ کرتے پائے جا رہے ہیں۔ شاید عام عوام سے مخالفت میں اپنی سوچ دکھا کر کسی طور ان کی انا کی تسکین ہوتی ہو کہ ”دیکھا ہم ان سے الگ سوچ کے مالک ہیں، ہم ان میں سے نہیں ہیں، ہم کوئی خاص صلاحیتوں کے حامل چنے ہوئے لوگ ہیں“ وغیرہ۔ یعنی ایسی چیزیں ہمیں آئے دن پڑھنے کو، اور ایسی بحثیں سننے کو ملتی ہیں۔
ہمارے سامنے فلسفے کے تمام بنیادی سوال حل ہو چکے ہیں، لیکن آگے جانے کی بجائے یہ دوبارہ سے گھوم پھر کر پھر اسی جگہ آ جاتے ہیں، یعنی یہ کہ ”مادہ نہیں ہے“، ”ہے تو اس کو جانا نہیں جا سکتا“ وغیرہ۔ اصل میں اس سوال کو ختم نہ ہونے دینایا اپنی جگہ سے آگے نہ جانا محض جہالت کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ ’سٹیٹس کو‘ کو قائم رکھنے کی کاوش ہے۔ کیوں کہ فلسفے میں آگے جانے کے لیے جو کچھ ہو چکا ہے، اس کو جاننا ضروری ہے، جو کہ ہمت والا، صبر آزما، حوصلے اور مستقل مزاجی سے کرنے والا کام ہے، جب کہ محض انکار کر دینا انتہائی آسان کام ہے۔
ہم یہاں اس بات پر کوئی لمبی چوڑی بحث نہیں رکھیں گے۔ صرف یہ بات بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی باتیں، ان کے سوال کوئی جدید نہیں ہیں۔ ان کی ان باتوں کے جواب تاریخ میں مسلسل دیے جاتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مارکسؔ، اینگلزؔ اور لیننؔ نے بھی ان کے جواب دیے ہیں۔
اور جن حالات میں اینگلزؔ کو اور بعد ازاں لینن کو جواب دینے پڑے، یعنی فطرتی سائنس میں کسی پیش قدمی سے عینیت پرستوں کا شور مچانا کہ ”اب تو مادے کا خاتمہ ہو چکا ہے“، اسی جیسے حالات یہ دوبارہ سامنے لے آتے ہیں۔
مسئلہ یہ کبھی نہ ہوتا اگر ان کی باتیں مکمل سائنسی ہوتیں، یا مکمل مابعدالطبعیاتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ جدید سائنس کو لے کر اس پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں، اور اس کے ذریعے گھاس پھونس کا ایک بڑا سا مادیت پسندی کا دیو ہیکل پتلا بناتے ہیں۔ پھر اس خشک گھاس کو آگ دکھا دی جاتی ہے، جس کے شعلے آسمان تک جاتے ہیں، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ”مادیت“ کی راکھ پڑی ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں نظر آ رہا ہوتا ہے کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ فطرتی سائنس کو لے کر کئی سارے حقائق بیان کیے جاتے ہیں، اس کے بعد ان بیان کی گئی سچائیوں میں اپنا ایک جھوٹ شامل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے جھوٹوں پر، اگر عمومیت میں بات کریں تو منطقی مغالطوں میں انہیں ”نتیجہ غیر متعلق“ میں خاص طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جس میں کسی بھی بات سے اپنی مرضی کا نتیجہ نکال لیا جاتا ہے۔
(ب) فزکس کے مادے اور فلسفے کے مادے میں فرق
اس بات پر روشنی ڈالنے کے لیے ہم مادے ہی کی مثال کو لے کر پہلی مثال سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ مادہ کیا ہے؟ فلسفیوں نے کس چیز کو مادہ کہا ہے۔ ”آج سے ڈھائی ہزار سال قبل کے ایک ہندوستانی فلسفی کَپِل کا کہنا تھا کہ: کوئی شئے فانی نہیں ہے۔ اس کے باوجود کوئی شئے عدم سے پیدا نہیں ہوتی، وہ دوسری ختم شدہ اشیا سے پیدا ہوتی ہے کیوں کہ جب اشیا ختم ہو جاتی ہیں تو وہ سرے سے ہی غائب نہیں ہو جاتیں بلکہ ایسے مواد میں تبدیل ہو جاتی ہیں جس سے دوسری اشیا بنتی ہیں۔۔۔
۔۔۔ ڈیما کریٹسؔ جس کی ہم اوپر بات کر کے آئے ہیں، اس کی بتائی گئی مادے کی تعریف دیکھیں تو:
1۔ مادہ حقیقی ہے اور ہمارے شعور سے باہر اور آزاد وجود رکھتا ہے۔
2۔ مادہ ہم میں احساسات پیدا کرتا ہے۔
3۔ احساسات اور تصورات مادے کے نقوش یا عکس ہوتے ہیں۔
4۔ مادے کی بعض طبعیاتی خصوصیات ہوتی ہیں اور یہ وہ مواد ہے جس سے تمام اشیا بنتی ہیں، وہ فطرت کا اولین اصول ہے۔
5۔ مادہ ناقابل تغیر ہے: ایٹم ہمیشہ سے ایسے ہی رہے ہیں جیسے کہ وہ ہیں اور ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔“ 6؎
کپلؔ اور ڈیماکریٹس کی بات ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔ اب ہم فلسفیانہ مادیت کی جدید ترین تعریف کے طور پر لیننؔ کی تعریف دیکھ لیتے ہیں:
1۔ مادہ وہ ہے جو شعور سے باہر اور آزادانہ وجود رکھتا ہے۔
2۔ مادہ وہ ہے جو ہمارے اندر احساسات پیدا کرتا ہے۔
3۔ مادہ وہ ہے جسے ہمارے احساسات اور شعور عام طور سے منعکس کرتے ہیں۔ 7؎
ان دونوں تعریفوں کو دیکھیں تو ایک جیسی ہیں۔ البتہ لیننؔمادے کی واحد خصوصیت ”اس کے معروضی ہونے کو، یا ہمارے شعور سے باہر آزاد وجود رکھنے کو مانتا ہے۔ کیوں کہ بہت سی شکلوں میں مادہ ہمارے اندر احساسات پیدا نہیں کرتا۔ مثلاً بالائے بنفشی شعائیں“ وغیرہ۔8؎
لیکن ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے عینیت پرست دوست اس ”مادے“ کو ”فلسفیانہ مادہ“ مان کر تنقیدی نشتر چلانے آئے ہیں، جس کو فزکس نے مادہ کہا ہے۔ ”ہر وہ چیز جو جگہ گھیرتی ہے، اور وزن رکھتی ہے“۔ اس کے بعد وہ ”اس مادے“ کو مادے کی بجائے کمیت بتاتے ہیں، پھر کمیت کو توانائی کی ایک قسم، اس کے بعد زیادہ مقدار میں ڈارک انرجی(Dark Energy) اور ڈارک میٹر(Dark Matter) اور جانے کیا کیا۔ ہم اس کی تفصیل میں جان بوجھ کر نہیں جا رہے، کیوں کہ اس کی جتنی مرضی تفصیل کر لیں، یہ لوگ اس کے معروضی ہونے کی حقیقت کونہیں جھٹلا رہے۔ یا اس کو محض ہماری سوچ کی پیداوار ہونے کی بات نہیں کر رہے۔ تو اس کا نام کچھ ہی رکھ لیں، کیوں کہ یہ ہماری سوچ سے باہر آزاد وجود رکھتا ہے، اس لیے ہمیں اس پر بحث کرنا بے فائدہ ہے۔ اس کا نام ڈارک میٹر اور میٹر، انرجی اور ڈارک انرجی، یا کچھ بھی رکھیں، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ہماری بیان کی گئی تینوں باتوں سے صرف ایک بات ثابت ہوتی ہے، کہ ہمارے خیالات سے باہر کچھ ایسا ہے جو کہ وجود رکھتا ہے، ہم اس کو مادہ کہتے ہیں۔ آپ وقتی طور پر کسی چیز کا نام مادہ رکھ کر اسے اڑا دینے کا دعویٰ اگر ثابت بھی کر دیں تو بھی ہمارے دعوے کو اس سے کسی قسم کی زک نہیں پہنچتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ جو بظاہر ”مادہ نہیں ہے“ اس کا کیا؟
لیننؔ کے مطابق نہ صرف مادہ معروضی وجود رکھتا ہے، بلکہ وہ جو معروضی وجود رکھتا ہے، بھی مادہ ہے۔ 9؎
یعنی جن چیزوں کے بارے میں ہم سوچتے ہیں سبھی مادہ ہیں۔ تمام خوابو ں کی جڑیں ارضی ہیں۔ خوشی بے شک غیر مادی ہے، لیکن خوشی کی حقیقت مادی ہے۔ خوشی مادے اور انسانی عمل کے نتیجے کی پیداوار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ”ہمیں لگے گا کہ سایہ مادہ نہیں ہے، لیکن اس کی حقیقت بھی مادی ہے۔ روشنی اور اس کا ماخذ، چیز جس کا سایہ ہے، وہ جگہ جس پر سایہ پڑ رہا ہے، تینوں ٹھوس مادی حقیقتیں ہیں۔ یہاں تک کہ جیب میں پیسے کا ہونا ایک اٹل حقیقت ہے، لیکن جیب میں پیسے کا نہ ہونا اس سے زیادہ بڑی اور تلخ حقیقت ہوتی ہے۔ کیوں کہ پیسے کا جیب میں نہ ہونا اس بات کا اظہار تو بہرحال ہے، کہ پیسے کا کہیں پر مادی طور پر وجود ہے، جس کا اظہار ہماری خالی جیب ہے۔“ 10؎
لفظ حقیقت ایک چال بازی کے طور پر بھی برتا جاتا ہے اور محض عینیت پرستی کی تبلیغ کے لیے بھی۔ جب کوئی کہے کہ دنیا کی حقیقت غیر مادی ہے، تو کوئی یہ کہہ سکتا ہے، کہ بات ”حقیقت“ کی ہو رہی ہے۔ مثلاً میز مادی ہے، اور اس کی حقیقت یعنی اس کا میز ہونا، غیر مادی ہے۔ ورنہ میز تو مادی لحاظ سے لکڑی ہی ہے۔ لیکن اس کے میز ہونے کی حقیقت کا تعلق چوں کہ خیال ہے اس لیے یہ غیر مادی ہے۔ اگر اس طرح کہیں گے تو وقتی طور پر شاید ہم مان بھی لیں۔ لیکن باوجود اس کے کہ خیال مادہ نہیں ہے، خیالات غیر مادی بھی نہیں ہو سکتے۔ یعنی کوئی بھی خیال یا تصور کسی مادی چیز سے وابستہ ہی ہو گا، خواہ وہ یونی کارن یا جل پری جیسی خیالی مخلوق ہی کا کیوں نہ ہو۔ اور یہاں ہمیں ایک اور بات ذہن میں رکھنا پڑتی ہے وہ یہ کہ مادے اور مادی کا فرق بہرحال ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ کمیت یا انرجی تو مادہ ہوگی ہی لیکن اس سے متعلق خیال بے شک مادہ نہ ہو لیکن مادی ہو گا۔ یعنی مادے سے متعلق۔ جیسے گولڈ اور گولڈن میں فرق ہے اس طرح۔۔۔ سونا تو نہیں، لیکن سنہری۔ اس طرح بعض اوقات جن چیزوں کو مادی، یا مادی حقیقت کہا جاتا ہے، وہ مادہ نہ ہونے کے باوجود مادے سے متعلق ہوتی ہیں۔ جیسے اس دنیا کی”حقیقت“ اپنے انتہائی مخصوص معنوں میں، تصور ہونے کی وجہ سے مادہ نہ ہو،لیکن مادی بہرحال ہو گی کیوں کہ دنیا جو کہ مادہ ہے، اس سے متعلق ہے۔
یہ بھی وہی بات ہے کہ جس مادے کو کمیت(Mass) بتا کر یہ لوگ رد کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، وہ بلاشبہ مادہ ہی ہے، لیکن یہ لوگ جن چیزوں کو دیگر نام جیسے انرجی، ڈارک میٹر، ڈارک انرجی وغیرہ دیتے ہوئے غیر مادی تصور کر کے مادے کی جگہ دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، ان کی کُلیت ہی کو فلسفے میں مادہ کہا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ارسطو کی مابعدالطبعیات میں بھی مادہ اس کو ہی کہا گیا ہے جس سے کہ چیزیں بنی ہیں، یہ کائنات بنی ہے۔ اب فزکس نے کیوں کہ جاننے کے عمل کے لیے چیزوں کو توڑنا تھا، اس لیے اس نے ”مادے“ (یونانی فلسفے والے) کو توڑ کر ان چیزوں کو مادہ کہا جو کہ اس کی بیان کردہ تین (اور بعد ازاں چار) حالتوں میں آتی ہیں۔ بعد میں اگر فزکس کو ایسی اور چیزیں مل بھی جائیں جو کہ اس کی پہلے سے بتائے مادے کے علاوہ موجود ہوں، جس پر کہ کائنات کی چیزیں مشتمل ہوتی ہیں، تو شاید وہ فزکس والے مادے کی محدود (جاننے کے لیے محدود کرنا یا تعریف کرنا ضروری عمل ہے) تعریف سے باہر نکل جائیں، لیکن اس سے فلسفے کے بتائے ہوئے مادے کو کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ جو کچھ بھی ہو گا، اسے فلسفے میں مادہ ہی مانا جائے گا جیسا کہ ہم اوپر دیکھ آئے ہیں۔ اینگلزؔ نے لکھ دیا تھا کہ ”دنیا کی مادیت چند فقروں کی جادوگری سے نہیں بلکہ فلسفے اور فطرتی سائنسوں کے طویل اور پیچیدہ ارتقا سے ثابت ہوتی ہے۔“
3۔ جدید فلسفہ
ہم نے دیکھا ہے کہ دنیا کی تشریح کا کام اب فلسفے کی بجائے بہت سی سائنسوں نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ ویسے ہی سماج پر ہونے والے بہت سے کام بھی سماجی سائنسوں نے اٹھا لیے ہیں۔ اس کے باوجود مارکس اور مارکسسٹ استادوں کی لگائی ہوئی چوٹ کا اثر اور خوف انسان دشمن فلسفوں کو پھیلانے والوں پر موجود ہے۔ مارکس کے بعدکے ”جدید فلسفوں“ اور ان کے گھڑنے والے فلسفیوں کی تاریخ میرے خیال میں اس سے کم ضخامت کی حامل نہیں ہو گی جتنی کہ مارکس سے پہلے کے تمام انسانی تاریخ میں موجود فلسفے کی تاریخ۔ ہر سال دو سال بعد ایک ”نیا“ فلسفہ آتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مارکسزم کے نام پر بھی کئی فلسفے گھڑ کر اتار دیے گئے ہیں کہ یہ فلاں مارکسزم ہے اور یہ فلاں والا۔
ان فلسفوں پر تفصیل سے بات کرنا یہاں ممکن نہیں، لیکن چند سوال ہیں جو کہ مارکس کے بعد کے کسی بھی فلسفے کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں آتے ہیں۔ ان کو دیکھ لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔ یہ سوال عین فلسفیانہ ہیں، سائنسی ہیں۔ ان پر کسی کو اعتراض ہونا تو نہیں چاہیے کہ یہ سوال کیوں پوچھے جا رہے ہیں۔
یہ چار سوال ہیں جو کہ مارکس کے بعد کے کسی بھی ایسے فلسفے کو جاننے کے لیے پوچھے جا سکتے ہیں، جو اس بات کا دعوے دار ہو کہ اس نے پچھلے فلسفوں کا خاتمہ کر کے ان کی جگہ لے لی ہے۔ مثال کے طور پر عملیت یا نتائجیت (Pragmatism)، منطقی ثبوتیت (Logical Positivism)، وجودیت (Existentialism) یا مابعد جدیدیت (Postmodernism) کو لیا جا سکتا ہے۔ جب بھی کوئی ایسا نیا فلسفہ دیکھیں تو مندرجہ ذیل چار سوال ذہن میں رکھ کر ان کا جائزہ لیں، ان چار سوالوں پر یہاں ہم انتہائی مختصر بات کریں گے:
i) کیا یہ ”جدید فلسفہ“ واقعی جدید ہے؟
ویسے تو محض جدید ہونا سچے ہونے کی یا اچھائی کی دلیل کسی طرح نہیں ہو سکتی۔ پھر بھی ہم کسی بھی جدید فلسفے کو لے کر اس کا جائزہ لے سکتے ہیں آیا کہ یہ واقعی جدید ہے بھی یا نہیں۔ ہم نے پہلے کانٹ والی تحریر میں اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ فلسفوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک وہ جو کہتے ہیں کہ مادی یا معروضی دنیا کا وجود ہی نہیں ہے لہٰذا اس کے جانے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا (تجربیت پسند برکلے۔ عقلیت پسند ڈیکارٹ۔ موضوعی عینیت پرست)، دوسرے وہ جو کہتے ہیں کہ مادی دنیا کا وجود تو ہے، مگر جانی نہیں جا سکتی (بہت سے مابعدالطبعیاتی اور مکینیکل مادیت پسند اور موضوعی عینیت پرست)، تیسرے وہ جو کہ مادی دنیا کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اس کو جانا بھی جا سکتا ہے(معروضی عینیت پسند اور جدلیاتی مادیت پسند)،تمام فلسفے انہی تین اقسام میں آ جاتے ہیں۔ مادیت پسند بھی اور عینیت پرست بھی۔
یہاں صرف اتنا بتا دینا کافی ہے کہ ”جدید“ فلسفے ہیگل کی معروضی عینیت پسندی، اور مارکس اینگلزؔ کی جدلیاتی مادیت کے بعد آئے ہیں، لیکن ان کا سارا زور ان دو باتوں پر ہے، جو کہ برکلےؔ نے کی ہیں، یا پھر جو کانٹؔ نے کی ہیں۔ یعنی یا تو یہ دنیا ہے ہی نہیں اور یا پھر اگر یہ ہے بھی، تو بھی یہ جانی نہیں جا سکتی۔ فلسفے کی تاریخ میں تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے ایک یونانی فلسفی گورگیاسؔ گزرا ہے۔ اس کا فلسفہ چار باتوں پر مشتمل تھا۔ پہلی یہ کہ ”کسی چیز کا وجود نہیں ہے“، دوسری یہ کہ ”اگر کسی چیز کا وجود ہو بھی جائے تو بھی اس کے متعلق کچھ بھی جانا نہیں جا سکتا“، تیسری بات یہ کہ ”چلیں اگر کسی کو اس چیز کے بارے کچھ علم ہو بھی جاتا ہے، تو بھی وہ اسے آگے کسی کو یہ بات نہیں پہنچا سکتا“، اور چوتھی بات یہ تھی کہ”اگر وہ بات کسی اور تک پہنچا بھی دی جاتی ہے، تو وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا“۔
اس طرح جب ان ”جدید“ فلسفوں کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہم پر یہ کھُل جاتا ہے کہ جدید فلسفوں کا منشا گورگیاسؔ سے مختلف نہیں، اپنے میتھڈ کو یہ کانٹ سے آگے نہیں لے کر جاتے بلکہ کانٹ ہی کے دلائل پکڑ کر ہیگل، مارکس، اینگلزؔ اور لینن وغیرہ پر تنقید کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لیے جدید سائنس کی تحقیقات کی، اور اس کی اصطلاحات کی مدد لیتے ہیں۔ بہت سے حقائق اور سچی باتیں لے کر اپنا ایک جھوٹ اس میں شامل کرتے ہیں، اور جا بجا انہی باتوں کو یا ان میں سے چند کو ثابت کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں، جو پچیس سو سال پہلے گورگیاسؔ نام کا سوفسطائی کیا کرتا تھا، جس کے متعلق لوگوں کو شک تھا کہ شاید یہ مذاق کر رہا ہے۔
ii) کیا یہ ”جدید فلسفہ“ تعقلی ہے؟
کسی بھی فلسفے کو پڑھتے وقت یہ دیکھنا نہایت ضروری ہے کہ ہمارے زیرِ مطالعہ فلسفہ کیا نتیجہ نکال رہا ہے۔ آیا کہ چیزوں کو، مظاہر کو، عوامل کو، دنیا کو اور سماج کو جانا جا سکتا ہے، جیسا کہ تمام فطرتی سائنسوں کا موقف ہے، یا کہ ہمیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اوپر بیان کی گئی چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔ اگر تو فلسفہ یہ بتاتا ہے، کہ ہم چیزوں کو اور ان کی حقیقت کو سائنسی یا انسانی عمل کے ذریعے جان سکنے پر قادر ہیں تو فلسفہ تعقلی(Rational) ہو گا، ورنہ عدم تعقل (عقل دشمن، خرد دشمن) Irrational۔
مثال کے طور پر عملیت یا نتائجیت (ولیم جیمز وغیرہ)، منطقی ثبوتیت یا تجربیت (لاکؔ، برٹرینڈ رسلؔ) کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ سب صرف موضوعی عینیت پرستی کی نئی شکلیں ہیں۔ جو کچھ بھی ہے، انسان کی سوچ کی دسترس سے باہر ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ ہی سچائی کا واحد ذریعہ ہے۔ تجربات اور مشاہدات سے ملنے والے نتائج مختلف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جو مشاہدے میں آ جائے وہ اس وقت کی سچائی ہے۔ اسی جیسی باتیں ہیں۔ یعنی ان کے متعلق مشاہدے یا تجربے کے بغیر سوچ رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اور جو ہماری سوچ ہے، وہ اسی مشاہدے کے نتیجے میں ’یکطرفہ طور پر‘ ڈھلی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تعقل پیشین گوئی کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس طرح کے فلسفے دیکھنے میں سائنسی اور مادیت پسند نظر آتے ہیں لیکن اپنی حقیقت میں یہ بھی موضوعی عینیت پرستی کی شاخ ”لاادریت“ (Agnosticism) میں سے ہیں اور عدم تعقلی ہیں۔
iii) کیا یہ ”جدید فلسفہ“ سچائی پر مبنی ہے؟
ہمارے ارد گرد کی دنیا حقیقت ہے۔ ہمارے حواس، ہمارا تعقل، ہماری تاریخ، ہمارا تجربہ اور ہماری فطرتی یا طبیعی سائنسیں ہی نہیں، ہمارا عمل اور ہمارا تناظر بھی اس دنیا کے حقیقی ہونے کی گواہی دیتا ہے اور اس بات کی تصدیق مہیا کرتا ہے، کہ ہم اس کو جانتے ہوئے مستقبل کے متعلق درست تخمینے لگا سکتے ہیں، اور اپنے عمل کے نتائج سے باخبر ہو سکتے ہیں۔ دنیا اور سماج کے چلن کو دیکھ کر آئندہ کے متعلق پیش گوئی کرنا اور ان پیش گوئیوں کا درست ہونا بھی دنیا کے حقیقی ہونے اور اس کے قابل ادراک ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ اس طرح ہر وہ فلسفہ جو کہ اس دنیا کو غیر حقیقی کہتا ہے، یا پھر اس کو ناقابلِ ادراک گردانتا ہے، جھوٹا ہے اور گمراہ کُن ہے۔ اور یہ بات مارکس کے بعد آنے والے ہر ”جدید“ فلسفے کے متعلق درست ہے، کیوں کہ یہ سبھی دنیا کے ناقابلِ ادراک ہونے کے پرچارک ہیں۔
iv) کیا یہ”جدید فلسفہ“ انسان دوست ہے؟
ہم نے دیکھا ہے کہ عدم تعقلی فلسفے مسلسل اس بات پر مصر رہے ہیں کہ ہمارے گرد کی دنیا فریب ہے، عارضی ہے، فانی ہے، یا ہے ہی نہیں۔ تو ایسی چیز سے دل لگانا حماقت ہے، جو عارضی ہو، یا جس کا وجود ہی مشکوک ہو، جس کو، یا جس کے متعلق جانا نہ جا سکے اور جس کے متعلق علم حاصل کرنا فضول ہو۔ اس طرح سے ہم اپنے گرد موجود لوگوں کی منافقت کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ جو کہ محنت کش لوگوں کو مسلسل ”نیکی“ اور ”صبر“ کی تلقین کرتے ہوئے ان کو اپنا کام انتہائی لگن اور ایمانداری سے کرنے کی نصیحت کرتے رہتے ہیں۔جس سے کارخانے داروں اور سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے، محنت کش لوگ جتنی محنت کرتے ہیں، ان کا مخالف طبقہ اتنا ہی زیادہ طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ”دنیا عارضی ہے“ بتا کر لوٹ مار کرنا بہت سے لوگوں کا پیشہ بن چکا ہے۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ یہ ”بتائی جانے والی“ نیکی محض ”بتائی جانے پر“ ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ اوپر سے کہتے ہیں کہ”ہم کم از کم نیکی بتاتے تو ہیں“، ”جانتے تو ہیں کہ نیکی کیا ہے، ہمارا نیکی کو جاننا ہی نیکی ہے“۔ شیخ سعدیؔ سینکڑوں سال پہلے ایسے لوگوں کے متعلق کہہ چکے ہیں کہ ”برا، برا ہی رہے گا اگرچہ وہ نیکی کے بارے بہت سا علم بھی رکھتا ہو“۔
ان کے علاوہ دوسرے وہ لوگ ہیں جو کہ معاشرت اور ’سماج سدھار‘ کے نام پر لوگوں کو ”اچھے شہری“ بننے کی تلقین کرتے ہوئے ہر قسم کے نظریات سے ذہن کو پاک کر کے چپ چاپ لگن سے اپنا کام کرتے رہنے کا کہتے ہیں۔ دنیا کے متعلق ان کا بھی یہی فلسفہ ہے کہ دنیا کو جانا نہیں جا سکتا۔ اس لیے ارد گرد کے معاملات پر، معیشت اور سیاست پر غور کرنا بے کار ہے۔ یہ بات کہنا بالکل غلط نہیں ہو گا کہ اگر تعلیم اور علم سے پیداوار کا براہ راست تعلق نہ ہوتا تو حکمران طبقہ علم کے حصول پر براہ راست پابندی لگا دیتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے سائنسوں کو تخصیص کاری کے عمل سے اتنامیکانی کر دیا ہے کہ ایک سائنس کا، جس کا مقصد صرف انسان تھا، انسان سے کوسوں دور رہنا عین سائنسی سمجھا جانے لگا ہے۔اس کو انسان کے حالات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ سائنس میں انہی چیزوں کو قابلِ تحقیق سمجھا جانے لگا ہے جن سے منافع اور’منافعے کی شرح‘ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کوئی ایسی تحقیق جس کے سامنے آنے سے سرمایہ داروں کے منافعوں میں کمی آنے کا خطرہ ہوتا ہے، دبا دی جاتی ہے۔ اس پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کرتا، ایسی تحقیق کرنے والوں کی حوصلہ شکنی اور بیخ کنی دیگر ذرائع سے بھی کر دی جاتی ہے۔
مختصر یہ کہ سائنس کے نام پر سامنے لائے جانے والے جدید دور کے تمام کے تمام سائنسی فلسفے اور ان کے علاوہ خالص مدرسانہ اور فلسفیانہ قسم کے فلسفے بھی جو دنیا کو پیچیدہ بتاتے ہوئے اس کے جانے جانے کی حیثیت سے انکار کرتے ہیں آخری تجزیے میں انسان دشمن ثابت ہو جاتے ہیں۔
4۔ انقلابی فلسفہ
فلسفہ پڑھنے والے تھیلزؔ کا نام ضرور پڑھتے ہیں۔ یہ وہ فلسفی تھا جس کو عام طور پر پہلا فلسفی کہا جاتا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ دنیا کی ہر چیز پانی سے بنی ہے۔ یہ قریب قریب وہی وقت تھا جب چین میں لاؤ تزےؔ اپنے تاؤ متؔ کے فلسفے کو تشکیل دے رہا تھا۔ لاؤ تزے نے بھی اپنے فلسفے میں پانی کو خاص اہمیت دی ہے۔ وہ پانی کی طرح ہو جانے کو کہتا ہے، جو سب سے نیچی جگہ جا کر رہتا ہے، اس لیے اس کو شکست دینا، یا اس کے مقام سے نیچے گرانا ممکن نہیں ہے۔ شاید ہیگل بھی پانی ہی سے متاثر تھا۔ کیوں کہ جب اس سے شکایت کی گئی کہ اس کا فلسفہ بہت مشکل ہے تو اس نے کہا تھا کہ ایک سچا فلسفہ اپنا رستہ خود بناتا ہے، اور وہ یہی کہنا چاہتا تھا کہ سچا فلسفہ بالآخر پانی کی طرح سب سے نچلی جگہوں تک پہنچ جاتا ہے۔
لیکن جس طرح سے ہم جانتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ پرانے (سرمایہ دارنہ نظام) کا جانا اور نئے (سوشلزم) کاآنا لازم11؎ ہے لیکن اگر ہم اس کے لیے خود کوشش نہیں کریں گے تو حکمرانوں کی جانب سے انسان کو غلام بنانے اور اس کی محنت کو اپنی عیاشیوں کے لیے نچوڑنے کے اس مسلط کردہ وحشیانہ سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و استبداد کا عرصہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا جائے گا۔ اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ انقلاب کے لیے معروضی اور موضوعی ہر دو طرح کے عناصر درکار ہوتے ہیں۔یعنی انقلاب کے لیے موجود معروضی حالات بہرطور ضروری ہیں، جن کے بغیر کسی بھی طرح کی ایسی کوشش محض مہم جوئی ثابت ہو کر جدوجہد کو پیچھے دھکیل سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام میں انقلابات کی تاریخ، فلسفے اور سائنس کی سمجھ اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کے ساتھ جدوجہد کا موضوعی عنصر بھی اسی طرح درکار ہے۔ ورنہ انقلاب کے لیے موجود بے پناہ غم و غصہ اور طاقت منتشر ہو جاتی ہے۔
ساری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ انقلابات کے لیے کام کرنے والے بے نام لوگ بھی انسانوں میں سے عظیم ترین ہیں۔ ان کی تعداد کسی بھی دور میں بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ لیکن وہ عوام میں انقلابی تعلیم دینے کا کام ثابت قدمی سے جاری رکھتے آئے ہیں۔لیکن بہرحال یہ عام انسان ہی ہوتے ہیں۔ ان کا کام فلسفے، ادب، تاریخ اور سائنس کے مطالعے سے عوام کی بدحالی کی وجوہات کو سمجھنا اور پھر عوام کو سمجھانا ہے۔ کہ ان کے حالات بدلنے کوئی نہیں آئے گا، اور ان کو آگے بڑھ کر خود اپنے حالات تبدیل کرنے کے لیے انقلاب کرنا ہو گا۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ طبقاتی نظاموں میں تمام تعلیم اور تمام علوم پر حکمران طبقے ہی کا قبضہ ہوتا ہے۔ اس لیے عوام کی تعلیم کے لیے علیحدہ سے سٹڈی سرکل کروانا ضروری ہیں۔ جن میں سچا اور انقلابی فلسفہ عوام تک پہنچانا ہر اس انسان کا فرض ہے جو خود کو انسان دوست کہتا ہے۔
ہیگل نے فنامینولوجی میں ”آقا اور غلام“ کی تمثیل کے ذریعے یہ بات سمجھانے کی نیو ڈال دی تھی کہ فلسفے کو سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے پیدا ہونے والی بیگانگی کے جوہر کو جاننے کے لیے کس طرح سے برتا جا سکتا ہے۔اس کے فلسفے میں سچائی موجود تھی اور اس کا طریق کار انقلابی تھا۔ اس لیے مارکس اور اینگلزؔ کو اس میں سے ”تعقلی مغز“ مل گیا۔ ہیگل انقلابِ فرانس سے بہت متاثر تھا۔ اس کے جانشینوں نے فلسفے کو انقلابی شکل دی اور اس کو براہ راست انقلاب کے ساتھ جوڑ دیا۔ اینگلزؔ نے جدلیات کو محنت کش طبقے کا بہترین اوزار اور تیز ترین ہتھیار قرار دیا اور جدلیاتی مادیت(مارکسزم کا فلسفہ) کو محنت کشوں کا اسی طرح سے تعقلی ہتھیار بتایا جیسے محنت کش جدلیاتی مادیت کے مادی ہتھیار ہیں۔
ہیگل کے فلسفے کو بعض انقلابی کہلوانے والے حلقوں کی جانب سے”ردِ انقلابی فلسفہ“ ہونے کی وجہ سے باقاعدہ ’رد کیا گیا‘،اور مارکسزم کے خلاف بتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اوردوسری جانب بعض لوگ ہیگل کی ردِ انقلابی باتیں لے کرمارکسزم کو ردِ انقلابی بنانے کی کوشش میں بھی نظر آتے ہیں۔ ہیگلؔ نے اپنے سارے فلسفے کو الگ الگ طور پر تشکیل دیا، اور پھر آخر میں ”فلسفۂ حق“ یا ”فلسفۂ قانون “ (Philosophy of Right) کی شکل میں فلسفے کا سماج پر اطلاق کیا۔ جس میں اس نے خاص طور پر آخری حصے میں عوام کو اتنے برے الفاظ سے پکارا ہے کہ واقعی ہیگل پر غصہ آنے لگتا ہے۔ جہاں عوام کا نام لیتا ہے، نئے الفاظ میں اور برے الفاظ میں، جیسے یہ بے مغزوں کے ہجوم ہیں۔ لیکن باوجود ا س کے کہ یہ فلسفے اور سماجی سائنس کا عظیم ترین کام تھا، ایسے نتائج نکالے گئے تھے جو عام نظر میں بونگے معلوم ہوتے تھے۔ کوئی بھی ان پر غور کرے تو اس کو ضرور ہیگل کی عقل پر شک ہوگا کہ نتیجہ ”یہ“ (ردِ انقلابی) نہیں نکلتا۔ مارکس نے پچیس سال کی عمر میں اس کا مذاق اڑایا تھا۔12؎ لیکن داس کیپیٹل کے دیباچے میں یہ بات تسلیم کی کہ ہیگل اس کا عظیم استاد تھا۔ اسی طرح عمر رسیدہ اینگلزؔ ہمیں ہیگلؔ کی ایک بات کی جانب اشارہ کرتا نظر آتا ہے: ”کیا یہ ممکن تھا کہ ان پروفیسروں کے پیچھے، ان کے فرسودہ اور بلند بانگ فقروں، ان کے بوجھل اور اکتا دینے والے جملوں کے پیچھے کوئی انقلاب چھپا ہو؟۔۔۔ اگر ہیگلیائی دعوے کو اس زمانے کی پروشیائی ریاست پر چسپاں کیا جائے تو اس کا مطلب صرف یہی ہوتا ہے کہ یہ ریاست اسی حد تک معقول ہے، عقل سے اسی حد تک مطابقت رکھتی ہے جتنی وہ خود]ریاست[ ضروری ہے۔ اور اگر یہ بہر نوع ہمیں بری معلوم ہوتی ہے، لیکن اپنی بری نوعیت کے باوجود اس کا وجود رہتا ہے تو حکومت کی اس بری نوعیت کا جواز اس کی رعایا کے اسی سے مطابقت رکھنے والے بدکردار سے پیش کیا جاتا ہے اور اس کی وضاحت کی جاتی ہے۔ اس زمانے کے پروشیائی لوگوں کی حکومت ویسی ہی تھی جس کے وہ مستحق تھے۔“13؎
آج ہم جانتے ہیں کہ ہیگل انقلابِ فرانس کا زبردست قسم کا حمایتی تھا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ عوام اگر برے حال میں ہیں، تو ان کو اٹھ کر انقلابِ فرانس کی طرح کا ایک انقلاب کر دینا چاہیے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر اسی قابل ہیں کہ ان کے ساتھ وہی سلوک ہو جو کہ کیا جا رہا ہے۔
آج بے شک ہر طرح سے انقلابِ فرانس سے بھی بدتر حالات موجود ہیں۔ اگرچہ انسانی شعور 1789ء کی نسبت کہیں بلندی پر نظر آ رہا ہے۔ لیکن جہاں مارکسسٹ نوجوان عوام میں تعلیم دینے کی کوشش میں مصروف ہیں، وہیں حکمران طبقے کے تنخواہ دار ”دانشور“ اور ”فلسفی“ عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔ حکومت اور ریاست کی بے پناہ طاقت ان کے نظریات کو فروغ دینے میں اپنے سارے وسائل لگا رہی ہے۔ فلسفے کے متعلق یہ بتانا کہ یہ فضول ہے، ایسی باتوں کو فلسفہ بتانا جو کہ بونگی ہونے کی وجہ سے سر پیر سے محروم ہیں، جس وجہ سے کسی کے پلے نہیں پڑتیں، کبھی تصوف کو اور کبھی موٹیویشنل سپیکروں کی لاف گزاف کو فلسفہ بتانا زوروں پر ہے۔ فلسفے کی مدد سے کسی اصول کو، عمل کو، نظریے کو خود اسی کے اندر سے دیکھنے کی بجائے آیا کہ یہ درست ہے یا غیر درست، یہ دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فلسفہ بذاتِ خود درست ہے یا غلط۔ اس کے علاوہ فلسفے اور عمل کو دو متضاد ”انتہائیں“ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاکہ سوچنے سمجھنے اور شعور رکھنے والے عوام استحصال کرنے والی طاقتوں کو بے نقاب کرنے اور اس سرمایہ دارنہ نظام سے جان چھڑوانے کی جدوجہد سے دور رہیں۔ ہم نے فلسفے کی تاریخ میں فلسفے کو بڑے بڑے سوالوں سے نپٹتے دیکھا ہے۔ دنیا کا ہر سوال یقینا فلسفے ہی کا سوال تھا۔ لیکن آج جب دیگر بے شمار سائنسیں اپنا اپنا کام کرنے میں مصروف ہیں تو سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس دنیا میں موجود ان مصائب اور تکالیف سے جان چھڑوانے کا کام کیا جائے جن کا ذمہ دار ایک ایسا انسان دشمن نظام ہے جس سے صرف ایک مٹھی بھر اقلیت فائدہ حاصل کرتے ہوئے نسلِ انسانی کو نہ صرف استحصال کے چنگل میں پھانسے ہوئے ہے بلکہ ایسی ماحول دشمن سرگرمیوں میں بھی مصروف ہے جو کہ نسلِ انسانی ہی کے خاتمے کی جانب گامزن ہیں۔
سقراط کے دور میں ”دانشوروں“ اور اشرافیہ کو یہ مسئلہ تھا کہ سقراط نے نوجوانوں کو گمراہ کر دیا ہے۔ آج ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس کو ”دانشور“ گمراہی باور کرتے تھے، وہ سقراط کا وہ طریقہ تھا جس سے وہ سوال جواب کر کے سچائی اور جھوٹ میں فرق معلوم کیا کرتا تھا، جو اس نے نوجوانوں کو سکھا دیا تھا۔ کہ کسی کی باتوں میں آنے کی بجائے اس کی باتوں کو دلیل، منطق اورفلسفے کی کسوٹی پر خود پرکھ لیں۔ ہم مارکسسٹوں سے آج کے ”دانشوروں“ کو سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ مارکس نے (اور مارکسیوں نے) فلسفے کو عام عوام کے، جاہلوں کے، بے وقوفوں کے اور کل کے بچوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ توکیا کریں؟ کیا فلسفہ صرف چند بزرجمہروں کے ہاتھ میں رہے، جو جہاں جی چاہے فلسفے کی ڈگڈگی بجا کر تقریریں اور تحریریں فروخت کر سکیں؟
فلسفہ عوام کے ہاتھ میں کیوں نہیں ہونا چاہیے جو کہ اس کو اپنا ہمدرد بتانے والے قائدین کا امتحان لینے کے لیے استعمال کریں؟ کیوں نہ دانشوروں کی دانش، حکیموں کی حکمت، علما کی علمیت، فلسفیوں کافلسفہ اور نقادوں کی منطق کا امتحان لینے کے لیے عوام اورخاص طور پر نوجوان خود اس کواستعمال کریں؟ ہمارے آج کے ”فلسفی“، ”دانشور“ اور خاص طور پر ’تقسیمِ کار‘ کی بدولت بن جانے والے ’ریڈی میڈ دانشور‘ جو کہ محض بیان، محض بتانا، محض تشریح، محض وضاحت اور زیادہ سے زیادہ، تقابل یا موازنے کروا کے عوام کو گمراہ کرنے کا کام کر رہے ہیں، ان سے سوال کیا جائے کہ کیا جو تحقیقات آپ نے بیان کیں ان سے ”یہی“ نتیجہ نکلتا ہے؟ اگر یہی نکلتا ہے تو کیسے؟ کیا آپ کا بتایا گیا درست ہے؟ کیا یہ مغالطے پر مبنی تو نہیں؟ کیا آپ کی بات تعقلی ہے، منطقی ہے؟ کیا یہ انسان دوست ہے؟ ان میں سب سے آسان فارمولا یہ ہے کہ اگر کوئی بات انسان دوست نہیں ہے، تو جھوٹی ہے، خواہ یہ کتنے ہی بڑے دانشور، حکیم یا فلسفی نے کی ہو، اور انسان ہر حال میں سوادِ اعظم کو، محنت کش عوام کی اکثریت کو ہی مانا جائے گا، نہ کہ مٹھی بھر دولت پر قابض سرمایہ داروں کی اقلیت کو اور فلسفے کا اصلی کام انسانوں کو ظلم اور استحصال سے نجات دلانا ہے جو کہ آج کے دور میں صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔ آج خاص طور پر نوجوانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ خود انقلابی فلسفے یعنی مارکسزم کی تعلیم حاصل کریں اور اپنے ارد گرد کے عوام کو اس سے بہرہ ور کریں تاکہ وہ آگے بڑھ کر ان حکمرانوں کے ظلم، جبر اور استحصال سے نجات حاصل کرسکیں۔ یہ آج کا سب سے اہم اور عظیم کام ہے۔
نوٹس
1۔ ذہن، تعقل، شعور وغیرہ۔ فلسفے میں ذہن اور روح کو تقریباً ہم معنی برتا گیا ہے، اس لیے جہاں روح کا ذکر ہو اس کو سیاق و سباق کے لحاظ سے ذہن یا تعقل باور کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہیگل کی کتاب کے نام میں Geists کا ترجمہ Mind اور Spirit دونوں طرح سے کیا جاتا ہے۔
2۔ یہ فلسفے کی اصطلاح کے طور پر یہ معنی دیتا ہے۔ اس معاملے میں سائنس اور فلسفے میں یہ فرق نظر آتا ہے، سائنس اپنی کوئی نئی اصطلاح بنانے کے لیے کوئی دور دراز کا نیم مردہ لفظ لے کر اس کو استعمال کرتی ہے، جس سے ابہام سے مکمل طور پر دور رہا جائے، لیکن دنیا کے تمام فلسفیوں کا وطیرہ رہا ہے، کہ انہوں نے عام برتے جانے والے الفاظ ہی کو لے کر اپنے معنوں میں استعمال کر لیا۔ فلسفے کے طالب علم بہت جلد یہ جان لیا کرتے ہیں، کہ یہ لفظ کن معنوں میں برتا جا رہا ہے، بعض اوقات فلسفی خود بھی اپنے برتے جانے والے لفظ کی وضاحت کر دیا کرتے ہیں۔
3۔ جدید نظریات جیسے عملیت یا نتائجیت اور منطقی ثبوتیت وغیرہ جیسے نظریات جو سائنس کی آڑ میں ’لاادریت‘ (Agnosticism) کا جوہر لیے ہیں۔
4۔ آج سائنس کا بہت سا کام لیبارٹری کے بجائے کرسی میز پر ہوتا ہے، اور سائنس دانوں کو اکثر مشاہدے سے گریز کرتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے۔
5۔ اینگلزؔ۔ اینٹی ڈوہرنگ
6۔ تاریخی اور جدلیاتی مادیت کا ابجد
7۔ مادیت اور تجربی تنقید
8۔ (ایضاً)
9۔(ایضاً)
10۔ جدلیاتی اور تاریخی مادیت کا ابجد
11۔ مارکس کے فوراً بعد کے”دانشوروں“ اور”فلسفیوں“ نے اس وقت یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اگر سوشلزم نے خود ہی آنا ہے، تو اس کے لیے جدوجہد قبل از وقت ہے، اور بے کار ہے۔ جیسے سورج گرہن نے تو ہونا ہی ہے، تو اس کے لیے جلوس کیوں نکالے جائیں۔ اس کا جواب عظیم مارکسی استاد پلیخانوف نے ”تاریخ میں فرد کا کردار“ میں تفصیل سے دیا تھا، کہ اگر سرمایہ داری کمزور ہو جاتی ہے، اور انقلابی آگے بڑھ کر انقلاب نہیں کرتے تو وہ اپنے پاس موجود بے پناہ وسائل کی وجہ سے دوبارہ کھڑی ہو جاتی ہے، اور انقلاب لانے کا خواب، ہو سکتا ہے دیر تک خواب ہی رہے۔ اسی طرح ہر مرتبہ بحران سے نکلنے کے لیے سرمایہ داری کو پہلے سے بھی بڑھ کر پیداواری قوتوں کی بربادی اور بربریت پھیلانی پڑتی ہے اور اگر شعوری کوششوں کے ذریعے اس کا خاتمہ نہ کیا گیا تو یہ انسانی تہذیب،یہاں تک کہ نوعِ انسان کے وجود کو بھی ختم کر ڈالے گی (پاکستان میں آج مارکسسٹ کہلوانے والے بعض ”دانشور“ اور استاد بھی یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ سوشلزم نے تو خود ہی آنا ہے، وہ بھی ٹھیک طرح سے سرمایہ داری آ جانے کے بعد۔ اس لیے پہلے سرمایہ داری کی مدد کر کے اس کو پوری طرح قدم جمانے کا موقع دیا جائے۔ جس کا سادہ سا جواب یہ ہے، کہ یہاں سرمایہ داری جتنی آنی تھی آ چکی۔ پاکستان سرمایہ داری پر چل کر جرمنی کبھی نہیں بننے والا۔ یہاں جس طرح وہاں سے پرانے کپڑے اور پرانی مشینری آتی ہے، اسی طرح سے وہاں کے فلسفے اور وہاں کا نظام آیا ہے، گلا سڑا اور بونگا)۔
12۔ فلسفہئ حق پر تنقید A Contribution to the Critique of Hegel’s Philosophy of Right
13۔ لڈ وِگ فیوئرباخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ