|تحریر: آدم پال|
نومبر کے آغاز پر عوام دشمن حکومت نے ایک اور مہنگائی بم گراتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں پانچ روپے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسی طرح ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے۔اس اضافے کے بعد مہنگائی کی ایک اور بہت بڑی لہر کا آغاز ہو چکا ہے جس کے بعد اشیائے ضرورت سمیت ہر شے کی قیمت میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے۔اس سے پہلے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ کے بعد مہنگائی کا سیلاب آیا تھا جس میں روز مرہ کی ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں بہت بڑا اضافہ دیکھا گیا تھا۔ اسی طرح بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی بہت بڑا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ریگولیٹری ڈیوٹی سمیت دیگر ٹیکسوں میں بھی بیس سے پچیس فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے جس سے مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے جبکہ عام آدمی کی زندگی جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دی گئی ہے۔ سردیوں میں گیس کی شدیدقلت کا عندیہ بھی دے دیا گیا ہے جس سے عوام کی زندگی مزید اجیرن ہو جائے گی ۔
اپنے انتخابی وعدوں کے بر عکس یہ مزدور دشمن حکومت آتے ہی عوام کا مزید خون چوستے ہوئے ان سے زندگی کی ہر سہولت چھیننے کے در پے ہے جبکہ سرمایہ دار طبقے کی دولت اور مراعات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔لگژری گاڑیوں پر ٹیکس میں 70فیصد تک کمی کی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکومت کس طبقے کی نمائندگی کر رہی ہے۔
معاشی بحران کا تمام تر ملبہ عوام پر ڈالا جا رہا ہے جبکہ اپنی انتخابی مہم کے دوران اس پارٹی کے لیڈروں نے اعلان کیا تھا کہ وہ بحران کا تمام تر بوجھ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں پر ڈالیں گے۔ موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر نے اپوزیشن کے دوران اپنی تقریروں میں واضح طور پر کہا تھا کہ پٹرول کی قیمت میں نصف تک کمی جا سکتی ہے اور حکومت اس مد میں بے جا ٹیکس وصول کر رہی ہے۔اسی طرح اس مکار شخص نے کہا تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد سرمایہ داروں اور جاگیرداروں پر ٹیکس لگا کر حکومت کی آمدن میں اضافہ کریں گے۔ لیکن حکومت میں آتے ہی اس حکومت کی مزدو دشمنی واضح ہو گئی تھی جب اسد عمر نے دو سو سرکاری اداروں کی نجکاری کا عندیہ دیا تھا۔اپوزیشن میں رہتے ہوئے یہ شخص اسٹیل مل اور پی آئی اے سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کی مخالفت کا ناٹک کرتا تھا لیکن اقتدار میں آتے ہی اس نے بھی مزدور دشمن پالیسی کو مسلط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔کابینہ کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسٹیٹ لائف سمیت اہم اداروں کی نجکاری کو آگے بڑھایا جائے گا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد بیروزگار ہوں گے جبکہ ان افراد سے منسلک لاکھوں افراد کو بیروزگاری اور غربت کی دلدل میں دھکیل دیا جائے گا۔
اپوزیشن میں رہتے ہوئے آئی ایم ایف کو گالیاں نکالنے والا عمران خان بھی اس کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو چکا ہے اور اسی آئی ایم ایف سے قرضے کی بھیک مانگ رہا ہے۔اس قرضے کی شرائط پوری کرنے کے لیے عوام دشمن اقدامات کے سلسلے کا آغاز کر دیا گیا ہے جس میں پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ شامل ہے۔ آنے والے دنوں میں ایسے ہی مزید اقدامات کیے جائیں گے جن میں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کو تحفظ دیا جائے گا جبکہ عوام کی زندگی کی سانسیں بھی گروی رکھ لی جائے گی۔پہلے ہی ادویات اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ اس تناسب سے اجرتوں میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔سرمایہ دار تو خام مال کی قیمت میں اضافے کا بوجھ منافع کے ساتھ صارف پر منتقل کر دیں گے جبکہ اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ اس سے ان سرمایہ داروں کے منافعوں میں کئی گنا اضافہ ہو گا جبکہ مزدور کی زندگی کی ذلت کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔اس وقت مزدور کی اعلان کردہ کم از کم اجرت شرمناک حد تک پندرہ سے سولہ ہزار روپے سرکاری طور پر طے کی گئی ہے جبکہ حقیقت میں نجی شعبے میں اس سے بھی کم پر مزدور کام کرنے پر مجبور ہیں۔مستقل ملازمت اور ہفتہ وار چھٹی جیسی بنیادی سہولت پہلے ہی خواب بن چکی ہے۔ ایسے میں مہنگائی اور نجکاری کے یہ نئے حملے محنت کشوں کی زندگیوں میں مزید زہر گھولیں گے جبکہ حکمران طبقے کی عیاشیاں زیادہ بڑے پیمانے پر جاری رہیں گی۔
اس حکومت کی سادگی کا ڈھونگ بھی بے نقاب ہو چکا ہے اور عمران خان سمیت تمام وزیر اور مشیر عوام کے پیسوں سے انتہائی عیش و عشرت کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ججوں، جرنیلوں ، بیوروکریٹوں سمیت دیگر ریاستی اداروں کے اعلیٰ عہدیدار بھی ایسی ہی پر تعیش زندگیاں گزار رہے ہیں۔ حکمران طبقے کی اولادوں کو بھی صحت اور تعلیم کی اعلیٰ ترین سہولیات حاصل ہیں اور ان کے پاس زندگی کی ہر آسائش موجود ہے ۔اس حکمران طبقے کی پالیسیوں کے نتیجے میں اس تمام تر پر تعیش زندگی کی قیمت محنت کش عوام ادا کرتے ہیں۔ان کے خون اور پسینے کو نچوڑ کر آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کے قرضوں کا سود ادا کیا جاتاہے۔ اسی طرح اربوں ڈالر کے اسلحے کی خریداری ہو یا ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر سب کچھ غریب عوام کے پیسوں سے کیا جاتا ہے۔موجودہ حکومت تعلیم اور صحت سمیت تمام ترقیاتی بجٹ میں مزید کٹوتیاں کرتے ہوئے دفاعی بجٹ میں اضافہ کر رہی ہے جبکہ سامراجی طاقتوں کی خوشنودی کے حصول کے لیے بھی عوام کو بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔
ابھی تک سعودی عرب سے ملنے والی امداد کی شرائط سے عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا اور بتایا نہیں گیا کہ انہیں کس نئی جنگ میں جھونکا جا رہا ہے۔ اس سے قبل ڈالر جہاد اور افغانستان میں امریکی سامراج کی جنگ میں گماشتگی کا خمیازہ عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔اب انہیں نئی جنگوں کا ایندھن بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
اسی طرح عمران خان کے چین کے دورے کی تفصیلات بھی سامنے نہیں لائی جا رہی ۔ ابھی تک سی پیک کے لیے حاصل کیے گئے قرضوں کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا جبکہ موجودہ حکومت چینی سامراج سے نئے معاہدے کی تیاری کر رہی ہے۔چین کے سامراجی منصوبوں سے پہلے ہی معاشی بحران میں اضافہ ہوا ہے اور تجارتی اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ مقامی صنعتیں تباہ ہو چکی ہیں۔اب زراعت کے شعبے کو چین کی سامراجی تحویل میں دینے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بیج سے لے کر کھاد، ٹریکٹر اور زرعی قرضوں تک سب کچھ چینی کمپنیوں کے حوالے کر دیا جائے گا اورپورے ملک کی زراعت کی مکمل تباہی کا آغاز ہو گا۔اسی طرح خصوصی صنعتی زون بنانے کا اعلان بھی درحقیقت چینی سامراج کی غلامی کا طوق پہننے کا نیا انداز ہے۔مقامی سرمایہ داری عبدالرزاق داؤد کی قیادت میں اپنا حصہ بٹورنے کی تگ و دو میں ہیں اور چین سے نئے معاہدوں میں اپنی بقا کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ خصی سرمایہ دار طبقہ صرف سامراجی طاقتوں کے گماشتے کا کردار ہی ادا کر سکتا ہے اور کسی بھی قسم کا ترقی پسند کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔اس طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنے والی ریاست بھی درحقیقت امریکہ و چین کی سامراجی لڑائی میں دونوں جانب سے گماشتگی کی زیادہ سے زیادہ فیس حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس کے باعث اس میں دراڑیں بھی واضح ہو رہی ہیں۔آنے والے دنوں میں یہ لڑائی زیادہ شد ت اختیار کرے گی۔سری لنکا میں صدر کی جانب سے وزیر اعظم کی حالیہ برطرفی اور چین نواز سابقہ صدر کی بطور وزیر اعظم تقرری اسی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔ آنے والے عرصے میں یہاں بھی یہ لڑائی تمام ریاستی اداروں میں مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرے گی۔
چین اور سعودی عرب کی امداد سے کوئی ایک بھی معاشی مسئلہ حل نہیں ہوگا جبکہ آئی ایم ایف کے گزشتہ اکیس سود خور پروگرام معیشت کو برباد کرنے کی بنیادی وجہ ہیں اور اگلا پروگرام بھی ایسا ہی کرے گا۔ایسے میں معاشی بحران بڑھے گا۔ عالمی سطح پر بھی ایک بہت بڑی کساد بازاری کے بادل منڈلا رہے ہیں اور امریکہ سمیت دنیا بھر کی اسٹاک ایکسچینجوں میں شدید مندی کا رجحان ہے۔چین کی معیشت کی شرح ترقی تیزی سے کم ہو رہی ہے اورچینی حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود ایک بہت بڑے دھماکے کی جانب رواں دواں ہے۔چین میں قرضوں کا بلبلہ بھی پھٹنے کے قریب ہے جبکہ مینوفیکچرنگ کا شعبہ سست روی کا شکار ہے۔اس بحران کے اثرات عالمی معیشت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں جبکہ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ بھی شدت اختیار کر رہی ہے۔عالمی معیشت کا ایک نیا بحران پاکستان کی نحیف معیشت اور ریاست کے لیے روز قیامت سے کم نہیں ہو گا۔اس کا سارا ملبہ بھی غریب عوام پر ڈالا جائے گا۔
ایسے میں محنت کش طبقے کے پاس واحد حل یہی ہے کہ عوامی تحریکوں کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی لڑائی لڑی جائے اور سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی تمام دولت اور جائیدادیں ضبط کرتے ہوئے انقلاب کا آغاز کیا جائے۔اس کے سوا تمام رستے تباہی اور بربادی کے رستے ہیں۔نجات کا واحد رستہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کرتے ہوئے مزدور ریاست کا قیام ہے جس میں روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم سمیت تمام سہولیات عوام کو مفت فراہم کرتے ہوئے خوشحالی اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا جائے گا۔