|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|
پشاور یونیورسٹی سمیت خیبر پختونخوا کے تمام تعلیمی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں پشاور یونیورسٹی میں پچھلے دس سال سے کام کرنے والے 600 کنٹریکٹ ملازمین کو روزگار سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تین ہزار کے قریب ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کرکے ان کے بچوں اور خاندانوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست مشکل بنا دیا گیا ہے۔ مہنگائی میں پچھلے دو سال میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور روپے کی قدر میں تاریخی کمی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں مزدوروں کی پرانی تنخواہیں جو پہلے بھی آٹے میں نمک کے برابر تھیں، اب ان میں مزید کٹوتی اور ان کے الاؤنسز میں کٹوتیوں کے نتیجے میں انہیں بالکل دیوار سے لگایا جا چکا ہے۔ ایسے میں موجودہ تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ بھی مہنگائی کے تناسب سے کم پڑرہا ہے مگر حکومتِ وقت اور تعلیمی اداروں میں بیٹھی ان حکمرانوں کی خدمت گار انتظامیہ غریب ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بجائے رہی سہی تنخواہوں میں بھی کٹوتیاں کرکے انہیں بھوک اور ننگ کی کھائی میں دھکیل رہے ہیں۔
دوسری طرف یونیورسٹی کو پچھلے دس سال سے چلانے والے 600 کنٹریکٹ ملازمین کو اپنے کام، تجربے اور سروس ٹائم کی بنیاد پر مستقل کرنے کی بجائے ان کو بیک جنبش قلم نوکریوں سے نکال کر ان کے بچوں اور خاندانوں کو بھوکا رہنے پر مجبور کیا جا چکا ہے۔ ان کنٹریکٹ ملازمین میں سے اکثریت کی عمریں چالیس اور پچاس سال سے اوپر ہو چکی ہیں۔ یعنی اب وہ کوئی متبادل روزگار تلاش کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ خیبر پختونخواہ کے تعلیمی اداروں پر پرائیویٹائزیشن کا یہ حملہ پچھلے سال جنوری سے جاری ہے جس پر فوراً ملازمین یونینوں نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نجکاری کے فیصلے کو مسترد کیا تھا اور یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ فیصلہ واپس لینے کا کہا گیا تھا مگر انتظامیہ آج تک اس پالیسی پر تیزی سے عمل کرتی رہی ہے۔
ملازمین تنظیموں نے بالآخر احتجاج کا رستہ اختیار کیا اور مارچ کے مہینے سے لے کر جون تک بڑے اور شاندار احتجاجی دھرنے اور ہڑتالیں کیں۔ ان دھرنوں اور ہڑتالوں میں صوبے بھر کے تعلیمی اداروں کے ملازمین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس تحریک میں مختلف ملازمین یونینوں نے مشترکہ جدوجہد کی جن میں کلاس فور، کلاس تھری اور ٹیچرز یونینوں سے لے کر پروفیسر تک سب شامل تھے۔ مگر اس تحریک میں اکثریت کلاس تھری اور کلاس فور ملازمین کی تھی۔ یہ وہ طاقت تھی جس نے حکومت اور انتظامیہ کو خوف میں مبتلا کیا تھا۔
اس تحریک کے مطالبات میں کلاس تھری و کلاس فور کے مطالبات سے لے کر کنٹریکٹ ملازمین کی بحالی اور لیکچررز و پروفیسرز کے مطالبات سب شامل تھے، مگر اس تحریک کی قیادت بہرحال پروفیسرز اور لیکچررز کے ہاتھ میں تھی۔ ایسے میں تحریک میں اکثریت میں ہونے کے باوجود کلاس تھری، کلاس فور اور کنٹریکٹ ملازمین کو واضح سیاسی نمائندگی نہیں ملی۔ مگر جب یہ تحریک ایک وقت میں اپنے عروج پر پہنچی تو انتظامیہ نے خوفزدہ ہوکر ان سے مذاکرات کیے اور مذاکرات میں ان کے مطالبات کے حل کی یقین دہانی کرائی مگر حتمی فیصلہ سنانے کیلئے تحریک کی قیادت سے ایک ہفتے کا وقت لیا گیا تھا۔ یہ مذاکرات رواں سال جون کے مہینے کے درمیان میں اس وقت ہوئے جب ملازمین نے مسلسل 10 دن تک تمام اداروں کو بند کرکے ہڑتال کی تھی اور ساتھ میں یونیورسٹی کیمپس میں دھرنا بھی دیا گیا تھا۔ اس کے دباؤ میں آکر ہی انتظامیہ اور حکومت مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئی تھی۔
اس کے بعد ایک ہفتے کی بجائے تین ماہ گزرنے کے باوجود مسئلہ حل نہیں کیاگیا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر یونیورسٹی ایمپلائز کنٹریکٹ ملازمین میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔ ملازمین کے مطابق اس پورے مرحلے میں اس نظام نے، اس کے حکمرانوں اور عدالتوں سمیت اس سسٹم کے ہر ادارے نے انہیں مایوس کر دیا ہے۔ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ لگاتار احتجاج میں ایمانداری سے بھرپور شرکت کے باوجود مذاکرات میں ان کے مطالبات کا کوئی ذکر موجود نہیں تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاجی تحریک کی قیادت نے ان کی طاقت کو استعمال کرکے ان کے مطالبات و مسائل پر خاموشی اختیار کی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کنٹریکٹ ملازمین کے نمائندے نے بتایا کہ اب ان کے پاس صرف اور صرف اپنے زورِ بازو پر انحصار کر کے لڑنے اور اپنے حق کی آواز بلند کرنے کا راستہ بچا ہے۔ اب انہوں نے طے کیا ہے کہ وہ کنٹریکٹ ملازمین کا ایک بڑا اجلاس بلائیں گے اور آئندہ احتجاج کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ اس کے بعد کلاس تھری و کلاس فور کی یونین قیادتوں سے بھی ملاقات کریں گے اور انہیں بھی ایک مشترکہ جدوجہد کا حصہ بننے کی دعوت دیں گے۔ جس پر ریڈ ورکرز فرنٹ نے ان ملازمین کو یقین دہانی کرائی کہ جدوجہد کے راستے میں ہر قدم پر ریڈ ورکرز فرنٹ ان کے ساتھ شانہ بشانہ موجود ہوگا۔