|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|
10 فروری کو حکومتی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایمپلائز یونین کی جانب سے پچھلے دو ہفتے سے جاری ہڑتال اور احتجاج اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
فنڈ پیکیج کی بحالی، سن کوٹہ پر حقداروں کی بھرتیاں، ملازمین کی سکیل اپ گریڈیشن اور پی ڈی اے انتظامی بورڈ میں ایمپلائز یونین کو نمائندگی دینے جیسے مطالبات کیلئے پی ڈی اے ملازمین کی ہڑتال اور احتجاجی دھرنے یکم فروری سے جاری تھے۔ ان مطالبات کے حل کیلئے پی ڈی اے ایمپلائز پچھلے ایک سال سے آواز اٹھاتے رہے لیکن انتظامیہ کی طرف سے مکمل بے حسی کے نتیجے میں بالآخر مزدوروں کو انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے ہڑتال پر جانا پڑا۔
پی ڈی اے انتظامیہ کی طرف سے پہلے تو یونین نمائندوں کو بہلا پھسلا کر احتجاج ختم کروانے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن اس میں ناکامی کے بعد احتجاج کے تیسرے، چوتھے دن دھمکیاں دینے اور ایف آئی آرز کاٹنے کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں کچھ یونین نمائندوں کی گرفتاریاں بھی کی گئیں لیکن احتجاج کے دباؤ میں جلد ہی ان کو واپس رہا کرنا پڑا، جبکہ پی ڈی اے کے محنت کش ان تمام تر مشکلات کے باوجود ڈٹ کر کھڑے رہے اور مسلسل احتجاج میں شرکت جاری رکھی۔
احتجاج کے پورے عرصے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران وقتاً فوقتاً نمودار ہوتے رہے اور تقریریں کرتے رہے جن کے پاس مزدوروں کے اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا۔ حکمران پارٹی کے سیکرٹری بلدیات کو بھی اپنی جذباتی تقریر کے دوران مزدوروں کی طرف سے غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑا اور یہ احتجاج شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا۔
اس دوران میں ایمپلائز یونین کے نمائندوں اور پی ڈی اے انتظامیہ کی کچھ نشستیں ضرور ہوئیں لیکن ان میں بھی انتظامیہ مطالبات من و عن تسلیم کرنے پر بالکل بھی راضی نہیں تھی۔ انتظامیہ کی اس تمام تر ہٹ دھرمی کو مد نظر رکھتے ہوئے ملازمین نے اپنے نمائندوں سے مزید آگے کا قدم اٹھانے کا مطالبہ کرنا شروع کیا جس کے جواب میں ایمپلائز یونین کی قیادت کو بھی آگے بڑھنے، یعنی احتجاج کو وسیع تر کرتے ہوئے تمام کام بند کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کو بھی مکمل طور پر بند کرنے کا بھی اعلان کرنا پڑا۔ اس صورتحال سے پی ڈی اے انتظامیہ بھی ملازمین کے اس جوش و جذبے کے بارے میں بخوبی آگاہ تھی اور اسی وجہ سے کافی پریشان تھی۔
معاملات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے تین منسٹروں کو ذمہ داری سونپ دی گئی۔ صوبائی وزیر بلدیات و صوبائی وزیر فنانس اور ایک وفاقی منسٹر نے ایمپلائز یونین کے نمائندوں سے آج ایک میٹنگ کی جس کے نتیجے میں یہ تاثر دیا گیا کہ اس میٹنگ کے بعد اب حکومتی نمائندے مطالبات ماننے کا اعلان کرنے کیلئے احتجاجی دھرنے میں شریک ہورہے ہیں مگر وفاقی منسٹر نے آغاز میں ہی آکر واضح کیا کہ ”دیکھیں ہم اگر اپنی بات کریں تو ہم آپ کے ساتھ سچے دل سے مخلص ہیں“، اور پھر اپنی بات آگے بڑھائی، اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ ہم آپ کے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں ہیں، ہمیں تو صرف آپ کا احساس ہے۔
اسی طرح فنانس منسٹر نے اپنی تقریر کا آغاز خیبر پختونخوا میں نام نہاد صحت کارڈ کا احسان جتاتے ہوئے کیا جو کہ بنیادی طور پر شعبہ صحت کی مکمل پرائیویٹائزیشن کی راہ ہموار کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس حکومتی نمائندے نے ملازمین کے کچھ مسائل پر غور کرنے کی یقین دہانی کرائی جبکہ کچھ مسائل کو ثانوی سمجھ کر معذرت خواہانہ انداز میں کچھ ماہ کا وقت مانگا لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کن مسائل پر فوری یعنی دو ہفتوں کے اندر کام ہوگا جبکہ کونسے مطالبات ثانوی ہیں۔
بہر حال انتہائی شعبدہ بازی اور چالاکی کے ساتھ ملازمین کو زبانی جمع خرچ کے ذریعے ہڑتال ختم کرنے پر راضی کیا گیا مگر مطالبات حل کرانے کے حوالے سے کوئی نوٹیفیکیشن یا انتظامیہ کی طرف سے کوئی فیصلہ تحریری شکل میں نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہ وضاحت دی گئی کہ جن مسائل پر غور کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے وہ کب تک حل ہونگے۔ اس کی بجائے صرف اتنا کہا گیا کہ کچھ مطالبات کے حوالے سے دو ہفتے کے اندر ملازمین کو پیش رفت سے آگاہ کیا جائے گا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ اس ہڑتال اور پی ڈی اے کے محنت کشوں کے تمام تر مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہوئے روز اول سے عملی طور پر ان کے ساتھ کھڑا رہا اور پی ڈی اے کے محنت کشوں کے اس جدوجہد کو ملک بھر کے محنت کشوں سے جوڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس سلسلے میں ریڈ ورکرز فرنٹ نے اپنے سوشل میڈیا پیجز اور آفیشل ویب سائٹ پر مسلسل اس ہڑتال کو بھر پور کوریج دی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ سمجھتا ہے کہ محنت کشوں کی طاقت نے حکمرانوں کو ان کے در پر حاضر ہونے پرمجبور کیا۔ یہ ان حکمرانوں نے ہر گز مزدوروں پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ مزدوروں کی طاقت اور ہڑتال کے شدت اختیار کر جانے کے خطرے کے پیش نظر ان کو مزدوروں کو تسلی دینے کیلئے حاضر ہونا پڑا۔ اور انہوں نے زبانی طور پر ملازمین کے مسائل پر غور کرنے کی یقین دہانی تو ضرور کرائی مگر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ موجودہ حکومت اور پورا حکمران طبقہ آج مزدوروں کا کوئی بھی مسئلہ مستقل طور پر حل کرنے سے قاصر ہے۔ اس بات کا اعتراف حکومت کے مختلف نمائندے بھی جگہ جگہ پر کرتے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا عالمی مالیاتی اداروں اور مقامی سرمایہ دار طبقے کی خدمت پر مامور حکمرانوں کیلئے وقتی طور پر مسائل حل کروانے کی یقین دہانی کروانا اور پھر کچھ عرصے بعد وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنی بات سے مکر جانا اب ان کی باقاعدہ حکمت عملی بن چکی ہے۔
یہاں کے حکمران مکمل طور پر سامراجی غلام ہیں اور اپنا آزادانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، یہ صرف پاکستان کا محنت کش طبقہ ہی ہے جو اس سامراجی طوق کو ملک کے گلے سے نکال سکتا ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ واضح کرتا ہے کہ ملک بھر میں سینکڑوں اداروں کے محنت کش اس وقت اپنے حقوق کیلئے لڑائی کے میدان میں اتر چکے ہیں، لہٰذا اس لڑائی کو آگے بڑھانے کا اگلا قدم ایک عام ہڑتال ہوگا، جس کے ذریعے ملک بھر کا محنت کش طبقہ سماج میں اپنی طاقت کا اظہار کرے گا اور حکومت اور سرمایہ داروں کی موجودہ تمام مزدور دشمن پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑائی کو تیز کرے گا۔