تحریر: | پارس جان |
آج کل بلاول زرداری کے ممکنہ طور پر انقلابی ہو جانے کا بڑا شور شرابہ ہے۔ سُنا ہے موصوف نے تمام تنظیمی ڈھانچے اور عہدے غیر فعال یا معطل کر دیئے ہیں اور پنجاب میں پارٹی کی باگ دوڑ نام نہاد بائیں بازو کے ’’محفوظ‘‘ ہاتھوں میں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پیپلز پارٹی کے معذرت خواہ نام نہاد بائیں بازو میں روایتی رقابت بڑھ رہی ہے اور سب نظرِ کرم کے امیدوار بنے ہوئے ہیں۔ لیکن مشترکہ مقاصد، طریقہ کار اور لائحہ عمل اس رقابت میں رخنہ ڈال کر بہت سے بچھڑے ہوئے پرانے ’’یاروں‘‘ کو پھر باہم بھی کر سکتے ہیں۔ویسے بھی جب منزل ایک ہی ہو تو رستے بھی کسی نہ کسی دوراہے پر بغل گیر ہو ہی جایا کرتے ہیں۔ لیکن بلاول کے بارے میں یہ شور شرابہ پہلی دفعہ نہیں کیا جا رہا ۔ اس سے پہلے بھی تقریباً دو سال قبل کراچی میں شہدائے کارساز کی برسی کے موقع پر بلاول کی باقاعدہ سیاسی ’’رونمائی‘‘ کے وقت مختلف سیاسی حلقوں اور علمی ’’حجروں‘‘ سے اسی قسم کی اذانیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ یہ سلسلہ تب سے وقفے وقفے سے جاری ہے۔ خوش فہمی اور خود فریبی کے درمیان بہت پتلی سی سرحد ہوتی ہے۔ کچھ سیاسی قائدین اور تجزیہ نگاروں نے تو اسی سرحد پر خوابوں کے قلعے تعمیر کر لیے ہیں اور ان میں ہنسی خوشی رہنے کا کم از کم ناٹک ضرور کرتے رہتے ہیں۔
’’دیکھو دیکھو فلاں جلسے میں بلاول نے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو آڑے ہاتھوں لیا، دوسری جگہ نجکاری کے خلاف نعرہ لگا دیا، وہاں تومزدوروں اور کسانوں کی بات بھی کی، کمال ہوگیا فلاں جگہ تو اس نے سوشلزم کا نام بھی لے لیا، لگتا ہے اب اسے بات سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے، آخر بے نظیر کا بیٹا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سلسلہ نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ آئے روز نئی دلیلوں اور حوالوں کے ساتھ اس میں شدت ہی آتی جا رہی ہے۔ اپنی ہی تحریروں کو بار بار پڑھنے والے چند ایک ’’قلمکار‘‘ تو بلاول کی ان مبینہ انقلابی قلابازیوں کو اپنے ہی ’’فن‘‘ کا معجزہ قرار دیتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے، جیسے ان کی تحریریں پڑھنا بلاول کا محبوب ترین مشغلہ ہو۔ کچھ تو دعویدار ہیں کہ یہ سب ہمارے’’عظیم‘‘ مشوروں کی برکات ہیں۔ خیر ان سب پہ تو ترس ہی کھایا جا سکتا ہے لیکن ہمارے سامنے اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا محنت کش عوام بھی بلاول کو انہی دانشوروں کی عینک سے دیکھتے ہیں یا ان کا زاویہِ نظر کچھ مختلف ہے۔ در اصل وہ اپنے بزرگوں اور آباؤ اجداد کی کارگزاریاں سنتے ہیں، بسا اوقات معمول کی تلخیوں سے فرار حاصل کرنے کے لیے ان سے لطف لیتے ہیں، بار بار ان کو دہرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن تھک ہار کر ان سے روگردانی کرنے پر مجبور بھی ہو جاتے ہیں۔ آخری تجزیئے میں روزمرہ زندگی کے تجربات ہی ان کے بہترین استادہوتے ہیں۔ آج کے عہد میں ان تجربات نے بھی آفاقی کردار اپنا لیا ہے۔ اور ان تجربات کا گہرائی میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے ماحولیاتی تبدیلیاں، دنیا بھر میں زلزلوں، سیلابوں اور طوفانوں کے نئے سماجی معمول کو جنم دے رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری اس نہج پر ہے کہ یہ نظام ان نام نہاد قدرتی آفات کا تدارک یا انسداد تو دور کی بات فطرت کے اس دیو کو اور بھی مشتعل کر رہا ہے۔ فطرت ایک دفعہ پھر’’ترقی یافتہ‘‘ انسانیت کا تمسخر اڑاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بے پناہ سائنسی و تکنیکی ترقی اور صلاحیت کے باوجود فطرت پر قدرت حاصل کرنے کی بجائے انسانوں کی اکثریت خود اپنی زندگی اور حالات کے ہاتھوں مجبور اور لاچار ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ بھونچال اور طوفان محض ماحولیات تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ عالمی معیشت اور سیاست پر بھی مسلسل لرزے کی کیفیت طاری ہے۔ بڑے بڑے بینک، مالیاتی اور سرمایہ کاری کے ادارے، ریاستیں، پارٹیاں، لیڈر، سماجی و سیاسی روایتیں، علمی و ادبی رجحانات، عقائد اور نظریات غرضیکہ سماجی زندگی کے تمام تر شعبہ جات کے مروجہ رجحانات اپنی بنیادوں سے ہِل رہے ہیں۔
دنیا اور اس کے بارے میں تمام تر تصورات تبدیل شدہ حالات کے شدید ترین دباؤ کا شکار ہیں۔ انسانی شعور کی جبلی قدامت کی تمام تر مزاحمت کے باوجود ماضی کے تمام تر توہمات، تعصبات اور روایات یکے بعد دیگرے شدید ترین سیاسی درجہ حرارت کی وجہ سے واقعات کی بھٹی میں بھُن کر نئی تشکیلات، مظاہر اور سانچے میں ڈھلنے کو بیتاب ہیں۔ دیوہیکل سیاسی پارٹیاں جو حالات کی روِش سے بے بہرہ ہیں منہدم ہوتی جا رہی ہیں اور عوام کے دل اور دماغ پر خدائی تسلط رکھنے والے لیڈر اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔یہ تمام عوامل بلاشبہ ایک غیر معمولی عہد کی علامات ہیں۔ بُت شکنی اس نوجوان نسل کی عادت ہی نہیں جبلت بن چکی ہے۔
اس عالمی سیاسی پسِ منظر سے کاٹ کرکسی بھی خطے اور ملک کی کسی بھی سیاسی پارٹی اور قیادت کا تجزیہ و تناظرخود فریبی اور سیاسی بے راہروی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ ’’ہمارے ملک کے مخصوص حالات‘‘ کی گردان جپنے والے بالآخر’’ہماری قوم، ہمارے شہر، ہماری گلی اور میرا گھر‘‘ کے پُل صراط سے پھسل کر ’’میری ذات‘‘ کی دلدل میں گر کر غرق ہو جاتے ہیں۔ جیسے ساون کے اندھے کو سب ہرا ہرا نظر آتا ہے ایسے ہی کنویں کے مینڈکوں کے لیے ان کا کنواں ہی کُل کائنات ہوتی ہے۔ مخصوصیت جتنی بھی منفرد کیوں نہ ہو جائے عمومیت پر مسلط ہو کر اس کی سمت کا تعین نہیں کر سکتی اور نہ ہی معروضی قوانین کی حیثیت اختیار کر سکتی ہے۔ ایسا سوچنا سراسر موضوعیت ہو گی۔مخصوص حالات کس حد تک اور کتنی مدت تک عالمی صورتحال سے متصادم اور متضاد کیفیت میں خود کو برقرار رکھ سکتے ہیں اس کے تعین کے لیے ماضی بعید کے قصے کہانیوں کو دہرانے کی بجائے ٹھوس حقائق سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور بلاول زرداری کا آپس میں اور پھر عوام سے تعلق اور اس تعلق کا مستقبل بھی اسی انداز سے سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں محنت کشوں کی گزشتہ دو نسلیں پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ امید اور قربانی کے کچے دھاگے سے بندھی رہیں۔ لیکن یہ کوئی مذہبی، اخلاقی اٹوٹ ناطہ نہیں تھا بلکہ محنت کش طبقے کے نقطہ نظر سے خالصتاً عملی اورمادی اہمیت کا حامل تھا۔ ان مادی بنیادوں سے ہی وہ والہانہ جیالا پن منسلک تھا جس کے قصے آج بھی بیمار روحوں کو مرعوب کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔اس جذباتی وابستگی کو اس کی مادی بنیادوں سے کاٹ کر ازلی اور ابدی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بہتر زندگی کے لیے محنت کشوں کی ایک نسل کی بے مثال جدوجہد کے ادھورے پن نے ذوالفقار علی بھٹو کو ان کا مسیحا بنا دیا تھا۔عالمی اور ملکی معیشت میں اصلاحات کی گنجائش تھی اور بھٹو نے اس گنجائش کو عملی جامہ پہنا کر انقلاب کو اصلاحات میں زائل کر دیا۔ اصلاحات سے مستفید ہونے والی نسل نے ان اصلاحات کا سہرا اپنی جدوجہد سے زیادہ بھٹو کے سر پر باندھا۔ اگلی نسل نے بھی گزشتہ نسل کی حاصلات کے دفاع اور معیارِ زندگی میں گراوٹ کو روکنے کے لیے آسان ترین راستہ اپنایا اور بھٹو کو اس کی بیٹی کی شکل میں زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ وہ فرطِ جذبات میں بے نظیر کے اندر بھٹو کو ہی دیکھتے اور تلاش کرتے رہے۔ عالمی طور پر تحریکوں کی گراوٹ، سوویت یونین کے انہدام اور ملک میں ضیاءالحقی ردِ انقلاب کی باقیات کے عہد میں وہ اس کے علاوہ شاید کچھ اور کر بھی نہیں سکتے تھے۔عالمی طور پر مزدور تحریک میں مایوسی اور’’صبر شکر‘‘ کی نفسیات حاوی ہو چکی تھی۔ لیکن پھر انہوں نے بے نظیر بھٹو کو بھی دیکھا۔ بے نظیر نے ان کی امیدوں کا قتلِ عام تو کیا مگر دو بار اقتدار کے مکمل نہ ہو سکنے کے باعث ایک کسک بہر حال رہ گئی اور عوام بے نظیر کو بھٹو اور اپنی پہلی نسل کی جدوجہد کی یاد داشتوں سے مکمل طور پر علیحدہ نہیں کر سکے۔ گھائل ہی سہی لیکن ایک امید بلکتی، سسکتی بے نظیر کے نئے استقبال تک اپنے آپ کو زندہ رکھنے اور پھر دوباہ اجاگر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
لیکن پھر آصف علی زرداری کا اقتدار کا دورانیہ پورا ہو گیا جو سندھ میں ابھی تک جاری ہے۔ سرمایہ داری اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران میں پھنس گئی۔ اصلاحات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑا جانے لگا۔ بدعنوانی میں جدت کو متعارف کروا کر اسے آرٹ کا درجہ دینے کی کوشش کی گئی۔ جمہوریت تو فتح یاب ہو گئی لیکن انسانیت کو برباد کر دیا گیا۔ محنت کشوں کی وہ آخری کسک اور آس بھی دم توڑ گئی۔ مرکز میں نہ صرف یہ کہ اقتدار ہاتھ سے نکل گیا بلکہ پنجاب اور پشتونخواہ میں بھی بلوچستان کی طرح پارٹی تقریباً معدوم ہو کر رہ گئی۔ ریاست کی بی ٹیم بن کر کشمیر اور گلگت کی سیاست میں اثرو رسوخ کو برقرار رکھا گیا۔ سندھ کارڈ کو بچانے کے لیے قوم پرست نعرے بازی کو اوڑھنا بچھونا بنانا پڑا۔ اور جب پھر بھی معاملات قابو میں نہ آ سکے اور اسی عرصے میں ریاست کے ساتھ تعلقات میں طاقت کے بگڑتے ہوئے توازن کو اپنے حق میں بحال کرنے اور لوٹ کے مال کی حفاظت اور اس میں مزید اضافے کی غرض سے سامراجی آشیرباد کی خیرات حاصل کرنے کے لیے بلاول کو میدان میں اتارا گیا۔ کرپشن اور مراعات کے دفاع کی یہ کوشش آج بھی جاری ہے۔ لیکن اس بار عوامی ردِ عمل بہت مختلف ہے۔ ایک بالکل مختلف عالمی معاشی اور سیاسی صورتحال میں ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے۔ جس کے پاس اپنے بزرگوں کے قصے کہانیوں کو سننے اور ان پر یقین کرنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔
بلاول نے لاکھ بھٹو بننے کی کوشش کی مگر عوام کی وسیع تر پرتوں نے اسے بجا طور پرآصف علی زرداری کا تسلسل ہی سمجھا۔ بلاول جتنی بھی انقلابی نعرے بازی کر لے، پیپلزپارٹی کی موجودہ (سندھ) اور سابقہ مکمل پانچ سالہ وفاقی حکومت کے تلخ ترین تجربات بلاول اور عوامی شعور کے بیچ میں دیوارِچین کی طرح حائل ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی انقلابی روایات اور اس کی یادیں شعور ہی نہیں لاشعور سے بھی محو ہو چکی ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو دونوں جانب شدید سیاسی خلا کی وجہ سے وقتاً فوقتاً کئی سیاسی بلبلے بنیں گے، ان میں سے ایک بلاول بھی ہو سکتا ہے لیکن ایک مستحکم اور دیر پا سیاسی روایت کے طور پر پیپلز پارٹی کی شناخت اپنی ہم عصر بہت سی سیاسی روایات کی طرح تاریخ کے کوڑے دان کا رزق بن چکی ہے۔ بار بار تاریخ کے میدان میں اتر کر اپنا مقدر تبدیل کرنے کی کوششیں کر کے تھک ہار جانے والا انتہائی لاغر اور بوسیدہ عوامی شعور ہی آئندہ کسی نسل کو تاریخ کے اس کوڑے دان کو ٹٹولنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ موجودہ نسل کو تو ابھی حالات کے تھپیڑوں کی وجہ سے جلد یا بدیر ایک تازہ دم لڑائی میں اترنا ہے۔ اور اس لڑائی کی تیاری کم نظر قنوطی دانشوروں کے تجزیوں سے بے نیاز جاری و ساری ہے۔ PIA کی ہڑتال تو محض ٹریلر تھا۔ فلم تو ابھی باقی ہے۔
یہاں پر یہ نقطہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس کا فیصلہ تو تحریک کرے گی کہ پیپلز پارٹی آج بھی روایت ہے کہ نہیں۔ پیپلز پارٹی ایک انقلاب میں روایت بنی تھی اور ایک انقلاب میں ہی ختم ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے سیاسی فارمولے جو آسانی سے یاد ہو جائیں، کا تاریخی عمل پر اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ ضروری نہیں کہ تحریک ہی میں روایت ختم ہو ہاں البتہ اس کا اظہار تحریک میں محنت کشوں کی سیاسی سمت کی بنیاد پر ہوگا۔ یعنی یہ خاتمہ نہیں ہو گا بلکہ خاتمے کا اظہار ہو گا۔ لیکن اگر سب فیصلے وقت ہی کرے گا تو سائنسی فکر اور تجزیئے کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ ریاضی کی بنیادیں رسمی منطق پر استوار ہیں اس لئے اس میں کلیے کافی کا ر آمد ہوتے ہیں لیکن سماجی سائنس میں اس میکانکی فارمولہ پرستی کی گنجائش بہت ہی محدود ہوتی ہے۔ پہلے سے متوقع یا کسی کتاب سے یاد کی گئی کسی مخصوص صورتحال کے برخلاف کسی نئی معروضی صورتحال پر پرانے فارمولے لاگو نہ ہونے کی صورت میں اس معروضی صورتحال کو کوسنے پیٹنے کی بجائے اپنے طریقوں اور رویوں کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کمیونسٹ مینی فسٹو میں مارکس اور اینگلز نے بجا طور پر کہا تھا کہ ’’کمیونسٹ محنت کش طبقے کی پارٹیوں کے مدِ مقابل کوئی نئی پارٹی نہیں بناتے‘‘ لیکن مارکس نے کبھی بھی کسی پارٹی کو محنت کشوں کی واحد اور ابدی پارٹی قرار نہیں دیا تھا بلکہ ایسا سوچنا ہی مارکسزم کی فلسفیانہ بنیادوں کی نفی ہو گا۔ پیپلز پارٹی میں محنت کشوں کی خود فریبی (illusions) تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ اور یہ سمجھنا کہ وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور ممکنہ نئی تشکیلات کے بارے میں غورو فکر کرناکوئی نظریاتی کفر یا مارکسی شریعت کی خلاف ورزی نہیں بلکہ مارکسی طریقہ کار کا واحددرست اطلاق ہے۔ مارکسیوں کے لیے تجزیئے اور طریقہ کار (strategy) کے استصنام(fetishism) کی رتی بھر گنجائش بھی سیاسی موت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے نہ صرف نظریاتی اور سیاسی میدان میں مارکسی سائنس کو ترویج دی بلکہ مزدور تحریک میں مداخلت کے لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم طریقہ کار پر بھی سیر حاصل مواد تحریر کیا۔ خاص طور پر محنت کشوں کی روایات میں کام کرتے ہوئے انقلابی قوتوں کی تعمیر کے طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک انتہائی مشکل اور کٹھن وقت میں بھی مارکسی نظریات کو محنت کشوں کی لڑاکا پرتوں تک لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ مگر ساتھ ہی کامریڈ ٹیڈ نے سرمایہ داری کے تاریخی زوال اور بحران کا نہ صرف تناظر تخلیق کیا تھا بلکہ محنت کشوں کے شعور اور ان کی روایات پر بحران کے اثرات کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا تھا۔ ’’واقعات، واقعات اور واقعات ہی مستقبل کا تعین کریں گے‘‘۔ آج دنیا بھر میں وہی واقعات رونما ہو رہے ہیں اور کامریڈ ٹیڈ کا تناظر ایک دفعہ پھر درست ثابت ہو رہا ہے۔ برنی سینڈرز، جیریمی کوربن اور یورپ میں جاری دیگر تحریکوں کا ابھار محنت کش طبقے کی تاریخ کے میدان میں بھر پور آمد کی نوید ہیں۔ تحریکیں پسپا بھی ہوں گی مگر کئی کئی عشروں کے جمود کے ادوار اب سرمایہ داری کے موجودہ بحران کے بعد ممکن نہیں رہے۔ نئے سیاسی عوامل وقوع پذیر ہونگے۔ مارکس نے کہا تھا کہ ’’ہر سچ اپنے عہد کا سچ ہوتا ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی میں کام کا طریقہ کار ایک وقت تک درست تھا مگر وہ اب اپنی نفی میں بدل چکا ہے۔ لیکن بہت سے انقلابی کارکنوں کے لیے کئی عشروں تک پیپلز پارٹی پر کی جانے والی بحثوں کے تسلسل سے جنم لینے والی روٹین کے باعث پیپلز پارٹی کے بغیر انقلاب تو کجا محنت کش طبقے کا تصور کرنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔’’ اچھا پیپلز پارٹی چھوڑ دیں گے تو پھر کس پارٹی میں انٹرازم کریں گے؟ ‘‘ یہ سوال خالص میکانکی طرزِ عمل کی پیداوارہے۔
میڈیا پر رجعتی مذہبی قوتوں کی یلغار اور حکمران طبقے کے پروپیگنڈے کے باعث مڈل کلاس کے چند نوجوانوں میں اس تاثر کا پایا جانا اور تقویت اختیار کر جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ یہ تو رجعتی معروض ہے اور ان حالات میں تو کھل کر مارکسی قوتوں کی تعمیر مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکی ہے۔ اس لیے انقلابی کارکنوں کے لیے پیپلز پارٹی ہی واحد آپشن ہے۔ اول تو یہ تاثر ہی سراسر غلط اور ریاست کی طرف سے مسلط کردہ ہے۔ گراؤنڈ پر صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔ آج نہ صرف یہ کہ محنت کشوں میں بلکہ طالبِ علموں اور بیروزگار نوجوانوں کی وسیع تر پرتوں میں شدید بے چینی اور غم وغصہ پایا جاتا ہے اور وہ کسی متبادل سیاسی نظام کے حوالے سے سنجیدہ تجسس رکھتے ہیں۔ وہ مروجہ تمام تر سیاست کو رد کر چکے ہیں۔ دوم یہ کہ حالات اور معروض جو بھی ہوں پیپلز پارٹی کو ایک ڈھال سمجھنا یا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اسے ایک محفوظ پناہ گاہ تصور کرنا مارکس اور ٹیڈ کے نظریات کا مضحکہ اڑانے کے مترادف ہے۔ مارکسیوں کا مطمع نظر ہمیشہ محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں تک رسائی ہوتا ہے چاہے اس کے لیے کتنی ہی مشکلات، مسائل اور خطرات سے دوچار ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ ایسی کیفیت میں جب نوجوان اور محنت کش مختلف اداروں کی چھوٹی چھوٹی تحریکوں میں پیپلز پارٹی کے باہر اپنے حقوق کی جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوں تو ریاست کے خوف کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ایک محفوظ پناہ گاہ سمجھ کر اس میں چھپ جانا ایک بزدلانہ اور ردِ انقلابی لائحہ عمل ہو گا۔ ایسی صورتحال میں محنت کشوں اور بالخصوص نوجوانوں کی لڑاکا پرتوں تک رسائی کے لیے نت نئے تجربات اور جرات مندانہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ بیس کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں بہت چھوٹی قوتوں کے ساتھ کسی انقلابی پارٹی کا اعلان کر دینا چاہیے بلکہ انقلابی نوجوانوں کی تیز ترین تربیت کرتے ہوئے انہیں محنت کشوں کی آئے روز چلنے والی چھوٹی چھوٹی تحریکوں سے جوڑتے ہوئے انقلابی کیڈرز کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہئے۔ سامراج اور ریاست کے کچھ دھڑے پیپلز پارٹی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کے لیے شدید ترین ریڈیکل نعرے بازی کا سہارا لینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ایسے میں بلاول کو انقلابی مشورے دینا محنت کشوں کی پیپلز پارٹی میں مرتی ہوئی امیدوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی ناکام کوششوں کے مترادف ہوگا۔ یوں بلاول یا آصف علی زرداری کے منظورِ نظر بن کر مالی مفادات یا لیڈری کے چسکے تو لیے جا سکتے ہیں مگر کوئی سنجیدہ انقلابی مارکسی رجحان تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔