|تحریر: پارس جان|
تغیر واحد ناقابلِ تغیر قانونِ فطرت ہے۔ تمام تر موجودات اور سماجی مظاہر تبدیلی کے اس عمل سے ہر وقت برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ واحد چیز جو اس تبدیلی کو سمجھ یا جان سکتی ہے وہ انسانی شعور ہے۔ انہی موجودات اورسماجی مظاہر کے ساتھ باہمی تعلق اور ان کی حرکت کو سمجھنے کا عمل خود شعور اور اس کے زیرِ اثر انسانی رویوں اور اپروچ کوبھی تبدیل کرتا رہتا ہے۔ سماجی شعور افراد کے شعور کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ بحیثیتِ مجموعی سماجی سرگرمی اور تجربے کا اجتماعی اظہار ہوتا ہے، جسے دیکھا یا محسوس نہیں کیا جا سکتا مگر مارکسی سائنس کے ذریعے سمجھا ضرور جا سکتا ہے۔ سماج کی اپنی طبقاتی ساخت اور امکانات کی وسعت کے باعث سماجی شعور قطعاً یکساں یایک رخا نہیں ہوسکتا۔ طبقاتی سماج میں سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر کی طرح یا یوں کہہ لیں کہ مادی پیداوار کی طرح اعتقادات، نفسیات اور نظریات یعنی ذہنی پیداوار بھی طبقاتی ہی ہوتی ہے۔ مختلف طبقات کے مادی مفادات ہی ریاست، مذہب، اخلاقی اقدار، خاندانی ڈھانچوں، سیاسی پارٹیوں اوراکابرین وغیرہ کے ساتھ انکے تعلق اور وابستگی کا تعین کرتے ہیں۔ طبقاتی مفادات میں تبدیلی سے لامحالہ طور پر سیاسی وابستگیاں اورتشکیلات میں بھی اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ یہی اتارچڑھاؤ پھر ایک خاص نہج پر پہنچ کر معیاری تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ شعور کی قدامت اس معیاری تبدیلی کے خلاف حتی الوسع مزاحمت کرنے کے بعد بالآخر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یوں ایک بالکل نیا سماجی و سیاسی معمول جنم لیتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ریاست اور مختلف طبقات کا پارٹی کی طرف رویہ بھی گزشتہ چار دہائیوں سے مختلف ارتقائی مراحل سے گزر کر اب معیاری طور پر اپنی الٹ شکل اختیار کر گیا ہے۔ پارٹی کے 49 ویں یومِ تاسیس کے وقت نہ صرف قیادت کے سیاسی معیار بلکہ سماجی مواد اور معروضی حالات کے حوالے سے یہ بالکل مختلف پارٹی ہے اور نام کے علاوہ سب کچھ بدل چکا ہے۔
ایک طویل عرصے تک پیپلز پارٹی ایک اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی کے طور پر جانی جاتی رہی۔ اس کی وجہ عموماً ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی حکومت میں کئے گئے چند ایسے اقدامات اور اصلاحات کو سمجھا جاتا ہے جن کی وجہ سے مروجہ ریاستی ڈھانچے میں شدید بھونچال آ گیا تھا۔ حقیقت میں محنت کش طبقے کی طرف سے مروجہ ریاستی ڈھانچے اور نظام کے خلاف انقلابی تحریک نے مروجہ طبقاتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے نہ صرف یہ کہ اس لرزتی اور ہچکولے لیتی ہوئی ریاست کو دوبارہ وہ اعتماد اور وقار بخشا تھا جس کی بدولت وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی بلکہ محنت کش طبقے کی دوبارہ مروجہ ریاستی ڈھانچے سے امیدیں اور تمنائیں وابستہ کرنے میں بھی ذوالفقار علی بھٹو نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اس ملک کی تاریخ میں شعوری یا لاشعوری طور پر ریاست اور نظام کی جو خدمت ذوالفقار علی بھٹو نے کی وہ کسی اور کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔ مگر بھٹو کے سیاسی ابھار کے مخصوص ملکی و بین الا قوامی حالات و اثرات کے پیشِ نظر بھٹو کے ریاست اور نظام کے لیے اپنے قابلِ قبول کردار سے تجاوز کرجانے کے خدشات ہمیشہ موجود تھے جس کی وجہ سے ریاست نے موقع ملتے ہی بھٹو کو راستے سے ہٹا کر قبل از تحریک معمول کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ مگر تاریخ کا پہیہ پیچھے نہیں گھوم سکتا تھا اور اس ماضی کے ’نظم و ضبط‘ کو بحال کرنے کی کوشش میں ریاست کو ایم کیو ایم، سپاہِ صحابہ اور دیگر کئی رجعتی مہم جوئیاں کرنی پڑیں جس کی وجہ سے ریاست کے اپنے وجود کو شدید خطرات لاحق ہوتے چلے گئے۔ اس سارے عرصے میں جب جب ریاست کو پیپلز پارٹی کی ’خدمات‘ کی ضرورت محسوس ہوئی پارٹی کی قیادت نے مکمل ’حب الوطنی‘ سے اس تاریخی فریضے کی تکمیل میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یوں پارٹی اپنے جنم کے ’جمعہ جمعہ آٹھ دن‘ کے علاوہ حقیقت میں کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی نہیں تھی مگر مخصوص معروضی صورتحال میں ’بھٹو خاندان ‘ کی بوقتِ ضرورت سیاسی و جانی قربانیوں کے باعث یہ تاثر شدت پکڑتا چلا گیا اور دائیں اور بائیں بازو کے دانشوروں میں یکساں طور پر مقبولیت اختیار کر گیا۔
اس سارے عرصے میں محنت کش عوام نے بارہا پیپلز پارٹی کو آزمایا اور اس کو وہ سیاسی کمک بہم پہنچائی جس کی بنیاد پر پارٹی عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں اور غیر مکمل سیاسی ایجنڈے کی باآسانی تکمیل کر سکتی تھی مگر انہیں ہر دفعہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ہر دفعہ پارٹی کی طرف سے مبینہ ’ریاستی مداخلت ‘ اور ’جمہوری عمل میں رخنہ ‘ ڈالنے کے فعل کو اپنی ’بے وفائی ‘ کا جواز بنا کر پیش کیا گیا۔ یوں محنت کشوں کی بھاری اکثریت خود کو پیپلز پارٹی اور بالخصوص بھٹو خاندان کی سیاسی و جانی قربانیوں کا ذمہ دار سمجھتی رہی۔ اور ہر دفعہ بھٹو خاندان کی ’قربانیوں ‘ کا بدلہ چکانے اور ماضی جیسی اصلاحات کی توقع میں اپنا آپ مکمل طور پر پارٹی کے سپرد کر دیا۔ ریاست کے سنجیدہ دھڑے بھی شعوری طور پر محنت کش طبقے کی اس سیاسی غلط فہمی کو تقویت دیتے رہے تاکہ پارٹی کو آئندہ بھی عوام کو دھوکہ دینے کے لیئے استعمال کیا جا سکے۔ یہ عمل اس وقت اپنے انتہا کو پہنچ گیا جب ریاست خود اپنے ساتھ لڑتے لڑتے بینظیر بھٹو جیسے اہم سیاسی مہرے سے ہاتھ دھو بیٹھی اور با لآخر پیپلز پارٹی کی قیادت ایک ’غیر بھٹو‘ یعنی آصف علی زرداری کو منتقل کرنی پڑی۔ آصف علی زرداری نے اپنے مخصوص ماضی کے باعث پارٹی کو غیر سیاسی اور مکمل تجارتی مقاصد کے لیئے استعمال کیا اور پارٹی کا مروجہ سیاسی کردار (عوامی تحریکوں کو زائل کرنے کا) تبدیل کر دیا اور آئندہ کے لیے اس مقصد کے لیے پارٹی کے استعمال کے امکانات ہی مخدوش کر دیئے۔ سنجیدہ ریاستی پالیسی ساز اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پارٹی کے اس کردار کے ختم ہوجانے کے باعث پیدا ہونے والا سیاسی خلا پھر ساٹھ کی دہائی جیسی عوامی مزاحمت کے راستے ہموار کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پھر کوشش کر رہے ہیں کہ پارٹی پر مصنوعی طور پر ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ کا لیبل لگا کر اسے قابلِ استعمال حالت میں رکھا جائے۔ بائیں بازو کے کچھ دانشور اس ضمن میں بار بار اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے پر تولتے رہتے ہیں اور مختلف اخباری کالموں کے ذریعے’نوکری‘ کی درخواستیں ارسال کرتے رہتے ہیں۔ کچھ عملاً پہلے ہی یہی تفویض کردہ فریضہ سر انجام دے رہے ہیں مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔
قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ محنت کش عوام آخر پیپلز پارٹی کو کس نظر سے دیکھتے تھے، ہیں اور آئندہ اس کے ساتھ کس طرح کا رویہ اپنائیں گے۔ محنت کش طبقہ فلسفے اور سماجی سائنس کی کتابوں سے نہیں بلکہ اپنے روزمرہ کے تجربات سے سیکھتا ہے۔ ایک وقت تھا جب روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پارٹی کے ہر پروگرام اور تقریب میں گونجتے تھے۔ ایک نسل کو نسبتاً آسان اور بہتر معیارِ زندگی اور بنیادی ضروریات کی تکمیل بھی پیپلز پارٹی کے پہلے حکومتی دور میں ہوئی تھی۔ اسی عملی تجربے سے عوام کی وسیع تر محنت کش پرتوں کے دماغ میں یہ خیال عقیدے کی طرح راسخ ہو گیا تھا کہ ان کے حالات میں مزید کسی بھی قسم کی بہتری اسی پارٹی کے ذریعے ممکن ہے۔ اور دوسری طرف تمام عوام دشمن قوتیں بھی پیپلز پارٹی کے خلاف سرگرم رہتی تھیں۔ پارٹی قیادت پر آئے روز کیچڑ اچھالا جاتا تھا اور کردار کشی کی جاتی تھی۔ گلی، محلوں میں اور مساجد وغیرہ میں پارٹی پر کفر کے فتوے اور لعن طعن برسائی جاتی تھی۔ عوام ان رجعتی مذہبی اور دائیں بازو کی قوتوں سے اتنی شدید نفرت کرتے تھے کہ ان کی طرف سے پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت پر کیا جانے والا ہر حملہ عوام کو پیپلز پارٹی کے اور قریب لے جاتا تھا۔ گویا پارٹی کی طرف سے کسی قسم کے عوام دوست اقدامات کی بجائے دائیں بازو اور عوام دشمن قوتوں کی طرف سے پارٹی مخالف پراپیگنڈے نے ہی پارٹی کا عوامی تشخص کسی حد تک برقرار رکھا ہوا تھا۔ پھر عوام نے بار بار یہ بھی دیکھا کہ پارٹی نے انہی عوام دشمن قوتوں کے ساتھ بے شمار سمجھوتے کیے۔ خاص طور پر پارٹی کے گزشتہ اقتدار کے دور میں فوج کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ جماعتِ اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد بنائے گئے، ایم کیو ایم کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھائی گئیں اور ’قاتل لیگ ‘ کے ساتھ بھی جمہوری معاشقے سے گریز نہیں کیا گیا۔ روٹی، کپڑا اور مکان عوام کی دسترس سے پارٹی کے طویل اقتدار میں مزید باہر ہوتا چلا گیا۔ ریاستی مداخلت اور ’جمہوری عمل میں ‘ کوئی براہِ راست ’رخنہ‘ بھی دیکھنے میں نہیں آیا اور مرکز کے علاوہ تین صوبوں میں حکومت اور پنجاب میں گورنری کے باوجود پارٹی نے عوام کے حق میں کوئی سنجیدہ اصلاحات نہیں کیں۔ بھٹو کے قاتلوں اور ان کے پیاروں کو پارٹی میں اہم ذمہ داریاں مل گئیں۔ نوکریوں کی خریدو فروخت کبھی نہ دیکھی گئی سطح تک معمول بن گئی۔ اور یہ تمام وہ عوامل تھے جنہوں نے مل کر محنت کشوں کے نہ صرف اجتماعی شعوربلکہ لاشعور میں موجود پیپلز پارٹی کی شبیہہ کو کھرچ کر ایک نئی نسل کے دماغ میں ایک بالکل نئی اور مختلف پیپلز پارٹی کے تصور کو راسخ کر دیا جو اسٹیبلشمنٹ مخالف نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ نواز پارٹی ہے اور جس کی قیادت ایک غیر بھٹو (زبردستی بھٹو) بلاول زرداری کے پاس ہے جو عملاً آصف علی زرداری کا ہی تسلسل ہے۔ جو ایک عوامی لیڈر کے بجائے ’سیاسی شہزادہ ‘ ہے اور عملاً حکمران طبقے کی پرتعیش زندگی کا بہترین رول ماڈل ہے۔ ہیلی کاپٹر میں جلسوں میں بلاول کی آمد، ذوالفقار علی بھٹو کی گھنٹوں عوام کے جمِ غفیر کے ساتھ پیدل میلوں تک چلنے کی سیاسی روش کے بالکل الٹ ہے۔ یوں بلاول بھٹو میں عوام کی اور بالخصوص نوجوان نسل کی کوئی خاص سیاسی خوش فہمیاں پروان نہیں چڑھ سکیں۔
مذکورہ بالا صورتحال کا سب سے بڑا عملی نمونہ سندھ میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں پیپلز پارٹی ایک طویل عرصے سے براہِ راست اقتدار کا حصہ ہے۔ اس عرصے میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے لے کر تھر میں بھوک سے سینکڑوں بچوں کی اموات تک اورسنجیدہ پارٹی کارکنوں کی بے دریغ ٹارگٹ کلنگ سے لے کر کراچی میں شدید گرمی میں پانی جیسی بنیادی ضرورت کی عدم دستیابی سے بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں تک عوام پر کونسی قیامت تھی جو نہیں گزری۔ ایسی کیفیت میں اساتذہ، ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف، نرسیں، کلرک اور سماج کی دیگر بے شمار پرتوں کے اندرو قتاً فوقتاً سندھ بھر میں غم و غصے کی شدید لہریں ابھرتی رہیں۔ PIA کی ایک بے مثال ہڑتال بھی دیکھنے میں آئی جس پر گولی چلا کر دو محنت کشوں کو شہید اور درجنوں کو زخمی بھی کر دیا گیا۔ اگرچہ فی الوقت 68-69ء یا83ء جیسی کوئی بڑی عوامی مزاحمت سندھ میں موجود نہیں ہے لیکن یہ چھوٹی چھوٹی تحریکیں صنعتی پرولتاریہ کے اندر بھی مسلسل بڑھنے والی بے چینی کے ہمراہ مستقبل میں کسی بہت بڑے سماجی دھماکے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ خاص طور پر حکمران طبقے کی داخلی لڑائیاں، ریاست کی پراکسیاں اور ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ نے کراچی سمیت دیگر شہری مراکز میں پرانے سیاسی معمول کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی واقعہ تمام تر صورتحال کو غیر معمولی طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔ ایسے میں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ سندھ کے محنت کش عوام اگر کسی بڑی سیاسی بغاوت کی طرف بڑھتے ہیں تو مروجہ سیاسی ڈھانچے میں کیا کوئی ایسی پارٹی موجود ہے جو ان کی توجہ اور امیدوں کا محور یا مرکز بن سکے۔ درحقیقت کسی بھی قسم کے عوامی ردِ عمل کا حدف سب سے زیادہ خود پیپلز پارٹی بنے گی کیونکہ موجودہ نوجوان نسل جن کی اوسط عمر 18 سے 25 سال کے درمیان ہے جب سے ان کے سیاسی شعور نے آنکھ کھولی ہے پیپلز پارٹی کو ہی سندھ میں اقتدار میں دیکھا ہے۔ یوں ان کی نظر میں پیپلز پارٹی عملاً اسٹیٹس کو کی عملی تصویر کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ نجی جیلوں کے مالکان سمیت سندھ کے تمام غیر انسانی درندہ صفت وڈیرے اس وقت پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت اور پارلیمانی نشستوں پر براجمان ہیں۔ باقی ماندہ قائدین اسی عرصے میں ہونے والی نجکاری سے براہِ راست مستفید ہوتے رہے ہیں۔ KESC، PIA اور سٹیل مل میں لوٹ مار کرنے والوں میں پارٹی قیادت خود یا انکے چہتے براہِ راست ملوث ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ سمجھنا کہ ممکنہ تحریک لازماً پیپلز پارٹی کے ذریعے ہی اپنا سیاسی اظہار کرے گی، سیاسی پاگل پن کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اس یومِ تاسیس سے قبل پارٹی چیئرمین کی طرف سے تنظیمی ڈھانچوں میں کیا جانے والا بڑا ردو بدل سیاسی حلقوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں پارٹی کی نکیل پارٹی کے نام نہاد بائیں بازو کے حوالے کر دی گئی ہے۔ قمرالزماں کائرہ کو پنجاب کا صدر بنا دیا گیا ہے۔ موصوف نے صدر بننے کے بعد اپنے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی عوام کی سیاسی روایت ہے اور پنجاب میں پھر اس کے احیا کو یقینی بنائیں گے۔ ان کے ہمراہ ندیم افضل چن کو سیکرٹری جنرل تعینات کیا گیا ہے۔ ان کو بھی بائیں بازو کا ہی سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت پارٹی چیئرمین آئندہ انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وزیرِ اعظم بننے کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پنجاب میں دوبارہ سیاسی احیا ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں یہ تقرریاں چیئرمین کی آخری اور دیوانہ وار کوششیں کہی جا سکتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ پارٹی قیادت کی عملیت پسندانہ سوچ کی بھی آئینہ دار ہیں۔ کیونکہ عین اس وقت جب پنجاب میں نام نہاد بائیں بازو کو پارٹی قیادت سونپی گئی ہے تو دوسری طرف سند یافتہ بدعنوان ترین پارٹی لیڈر ڈاکٹر عاصم کو کراچی کا صدر نامزد کر دیا گیا ہے۔ موصوف پر لگ بھگ 65 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں جو کافی حد تک ثابت بھی ہو چکے ہیں۔ لیکن سندھ میں چونکہ پارٹی کو بڑا سیاسی چیلنج درپیش نہیں ہے اس لیے پارٹی قیادت سب سے زیادہ کما کر دینے والے شخص کو سونپ کر باقی ماندہ پارٹی لیڈروں کو بھی یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’ہم اپنے مہربانوں کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے‘۔ یعنی آئندہ بھی جو زیادہ کما کر دے گا نظرِ عنایت کا وہی مستحق قرار پائے گا۔ لیکن پنجاب میں چونکہ پارٹی عملاً بقا کی جنگ سے دوچار ہے اس لیے کائرہ صاحب کو یہ ذمہ داری دے کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پارٹی اپنی پالیسی تبدیل کرنے جا رہی ہے۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ تاثر دیا کم جا رہا ہے اور پارٹی کے معذرت خواہان کی طرف سے از خود لیا زیادہ جا رہا ہے۔ کیونکہ گزشتہ دورِ اقتدار میں بھی کائرہ صاحب زرداری کے سب سے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے۔ عملاً یہ کوئی نئی حکمتِ عملی نہیں ہے بلکہ ماضی کا ہی تسلسل ہے۔ بلکہ جس طرح آصف علی زرداری کی بدعنوانی اور لوٹ مار کا ٹی وی چینلز پر برملا اور بیباکی سے دفاع کائرہ صاحب کرتے رہے ہیں شاید کسی دوسرے ’دائیں بازو‘ کے لیڈر کے بس کی بات نہیں تھی۔ اور انہیں بھی اسی وفاداری کا ثمر مل رہا ہے۔
اس تبدیلی سے پنجاب میں کوئی بڑی اہم پیش رفت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ گزشتہ کئی برسوں سے پنجاب میں بھی محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں کا سیاسی درجہ حرارت بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس کسانوں، اساتذہ، کلرکوں، واپڈا ملازمین، نادرا ملازمین، ڈاکٹروں، نرسوں اور طالبِ علموں کی قابلِ ذکر تحریکیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ اس حوالے سے یہ دو سال گزشتہ 25 سالوں کے سیاسی معمول میں ایک واضح تبدیلی کی غمازی کر رہے ہیں۔ یہ تمام چھوٹی چھوٹی تحریکیں پیپلز پارٹی سے اور پیپلز پارٹی ان تحریکوں سے مکمل طور پر لاتعلق رہی ہے۔ یہ بات زباں زدِ عام ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ایک خاموش اور درپردہ سیاسی مفاہمت آج بھی موجود ہے اور مصنوعی اپوزیشن کا ناٹک کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں کسی بھی بڑی عوامی تحریک کی صورت میں پیپلز پارٹی کی طرف عوام کے رویے کا تعین انہی روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور ان سے اخذ کیے جانے والے سیاسی نتائج ہی کی بنیاد پر ہو گا۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کے اندر کسی بڑے سیاسی معجزے سے زیادہ پارٹی کے باہر بائیں طرف نئی سیاسی تشکیلات کے امکانات کافی حد تک بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
اسی طرح خیبرپختونخواہ میں بھی مسلسل پارٹی کا گراف نیچے کی طرف ہی گیا ہے۔ بلوچستان میں عملاً پارٹی ختم ہو چکی ہے اور سابقہ وزیرِ اعلی نواب اسلم رئیسانی کے دور میں جو سیاسی لطیفے منظرِ عام پر آئے ان کی بنا پر پارٹی میں جو آخری چند سیاسی سانسیں موجود تھیں ان سے بھی پارٹی محروم ہو چکی ہے۔ کشمیر کے حالیہ انتخابات میں بھی پارٹی کوتاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسے میں ایک بڑے انقلابی پلیٹ فارم کے طور پر پارٹی کا سیاسی احیا ممکن نہیں رہا۔ یہ کہنا کہ ایک دم پارٹی قیادت نظریہ ضرورت کے تحت سوشلزم کا نعرہ لگادے گی اور عوام کا جمِ غفیر دوبارہ جو ق در جوق پارٹی قیادت کا طواف کرنا شروع کر دے گا، روایتی، منطقی اور میکانکی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ پارٹی محنت کشوں کی روایت تو نہیں رہی ہاں البتہ پیٹی بورژوا انقلابیوں کی ایک مخصوص پرت کی شاید آج بھی روایت ہے جو پاور پولیٹکس میں انقلابی آمیزش کر کے کوئی نیا معجزاتی محلول تیار کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک عوامی بغاوت عمومی شعور میں معیاری جست کی عکاسی کر رہی ہوتی ہے لیکن یہ معیاری جست ماضی کے مقداری تسلسل سے یکسر کٹا ہوا نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے برطانوی لیبر پارٹی کو بہترین تجربہ گاہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ جیریمی کاربن اگرچہ کوئی مارکسی کیڈر نہیں ہے مگر وہ مسلسل پارٹی کے دائیں بازو کے خلاف بالخصوص عراق جنگ کی پالیسی کے خلاف آواز بلند کرتا رہا۔ وہ ٹونی بلیئر اور اس کے حواریوں کا کبھی بھی نورِ نظر نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی حال ہی میں برطانیہ میں بننے والے سیاسی خلا کو کسی حد تک حادثاتی طور پر جیریمی کاربن نے پر کیا اور ایک بالکل مختلف لیبر پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ دیگر اور بہت سے پہلو ہیں جو پیپلز پارٹی سے یکسر مختلف ہیں مگر یہاں انکی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کا نام نہاد بایاں بازو آصف علی زرداری کے دور میں زرداری کا سب سے بڑا وکیل بن کر سامنے آیا اور آج بھی وفاداری کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے۔ حقیقی لیفٹ اپوزیشن اگر کبھی تعمیر کرنے کی کوشش بھی کی گئی تو اسے سیاسی مہم جوئی ہی قرار دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کا نام نہاد تابناک ماضی تین چار نسلوں پہلے کی بات تھی۔ گزشتہ دو نسلوں سے وابستہ پیپلز پارٹی کا ماضی قریب اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے جتنا ماضی بعید تابناک تھا۔ اسی عرصے میں مصر سے لے کر یونان تک بہت سی سیاسی روایتیں ٹوٹ کر بکھر چکی ہیں۔ یہ روایات محنت کشوں کی تحریکوں کے ابتدائی تھپیڑے بھی برداشت نہیں کر پائیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی نے کون سا ’آبِ خضر ‘ پیا ہوا ہے وہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکہ میں محنت کشوں نے دانشوروں کے کمتر برائی کے مفروضے کو مسترد کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ یہاں پاکستان میں بھی جو سادہ لوح یہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی موجودہ سیاسی آپشنز میں سے سب سے کمتر برائی کے طور پر عوام کی توجہ اور حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی ان کے ہاتھ بھی سوائے ہولناک حیرت کے اور کچھ نہیں لگنے والا۔ مخصوص حالات میں ریاستی گٹھ جوڑسے تحریکِ انصاف، ن لیگ یا باقی دائیں بازو کے ساتھ الحاق کر کے اقتدار میں اپنا حصہ تو وصول کیا جا سکتا ہے مگر عوامی بغاوت کو زائل کرنے کی گنجائش اور صلاحیت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ موجودہ قیادت کے تحت پیپلز پارٹی ماضی کے مزار کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اور عظیم انقلابی رہنما فیڈل کاسترو کے بقول ’انقلاب کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہوتا بلکہ ماضی اور مستقبل کے مابین فیصلہ کن جنگ کا اعلان ہوتا ہے‘۔ ایسے میں مارکسی قوتوں کے لیے نئے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔ آزادانہ اور جراتمندانہ انقلابی سیاست کے لیے حالات رفتہ رفتہ سازگار ہوتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تبدیل شدہ کیفیت کا درست ادراک کرتے ہوئے حقیقی انقلابی نعروں اور پروگرام کے ساتھ میدانِ عمل میں اترا جائے۔ اگر آئندہ تحریک میں ایک مستعد اور نڈر مارکسی قیادت محنت کشوں کو میسر آ گئی تو سرمایہ داری کا تختہ الٹ کر حقیقی عوامی انقلاب کو روکنے کی صلاحیت اس ریاست کے بس کی بات نہیں ہو گی۔