|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، خیبر پختونخوا|
خیبر پختونخوا سابقہ فاٹا میں حالیہ دہشتگردی کی لہر میں اضافے کی وجہ سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر بے سر و سامانی کی حالت میں نقل مکانی کر رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اداروں اور دہشت گرد گروہوں کے درمیان مسلسل لڑائی کی وجہ سے علاقے میں ایک خوف کی فضا قائم ہے۔ اس لڑائی میں لوگوں کے گھروں میں مارٹر گولے لگتے ہیں اور فائرنگ کی زد میں عام عوام آتے ہیں، جس کی وجہ سے کئی اموات ہوئی ہیں اور متعدد لوگ زخمی ہو گئے ہیں۔
2008ء میں بھی خیبر پختونخوا اور سابقہ فاٹا میں دہشتگردی کی وجہ سے لوگوں کو گھروں سے نکال کر آئی ڈی پیز (Internally displaced person) بننے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے بعد ریاست کی جانب سے دہشتگردوں کے خلاف ضرب عضب سمیت کئی فوجی آپریشن کئے گئے لیکن دہشتگردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا بلکہ ریاست نے دانستہ طور پر گُڈ اور بیڈ طالبان کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے اپنے پراکسی گرہوں اور دہشت گردوں کو پناہ دی اور ان کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا۔
اس کے بعد مسلسل دہشتگردی کے واقعات ہوتے رہے لیکن گزشتہ دو سالوں کے دوران دہشتگردی کے واقعات میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے۔ ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں صرف نومبر کے مہینے میں 41 دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں کرم میں دو فرقہ وارانہ بنیاد پر کیے جانے والے حملے بھی شامل ہیں۔ ان حملوں میں 114 افراد ہلاک اور 95 زخمی ہوئے۔ اسی مہینے میں خیبر پختونخوا میں 14 فوجی آپریشنز بھی ہوئے۔
دہشت گردی کے واقعات میں اضافے اور پچھلے عرصے میں ریاست کی جانب سے دہشت گردوں کو جیلوں سے نکالنے کے خلاف خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں عوام نے بھر پور مزاحمت کی۔ لاکھوں کی تعداد میں عوام نے گھروں سے نکل کر دہشت گردی کے خلاف بھر پور احتجاج کیے اور ہر قسم کی دہشتگردی اور انتہا پسندی کو مسترد کیا اور یہ ثابت کیا کہ پختون نہ تو دہشتگرد ہیں اور نہ ہی دہشتگردی کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اسی عوامی مزاحمت کے نتیجے میں دہشتگردوں اور ریاست دونوں کو ایک حد تک پسپا ہونا پڑا اور دہشت گردوں کے لیے یہ نا ممکن ہو گیا کہ پہلے کی طرح کھلے عام سڑکوں، بازاروں اور دیہاتوں پر قبضہ کر سکیں۔ اسی طرح 11 اکتوبر کو خیبر میں پی ٹی ایم کی جانب سے ایک امن جرگہ بلایا گیا جس میں ریاستی جبر اور کریک ڈاؤن کے باوجود لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ اس جرگہ میں یہ مطالبہ رکھا گیا کہ خیبر پختونخوا سے دہشت گرد اور فوج دونوں ساٹھ دنوں کے اندر اندر نکل جائیں۔
لیکن قیادت کی نظریاتی کمزوری، تنگ نظر قوم پرستی اور ایک واضح پروگرام اور لائحہ عمل دینے میں ناکامی کی وجہ سے جرگہ کے مطالبات پر عمل درآمد نہیں کروایا جا سکا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اس کے بعد دہشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے جبکہ فوجی آپریشنز بھی شروع ہیں۔ جس کی وجہ سے سابقہ فاٹا کے غریب اور جنگ کے مارے ہوئے عوام کو ایک بار پھر سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
انقلابی کمونسٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ فوجی آپریشنوں سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ ریاست کے تمام تر ادارے دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس واقعے میں TTP (Tehrik-i-Taliban Pakistan) پاکستانی ریاست کے لیے ایک درد سر بن چکی ہے اور جس سانپ کو خود اس ریاست نے پال پوس کر بڑا کیا تھا آج وہ اس ریاست کے گلے کا طوق بن چکا ہے۔ لیکن پاکستانی ریاست کے شدید بحران، ٹوٹ پھوٹ اور ریاستی اداروں کے مابین مفادات کے اوپر دھڑے بندی کی وجہ سے ایک دھڑا اب بھی دہشتگردوں کی پشت پناہی اور معاونت کر رہا ہے۔
اس لیے انقلابی کمیونسٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ دہشتگردی کا مقابلہ جمہوری طور پر منتخب عوامی کمیٹیوں کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے اور یہی جمہوری طور پر منتخب عوامی کمیٹیاں وسائل کی لوٹ مار کا بھی نہ صرف خاتمہ کر سکتی ہیں، بلکہ قدرتی و معدنی وسائل کو عام محنت کش عوام کی ملکیت میں دینے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ حال ہی میں ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں ہم نے دیکھا کہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں عوام خود دہشتگروں کے خلاف اسلحہ اٹھا کر نکلے اور دہشت گردوں کو بھاگنے پر مجبور کیا۔
ہم سمجھتے ہیں دہشت گردی اور بد امنی کو مستقل طور پر ختم کرنے کے لیے ایسے متبادل نظریات کی ضرورت ہے جن سے نہ صرف پشتون قوم بلکہ اس خطے میں موجود تمام مظلوم اقوام اور پسے ہوئے طبقات کو دہشت گردی، بد امنی سمیت ہر قسم کے ریاستی جبر سے نجات مل سکتی ہے۔ یہ سب کچھ محنت کش طبقے کی قیادت میں طبقاتی جدوجہد کی مرہون منت ہے، جس کے لیے کمیونزم کے انقلابی نظریات رکھنے والی انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے۔
اس لیے ہم خیبر پختونخوا کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ انقلابی کمونسٹ پارٹی کا حصہ بنتے ہوئے دہشتگردی سمیت بے روزگاری، مہنگائی اور دوسرے تمام مسائل کے حل کے لیے متحد ہو کر سیاسی لڑائی کا حصہ بنیں اور ان مسائل کی حقیقی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے ان سے نجات حاصل کریں۔