|تحریر: ایوان لوح، ترجمہ: ولید خان|
روس میں حالیہ کاراباخ جنگ پر دو نکتہ نظر موجود ہیں۔ ایک طرف لبرلز ہیں جو NATO کے تربیت یافتہ ترک جرنیلوں اور اسرائیلی ڈرونز کے مداح ہیں تو دوسری طرف پیوٹن کے خفیہ اور کھلم کھلا مداح لیوا (روسی۔یوکرائینی میڈیا پر) ہمیں بتا رہے ہیں کہ انقلابیوں (نام نہاد یا حقیقی) کو ہمیشہ جنگوں میں شکست ہوتی ہے۔ ان دونوں خیالات میں حقیقت کی رمق تک موجود نہیں۔ بورژوا انقلابات میں تشکیل پانے والی ملیشیاؤں نے شاندار فتوحات حاصل کیں۔ صرف انیسویں صدی میں ہی نہیں بلکہ ناگورنو۔کاراباخ جمہوریہ کی تاریخ کا آغاز تین دہائیوں پہلے ہونے والی جنگ میں آرمینی ملیشیا کی فتح سے ہوتا ہے۔ اس وقت آذربائیجان زیادہ امیر تھا اور اس کی فوج زیادہ بڑی اور اسلحہ سے بہتر لیس تھی لیکن اگر آذربائیجان کو اس جنگ میں کچھ مقامی فتوحات حاصل ہوئیں تو ان کا تعلق سابق صدر مطالیبوف (ایک مقامی ریفریجریٹر پلانٹ کا ڈائریکٹر) اور KGB جرنیل آلییف کے بجائے قلیل مدت کے لئے اقتدار میں موجود نیم پاگل باغی اور بین الترک نواز الشیبے سے تھا۔ سپاہیوں کے بجائے باکو کی گلیوں میں طلبہ اور مزدوروں کو گرفتار کیا گیا کیونکہ اس کے حامیوں کو ادراک تھا کہ وہ کیوں لڑ رہے ہیں۔ اس وجہ سے آرمینیا اس جنگ میں فاتح ہوا یعنی ملیشیا کا جنگجوانہ حوصلہ اور شعوری ڈسپلن، جس کی بنیاد بہترین تعلیم اور عمومی ثقافت تھی۔ جدید آرمینیا کی بنیاد کاراباخ کی جنگ اور اس سے منسلک سختیاں اور اموات ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ربع صدی میں کیا تبدیل ہوا ہے؟ کیا آذربائیجان نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کر لی ہے؟ ایسا تو نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک دہائی کے گراں قدر تیل نے باکو کی ظاہری حالت کو جازبِ نگاہ بنایا ہے اور ان سالوں میں ملک کا عسکری بجٹ کبھی کبھی پورے آرمینیا کے بجٹ سے تجاوز کر جاتا تھا۔ لیکن اس صورتحال میں مزدور طبقہ امیر نہیں ہوا۔ آرمینیا کے برعکس جہاں غربت عمومی ہے اور ملک کے دارالحکومت میں بھی واضح ہے، آذربائیجان میں غربت صوبوں اور شہری مضافات میں دھکیل دی گئی ہے جہاں پیٹرو ڈالر کی بھنک بھی نہیں پر سکتی۔ 2018ء میں روسی اعدادوشمار کی ایجنسی کے مطابق روس میں ہر چوتھا مہاجر آزربائیجانی ہے۔ ایسی سماجی حالت کے ممالک تو شاذونادر ہی جنگیں جیتتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آرمینیا کمزور ہو گیا ہے؟ آرمینی قوم کی اکائی کیوں اس جنگ میں موثر ثابت نہیں ہو سکی؟ اس کی سماجی و سیاسی اور خالصتاً عسکری، دونوں وجوہات ہیں۔
ایک اصول ہے کہ جو فریق جنگ ہارتا ہے، عام طور پر وہ اپنی شکست سے اکثر درست نتائج حاصل کرتا ہے۔ اس دوران فاتح جشن مناتے ہیں۔ یہ ایک آفاقی اصول ہے۔ آرمینیا کی سیاسی اشرافیہ، جس نے ملک میں 2018ء تک حکمرانی کی، اس کا تقریباً سارا جنم کاراباخ تحریک سے ہوا جس کا نصب العین ارتساخ کی آرمینیا کو واپسی تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ان میں سے اکثریت ناگورنو۔کاراباخ آٹونومس اوبلاسٹ (NKAO) کے مقامی تھے یا پھر ایک طویل عرصہ وہاں رہائش پذیر رہے۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے 1990ء کی دہائی کے اختتام میں ٹیر۔پیٹروسیان کو آذربائیجان کے ساتھ اپنی شرائط اور مضبوط پوزیشن سے ایک امن معاہدہ نہیں کرنے دیا۔ ملیشیا فوج ایک عظیم قوت ہے لیکن ایک مرتبہ وہ عوام کے جمہوری کنٹرول سے باہر ہو جائے تو پھر اس کے سپاہی کرپٹ گینگ بن جاتے ہیں۔ ایک دانشور اورممتاز سیاست دان ٹیر۔پیٹروسیان کے استعفے کے بعد یہ عمل تیز رو ہو گیا۔ ”قبائل کی جنگ“ کا ایک واضح مظہر 1999ء میں آرمینی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کا قبضہ اور ملک کے وزیرِ اعظم کا قتل تھا۔۔یرکاپاح ملیشیا وازگن سارسگیان کا موجب اور سابق لیڈر جس کا کوچاریان قبیلے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس تاریخی لمحے کے بعد آرمینیا میں ملیشیا یونٹس کے ممبران کی جانب سے کھلے عام ہتھیار اٹھا کر گھومنے پھرنے کی آزادی کے حوالے سے رویہ تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ کوچاریان کی کوشش ہے کہ ایک زیادہ پیشہ ورانہ اور منظم فوج تشکیل دی جائے۔ پیسوں کی کمی کی وجہ سے یہ عمل 2010ء کی دہائی میں ہی منظم ہو سکا جب آرمینی فوج میں فطری طور پر نئی نسل نے کنٹرول سنبھال لیا جس کے نتیجے میں جبری بھرتی کے بجائے سارجینٹ پوزیشنوں پر کنٹریکٹ سپاہیوں نے چارج سنبھالنا شروع کر دیا۔
کیا لیوا مبصر کے نکتہ نظر میں جرائم پیشہ اور کرپٹ کوچاریان گروہ۔۔جس نے آرمینی عوام کو اندرونی طور پر غربت میں غرق کر دیا ہے اور بیرونی طور پر تقریباً ناگزیر جنگ کا شکار کر دیا۔۔کی طاقت پر آرمینی عوام کے قبضے کی کوشش جرم ہے؟ اس سے تو لیوا کی حقیقی قلعی کھل جاتی ہے! چند سال پہلے جب میں لفٹ لے لے کر آرمینیا میں گھوم پھر رہا تھا تو ایک اسمگلر نے ہمیں ایک ڈرائیور اور محافظ فراہم کیا جو حاضر سروس فوجی افسر تھا۔ رات کو وہ گاڑی چلاتا تھا۔ اس کے پاس شائد ہی جنگی تربیت کے لئے کوئی وقت بچتا ہو! کاراباخ کی عسکری اشرافیہ امن کے خلاف تھی کیونکہ کاراباخ کی غیر یقینی حیثیت ہی ان کے کالے کرتوتوں کی محافظ تھی۔ اس وجہ سے وہ جمہوریت کے بھی خلاف تھے۔ اس بنیاد پر وہ پیوٹن سے متفق تھے۔
یلسن کے روس کے لئے کاراباخ لڑائی محض ایک بوجھ تھا، ایک ایسا مسئلہ جسے سفارت کار سست روی سے حل کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ پیوٹن کے علاقائی سامراجی عزائم کے لئے کاراباخ، ٹرانس کاکیشیا سے چمٹے رہنے اور آرمینیا پر سیاسی و معاشی تسلط قائم کرنے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ روسی کاروباری اس علاقے میں کئی سالوں سے خوش و خرم ہیں۔ وقتاً فوقتاً رونما ہونے والے ”حملے“ اور کرپشن اسکینڈل اس منطق کے عین مطابق ہیں۔ روسی اور آرمینی انتظامیہ اسٹیٹس کو سے خوش تھیں۔ اس وجہ سے پیوٹن کے نمودار ہونے اور ٹیر۔پیٹروسیان کے جانے پر کاراباخ کے حوالے سے روسی اور آرمینی امن کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
سیاست میں یہ ایک اچھا اصول ہے۔۔مردے کا بوجھ زندہ نہیں اٹھاتے۔ آپ تاریخ کے رنجیدہ اوراق کے گرد ایک قومی نظریہ تشکیل نہیں دے سکتے۔ آرمینیا کے حوالے سے اس طرح کے حالات کے لئے سازگار پیش رو وجوہات موجود تھیں لیکن اس میں ملکی قیادت کی دہائیوں سے جاری شعوری پالیسیوں نے بھی حصہ ڈالا ہے۔ سیاسی وجوہات کی بناء پر ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ سرحدوں کی بندش نے ملک کی سیاسی ناکہ بندی کر دی۔ آرمینیا باقی یوروایشین اکانومک یونین (EAEU) سے جارجیا کے ساتھ دو محصولاتی سرحدوں اور پہاڑی دروں کے ذریعے علیحدہ ہے۔ موسمِ سرماء میں جیارجین ملٹری ہائی وے پر موجود کراس پاس اکثر بند ہوتا ہے اور اس کے ساتھ روسی انتظامیہ کی عادت ہے کہ جب بھی جارجیا کے ساتھ کوئی سیاسی مسئلہ بنتا ہے تو اس سرحد کو بند کر دیتے ہیں۔ اس تمام صورتحال کے جمہوریہ کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
2018ء میں پاشینیان ایک مقبول انقلاب کے ذریعے اقتدار تک پہنچا جس کے نعروں میں امن اور ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شامل تھا۔ اکتوبر 2018ء میں دوشنبہ میں الہام آلییف کے ساتھ ایک ملاقات میں اس نے سرحدوں پر تناؤ کم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ لیکن ”سخت گیروں“ کے حملوں، جغرافیائی حقیقتوں اور قومی نظریات کے درمیان پھنسے رہ جانے پر پاشنیان پیچھے ہٹ گیا۔ پیوٹن کی طرف سے واضح سردمہری نے بھی ایک کردار ادا کیا جس کی موضوعی وجہ بھی ہے۔۔انقلاب کا خوف اور اس کے قائدین میں عدم اعتماد۔ یہ ایک ایسا احساس ہے جو ان افراد میں بھی کثرت سے پایا جاتا ہے جو محسوس کرتے ہیں کہ وہ روس میں ہی رہ گئے ہیں۔ پاشینیان کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے یورپ اور امریکہ میں آرمینی تارکینِ وطن نے اس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ اگست 2019ء میں کاراباخ کے دارلحکومت میں پاشینیان نے کہا کہ ”کاراباخ، آرمینیا ہے اور بات ختم“۔ اس کی بیوی جو پہلے ”امن کی تحریک“ کی سربراہی کر رہی تھی اب عسکری یونیفارم میں تصاویر کھنچوا رہی تھی اور اس سال اگست میں آرمینیا کے صدر اور وزیرِ اعظم نے سوریز امن معاہدے کی ایک سویں سالگرہ منائی جو ترکی کے بٹوارے اور ایک آزاد آرمینی ریاست کے قیام سے متعلق ہے۔ یہ اردوگان کی دکھتی رگ ہے۔ یہ تقریب جولائی میں آرمینااور آذربائیجان کی ایک دوسرے پر دو ہفتوں کی بمباری کے بعد منائی گئی جس میں بظاہر نظر آ رہا ہے کہ آرمینیا قصوروار ہے۔
آذربائیجان ایک طویل عرصے سے جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ 2016ء میں ”چار روزہ“ جنگ آذربائیجان کے لئے ایک طرح سے اپنی طاقت کا امتحان تھا۔ اب ہونے والی ایک نئی کوشش کی بھی وجہ ہے۔ اردوگان کی وجہ سے آلییف کے پاس ایک نیا ترپ کا پتہ ہے۔۔شامی خانہ جنگی میں وسیع تجربہ رکھنے والے ترک نژاد اسلامی ملیشیا کے ہزاروں کرائے کے جنگجو جو پہاڑوں میں لڑنے کے ماہر ہیں۔ لبرل عسکری ماہرین عام طور پر کسی بھی جنگی منصوبہ بندی میں ترک جرنیلوں کی عمیق حکمت عملی سے متاثر ہو تے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بھرپور موقعہ پرستی کا ثبوت دیا ہے۔ 2016ء کی مرکزی لڑائیاں آراکس وادی میں ہوئیں اور 1990ء کی دہائی کے اوائل میں جنگ کا تیز تر خاتمہ ہورادز آپریشن کے ذریعے ہوا۔ آذربائیجانی 1st آرمی کور کا ناگورنو۔کاراباخ کے شمال میں واقع ساراسنگ ذخیرہِ آب پر حملہ مغالطے میں مبتلا کرنے کی ایک چال تھی یا قبضے کے لئے ایک مرکزی حملہ تھا، آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
1990ء کی دہائی کے آغاز میں آرمینیا نے ناگورنو۔کاراباخ کے گرد بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ ان مقبوضہ علاقوں کا مقدر مختلف رہا۔ لاچن (بردزور) جیسے تضاویراتی طور پر اہم شہر جو سٹیپینو کرٹ کو آرمینیا سے ملانے والی سڑک پر موجود ہے یا پھر ساراسنگ آبی ذخیرے کے کنارے درمبون (جہاں ایک کانکنی اور پراسسنگ پلانٹ بنایا گیا) کو ساتھ شامل کر لیا گیا اور ان میں نسلی آرمینیوں کی آبادکاری کی گئی۔ دیگر علاقوں، خاص طور پر آراکس وادی، جن کا پانی ایرانی سرحد کے ساتھ بہتا ہے، انہیں کاراباخ کی آزادی کے لئے مذاکرات میں سودے بازی کے لئے استعما ل کیا گیا۔ ان علاقوں سے نکل جانے والی آذربائیجانی آبادی کی کبھی آبادکاری نہیں ہوئی حالانکہ ان علاقوں کو ناگورنو۔کاراباخ فوج کنٹرول کرتی تھی۔ جمہوریہ کی شمالی سرحد کے برعکس، جس جگہ سرحد تقسیم ہوتی ہے، آرمینیا کی طرف سے انجنیئرنگ تعمیرات کے ذریعے تقویت فراہم ہی نہیں کی گئی۔ تضاویراتی سڑکوں کی برباد حالت تھی۔ اس کے ساتھ ملیشیا کے لئے خالی کھنڈرات کا تحفظ جو کل شائد کسی امن معاہدے کے نتیجے میں دشمن کو منتقل ہو جائیں، ہمیشہ حوصلے کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے۔
اس لئے اگر خالصتاً عسکری حوالوں سے بات کی جائے تو آراکس وادی کے ذریعے پیش قدمی اور آکاری وادی سے لاچن کے ساتھ تک حملے کی کامیاب منصوبہ بندی پہاڑوں میں جنگ سے زیادہ کارآمد نظر آتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک تنگ وادی میں پیش قدمی کا مطلب یہ ہے کہ فوج کے پہلو پہاڑوں سے حملوں کے لئے کھلے ہیں جن میں حدرت کا آرمینی شہر اور تھوڑا مغرب میں واقع سابق آذربائیجانی جبریل کے علاقے قابلِ ذکر ہیں۔ جب تک ان علاقوں پر ناگورنو۔کاراباخ فوج کا قبضہ تھا اس وادی میں آذربائیجانی فوج کی پیش قدمی ایک ایڈونچر ہی ثابت ہوتی۔
اب جیسا کہ ہمیں معلوم ہے پہلے ہفتے کی لڑائی کے اختتام پر 4 اکتوبر کو جبریل ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ اگلے چند دنوں کی لڑائی نے اس جنگ کے خدوخال واضح کر دیئے۔ آرمینی افواج کی طرف سے جبریل پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوششیں ناکام رہیں اور کچھ دنوں بعد مایوس آرمینی یونٹس حدرت سے نکل گئے۔ کاراباخ کی دو مرکزی ٹرانسپورٹ شہراہوں میں سے ایک، جنوب شمالی ہائی وے کے آخری مقام حدرت کے کھو جانے کے بعد آرمینی فوج کے لئے صورتحال بہت پیچیدہ ہو گئی۔ ایک ہفتے تک آذربائیجانی فوج اس سمت ناگورنو۔کاراباخ فوج کے حملوں کو پسپا کرتی رہی اور اس کے بعد آراکس میں پیش قدمی کرتے ہوئے خدافیرین آبی ذخیرے اور فضولی (Fizuli) علاقے کے شمال مشرقی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس لمحے پر ناگورنو۔کاراباخ فوج کا جنوبی فرنٹ منہدم ہو گیا۔ 20 اکتوبر کو بغیر کسی مزاہمت کے زانگیلان پر قبضہ کر لیا گیا جبکہ 25 اکتوبر کو کوباتلی پر قبضہ کر لیا گیا۔ آرمینی افواج نے اپنی تمام کمک گورس اور لاچن کی طرف آنے والی راہوں پر مرکوز کر دی لیکن 8 نومبر کو اچانک ستیپاناکرٹ کی بلندیوں پر موجود ایک قلعہ شوشا ہاتھ سے نکل گیا۔ واقعات کا تسلسل بالکل حدرت کی فتح جیسا تھا۔۔پہاڑی رائفل یونٹس نے پہاڑی راستوں کے ذریعے دفاعی لائنز کے عقب سے حملہ کیا۔ کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسپیشل ترک پہاڑی فورسز (1200 جنگجو) ان آپریشنز میں شامل تھیں جن کو پہاڑوں میں کرد گوریلا کے خلاف عسکری آپریشنز کی خصوصی تربیت دی گئی ہے۔ معاملہ کچھ بھی ہو عسکری اور جنرل سٹاف کی سطح پر آرمینی انٹیلی جنس مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ کاؤنٹر انٹیلی جنس بھی بے کار رہی۔۔جنگ کے اوائل دنوں میں ناگورنو۔کاراباخ فوج کے کمانڈ سٹاف میں بہت زیادہ جانی نقصانات ہوئے۔ لیکن نوایا گزیٹا کے مطابق شوشا میں ایک ثقافتی سنٹر پر حملہ کیا گیا تھا جس میں مقامی افراد کے مطابق کئی سو عسکری اور پولیس افسران ایک میٹنگ کے لئے اکٹھے ہوئے تھے۔ چھوٹے پیمانے پر ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے رہے۔
یہ حیران کن نہیں کے دوسرے ہفتے سے زیادہ سے زیادہ سپاہیوں میں لفظ ”دھوکہ“ کی بازگشت گونجنے لگی۔ جبری بھرتی فوجی اور ملیشیا خاص طور پر ان افواہوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ 1989-94ء کی جنگ کے برعکس بھگوڑے پن اور آرمینی فوج کے حکم کے بغیر پوزیشنیں چھوڑنے کے کئی واقعات ہوئے۔ لیکن ملٹری پولیس بس یہی کوشش کرتی رہی کہ کسی طرح ناگورنو۔کاراباخ سے تمام غیر ملکی صحافیوں کو نکال دیا جائے۔
آرمینیا کو شدید شکست فاش ہوئی ہے۔ صرف ”سیکورٹی بیلٹ“ سے ہی ہاتھ نہیں دھونا پڑے جہاں کی آرمینی آبادی کا ابھی انخلاء ہونا ہے بلکہ خود ناگورنو۔کاراباخ جمہوریہ کے تاریخی علاقے بھی ہاتھوں سے نکل چکے ہیں۔ آرمینی اقلیت کے حالات شمالی کوسووسکا۔مترویکا کے سربوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔ روسی امن افواج کی موجودگی سے شائد فوری قتلِ عام نہ ہو لیکن بلآخر نسلی آرمینییوں کا انخلاء اور ان علاقوں میں ترک آبادکاری ناگزیر ہے، اگر حالات اپنی ”فطری“ ڈگر پر چلتے رہے۔ دوسرا راستہ جنگ ہے۔ پاشینیان حکومت کا ابھی تک خاتمہ نہیں ہوا جس کا مطلب ہے کہ آرمینی سماج شدید تھکاوٹ اور مایوسی کا شکار ہے۔ شکست کی شدت اور انتظامیہ کے دھوکے کی گہرائی کا احساس ابھی آشکار ہو گا۔ جیسے ہی ہوا، آرمینیا میں ایک نیا انقلاب برپا ہوگا۔