تحریر: |پارس جان|
کراچی ایک دفعہ پھر نہ صرف ماحولیاتی بلکہ سیاسی طور پر بھی شدید درجہ حرارت کی لپیٹ میں ہے ۔گزشتہ برس موسمِ گرما میں کراچی میں جو قیامت ٹوٹی تھی، اسکی وجہ سے اس بار بھی مفلوک الحال عوام میں شدید خوف و ہراس پا یا جاتا ہے۔ حکمران طبقات اور ریاستی مشینری خوف و ہراس میں کمی کرنے کی بجائے مسلسل اضافہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ سندھ کے حکمران عوام کو قہرِ خداوندی سے ڈرا کر سنجیدہ سیاسی بحثوں سے عوام کی توجہ مبذول کروانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس انہی حکمرانوں اور اس خستہ حال ریاست کی نا اہلی کی وجہ سے 1300 سے زائد نفوس گرمی کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں حکمران طبقے کا کوئی فرد بھی شامل نہیں تھا بلکہ حکمرانوں نے غریب عوام اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے زخموں پر مرچیں ڈالنے کے لیئے یہ بیان داغ دیا تھا کہ مرنے والوں کی اکثریت نشے کے عادی افراد پر مشتمل تھی جبکہ حقیقت میں وہ دیہاڑی دار مزدور تھے جن کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا اور وہ اس شدید گرمی میں بھی مزدوری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے تاکہ اس دن انکے گھر کا چولہا گرم ہو سکے۔ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے درندہ صفت حکمرانوں نے اس قسم کی بیان بازی کے ذریعے اس بھیانک انسانی المیے کو ایک عبرتناک مضحکے میں تبدیل کر دیا تھا۔ لیکن اس بار تو حد ہی ہو گئی اور انہی حکمرانوں نے عوام پر احسان کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیئے پیشگی تیاری مکمل کر لی ہے۔ روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی میں ایدھی سنٹر کی طرف سے 300 سے زائد افراد کی تدفین کا پیشگی انتظام کر لیا گیا ہے۔ یہ اس حکمران طبقے اور انکے دلال خیراتی اداروں کی متروکیت اور بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ انسانی جانیں بچانے کی بجائے بڑے پیمانے کی اموات کا انتظار کر رہے ہیں اور لاوارث لاشوں کو قبریں دے کراسے عظیم انتظامی کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ ’ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق‘ کہاں ہیں؟ زندہ انسانوں کو قبروں کی پیشگی سہولت بہم پہنچانے والے حکمرانوں سمیت تہذیب، ثقافت اور اعلیٰ اقدار کے مبلغین کوجمہوریت کی کامیابی کا یہ جشن مبارک ہو۔ لیکن یہ یاد رہے کہ بے رحمی، بے حسی اور بیگانگی کی یہ فصل جب پکے گی تو بغاوت کے پھول کھلیں گے۔
ویسے تو ملک کے طول و عرض میں سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر کی زبوں حالی مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے مگر خاص طور پر بڑے شہروں کی طرف بڑے پیمانے کی ہجرت نے ان شہروں میں رہائش، ٹرانسپورٹ، تعلیم، صحت، سیوریج، روزگا، پانی و دیگر بنیادی ضروریات سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کو کربناک حالت میں پہنچا دیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں شہروں کی طرف ہجرت (urbanization)کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ سٹی ڈویلپمنٹ کا شعبہ دنیا بھر میں کمزور ترین ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے زندہ رہنے کے قابل شہروں کی فہرست میں کراچی آخری نمبروں پر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سندھ حکومت اور ذمہ دار ریاستی اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انفراسٹرکچر کی بہتری یا بحالی تو درکنار اسے موجودہ حالت میں ہی رکھنے کے لیئے بھی بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر نجی شعبے کے لیئے تو یہ میدان قطعاً سازگار نہیں ہو سکتااور حکومت کی ترجیحات بھی یکسر مختلف ہیں۔
گزشتہ برس سندھ کے صوبائی بجٹ میں کراچی کے 100 نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کے لیئے 75 ارب روپے مختص کیئے گئے تھے۔9 ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اعلان کردہ کسی ایک منصوبے پر بھی کام شروع نہیں کیا جا سکا۔ ان منصوبوں میں محکمہ صحت کے 23 اہم منصوبے تھے جن میں ادارہ امراضِ قلب میں بچوں کے دل کی سرجری کے وارڈ کا قیام، ڈاؤ یونیورسٹی میں جگر کی پیوند کاری کا یونٹ، کاٹھور میں گردوں کی پیوندکاری کا یونٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اس سے عوام کی صحت کی طرف حکمرانوں کے رویے کی واضح عکاسی ہوتی ہے۔ کراچی کے کچھ علاقوں میں تو حفظانِ صحت کی حالت تھر جیسے پسماندہ علاقوں سے بھی گئی گزری معلوم ہوتی ہے۔ متروک بیماریاں پھر مہلک بن کر واپس آ رہی ہیں۔ کراچی میں رواں سال کے پہلے چار ماہ میں بچوں میں خسرہ کے 650 کیسز ریکارڈ کیئے گئے ہیں ۔ بلاول بھٹو انجینئرنگ کالج لیاری جس کے لیئے ایک ارب 84 کروڑ روپے رکھے گئے تھے ابھی تک شروع ہی نہیں ہو سکا۔ تعلیم اور صحت دونوں شعبوں کو مرکزی اور صوبائی حکومتیں نجی شعبے کے حوالے کرنے کا مصمم ارادہ کر چکی ہیں۔ پانی کی نکاسی اور فراہمی کے 15 منظور شدہ نئے منصوبے بھی نظر انداز کر دیئے گئے ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ گٹر کھلے پڑے ہیں اور اس غلیظ تعفن کی وجہ سے لوگوں کا سانس لینا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ کوڑا ٹھکانے لگانے کے لیئے 4 ارب روپے کے منصوبے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ واٹر بورڈ نے فنڈز کی کمی کے پیشِ نظرمفت ٹینکر سروس کے تمام اجازت نامے منسوخ کر دیئے ہیں۔ اس حوالے سے شدید گرمی میں پانی کی قلت پھر بڑھے گی جس سے واٹر ٹینکر مافیا کی خوب چاندی ہو گی۔ اس کاروبار میں ریاستی اداروں سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کے بڑے بڑے ٹائیکونز کی براہِ راست اجارہ داری بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ جناح ٹرمینل سے قائد آباد تک نیشنل ہائی وے کی تعمیر کا منصوبہ بھی شروع نہ ہو سکا۔اب محترمہ فریال تالپور خود ان منصوبوں کی ذمہ داری لے رہی ہیں جن کا ’عوامی خدمت‘ کا سابقہ ریکارڈ دیکھتے ہوئے ان منصوبوں کی تکمیل کے مستقبل کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کراچی کی سیاسی صورتحال کو بھی کراچی کی تباہ حال سرکاری اور وسیع الجثہ غیر سرکاری یا جرائم کی معیشت سے کاٹ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے جسے معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مگر سرمایہ داری کے عالمی زوال، ملک میں توانائی کے بحران، امن و امان کی خراب صورتحال اور مقامی سرمایہ دار طبقے کی نامیاتی کمزوری کے باعث کراچی سے پیداوای صنعت کی بڑے پیمانے پر بیرونِ ملک منتقلی ہوئی ہے اور باقی ماندہ صنعتی یونٹس بھی بڑی تعداد میں بند پڑے ہوئے ہیں۔ جسکی وجہ سے روزگار فراہم کرنے والا کراچی اب بیروزگاروں کی فوج ظفر موج کی سب سے بڑی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔21 مئی کو شائع ہونے والی سٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ میں جہاں پیداواری معیشت کی شرح نمو میں عمومی طور پر اضافے کا عندیہ دیا گیاہے وہیں بڑے پیمانے (large scale) کی صنعتی گروتھ میں جمود کا بھی اعتراف کیا گیاہے بلکہ چھوٹے پیمانے کی صنعت بھی انحطاط پذیر ہے۔ صرف تعمیرات، مائننگ اور توانائی کے شعبے میں بڑھوتری نظر آ رہی ہے جس سے بڑے پیمانے پر روزگار کے بڑھنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ خاص طور پر کراچی میں سوائے جائیدادوں کی خریدو فروخت اور سٹاک کی جوا بازی کے سرکاری معیشت کا کوئی اور شعبہ ترقی نہیں کر پا رہا ہے۔ حکمران جماعت یعنی پیپلز پارٹی سمیت تمام پارٹیوں کے پاس سماجی خام مال زیادہ تر بے روزگاروں پر مشتمل ہے جن کو سیاسی طور پر اپنے ساتھ منسلک اور کسی بھی عوامی غیض و غصب کا حصہ بننے سے دوررکھنے کے لیئے حکمران طبقے کی تمام تر پارٹیوں کو غیر سرکاری یا جرائم کی معیشت کی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ ایسی صورتحال میں دہشت گردی اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف تین سال سے جاری آپریشن ایک مذاق بن کر رہ جاتا ہے۔ آج کے عہد میں پاکستان جیسے ملک میں جرائم کو بڑھاوا دیئے بغیر سرمایہ داری شاید ایک دن بھی اپنے آپ کوقائم نہیں رکھ سکتی۔ معمول کی سرکاری معیشت کی سانسوں کو بحال رکھنے کے لیئے امن کے مصنوعی وقفے ضرور درکار ہوتے ہیں لیکن حالیہ آپریشن کی آڑ میں جرائم ختم کرنے کے نام پر ریاست اپنی کھوئی ہوئی ساکھ اور رِ ٹ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگرچہ دہشت گردی کے واقعات میں نسبتاً کمی آئی ہے مگر جرائم کی منڈی سکڑنے کی بجائے پھل پھول رہی ہے جو آنے والے دنوں میں پھر امن و امان کے اس سے بھی بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
گزشتہ تین برسوں سے مسلسل جاری آپریشن کے نتائج کو اگر خود پولیس کی آفیشل رپورٹس کے اعدادو شمار کی روشنی میں دیکھیں تو حکمرانوں کے بلند بانگ دعووں کا پول فوراً ہی کھل جا تا ہے۔ کراچی آپریشن میں 3 برس کے دوران سنگین جرائم میں ملوث 83 ہزارچار سو باون ملزمان گرفتار کیئے گئے ہیں۔ جن میں قتل کے 2312 ملزمان شامل ہیں۔ پولیس مقابلوں میں ہلاک ہو جانے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔1097 دہشت گردگرفتار کیئے گئے جن کا تعلق مختلف کالعدم اور مذہبی تنظیموں سے تھا۔ 139اغوا کار بھی ان 970 دنوں میں پکڑے گئے ۔ 12775 منشیات فروش اور 34000 مفرور اشتہاری بھی اسی آپریشن کے نتیجے میں زیرِ حراست ہیں۔ یہ اعدا دو شماربظاہر بہت تسلی بخش اور قابلِ فخر معلوم ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر مجرموں کی پکڑ دھکڑ سے جرائم کی شرح تیزی سے گر گئی ہو گی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان تین سالوں میں جتنے مجرم قانون کے شکنجے میں آئے اس سے زیادہ بیروزگاری اور غربت کے کارخانوں سے تیار ہو کر سماجی معمول میں ضم ہوتے گئے۔ اس کی واضح مثال 21 مئی بروز ہفتہ کے روزنامہ ایکسپریس کے میٹرو پولیٹن صفحے پر شائع ہونے والی کراچی کے پولیس چیف مشتاق مہر کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ ہے جس میں اس سال کے 4 ماہ اور 19 دنوں کے دوران ریکارڈہونے والے مختلف جرائم کی تعداد اور نوعیت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کی رو سے 2016ء میں اب تک کراچی میں چوری اور ڈکیتی کی 266 وارداتیں ہوئیں جبکہ گزشتہ برس 353 وارداتیں رونما ہوئی تھیں۔ سٹریٹ کرائمز کی رواں سال ابھی تک 553 وارداتیں ہوئیں جبکہ سال 2015 ء میں مجموعی طور پر 654 واقعات ہوئے تھے۔ موبائل فون چھیننے کی وارادتیں اس سال 6108 ہوئیں جبکہ گزشتہ برس 9269 واقعات ہوئے تھے۔ اسی طرح فور ویل گاڑیاں چھیننے کی وارداتیں اب تک 634 ہوئیں اور گزشتہ برس 947 گاڑیاں چوری ہوئی تھیں۔ موٹر سائیکل چوری اور چھینے جانے کی واراداتوں میں اس سال تیز ی سے اضافہ ہوا ہے اور اب تک 8377 موٹر سائیکلیں چھینی جا چکی ہیں جبکہ گزشتہ برس انکی تعداد 7452 تھی۔یوں اس سال اوسطاً روزانہ 60 موٹر سائیکلیں چھینی جا رہی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اگرچہ کچھ جرائم کی شر ح میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے مگر میڈیا کی طرف سے دیا جانے والا ’سب اچھا‘ کا سگنل مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ در اصل میڈیا کو ریاستی اداروں کی بے جا مدح سرائی کے لیئے استعمال کیا جا رہا ہے جس کے لیئے قومی خزانے کے بے دریغ استعمال کے قصے بھی اب زباں زدِ عام ہو چکے ہیں۔ اتنی بڑی میڈیا کیمپئن کی وجہ سے بہرحال کسی حد تک عوام میں خوف کی نفسیات میں کمی ضرور آئی ہے مگر حکومت کو خود بھی اندازہ ہے کہ امن کے اس مصنوعی ناٹک کا بھانڈا کسی بھی وقت پھوٹ سکتا ہے۔ اسی لیئے گزشتہ دنوں قائم علی شاہ کی زیرِ صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ایکشن پلان کو پھر ریویو کیا گیا ہے اور سی سی ٹی وی کیمروں اور جی ایس ایم لو کیٹرز وغیرہ کے لیئے وفاقی حکومت سے بڑے پیمانے پر فنڈز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان میں خرد برد کی جا سکے۔ مگر جب تک غربت اور بیروزگاری کے ’کارخانے‘ چلتے رہیں گے نئے بننے والے مجرموں اور دہشت گردوں کی شرح پکڑے جانے یا مارے جانے والوں سے زیادہ ہی رہے گی۔
اس ضمن میں دنیا اخبار کی 20 مئی کی یہ رپورٹ بھی توجہ کی مستحق ہے جس کے مطابق کراچی میں 6 لاکھ ایکڑ اراضی پر ناجائز قابضین مسلط ہیں۔ سندھ بورڈ آف ریونیو کے دئے گئے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 6000 ایکڑ پر لوگوں نے انفرادی طور پر قبضہ کیا ہو اہے جبکہ باقی ماندہ مقبوضہ اراضی ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی، کراچی پورٹ ٹرسٹ، ہاؤسنگ اتھارٹیزاور دیگر وفاقی و صوبائی اداروں کے قبضے میں ہے۔ کراچی ڈویژن مجموعی طور پر 9 لاکھ 221 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔ اسی رپورٹ کی تفصیل میں یہ بھی درج ہے کہ 6 لاکھ 81 ہزار ایکڑ زمین غیر سروے شدہ ہے جسکے 60 ہزار ایکڑ پر مذکورہ ادارے قابض ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی لاکھوں ایکڑ سے کون سے ادارے یا اشخاص مستفید ہو رہے ہیں۔ اس سوال کا جواب دینا تو دور کی بات اس سوال کو محض زیرِ بحث لانا بھی نام نہاد آزاد میڈیا کی دسترس سے باہر ہے۔ جب تک اتنے بڑے پیمانے کے زمین کے غبن اور قبضے کو بازیاب نہیں کرایا جاتا تب تک کراچی میں پائیدار اور مستقل امن دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔ اور اس کام کو سر انجام دینے کے لیئے کم سے کم ایک عوامی انقلاب کی ضرورت ہے۔
کراچی میں گزشتہ تین دہائیوں میں KESC اور PIAکے محنت کشوں کی حالیہ نجکاری مخالف مزاحمت کے علاوہ کوئی بہت بڑی انقلابی تحریک نظر نہیں آتی۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کراچی کے عوام MQM کی فاشسٹ جنونیت، جماعتِ اسلامی کی مذہبی سیاست، فرقہ واریت، لسانیت اور پیپلز پارٹی کی مکروہ مفاہمت کے آگے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ اس کے بالکل الٹ کراچی کے نوجوانوں میں ایک متبادل کی خواہش شدت سے سلگ رہی ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کو پڑنے والے ووٹوں کی بڑی تعداد بھی اس بات کا اظہار تھی کہ اگر عوام کو کوئی بھی متبادل میسر ہو گا تو وہ ضرور مقدر آزمانے کے لیئے باہر نکلیں گے۔ مگر تحریکِ انصاف کی متذبذب اور رائج الوقت سیاست ہی کے تسلسل کے طور پر بے نقابی نے پھر ایک مایوسی کی لہر پیدا کی۔ عمران خان نائن زیرو پہنچ کر خود آدھے مہاجر ہو گئے تو لسانیت کی فضا کو تقویت ملی اور لوگوں نے آدھے مہاجر پر پورے مہاجر کو ترجیح دی۔ اس کے بعد سے کراچی میں تحریکِ انصاف کی مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے آتا جا رہا ہے۔ مگر حکمران طبقات کے پالیسی سازوں اور سنجیدہ ریاستی دھڑوں کی تشویش اور بے چینی میں مسلسل اضافے کی وجہ سیاسی افق پر بالعموم اور بائیں جانب بالخصوص گہرا اور واضح ہوتا ہوا سیاسی خلا ہے۔ لوگوں کا پیپلز پارٹی سمیت تمام پارٹیوں سے لاتعلق اور بیگانہ ہوجانا کسی بہت بڑے سیاسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔اس لیئے اسٹیبلشمنٹ اس سیاسی خلا کو مصنوعی طور پر پُر کرنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔
MQM کے داخلی دھڑوں اور ریاست کے ساتھ تعلقات میں تناؤ اور عالمی سیاست کے ہیر پھیر نے مائنس ون فارمولے کی ضرورت پر زور دیا تھا جس پرمکمل طور پر عملدر آمد تو نہیں ہو سکا مگر اسی کھینچا تانی میں اسٹیبلشمنٹ کی ایک اور ناجائز سیاسی اولاد منظرِ عام پر آگئی۔ ’پاک سر زمین‘ کا نام ہی بچے کے باپ کے نام پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے کے لیئے کافی ہے۔ اس توڑ پھوڑ کے باوجود MQM کی طرف سے ابھی تک کوئی بہت تباہ کن مزاحمت دیکھنے میں نہیں آ سکی۔ اس کی ایک وجہ تو MQM کی اپنی داخلی کمزوری اور ٹوٹ پھوٹ ہے مگر یہی کمزوری ایک فرسٹریشن کی شکل اختیار کر کے امن کے مصنوعی وقفے کے دورانیے کو قلیل کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی ادارے سرکاری و غیر سرکاری معیشت کی از سرِنو ’سرکاری‘ بندر بانٹ کے لیئے سرگرم ہیں تاکہ سب کو حصہ بقدرِ جثہ دے کر راضی کیا جا سکے۔ گزشتہ دنوں ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر کی پاک سر زمین، حقیقی اور MQM کے وفود سے الگ الگ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ فاروق ستار کی کور کمانڈر کراچی سے بھی ایک خفیہ ملاقات کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ’باوردی‘ جمہوریت کب تک کراچی میں امن کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے۔
محنت کش عوام کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ آپس میں کتوں کی طرح لڑنے والے سیاستدان اپنی مراعات اور لوٹ مار میں اضافے کے لیئے ضرورت پڑنے پر کسی بھی وقت ایک دوسرے کو گلے لگا لیتے ہیں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرار داد نے بھی سیاست کے طبقاتی کردار کا پردہ فاش کر کے محنت کش عوام کے غم وغصے کو بڑھاوا دیا ہے۔ اس قرارداد کی رو سے ارکانِ پارلیمان کی تنخواہوں میں دس گنا ریکارڈ اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہر رکن اسمبلی کی بنیادی تنخواہ 36423 روپے سے بڑھا کر 2 لاکھ کر دی جائے گئی۔ جبکہ یوٹیلیٹی الاؤنس 50 ہزار، ٹرانسپورٹ 50 ہزار، دفتر کی تزئین و آرائش کے لیئے ماہانہ ایک لاکھ روپے مختص کیئے جانے کا بھی مطالبہ ہے۔ ہر رکن پانچ سال میں ایک بار 3 لاکھ کا IT الاؤنس بھی لے سکے گا اور ایئر پورٹ پر VIP لاؤنج سے بھی مستفید ہو سکے گا۔ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ 4 لاکھ روپے جبکہ ڈپٹی چیئرمین کی تنخواہ 3 لاکھ روپے ہو گی۔ یوں ہر رکن اسمبلی قوم کو کم از کمفی کس ساڑھے سات لاکھ ماہانہ میں پڑے گا۔ غربت، تنگدستی اور لاعلاجی کی اذیتوں میں بلکنے والے عوام کے شعور کو جھنجوڑ دینے میں اس طرح کے واقعات اہم کردار ادا کریں گے۔ ان حکمرانوں، سیاستدانوں، بیوروکریٹوں وغیرہ سے عوام کی مسلسل بڑھتی ہوئی نفرت جلد یا بدیر ایک عوامی تحریک کو جنم دے گی۔ برسوں سے خاموش تماشائی نظر آنے والا کراچی کا محنت کش طبقہ اس عوامی تحریک کی قیادت کرنے کو تاریخ کے میدان میں دوبارہ نمودار ہو کر کراچی میں مستقل اور دیرپا امن کی ضمانت فراہم کرے گا۔
Tags: Heat Wave × Karachi × MQM × Mustafa Kamal × Pak Sarzameen Party × Peace × Political Crisis × PPP × Rangers Operation