|تحریر: پارس جان|
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قائد مولانا فضل الرحمن نے الائنس میں شامل دو اہم پارٹیوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے انتخاب کے معاملے پر اختیار کیے گئے خلاف معاہدہ رویے کی پاداش میں شو کاز نوٹس کا اجرا کر دیا ہے۔ اس خبر پر نوٹس کے وصول کنندگان شاید اتنے برہم نہیں ہیں جتنے ہمارے بائیں بازو کے لبرل خواتین و حضرات سیخ پا دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں سے قدرے خوش گمان اور رجائیت پسند دانشوروں کو جنوری کے بعد سے اپوزیشن الائنس میں پڑنے والی دراڑ کے باوجود دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادتوں سے معاملہ فہمی اور ضبط نفس کی توقع تھی اور انہیں لگتا تھا کہ تھوڑی بہت تو تکرار کے بعد معاملات پھر سے راہ راست پر آنا شروع ہو جائیں گے۔ لیکن حالیہ نوٹس کے اجرا کے بعد یہ تمام صاحبان علم و دانش اپنی دم کھجائے جا رہے ہیں۔ سابقہ بائیں بازو کے کچھ متعفن سٹالنسٹوں اور مابعد جدیدیوں نے تو پی ڈی ایم کے قیام اور پھر احتجاجی جلسوں کے کامیاب پہلے مرحلے کے بعد اسے پاکستان میں قومی جمہوری انقلاب کا آغاز قرار دے دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ دوسرے مرحلے میں لانگ مارچ تک ملک کے چپے چپے میں پی ڈی ایم کا پیغام پہنچ چکا ہو گا اور ہزاروں نہیں لاکھوں افراد دیوانہ وار دار الحکومت کی شاہراہوں پر دندناتے پھر رہے ہوں گے۔ نہ صرف یہ کہ اس عوامی طاقت کے بلبوتے پر اس فسطائی (لبرل اشرافیہ عمران خان کی موجودہ حکومت کو فاشزم قرار دے چکی ہے) حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا بلکہ اس حکومت کے پروردگاروں کو بھی واضح پیغام پہنچ جائے گا کہ اب ان کے بلا شرکتِغیرے فیصلہ سازی کے دن جا چکے ہیں اور انہیں مقدس آئین کے معین کردہ حدود میں ہی اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے ہوں گے۔ اس سہانے خواب کی لذت اور شیرینی بامِ عروج پر تھی کہ اچانک اس نفیس خواب گاہ میں کسی نے آگ لگا دی اور جہاں سے سحر انگیز خوشبو کے بھبھوکے آ رہے تھے اب وہاں سے دھواں اٹھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں برپا ہونے والے قومی جمہوری انقلاب کی طبعی عمر شاید اتنی ہی تھی۔ لبرل دانش کی یہ نامیاتی بیماری اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ جس طرح یہ جمہوری الیوژن کا شکار ہو کر مولانا فضل الرحمن سے انقلاب کروانے چلے تھے، ویسے ہی آئندہ برسوں میں یہ کسی حاضر سروس سپہ سالار سے سیکولر ریاست قائم کروانے کے لیے اس کے نعرے مار رہے ہوں۔ جنرل پرویز مشرف کے معاملے میں ہم اس فلم کا ٹریلر پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ کچھ عرصے بعد پی ڈی ایم کے انتشار کی ساری ذمہ داری بھی بالآخر یہ محنت کش طبقے پر ہی ڈال رہے ہوں گے کہ یہ جاہل اپنی تنخواہوں کے اضافے کے لیے ہی شوروغل کرتے رہے، اگر یہ پی ڈی ایم کی پہلی ہی اذان پر لبیک کہہ دیتے تو آج اس ملک کا مقدر سنور چکا ہوتا۔ یہ گنوار اپنی روزی، روٹی سے زیادہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتے، ان خبطیوں کی وجہ سے ہی تو ہم جمہوریت کے فضائل سے آج تک محروم ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
ہم مارکس وادیوں نے پہلے دن سے ہی اس بورژوا اتحاد کی حدود و قیود کی وضاحت کر دی تھی اور شاید یہ صرف ہمارا ہی تناظر تھا کہ یہ اتحاد اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ اسی بنا پر ہم نے اس اتحاد کی حمایت نہ کرنے، بلکہ اس پر سخت تنقید کرنے اور اپنے آزادانہ طبقاتی نکتہ نظر پر غیر متزلزل اور ثابت قدم رہنے کو ترجیح دی تھی۔ کچھ مابعد نو آبادیئے ہمارے آزادانہ طبقاتی نکتہ نظر پر یہ اعتراض کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ یہ تو سراسر معیشت پسندی ہے، یعنی جمہوریت کے فروغ اور پیش قدمی کی کسی بھی جدوجہد کو محض اس لیے مسترد کر دیا جائے کہ اس میں محنت کش طبقے کے مطالبات اور مفادات کی درست ترجمانی نہیں کی جا رہی ہے، حالانکہ محنت کش طبقے کا مفاد بھی جمہوریت کے مستقبل سے ہی وابستہ ہے، یعنی ایک ایسا معاشرہ جہاں محنت کشوں کو تحریر و تقریر و تنظیم سازی کی مکمل آزادی حاصل ہو وغیرہ وغیرہ۔ وہ ہم پر مزید طنز یہ کرتے ہیں کہ یہ نری مارکسی بنیاد پرستی ہے، یعنی ٹھوس مادی حقائق سے صرفِنظر کرتے ہوئے محض طبقاتی تضاد تک ہی سماجی تجزیے کو محدود کر دینا اور باقی اہم تضادات کو فراموش کر دینا۔ ہمارے ان دوستوں کے خیال میں ہمارے سماج کا اولیں تضاد سویلین اور عسکری سپرمیسی کا تضاد ہے، اسی طرح بنیادپرستی اور سیکولرازم کا تضاد اور قومی و صنفی تضادات وغیرہ وغیرہ۔ ہم ان دوستوں کی تنقید کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اپنے نکتہ نظر کی بار بار اور صبر کے ساتھ وضاحت کے لیننی طریقہ کار پر مستقل مزاجی سے کاربند ہیں۔ ہم کوئی ثبوتیت مسخرے ہر گز نہیں ہیں کہ محض پی ڈی ایم کی وقتی ناکامی کو بنیاد بنا کر اپنے درست تجزیے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں بلکہ ہم پی ڈی ایم کی اس ٹوٹ پھوٹ کو ایک مسلسل عمل کے طور پر سماجی ارتقا کی کلیت کی لازمیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ محض ایک مخصوص سماجی یا سیاسی مظہر کی تفہیم کا معاملہ نہیں بلکہ یہ سماجی تبدیلی کے لازمی اوزاروں کی شناخت، تلاش اور تشکیل و تخلیق کا انتہائی گنجھلک اور فیصلہ کن معاملہ ہے اور اس میں درستگی اور اصلاح کے بغیر ہمارے سادہ لوح دوست یہی غلطی بار بار دوہراتے چلے آ رہے ہیں اور دوہراتے ہی چلے جائیں گے۔
عدلیہ کے داخلی و خارجی تضادات کے معاملے پر بھی یہی روش اپنائی گئی ہے اور وہاں بھی سوائے خجالت کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ ہم ان دوستوں کی رائے کے برخلاف مارکسی تجریدات کو فارمولوں کی طرح ہر ٹھوس صورتحال پر اوپر سے مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ہم ٹھوس حقائق سے اپنے تجزیے کا آغاز کرتے ہیں۔ لیکن حقائق بسا اوقات لاامتناعی اور غیر محدود ہوتے ہیں اور مختلف الانواع و اشکال میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ سماجی تجزیے کے خام مال کے طور پر حقائق پکے پکائے پھل کی طرح ہماری جھولی میں آ کر نہیں گرتے، بلکہ ہمیں ان کا انتخاب ویسے ہی کرنا پڑتا ہے جیسے کوئی بڑھئی یا مکینک مخصوص کام کے لیے مناسب اوزار کا انتخاب کرتا ہے۔ ایسے ہی ہمارے سماج میں ارتقا کے موجودہ مرحلے پر ہمارے سامنے حقائق کا ایک انبار لگا ہوا ہے جس میں سے ہمیں بنیادی سماجی تضاد کی نشاندہی کرنی ہے اور اس کو سماجی کل سے کاٹ کر نہیں بلکہ دیگر تضادات کے ساتھ باہمی تعلق میں سمجھنے کی کوشش کرنی ہے۔ لبرل دانشوروں کے منتخب کردہ حقائق ہیں کہ فوج کی سیاسی فیصلہ سازی میں مکمل اجارہ داری ہے، اس ملک میں تحریر و تقریر کی آزادی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم ان حقائق کو قطعاً مسترد نہیں کرتے بلکہ ان کو محض ایک علت نہیں بلکہ معلول کے طور پر بھی دیکھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں کے حکمران یعنی سرمایہ دار طبقہ اتنا نااہل، بدعنوان اور رجعتی ہے کہ اس کے تاریخی سیاسی خلا کو ناجائز عسکری تجاوزات نے وقتی طور پر پُر کیا ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی دم چھلہ اور ایک عوام دشمن حکومت ہے اور اسے بھی ناجائز عسکری تجاوزات سمیت پہلی فرصت میں دریا برد کر دینا چاہیے مگر ایسا کرنے کے لیے ان متعفن بورژوا پارٹیوں سے خیر کی توقع رکھنا سراسر حماقت ہو گی کیونکہ ان بورژوا پارٹیوں کی قیادتوں کا عسکری آقاؤں سے کوئی اصولی یا ناقابل مصالحت تضاد ہے ہی نہیں بلکہ یہ بخوبی جانتی ہیں اور ان کا ایمان کی حد تک یقین ہے کہ عسکری آقاؤں کی مرضی کے بغیر نہ تو وہ پہلے کبھی اقتدار میں آئے ہیں اور نہ آ سکتے ہیں۔ اس لیے وہ نیچے سے احتجاجی ناٹکوں سے زیادہ اوپر سے عسکری پالیسی سازوں پر سامراجی دباؤ کے ذریعے اس حکومت کو گرانے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔
اپوزیشن کی دونوں بڑی بورژوا پارٹیوں کے مابین تضاد کی بظاہر جو بھی شکل ہو، اصل میں عسکری اداروں یا سامراجی آقاؤں کی خوشنودی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بے صبری اور ہوس ہی پی ڈی ایم کے حالیہ انتشار کی بنیادی وجہ ہے۔ لبرل دانشور ان قیادتوں کی نامیاتی ترکیب کے ساتھ لازمی تعلق کے ادراک کے بغیر عسکری تجاوزات کی ٹھوس حقیقت کو بھی ایک ما بعد الطبیعاتی تجرید میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فوج، خفیہ ایجنسیوں اور دیگر ریاستی اداروں کی آپسی چپقلشوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں ایک مجرد اور اٹل کل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نام نہاد سویلین قیادتیں اور عسکری ادارے ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں بلکہ داخلی تناؤ میں ان کا ایک دوسرے پر انحصار پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔ یہ دونوں اپنے ظاہری تضاد اور باطنی یگانگت میں ہی اس ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کی واحد ممکنہ کلیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ عسکری اداروں کے لیے یہ قیادتیں اس فالج زدہ نظام کو چلانے کے مہروں کے علاوہ اور کچھ نہیں اور وہ یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ کب ان کو متحد کرنا ہے، کب الگ الگ برتنا ہے اور کب ان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا ہے۔ ایسے ہی جب یہ اپوزیشن پارٹیاں اقتدار میں آئیں گی تو انہیں سرمائے کے اس جبر کو سماج پر مسلط رکھنے اور بڑھانے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط فوج کی ضرورت پڑے گی، کیونکہ یہ عوام کے حق میں کسی بھی درجے کی معاشی و سیاسی اصلاحات کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ جو اس وقت فوج پر زیادہ تنقید کر رہے ہیں، ان کے عسکری معاشقوں کو دیکھ کر موجودہ تحریک انصاف کی قیادت بھی مردِحر لگنا شروع ہو جائے گی۔
موجودہ صورتحال بے حد مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی دلچسپی کی حامل بھی ہے۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ اس وقت ایک دوسرے کے لیے جو زبان استعمال کر رہی ہیں وہ دونوں درحقیقت اسی کی مستحق ہیں اور ایک دوسرے کے بارے میں دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادتیں کافی حد تک سچائی پر مبنی پراپیگنڈا کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی وغیرہ نے برملا پیپلزپارٹی کی قیادت پر بیک ڈور ڈپلومیسی اور اسٹیبلشمنٹ سے سیٹلمنٹ کے الزامات عائد کیے ہیں۔ چند چھچھورے جیالے بھلے ہی اس پر آگ بگولہ ہوتے رہیں لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت اور اس پر براجمان سیاسی و معاشی ٹھیکیداروں کی طویل فہرست میں موجود خواتین و حضرات میں سے کوئی بھی ان الزامات کو اصل میں الزامات سمجھتا ہی نہیں ہے، وہ تو اسے سیاسی داؤ پیچ اور آصف علی زرداری کا عارفانہ تدبر قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں نون لیگ پیپلزپارٹی کو استعمال کرنا چاہتی تھی مگر آصف علی زرداری نے بڑی چالاکی سے نون لیگ کو استعمال کر کے مختلف مقدمات سے جاں بخشی حاصل کر لی ہے، اب تو عزیر بلوچ سمیت دیگر پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے اہم لوگوں کے سنگین ترین مقدمات بھی آہستہ آہستہ ختم کیے جا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اسی کو تو سیاست کہا جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت یا ”ورکنگ ریلیشنز“پیپلزپارٹی کی سیاسیات کا اہم ترین اصول بن چکا ہے۔ اور اس کا سہرا غلط طور پر آصف علی زرداری کے سر رکھ دیا جاتا ہے، در حقیقت اس کا آغاز محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے خود کیا تھا اور زرداری صاحب نے اسے اپنی خوبی کردار سے اس کو منطقی عروج تک پہنچا دیا ہے۔ اصل میں نون لیگ اور مولانا فضل الرحمن کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے استعفے نہ دینے کے زرداری صاحب کے فیصلے کو اسی پراسیس کے تسلسل میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آصف علی زرداری بخوبی سمجھتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے نورا کشتی میں معینہ حدود سے ایک قدم بھی آگے جانے کی صورت میں نہ صرف آصف علی زرداری بلکہ خود پیپلزپارٹی کو بھی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ نہ صرف یہ کہ پرانے مقدمات ختم نہیں ہونے تھے بلکہ مزید پہلے سے بھی زیادہ سنگین مقدمات بھی بن سکتے تھے اور سب سے بڑھ کر دوبارہ سندھ میں بھی پیپلزپارٹی شاید حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھتی۔ جب بے نظیر بھٹو کی زندگی میں ہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو عبرتناک شکست کا سامنا ہو چکا ہے تو آج تو پیپلز پارٹی کے سندھ میں مسلسل 13 سالہ اقتدار کے بعد یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اور اب پیپلزپارٹی ایک ایسی پارٹی کی شکل اختیار کر چکی ہے جو متحدہ قومی موومنٹ کی طرح ہر سطح پر اقتدار سے باہر سانس بھی نہیں لے سکتی۔ اسے کسی نہ کسی سطح پر اقتدار کی ایسے ہی ضرورت ہے جیسے مچھلی کو زندہ رہنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے والدین کے سیاسی ورثے کو لے کر ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ اسے بھی بخوبی علم تھا کہ اس وقت حکومت اگر گرا بھی دی جاتی تو اس کا سارا کریڈٹ نون لیگ کے پلڑے میں ہی گرنا تھا اور آئندہ انتخابات میں پنجاب میں نون لیگ کو بھاری اکثریت ملنے کے امکانات تھے، جبکہ پیپلزپارٹی پنجاب میں پہلے سے بھی بری حالت میں ہوتی۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی تمام تر تحفظات اور اعتراضات کے باوجود ہر ممکنہ حد تک اس حکومتی سیٹ اپ کو چلانا چاہتی ہے، تاکہ ان کو وقت ملے اور وہ نواز شریف کے قدرے مقبول نام نہاد اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو اعتدال پر لا سکیں۔ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی نون لیگ کی نسبت عسکری آقاؤں کے اشتراک اقتدار کے فارمولے کے لیے زیادہ موزوں اور موافق ہے۔ مگر معیشت اور ریاست کا بحران بے قابو ہو کر ساری صورتحال کو اپنے الٹ میں تبدیل بھی کر سکتا ہے۔
آج کل لبرل بازار میں سب سے زیادہ بکنے والا چورن نوازشریف کا مشہورزمانہ ”اسٹیبلشمنٹ مخالف“بیانیہ ہے۔ یہ درست ہے کہ گزشہ دو دہائیوں میں پورے خطے میں بدلتے ہوئے طاقتوں کے توازن اور اس کے زیراثر پاکستانی معیشت، ریاست اور سیاست پر پڑنے والے دباؤ کے باعث پاکستانی بورژوازی کے اضطراب اور ذہنی ہیجان میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ مسلسل ارتقا پذیر عالمی و علاقائی معیشت کے متوازی مقامی سرمایہ داروں کی مسابقت کی صلاحیت میں اضافہ ہونے کی بجائے مسلسل گراوٹ آئی ہے۔ جبکہ ریاستی مشینری کی ترجیحات کی قدامت بھی کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھی ہے۔ ایسے میں یہاں کی رجعتی بورژوازی میں قدرے لبرل الیوژن کا جنم عین فطری سا معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں سرمایہ داروں کے ایک دھڑے میں سامراجی آشیرباد سے عسکری معاشی تجاوزات کو کسی حد تک کنٹرول کرنے کی خواہش نے بھی سیاسی میدان میں کسی نہ کسی شکل میں اپنا اظہار ضرور کرنا تھا۔ مگر عسکری مگرمچھ سویلین مچھلیوں کی خوراک بھی ہڑپ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں یہ ایک نسبتی تضاد بہرحال موجود ہے جسے محض نظریہ سازش کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ بورژوازی کے روایتی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ان کی الیوژن کا ممکنہ مجسم اظہار نواز شریف کی ہی شکل میں ہوا۔ یہ ایک اور حوالے سے بورژوازی کی قدامت پسندی اور رجعتیت کا ہی مسلمہ اور مدلل اظہار بھی ہے کہ تاریخ کے اس اہم اور نئے موڑ پر بھی وہ اپنی ایک تازہ دم قیادت متعارف کروانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ مریم نواز کو بھی ویسے ہی نواز شریف کی اضافت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جیسے بلاول بھٹو زرداری آصف علی زرداری کے ضمیمے کا ہی کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جس طبقے کی الیوژن کا اظہار نواز شریف جیسے گھسے پٹے اور بدعنوان ترین شخص کی صورت میں ہو رہا ہے، وہ طبقہ بحیثیت مجموعی انتہائی مکروہ اور غلاظت کی حد تک بدعنوان اور پسماندہ ہے اور وہ کوئی ترقی پسند کردار ادا کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ نواز شریف کی اسی طبقے کے اندر جڑیں ہیں اور ابھی درمیانے طبقے کی بڑی پرتوں کی حمایت بھی تحریک انصاف سے مایوس ہو کر نواز شریف کے گرد وقتی طور پر مجتمع ہو رہی ہے۔ یہ طبقہ حکمران طبقے سے بھی زیادہ رجعتی اور قدامت پسند ہے اور اس کا لا ابالی پن گزشتہ دو دہائیوں میں مختلف سیاسی تشکیلات میں ایک کے بعد دوسری سیاسی رجعت میں اپنا اظہار کر چکا ہے۔ ہمارے بائیں بازو کے لبرل نواز شریف سے انقلابی سیاست کی توقع لگائے بیٹھے ہیں مگر وہ اس کے ان رجعتی طبقات کے ساتھ اٹوٹ رشتے کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیا ایک حکمران طبقے کا شخص انقلاب کی قیادت نہیں کر سکتا؟ جی بالکل کر سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے نظریات درکار ہوتے ہیں۔ یہ نظریات ہی کی قوتِمحرکہ ہوتی ہے جو کسی بھی فرد کو اپنے طبقے کے تاریخی مفادات سے ٹکرا جانے کی شکتی عطا کرتی ہے۔ مگر کیا نواز شریف کی کسی بھی تقریر میں اس کے نظریاتی ارتقا کی طرف کوئی اشارہ ملتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ وہ تو کئی بار وضاحت بھی کر چکا ہے کہ وہ فوج کے خلاف نہیں ہے بلکہ چند جرنیلوں کے خلاف ہے۔ گویا وہ موجودہ ریاستی ذمہ داران پر دائیں طرف سے ہی دباؤ بڑھا رہا ہے۔ مختصر یہ کہ نون لیگ ایک دائیں بازو کی پارٹی تھی، ہے اور مستقبل میں بھی اپنے طبقاتی رجحان اور اٹوٹ رشتے کے باعث اس کا بائیں طرف حرکت کا نہ تو کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی استطاعت۔ پیپلزپارٹی کے انتہائی برق رفتار زوال نے کسی حد تک نون لیگ میں ترقی پسندوں کی الیوژن میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی چونکہ لڑھکتے لڑھکتے نون لیگ کے بھی دائیں طرف جا پہنچی ہے، اسی لیے سیاسی افق کے بائیں جانب مکمل خلا کے باعث بائیں بازو کے کنفیوزڈ اور شکست خوردہ عناصر کو وہ بائیں جانب ہی نظر آ رہی ہے۔ ہم مارکس وادی ہر اس سیاسی تحریک اور سیاسی مطالبے کی حمایت کرتے ہیں جو عسکری معاشی و سیاسی تجاوزات کی حقیقی حد بندی یا خاتمے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ساتھ ہی ساتھ مزدور تحریک کی عمومی کیفیت کے تعلق میں ہی اس معاملے پر حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔
سیاسی رجحان کا سوال بلاشبہ لائحہ عمل کا سوال ہوتا ہے مگر لائحہ عمل کی نکیل ہمیشہ عمومی سیاسی تناظر کے ہاتھ میں ہی رہنی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ محنت کش طبقے کی تحریک کے عمومی جمود میں کسی بورژوا پارٹی کے کسی ایسے عوامی اجتماع میں شرکت کی جا سکتی ہے جو کسی اہم جمہوری مطالبے کے گرد متحرک ہوا ہو۔ لیکن اس صورت میں بھی مارکس وادیوں پر بنیادی شرط یہی عائد ہوتی ہے کہ وہ تحریک کی بورژوا قیادت کو بے نقاب کریں اور اپنے واضح طبقاتی بینر اور نعروں کے ساتھ وہاں موجود ہوں۔ مگر موجودہ تحریک کی قیادت میں تو انتہائی دائیں بازو کے فسطائی عناصر بھی شامل ہیں اور سب سے بڑھ کر اس تمام تر سیاسی کھلواڑ کے متوازی ایک تازہ دم مزدور تحریک کا جنم ہو چکا ہے جس کا ہماری توجہ اور توانائیوں پر سب سے پہلا حق ہے۔
محنت کش طبقہ درمیانے طبقے کے اصلاح پسند دانشوروں کی طرح ان بورژوا پارٹیوں اور ان کی قیادتوں کو ایسے نہیں دیکھتا جیسا کہ ان کو ہونا چاہیے بلکہ وہ ان کو ویسے ہی دیکھتا ہے جیسی کہ وہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی موجودہ تحریک کے آغاز سے ہی یہاں کے محنت کشوں کی اس میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ محنت کش کارپوریٹ میڈیا کے طوفانی پراپیگنڈے کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لائے اور انہوں نے اپنے ٹھوس معاشی مطالبات کے گرد اور حکمرانوں کے سامراجی آقاؤں کے احکامات بجا لانے کے لیے کیے جانے والے حملوں کے خلاف اپنے تئیں مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا۔ مارکس وادیوں پر فرض ہے کہ وہ اس نو آموز مزدور تحریک کے مفادات کے نکتہ نظر سے ہی سماج میں جمہوری مطالبات کے گرد چلنے والی دیگر تحریکوں کا جائزہ لیں اور ان کی طرف اپنے رویے کا تعین کریں۔ مابعد نو آبادیوں کی تنقید کے برعکس آزادانہ طبقاتی نکتہ نظر کا منبع ٹھوس سماجی و سیاسی مواد ہی ہوا کرتا ہے۔ یعنی مزدور تحریک کی حالیہ کیفیت اور اس کا دور رس عمومی مفاد، یہی وہ میزان ہے جس کی کسوٹی پر کسی بھی سیاسی و سماجی مظہر کو پرکھا جانا چاہیے۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ محنت کش طبقے نے بحیثیت ِطبقہ یا کم از کم اس کی لڑاکا پرتوں نے حکمران طبقات کی تمام پارٹیوں اور قیادتوں کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کا ایک عملی مثالیہ اس وقت بھی سامنے آیا جب اسلام آباد میں ملک بھر سے آئے ہزاروں محنت کشوں کے احتجاج میں نون لیگ کے آئے ہوئے نمائندوں کو تقاریر کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ مزید برآں محنت کش طبقے نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کا کھلواڑ بھی کئی دفعہ دیکھ لیا ہے۔ حال ہی میں سینیٹ کے انتخابات میں جمہوریت کی دیوی کا ننگا ناچ محنت کش کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ یہ پارٹیاں تو درکنار پورے نظام اور ریاستی سٹرکچر سے ہی محنت کش عوام یکسر بیگانہ دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بلاشبہ انقلابی حالات کی ہی اہم علامات ہیں اور حکمران طبقے کے سنجیدہ عناصر خود بھی اس سے خوفزدہ ہیں اور اپنے طبقے کی توجہ بھی اس سمت میں مبذول کرانے کی سعی کر رہے ہیں۔ مگر تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہی یہ ہے کہ حکمران طبقے نے تاریخ سے کبھی کچھ نہیں سیکھا۔
محنت کش طبقے نے گزشتہ چند سالوں میں مختلف معاشی مطالبات کے گرد ایک دوسرے سے کٹی ہوئی ہی سہی مگر قابلِذکر لڑائیاں لڑی ہیں اور انہوں نے ہر لڑائی کے نشیب و فراز سے اہم نتائج بھی اخذ کیے ہیں۔ ان کا طبقاتی شعور یکے بعد دیگرے مقداری پیش رفتوں کی رفتار میں اضافہ کرتے ہوئے ایک معیاری جست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں اگر فی الواقع کہیں کسی بھی بدعنوان بورژوا قیادت کی طرف رتی برابر خوش فہمی محنت کشوں کی کسی پرت میں بچی بھی ہو تو مارکس وادیوں کا کام اس خوش فہمی کو غلط فہمی کی حد تک بڑھاوا دینا نہیں ہوتا بلکہ انقلابی پراپیگنڈے کے تیز دھار آلے سے اسے جلد از جلد تلف کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں محنت کشوں کو سچ بتانے سے کبھی بھی کترانا نہیں چاہئیے چاہے وقتی طور پر وہ اس سچ کو ناپسند ہی کیوں نہ کریں۔ اس وقت تو وہ بالکل صاف، شفاف اور عریاں سچ سننا چاہتے ہیں۔ حکمران طبقات اور ریاستی ادارے اپنی داخلی لڑائیوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی نامکمل ہی سہی مگر ننگا سچ عوام تک پہنچا رہے ہیں۔ انقلابی پراپیگنڈے کا کام اس ادھورے سچ کی تکمیل کرنا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ سب بورژوا پارٹیاں پھر اقتدار اور لوٹ مار کی لڑائیوں میں محنت کش طبقے کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گی۔ ان کی فرسٹریشن ان کے قائدین میں سے کسی ایک کو انتہائی ریڈیکل اور بائیں بازو کی نعرے بازی کرنے پر بھی مجبور کر سکتی ہے مگر ان میں سے کوئی بھی اپنی معینہ حدود سے متجاوز ہونے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ اقتدار میں آتے ہی یہ محنت کشوں پر بہیمانہ طریقے سے معاشی جارحیت ہی مسلط کریں گے۔ ہم سیاسی ارتقا کے ہر مرحلے پر ٹھوس سیاسی سوالات پر ثابت قدمی سے مارکسی نکتہ نظر پیش کرتے رہیں گے اور تحریکوں میں عملی شمولیت کے ذریعے سماج کی انقلابی تبدیلی کی لڑائی جاری رکھیں گے۔