|رپورٹ: ریڈورکرزفرنٹ، بلوچستان|
بلوچستان کے اندر معدنیات جس میں کوئلہ اور کرومائیٹ کافی زیادہ مشہور ہے جبکہ دیگر معدنیات میں لوہا تانبا اور سونا ہے جہاں پر بلوچستان سمیت پاکستان بھر سے مزدور کام کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان مہنگے اور قیمتی معدنیات کے ذخیروں پر کام کرنے والے مزدوروں کے حالات زندگی کا کسی کو پتہ نہیں چلتا۔
دوسری طرف ہم کوئلہ اور کرومائیٹ کے کانوں کے حوالے سے اگر بات کریں تو یہاں پر کام کرنیوالے محنت کشوں کی اکثریت بلوچستان سے باہر دوسرے صوبوں کے لوگ ہوتے ہیں جن میں خیبر پشتونخوا کے مزدور نمایاں اکثریت میں ہیں۔ کوئلہ کانوں کے اندر کام کرنے کے لیے مزدوروں کو شفٹوں میں کام کرنا ہوتا ہے اور یوں کسی بھی کان پر 24 گھنٹے کام ہو رہا ہوتا ہے۔ یہاں پر اجرت کا پیمانہ کوئلہ نکالنے کے حساب سے ہوتا ہے یعنی ایک بوری یا پارسل کوئلہ نکالنے پر متعلقہ مزدور کو 180 روپے سے لیکر 230 روپے تک اجرت ملتی ہے۔ اور یوں اجرتوں کا حساب کتاب ہر جمعرات کو کیا جاتا ہے جس سے مزدور اپنی اجرت حاصل کر لیتا ہے۔
مزدوروں سے بات چیت کے دوران یہ پتہ چلا کہ اوسط اجرت ماہانہ 15 سے 20 ہزار کے درمیان بن جاتی ہے جو کہ حالات اور کام کی نوعیت کو دیکھ کر بہت کم ہے. یہاں پر مزدوروں کے اوقات کار 8 گھنٹوں کے تین شفٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ کانوں کے اندر کام کرنیوالے محنت کشوں کو کام کے حوالے سے نہ کسی قسم کی تربیت دی جاتی ہے اور نہ ہی حفاظتی آلات مہیا کیے جاتے ہیں۔ جسکی وجہ سے ہم روزانہ کی بنیادوں پر محنت کشوں کی اموات کا نہ رکنے والا سلسلہ دیکھتے ہیں۔ کانوں کے مالکان مزدوروں کو ایک دہکتی ہوئے آگ میں پھینکتے ہیں اور محنت کشوں کے معاشی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ محنت کشوں کو کسی قسم کی یونینز یا ایسوسی ایشنز بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ ریاستی سیکیورٹی اداروں بالخصوص ایف سی کا کردار کسی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ فی ٹن 220 سے 300 روپے کے قریب ٹیکس لیا جاتا ہے جو کہ بلاواسطہ محنت کشوں کے اوپر بوجھ بنا دیا جاتا ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ کوئلہ اور کرومائیٹ کانوں کے اندر کام کرنیوالے محنت کشوں کے لئے حفاظتی آلات فراہم کرے اور اموات کے دوران متعلقہ محنت کشوں کے گھروں کی مالی معاونت کے حوالے سے قانون لاگو کرے اور ہزاروں کے قریب محنت کشوں کے مسائل حل کرے۔