|تحریر: آصف لاشاری |
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین معاشی، سیاسی و سماجی بحران سے گزر رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے ممکنہ ڈیل ہونے کی صورت میں بھی پاکستانی معیشت کے دیوالیہ کو لمبے عرصے تک نہیں ٹالا جا سکے گا اور بہت جلد ہی دوبارہ ریاست دیوالیہ ہونے کی کیفیت سے دو چار ہوگی۔ پاکستان کا سرمایہ دار حکمران طبقہ جو اپنے جنم سے لے کر آج تک اپنا کوئی بھی بنیادی سماجی، سیاسی معاشی فریضہ سر انجام نہیں دے سکا اور اپنے خصی نامیاتی کردار کی بدولت ہمیشہ ہی اس حکمران طبقے نے اپنے بنک اکاونٹس بھرنے کے لیے سامراجی چاکری، کرپشن، کک بیکس اور عوامی بجٹ کی رقم غبن کرنے کا سہارا لیا۔ اس ملک کے سویلین حکمرانوں نے ہمیشہ ہی عوام کے ٹیکسوں کے ذریعے بھرے جانے والے خزانے کو مالِ مفت دلِ بے رحم کی طرح لوٹنے کا کام کیا ہے اور چونکہ یہ حکمران بذاتِ خود بھی اس ملک کے کمزور، گلے سڑے سرمایہ دار طبقے کے ہی نمائندہ تھے تو اسی لیے انہوں نے اس ملک کے سرمایہ داروں کو گیس و بجلی چوری،ہر طرح کے ٹیکسوں کی عام معافی، سرکاری زمینوں کی نجی سرمایہ کاروں کو مفت الاٹمنٹ، محنت کشوں کی محنت کو لُوٹنے کی کھلی چھُوٹ دینے اور سبسڈیوں کے ذریعے عوامی پیسے کو ان کے بنک اکاونٹس میں منتقل کرنے وغیرہ جیسی سہولیات مہیا کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح یہ کمزور سویلین حکمران جو اپنے جنم سے لے کر آج تک اس ملک کے محنت کشوں یا کسی دیگر سماجی طبقے کی بھرپور حمایت حاصل نہیں کر سکے اور اسی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوری کے باعث یہ حکمران اور سرمایہ دار طبقہ ملک کی فوجی اشرافیہ کی چاپلوسی اور ان کے مفادات کی تکمیل بھی کرتا رہا ہے۔ اس ملک کے غلیظ سول حکمرانوں سے کئی گنا بڑی طاقت کا حامل ہونے کی وجہ سے اس ملک کی جرنیلی اشرافیہ نے ایک طرف عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو جی بھر کر لوٹا ہے تو دوسری طرف جنگوں اور آپریشنوں کے نام پر عالمی سامراجی طاقتوں کی غلامی کے ذریعے اربوں ڈالرز بھی کمائے ہیں۔ جب کبھی بھی اس حکمران طبقے کے کسی فرد نے کسی بھی وجہ کے تحت فوجی اشرافیہ کے سامنے چوں چراں کرنے کی کوشش کی ہے یا ان کی مخالفت کرنے کی کوشش کی تو اسے سبق سکھا کر دوبارہ اپنی خدمت پر مامور کیا گیا ہے یا آمریت نافذ کر کے اقتدار پر ہی قبضہ جما لیا گیا ہے۔
اس ملک کا حکمران طبقہ چونکہ صنعت کو جدید بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے اپنے سرمائے کو بڑھانے اور نامیاتی بنیادوں پر باقی دنیا کے ممالک کے سرمایہ داروں سے مقابلہ کرنے کا اہل نہیں تھا تو اس کا سارا زور ملکی وسائل اور غریب عوام کی محنت سے حاصل ہونے والی دولت اور عوامی خزانے کو لُوٹنے پر رہا ہے۔ ایک طرف لُوٹ مار اور چوری کرنا ان کی مجبوری تھی تو دوسری طرف یہ لُوٹ مار ان کی عادت بھی بن گئی۔ یہ بات اس ملک کے سویلین کاروباری طبقے اور کاروباری جرنیلوں، دونوں کے حوالے سے درست ہے۔
صنعتکاری کے فروغ، زراعت کو جدید بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے ملکی دولت میں اضافہ کرنے کے قابل نہ ہونے کی خاصیت کی وجہ سے اس ملک کے حکمرانوں کے پاس ملکی آمدنی کو بڑھانے کا واحد ذریعہ آئی ایم ایف و دیگر سامراجی مالیاتی اداروں اور ممالک کے سامنے قرضے کی بھیک مانگنا، غریب عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کرتے چلے جانا، مزید لوٹ مار یا پھر آئے روز بڑھتے ہوئے خساروں کو پورا کرنے کے لیے قرضوں کے حجم میں اضافہ کرتے چلے جانا تھا۔ آج یہ عمل اپنی منطقی حدود تک پہنچ چکا ہے اور پاکستانی معیشت ایک یقینی دیوالیہ پن کی طرف گامزن ہے۔
آمریتوں اور نام نہاد جمہوری حکومتوں کا مزدور دشمن کردار
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ پاکستان کی انتہائی کمزور بورژوازی جسے انگریز سامراج کے زیرِ سایہ پروان چڑھایا گیا تھا، اپنے نامیاتی کردار کی وجہ سے انتہائی کمزور اور خصی تھی۔اسی طرح برصغیر کے خونی بٹوارے کے بعد کے دور رس رجعتی اثرات کے زیرِ اثر پاکستان کا محنت کش طبقہ جو اپنے حجم میں بھی بہت چھوٹا تھا، انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں فوری طور پر ریاست کے سیاسی بحران میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ ایسی صورت حال میں پہلے ریاست کی سول افسرشاہی اور بعد ازاں فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بونا پارٹ اسٹ کردار اپناتے ہوئے حکمرانی پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
ایوب آمریت کے دوران ریاست کی جانب سے کچھ صنعتی اور زرعی اصلاحات متعارف کرانے کی کوششیں کی گئیں جن کے لئے مالی وسائل پھر امریکی سامراج کی چاکری کے ذریعے ہی حاصل کئے گئے۔ ایوب خان کے بنیادی جمہوریت کے ماڈل کی طرح ان صنعتی و زرعی اصلاحات کا فائدہ بھی چند بڑے امیر خاندانوں کو ہی ہوا۔ ایک طرف ایوب خان بیرونی اور ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بے پناہ سہولیات وغیرہ دے رہا تھا تو دوسری طرف محنت کش طبقے کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے انہیں حاصل مختلف سیاسی و معاشی حقوق سے بھی محروم کیا جا رہا تھا۔ ان اقدامات میں ٹریڈ یونین ایکٹ 1926ء کا خاتمہ اور ترقی پسند طلبہ تنظیموں کو کالعدم قرار دینے جیسے اقدامات شامل تھے۔
ایوب خان کی بدترین آمریت کے خلاف پاکستان کے نوزائیدہ محنت کش طبقے نے ملک کے طالب علموں اور کسانوں کے ہمراہ 1968-69ء میں ایک شاندار انقلابی لڑائی لڑی اور اس لڑائی کے نتیجے میں ایوب آمریت کا خاتمہ ہو گیا مگر کسی حقیقی انقلابی قیادت کی غیر موجودگی میں 1968-69ء کا شاندار انقلاب پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
قیادت کے اس خلا کو بھٹو کی قیادت میں سوشلسٹ نعرے بازی کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی نے بھرنے کی کوشش کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے کی انقلابی کوششوں میں رخنہ ڈالا اور اس ظالمانہ نظام کو محنت کش طبقے کے غیض و غضب سے تحفظ دیا۔ لیکن اس دوران محنت کش طبقے کے سخت دباؤ کے زیرِ اثر نیشنلائزیشن کی پالیسی اور زرعی اصلاحات متعارف بھی کرانا پڑیں۔ بھٹو کی شخصیت کی طرح پیپلز پارٹی کی پالیسیاں بھی انتہائی پیچیدہ اور تضادات سے بھری ہوئی تھیں۔ نظریاتی تذبذب اور تضادات سے بھرپور پالیسیاں ایک طرف پیپلز پارٹی اور بھٹو پر مختلف طبقات کے دباؤ کا اظہار تھیں تو دوسری طرف اس سارے جاری عمل کی واضح سمجھ بوجھ اور ادراک نہ ہونے کا بھی نتیجہ تھیں مگر بھٹو کو اپنی نظریاتی کمزوریوں اور محنت کش طبقے کے ساتھ روا رکھے جانے والی دوغلی پالیسی کی قیمت بھی چکانی پڑی۔ بالآخر بطور کل بورژوا طبقے کی ریاست نے بھٹو کے نسبتاً محنت کش طبقے کی طرف جھکاؤ،نجی ملکیت پر حملے کا بدلہ لینے اور پاکستان کے محنت کشوں، کسانوں اور طالب علموں کو 1968-69ء کی انقلابی بغاوت کے جرم پر سبق سکھانے کے لیے ضیا الباطل کے مارشل لاء کی صورت میں حملہ کیا۔
ضیاء آمریت نے انقلابی طالب علموں اور لڑاکا محنت کشوں پر شدید ترین جبر کیا اور محنت کشوں کی ماضی میں جیتی گئی تمام تر حاصلات چھیننے کی کوشش کی گئی۔ مارشل لاء کے تحت بد ترین رجعتی قوانین نافذ کیے گئے اور محنت کش طبقے کی لڑائی لڑنے کی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ بھٹو دور میں نیشنلائز کی گئی صنعتوں کی دوبارہ نجکاری کی گئی اور طلبہ یونین پر پابندی لگا دی گئی۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کے محنت کش طبقے نے ایوب آمریت سے لے کر ضیاء الباطل کی آمریت کے دوران بھی شدید مزاحمت کی۔ ایک شاندار بغاوت کے ذریعے ایوب آمریت کے خاتمے کے بعد بھی ہمیں محنت کشوں کا شاندار تحرک نظر آتا ہے جس میں بھٹو دور میں کراچی سائیٹ ایریا میں محنت کشوں کے فیکٹریوں پر قبضے اور بھٹو سرکار کی جانب سے ریاستی جبر کے واقعات نظر آتے ہیں وہیں ضیاء الحق کی آمریت کے دوران بھی محنت کش طبقہ نہ صرف جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں سرگرم رہا بلکہ صنعتی محاذ پر بھی تحرک میں نظر آیا۔ کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کا واقعہ محنت کشوں پر ریاستی بربریت کی ایک اور مثال تھا۔
1990 ء کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے، ضیاء آمریت کے سماج پر دور رس رجعتی اثرات، مزدور دشمن قوانین کی منظوری اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بدترین غداری کی وجہ سے ہمیں محنت کش طبقے میں مایوسی اور ان کے تحرک میں مسلسل کمی ہوتی ہوئی نظر آئی۔
ضیاء کی نجکاری پالیسی کو بینظیر بھٹو اور بعد کی حکومتوں نے آئی ایم ایف کی آشیرباد کے ساتھ مسلسل آگے بڑھایا اور مزدور دشمن اقدامات تیز کیے گئے۔ مشرف آمریت کے دوران شوکت عزیز نے آئی ایم ایف کے احکامات کی پیروی میں ضیاء دور سے جاری نجکاری کے عمل کو مزید مہمیز دی۔ مشرف آمریت کے دوران بینکوں، کے ای ایس سی، پی آئی اے کے منافع بخش روٹس فروخت کیے جانے کے ساتھ ساتھ پی ٹی سی ایل کی بھی نجکاری کی گئی جبکہ سٹیل مِل کی نجکاری کی کو ششوں کا آغاز ہوا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ضیاء کی آمریت سے لے کر مشرف آمریت تک محنت کش طبقے کے تحرک میں مسلسل کمی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور اس عرصے میں محنت کش طبقہ کوئی بڑی سنجیدہ لڑائی نہیں لڑ سکا۔مشرف دور کے آخری حصے میں محنت کش طبقے کی جانب سے نجکاری کے حملے کے خلاف مزاحمت کا عنصر بڑھتا ہوا دکھائی دیا۔پی ٹی سی ایل کے محنت کشوں نے 2005ء میں نجکاری کے حملے کے خلاف شاندار لڑائی لڑی، اسی طرح 2010ء میں کے ای ایس سی کی نجکاری کے خلاف بھی ایک شاندار تحریک نظر آئی۔
پاکستان کے حکمران طبقے نے 2008ء کے معاشی بحران کے بعد کے 14 سالوں میں پاکستانی معیشت کی بدترین ناکامی اور زوال پذیری کا تمام تر بوجھ مسلسل پاکستان کے محنت کش طبقے کی طرف منتقل کیا ہے۔ 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ہی عالمی معاشی بحران کے اثرات پاکستان میں محسوس ہونا شروع ہو گئے تھے اور 2009ء مہنگائی کے حوالے سے انتہائی بدتر سال ثابت ہوا، جس میں افراطِ زر کی شرح 24 فیصد ہو گئی تھی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت چونکہ عرصہ قبل اپنے سیاسی منشور سے انحراف کر چکی تھی اور سوشلزم کو شجرِ ممنوعہ قرار دے چکی تھی اس لیے پی پی پی نے معاشی مسائل کا واحد نسخہ کیمیا آئی ایم ایف کو ہی قرار دیا اور قرضے لے کر اپنے پانچ سال پورے کیے۔ بجلی کا بحران اور گردشی قرضہ دردِ سر بنا رہا، 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی حکومت نے مجموعی طور پر تقریباً 11 ارب ڈالر کا قرضہ لیا اور ان قرضوں کی واپسی کے لیے غریب عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ پٹرول بجلی گیس کی قیمتوں میں بھی بے پناہ اضافہ کیا گیا۔ پی پی کی حکومت کے دوران بھی مزدور دشمن پالیسیوں کا عمومی تسلسل جاری رہا۔ ”مزدور دوستی“ کا ماسک پہنے رکھنے کے لیے اس دوران سرکاری ملازمین کی اجرتوں میں ماضی کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ اضافہ کیا گیا اور چند شعبوں کے ملازمین کی مستقلی کے پرانے معاملات کو حل کر کے عمومی طور پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر نجکاری کی پالیسی کو آگے بڑھایا گیا۔
پی پی کے بعد آنے والی ن لیگ کی حکومت کے دوران بھی معاشی مسائل پر قابو پانے کے نام پر بھاری سود اور سخت ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ن لیگ کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں مجموعی طور پر 39 ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔ اس دوران عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے افراطِ زر نسبتاً کم رہا اور انتہائی بھاری سود پر حاصل کیے جانے والے قرضوں کی وجہ سے گروتھ ریٹ میں مصنوعی بنیادوں پر اضافہ نظر آیا۔ ن لیگ کی حکومت کے دوران بھی گردشی قرضے میں بے پناہ اضافہ نظر آیا اور غریب عوام پر نافذ بدترین ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم سے گردشی قرضے کو اتارنے کا سلسلہ جاری رہا اور ان گردشی قرضوں کا سارا بوجھ غریب صارفین پر ڈالا جاتا رہا۔ ن لیگ کی حکومت نے آئی ایم ایف کی ایما پر محنت کش طبقے پر نجکاری کا بدترین حملہ کرنے کی کوشش کی۔ آئی ایم ایف کی ایما پر 120 اداروں کو نجکاری کی لسٹ میں شامل کیا گیا۔پنجاب میں سینکڑوں سکولوں کو پیف کے حوالے کیا گیا۔ واپڈا، پی آئی اے، سٹیل مل سمیت کئی عوامی اداروں کی نجکاری کی کوشش کی گئی جس کے خلاف ان شعبوں کے محنت کشوں نے مزاحمت کی۔ پی آئی اے پر نجکاری کے حملے کے خلاف 2016ء میں پی آئی اے کے محنت کشوں کی سات روزہ ہڑتال خاص طور پر نمایاں ہے۔ پی آئی اے کے محنت کشوں پر ریاست کی جانب سے جبر کیا گیا جس میں دو ملازمین شہید ہو گئے لیکن محنت کشوں کی جدوجہد کے نتیجے میں حکومت پی آئی اے کی نجکاری کے منصوبے کو فوری طور پر عملی جامہ نہ پہنا سکی۔
اس عرصے میں مسلسل آئی ایم ایف کی غلامی میں بدترین عوام دشمن پالیسیاں لاگو کرنے، بدترین مہنگائی، بد امنی اور بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خلاف محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ درمیانے طبقے کی نفرت بھی مسلسل بڑھتی رہی۔ اس سارے عرصے میں ان پارٹیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی نفرت کو دیکھتے ہوئے ریاست کے اصلی مالکان یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ایک بہت بڑی سرمایہ کاری کے ذریعے عمران خان اور اس کی پارٹی کو مضبوط کیا اور میڈیا پروپیگنڈے کے زیرِ اثر درمیانے طبقے کے نوجوانوں میں عمران خان کی حمایت پیدا کرتے ہوئے ایک بدترین دھاندلی کے ذریعے عمران خان کو سماج پر مسلط کیا گیا حالانکہ محنت کش طبقے میں کہیں بھی عمران خان کی حمایت موجود نہیں تھی۔ عمران خان کو مسلط کرنے کے پیچھے شامل وجوہات میں حصہ داری اور لوٹ مار کی لڑائی کے علاوہ ملکی معیشت کی مسلسل ہوتی ہوئی گراوٹ کا بھی اہم کردار تھا۔ جرنیل شاہی کٹھ پتلی کو اقتدار دے کر سب فیصلے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے سب کچھ ”ٹھیک“کرنے کی کوشش میں تھی۔ عمران خان کی حکومت کے دوران بھی محنت کش طبقے پر بد ترین حملے کئے گئے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں بیرونی قرضہ 50 ارب ڈالر سے بڑھ کر 100 ارب ڈالر ہوگیا۔ عمران خان نے آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت محنت کش عوام پر بدترین ٹیکس لگائے۔ بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا گیا۔ اس دوران کرونا وبا کے دوران لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے۔ عمران خان کی حکومت کے دوران سٹیل مِل کے ہزاروں ملازمین اور ریلوے کے محنت کشوں کو جبری برطرف کیا گیا اور سرکاری اسامیوں پر بھرتیوں پر پابندی رکھی گئی۔ عمران خان کی حکومت کے دوران ہی کرونا وبا اور بعد ازاں روس یوکرین جنگ تنازعے کے آغاز میں ہی عالمی سطح پر افراطِ زر کے بحران کی وجہ سے پاکستانی معیشت کا بحران انتہائی شدید ہونے کی طرف گیا اور عمران حکومت کے آخری دنوں میں معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی۔ عمران خان کی بدترین ناکامی کے بعد عمران کو اقتدار میں لانے والی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑوں کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور اسٹیبلشمنٹ کا غالب دھڑا سابقہ حکمرانوں کو دوبارہ اقتدار میں لے آیا۔
پی ڈی ایم حکومت نے آتے ہی آئی ایم ایف کی ایما پر محنت کشوں پر ایک اور بدترین حملہ کیا۔ ڈالر، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بے بہا اضافہ کے ساتھ مہنگائی نے محنت کش عوام کا جینا محال کر دیا۔حکومت مہنگائی کے بدترین حملے کے ذریعے آئی ایم پروگرام بحال کرانے میں کامیاب ہو گئی لیکن آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے باوجود معاشی دیوالیہ پن کے خطرے کو ٹالنے میں ناکام رہی۔ پی ڈی ایم حکومت اقتدار میں آنے سے اب تک محنت کش عوام پر کئی بدترین معاشی حملے کر چکی ہے۔ جنوری 2023ء میں ملکی ریزرو تاریخ کی کم ترین سطح تک پہنچ چکے تھے اور معاشی دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کیے گئے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے نتیجے میں منی بجٹ پیش کر کے 500 ارب روپے کے مزید ٹیکس محنت کش عوام پر نافذ کر دیے گئے ہیں اور محنت کش عوام کو بجلی، پٹرول پر حاصل سبسڈیوں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ نجکاری کے منصوبے پر عملدرآمد کو تیز ترین کر دیا گیا ہے۔ اس وقت افراطِ زر میں شدید ترین اضافے کی وجہ سے پاکستان کے محنت کش طبقے کو بدترین مشکلات کا سامنا ہے۔ حقیقی اجرتوں میں کئی گنا کمی ہوئی ہے اور محنت کشوں کو بھوک اور لاعلاجی کا سامنا ہے۔ بنیادی اشیائے ضرورت محنت کشوں کی پہنچ سے دور کر دی گئی ہیں۔ سرکاری شعبے کے محنت کشوں نے پچھلے عرصے میں اپنی تنخواہوں میں جو تھوڑا بہت اضافہ کرایا تھا وہ اب ہوا ہو چکا ہے اور اس سے کئی گنا زیادہ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ نجکاری کی وجہ سے لاکھوں محنت کشوں پر بے روزگاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ملک بھر میں محنت کشوں کو جبری برطرفیوں اور روزگار کے خاتمے کا سامنا ہے۔
مزدور تحریک کی موجودہ کیفیت، تناظر اور انقلابی لائحہ عمل
جس وقت محنت کش طبقے کو پاکستان کی تاریخ کے بدترین معاشی حملے کا سامنا ہے اس وقت یہ سوال بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ محنت کش طبقہ اس سارے معاشی حملے کا جواب دینے کی سکت رکھتا ہے یا نہیں، محنت کش طبقہ اس وقت کس کیفیت میں موجود ہے اور آنے والے عرصے میں محنت کش طبقہ جدوجہد کی کن شکلوں میں اپنا اظہار کرنے کی طرف جا سکتا ہے؟
پچھلے عرصے میں محنت کش طبقے نے اپنے معاشی حقوق کے دفاع کے لیے بھرپور احتجاجی مظاہرے منعقد کیے ہیں۔ آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) کے پلیٹ فارم سے ملک بھر کے سرکاری اداروں کے محنت کشوں نے شاندار احتجاجی مظاہرے کیے اور محنت کش طبقے کی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح واپڈا کے محنت کشوں نے پچھلے عرصے میں نجکاری کے خلاف اسلام آباد میں شاندار احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جدوجہد نے بھی پاکستان کی خواتین محنت کشوں کے انقلابی پوٹینشل کو واضح کیا ہے۔
2008 ء سے لے کر اب تک تمام سرکاری شعبوں کے محنت کشوں نے اپنے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے جبکہ نجی صنعتوں کے محنت کش بھی وقتا فوقتاً متحرک ہوئے ہیں اگرچہ یہ ساری لڑائیاں الگ تھلگ اور ایک دوسرے سے کٹی ہوئی تھیں۔ چونکہ محنت کش طبقہ ایک لمبے جمود کے عہد کے بعد متحرک ہوا تھا اور کوئی عوامی پیمانے کا انقلابی پلیٹ فارم بھی موجود نہ تھا، اس لیے فطری طور پر یہ ساری تحریکیں اسی کیفیت میں ہو سکتی تھیں۔ پچھلے بیس سالوں میں پاکستان کے محنت کش طبقات نے بہت ہی اہم لڑائیاں لڑی ہیں اور ان لڑائیوں سے بہت اہم نتائج اخذ کیے ہیں۔ محنت کشوں نے ان لڑائیوں سے سیکھا ہے کہ علیحدہ علیحدہ جدوجہد کر کے اپنے اوپر ہونے والے معاشی و سیاسی حملوں کو نہیں روکا جا سکتا اور اپنے معاشی و سیاسی حقوق کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کشوں کے شدید دباؤ کے نتیجے میں ٹریڈ یونین قیادتوں کو مختلف اتحاد تشکیل دینے پڑے اور معاشی مطالبات کے گرد احتجاج منظم کرنے پڑے۔ سرکاری شعبے کے محنت کشوں کی مختلف تنظیموں پر مبنی اتحادی پلیٹ فارم کے زیرِ اہتمام اگرچہ محنت کشوں نے تھوڑی سی کامیابیاں بھی حاصل کیں جو کہ اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتی ہیں لیکن عمومی طور پر دیکھا جائے تو ٹریڈ یونین قیادتوں کی بزدلی، تذبذب اور مزدور نظریات کی بجائے دشمن طبقے کا نظریاتی غلبہ ہونے کی وجہ سے ان سارے احتجاجوں میں محنت کشوں کی خاطر خواہ تعداد ہونے کے باوجود زیادہ بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکی۔
مزدور طبقے کی تحریک کی ابتدائی اٹھان کے اس سارے عرصے میں محنت کش طبقے کی انقلابی قیادت کے شدید فقدان نے بار بار اپنا اظہار کیا ہے۔ 1990ء کی دہائی سے شروع ہونے والے مزدور تحریک کے عمومی طویل زوال کے دوران ایک طرف جہاں ٹریڈ یونینز کا بڑی تعداد میں خاتمہ ہونے کی طرف گیا تو جو ٹریڈ یونینز موجود رہیں ان میں عمومی طور پر جمود کی کیفیت حاوی ہوتی چلی گئی۔ اس عرصے میں ایک مفاد پرست مزدور اشرافیہ نے جنم لیا جو کسی قسم کی سنجیدہ لڑائی لڑنے کی اہلیت سے مکمل عاری تھی۔ ضیاء آمریت کے دور سے شروع ہونے والی مزدور دشمنی پر مبنی پالیسیاں نافذ کرنے کا عمل آج تک جاری و ساری ہے۔ حکمران طبقے نے اس عرصے میں محنت کشوں پر ٹریڈ یونینز بنانے کے راستے عملی طور پر بند کر دیے ہیں۔ مستقل فیکٹری ورکرز کی جگہ ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے محنت کشوں نے لے لی اور اس طرح کے قوانین نافذ کیے گئے جس سے کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں سے یونین بنانے کا حق چھین لیا گیا۔ اس سارے عرصے میں جہاں ٹریڈ یونینز موجود بھی تھیں وہ ٹریڈ یونینز بھی ان سارے مزدور دشمن اقدامات کے خلاف بھی کوئی مؤثر لڑائی لڑنے سے قاصر رہیں۔ اسی طرح سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کسی سوشلسٹ انقلابی قیادت کی غیر موجودگی میں جو این جی اوز محنت کشوں میں کام کر رہی تھیں انہوں نے بھی محنت کشوں کو انقلابی جدوجہد سے متنفر کرنے میں انتہائی غلیظ کردار ادا کیا۔ اس سارے عرصے میں محنت کشوں کو ان کے انقلابی نظریات اور انقلابی ورثے سے دور کر دیا گیا۔ ان سارے عوامل کی وجہ سے محنت کش طبقے کی انقلابی دھار کند ہوئی اور مزدور تحریک پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئی۔
پچھلی ایک ڈیڑھ دہائی میں محنت کش طبقے کی تحریک کا دوبارہ ابھار ہواہے۔ محنت کش طبقے نے نیند سے بیدار ہو کر ابھی پہلی انگڑائی ہی لی ہے اور خود کو درپیش فوری نوعیت کے معاشی مطالبات کے لیے متحرک کیا ہے اسی دوران اسے انتہائی سنجیدہ چیلنجز نے گھیر لیا ہے۔ محنت کش طبقے نے جن حکمران طبقات اور جس ریاست سے اپنے معاشی حقوق حاصل کرنے تھے وہ حکمران طبقہ ہی اپنے نظام کی ناکامی کا اعلان کر رہا ہے اور وہ ریاست ہی مکمل طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ آج محنت کش طبقے کے سامنے یہ سوال نہیں ہے کہ وہ اس سرمایہ داروں کی ریاست سے اپنے معاشی حقوق کس طرح حاصل کرے بلکہ آج محنت کش طبقے کے سامنے یہ سوال موجود ہے کہ اگر یہ سرمایہ دارانہ نظام، اس کا حکمران طبقہ اور ان کی ریاست مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے تو وہ اس صورت حال میں وہ اپنے طبقے کے حقوق کے دفاع کے لیے کیا کرے۔ پاکستان کے محنت کش طبقے پر حاوی موجودہ وقتی سکوت کی کیفیت کی وضاحت صرف اسی امر سے کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ کیفیت زیادہ لمبے عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گی۔ آج جہاں پاکستان کے محنت کش طبقے کو بدترین معاشی مشکلات کا سامنا ہے وہیں اسے سیاسی نوعیت کے انتہائی اہم مسائل کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کے محنت کش طبقے کی تحریک کا مستقبل پاکستانی ریاست کے مستقبل کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ پاکستانی ریاست کے دیوالیہ ہو جانے کی صورت میں پاکستان کے محنت کشوں کو ایک مختلف صورت حال کا سامنا ہوگا اور ان حالات میں محنت کش طبقے کی جدوجہد بھی مختلف نوعیت کی ہوگی۔ دوسری طرف اگر پاکستانی ریاست کو کچھ عرصے کے لیے دیوالیہ ہونے سے بچا لیا جاتا ہے تو بھی محنت کشوں کو بدترین معاشی حملے کا سامنا کرنا ہوگا اور اس صورت میں محنت کش طبقے کی جدوجہد کی دیگر مختلف شکلیں بھی سامنے آ سکتی ہیں۔
آنے والا عرصہ پاکستانی ریاست اور پاکستان کے محنت کش طبقے کی انقلابی جدوجہد کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ممکن ہے کہ پاکستان کے محنت کش طبقے کو اس وقت جس قسم کے بدترین معاشی حملے کا سامنا ہے اس کی وجہ سے کسی بھی ایک واقعہ سے ایک خود رو عوامی تحریک کسی دھماکے کی صورت میں پھٹ پڑے۔ یہ بات انتہائی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں اس طرح کی کوئی بھی تحریک معاشی مطالبات تک محدود نہیں رہ سکے گی اور فوری طور پر سیاسی نوعیت اختیار کر لے گی۔
انقلابی لائحہ عمل
اس وقت پاکستان کے مارکس وادیوں کو بھی پاکستان کے محنت کش طبقے کی طرح انتہائی سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستانی ریاست کا تیز ترین زوال، دیوالیہ پن کا بھاری امکان اور سماج کی موجودہ نوعیت، سماج میں موجود رجعتی عناصر، قومی مسئلہ اور جغرافیہ وہ عوامل ہیں جو پاکستان کے مارکس وادیوں کے سامنے کئی پیچیدہ چیلنجز کا باعث ہیں۔
بطور مارکس وادی ہمیں پاکستان کے محنت کش طبقے کی بھرپور انقلابی صلاحیت پر مکمل اعتماد ہے اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج سرمایہ داری کی ناکامی کے عہد میں دنیا بھر کی بورژوازی کی طرح اس خطے کی بورژوازی بھی مکمل ناکام ہو چکی ہے اور سماج کو موجودہ مرحلے سے آگے لے کر جانے سے قاصر ہے۔ ایسے میں مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ وہ محنت کشوں کی تحریک کی موجودہ کیفیت کا انتہائی باریک بینی سے سائنسی جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کا تناظر اور لائحہ عمل تخلیق کریں۔
محنت کش طبقے کی تحریک کے ہر مرحلے پر ان سے جڑت بناتے ہوئے اور بطور ہر اول ان کی راہنمائی کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔اس سارے عمل میں محنت کش طبقے سے جڑت بنانے اور خود کو ان کی راہنمائی کا اہل بنانے کے لیے جہاں انقلابی ڈسپلن کی حامل تنظیم، درست پروگرام اور نعروں کی ضرورت ہوگی وہیں بے پناہ صبر، جرات اور لگن کی بھی ضرورت ہوگی۔ ماضی کے انقلابات اور حالیہ عرصے میں برپا ہونے والی انقلابی بغاوتوں کا سبق یہی ہے کہ ایک سوشلسٹ انقلابی پارٹی کے بغیر سرمایہ داری کا تختہ پلٹ کر ایک سوشلسٹ سماج تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے پاکستان میں کامیاب سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے لیے انقلابی پارٹی کی تعمیر کے کام کو تیز ترین کرنا ہوگا اور اس مقصد کے لئے محنت کش طبقے کی ہر اول پرتوں کو تیز ترین بنیادوں پر سوشلسٹ نظریات سے متعارف کراتے ہوئے انہیں منظم کرنا ہو گا۔ یہی آج کے عہد میں مارکس وادیوں کا اہم ترین تاریخی فریضہ ہے۔