|تحریر: پارس جان|
مملکت خداداد میں گزشتہ عشرے میں کئی نام نہاد ’انقلابی تحریکیں ‘ عوامی شعور پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہر بار پالیسی سازوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ سلسلہ پرویز مشرف کے اقتدار کے اختتام کے دنوں سے شروع ہوا تھا جب مرتی ہوئی مشرف آمریت کے خلاف عدلیہ کی بحالی کی ایک مصنوعی تحریک بنائی گئی تاکہ کسی بھی حقیقی عوامی تحریک کے امکانات کا ہی گلہ گھونٹ دیا جائے۔ اس عدلیہ بحالی کی تحریک کے متوازی PTCL کے محنت کشوں کی ایک شاندار تحریک بھی موجود تھی جو لگ بھگ کامیابی سے ہمکنار ہونے ہی والی تھی کہ پیپلز پارٹی کے نام نہاد بائیں بازو کے ضمیر فروش کی غداری کی بھینٹ چڑھ گئی۔عین اپنے عروج پر PTCL کے محنت کشوں کی یہ تحریک ریلوے ، پاکستان پوسٹ اور دیگر اداروں کے محنت کشوں کی توجہ کا بھی مرکز بننا شروع ہو گئی تھی۔ مگر اس تحریک کی ناکامی نے سب کچھ اپنے الٹ میں بدل دیا۔عدلیہ بحالی کی یہ مصنوعی تحریک جہاں حکمران طبقات اور ریاستی اداروں کے داخلی تضادات کی غمازی کر رہی تھی وہیں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس تحریک کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا تھا کیونکہ خود الیکٹرانک میڈیا کے مالکان کے ایک دھڑے کے مفادات بھی اس عدلیہ بحالی تحریک کی پشت پناہی کرنے والے ’محرکات ‘ سے مطابقت رکھتے تھے اور ساتھ ہی محنت کشوں کی حقیقی تحریک کی عوامی جڑت میں رخنہ ڈالنا بھی مقصود تھا۔ریاستی آقاؤں کو اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی اوروہ مشرف کے دس سالہ دورِ اقتدار میں معیشت کے غبارے کے پھولنے کے باعث ابھرنے والے درمیانے طبقے کے سیاسی تحرک کو محنت کش عوام پر مسلط کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
میڈیا اور عوامی شعور
اسی وجہ سے نہ صرف حکمران طبقات بلکہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے انقلابی سیاسی کارکنوں اور حتیٰ کہ محنت کش طبقے کی سرگرم پرتوں کے دماغ میں بھی یہ مفروضہ جڑیں پکڑ گیا کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اسے میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کی وسیع پیمانے پر آشیرباد حاصل ہو۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ جب محنت کش عوام کی وسیع تر پرتیں سیاسی عمل میں شامل نہیں ہوتیں تو حکمران طبقات میڈیا، نصابِ تعلیم ، روایتی تہوار اور رسوم و رواج وغیرہ کے ذریعے عوامی شعور کو مزید مسخ کرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے بہت سے لوگ عدلیہ بحالی کی تحریک کی بظاہر کامیابی کا سہرا نو مولود الیکٹرانک میڈیا کے سر باندھتے رہے اور اسی منطق کے تحت PTCL کے محنت کشوں کی تحریک اور دیگر مزدور تحریکوں کی ناکامی کی وجہ بھی الیکٹرانک میڈیا کی ’بے رخی‘ہی قرار پائی۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔تمام مزدور تحریکوں کی ناکامی کی وجوہات جہاں عہد کے عمومی کردار میں پنہاں تھیں وہیں ان تحریکوں کی قیادتوں کی ’دکانداری‘ نے بھی ان تحریکوں کے قتل عام میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔لیکن سیاسی افق پر درمیانے طبقے کی رجعتی سیاست کے تسلط کے باوجود بحیثیتِ مجموعی مزدور تحریک کسی نہ کسی شکل میں بار بار ابھرتی رہی اور عرب بہار کے بعد اس کو عالمی مزدور تحریک سے بھی توانائی اور شکتی میسر آتی رہی۔دو سال قبل PIA کے محنت کشوں کی یادگار ہڑتال کو بھی قیادت کی نا اہلی کے باعث شکست کا سامنا کرنا پڑا۔یہ مزدور تحریک کسی خلا میں یہ ارتقائی مراحل طے نہیں کر رہی تھی بلکہ یہ جس سماج کی کوکھ میں پروان چڑھ رہی تھی وہ سماج ایک نامیاتی کل کے طور پر گزشتہ عشرے میں تیز ترین تبدیلیوں سے گزر رہا تھا اور عمومی عوامی شعور میں مقداری تبدیلیاں ایک معیاری جست کی طرف بڑھ رہی تھیں۔
اس عمومی صورتحال میں حالیہ پشتون تحریک کا ابھار عوامی شعور کی تبدیلی کے سالماتی عمل کے اندر ایک اہم مرحلہ ہے۔اس تحریک نے پہلے ہی مرحلے میں گزشتہ عشرے میں عوامی نفسیات میں عقیدے کی حد تک راسخ ہو جانے والے اس مفروضے کا قلع قمع کر دیا کہ کسی بھی تحریک کو آگے بڑھنے کے لیے الیکٹرانک میڈیا کی بیساکھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حقیقت میں کوئی بھی حقیقی تحریک میڈیا کی طرف سے مسلط کردہ جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک کیے بغیر سیاسی افق پر نمودار ہی نہیں ہو سکتی۔ اسلام آباد دھرنے سے لے کر پشتونخواہ سے بلوچستان تک لانگ مارچ کے آخری کوئٹہ جلسے کے انعقاد تک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اس تحریک کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ ریاستی ادارے پر امید تھے کہ میڈیا کی ’آکسیجن ‘ کے بغیر اس تحریک کا دم گھٹ جائے گا اور کوئٹہ پہنچنے تک یہ مایوسی کی دلدل میں غرق ہو جائے گی مگر نتائج اس کے بالکل الٹ برآمد ہوئے ۔یہ تحریک سینکڑوں سے ہزاروں سرگرم کارکنوں اور لاکھوں سے کروڑوں خاموش حامیوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑنا شروع ہو گئی۔ بین الاقوامی میڈیا نے جب اس تحریک کو اجاگر کرنا شروع کیا تو مجبوراً اکا دکامقامی اخبارات اور چند ایک ٹی وی چینلز نے بھی اس تحریک کے قائدین سے رجوع کرنا شروع کر دیا۔اب ریاستی اداروں نے پینترا تبدیل کر دیا ہے اور اب وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس تحریک کی قیادت کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے اسے میڈیا کے ذریعے حکمران طبقات اور ریاستی ایجنڈے کے قریب لا کر اور خود پسندی کے چنگل میں پھنسا کر یا مراعات اور رعایتوں کے جھانسے میں لا کرعوام سے کاٹ دیا جائے ،تاکہ اپنے وظیفہ خوار ملاؤں اور سابقہ ترقی پسندی کے خول میں چھپے نام نہاد قوم پرستوں سے اس تحریک کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈا کروا کر اسے بدنام کیا جا سکے اور پھر مناسب موقعہ دیکھ کر اسے سبق سکھایا جا سکے۔حقیقت میں یہیں سے قیادت کی آزمائش کا سنگین ترین مرحلہ بھی شروع ہوتا ہے۔
آستین کے سانپ
کسی بھی لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان دشمن سے زیادہ متذبذب اور بزدل دوستوں کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی کسی بھی تحریک میں چاہے وہ طلبا کی تحریک ہو یا ٹریڈ یونین کی ہڑتال ہو یا پھر کوئی عوامی تحریک ہو ، اس کا فیصلہ کن مرحلہ وہ ہوتا ہے جب دشمن طبقات کی طرف سے بظاہر لچک اور خیر سگالی کے جذبات کا دکھاوا شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوتا ہے جیسے سانپ اپنی کینچلی تبدیل کرتا ہے۔ ایسے وقت میں دوستوں کی صفوں میں سے بھی بہت سے خیر خواہوں کی رالیں ٹپکنا شروع ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر انقلابی لبادے میں چھپے ’اصلاح پسند ‘ بڑھ چڑھ کر آسان ، معتدل اور ’سب کے لیے قابلِ قبول ‘ راستہ اختیار کرنے کی تلقین اور تائید کرتے ہوئے سامنے آتے ہیں۔ ’’اوہوہوہو،نہ نہ نہ ، ریاست کے خلاف ایسی زبان استعمال مت کرو ،زمینی خداؤں کو چیلنج مت کرو، حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرو وغیرہ وغیرہ‘‘۔یہ آوازیں چہرے پر خوشامدانہ مسکراہٹیں بکھیرے دوستوں کی صف میں چھپے حقیقی دشمنوں کے منہ سے بارہا سننے کو ملتی ہیں۔ ’خود آگے آنے کی کیا ضرورت ہے ، پسِ منظر میں رہ کر لڑو، بہتر وقت کا انتظار کرو‘۔ بظاہر یہ جملے بہت ہمدردانہ اور درست معلوم ہوتے ہیں مگر جب لڑائی ریاست کے ساتھ ہو تو یہ ہمدردانہ جملے زہرِ قاتل بھی ثابت ہو سکتے ہیں جو تحریک کے قائدین کو مسلسل سیاسی خود کشی پر اکساتے رہتے ہیں۔کسی بھی تحریک کی قیادت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تحریک میں شامل عوامی پرتوں کو سچ بتائیں ، حکمتِ عملی کے نام پر سچ پر پردہ ڈالنا ’اصلاح پسندوں ‘ کے خمیر میں شامل ہوتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ان اصلاح پسندوں نے ہمیشہ تحریکوں اور انقلابات کو خون میں ڈبویا ہے۔ حالیہ پشتون تحریک کو بھی کسی نہ کسی مرحلے پر ایسے ’ہمدردوں ‘ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ان میں سب سے خطرناک وہ ہونگے جو مارکسزم کا اپنا مخصوص ’چورن ‘ بیچنے کے فن کے ماہر ہیں۔ وہ ایک طرف تو تحریک کی قیادت کو ضرورت سے زیادہ مکھن لگا کر ان کے ساتھ اپنا نام جوڑ کر اپنی مقبولیت کی خود فریبی کے غبارے میں مزید ہوا بھرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی پشتون قوم کے برطانوی سامراج کے خلاف شاندار ماضی کی یاد دہانیاں بھی کروا رہے ہیں مگر انتہائی دانشورانہ مکاری سے ریاستی اداروں کے خلاف ایک بھی لفظ لکھے یا بولے بغیر اس تحریک کی حمایت کے دعویدار بھی بنے ہوئے ہیں۔ وہ بجائے اس کے کہ تحریک کو دیگر مظلوم قومیتوں اور طبقات کے ساتھ جوڑنے کا ٹھوس لائحہ عمل مرتب کریں ’اعتدال پسندی ‘ کی ناصحانہ جگالی کرنے میں مصروف ہیں۔
پاکستانی ریاست شدید خلفشار کا شکار ہے۔ مارکس وادیوں نے پہلے ہی کئی دفعہ ریاست کے بحران کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن یہ بحران زدہ ریاست بہرحال ایک ظالم سرمایہ دارانہ ریاست ہی ہے ۔پشتون قبائل پر گزشتہ طویل عرصے سے جاری جبر اس ریاست کے عمومی سامراجی عزائم ہی کی عکاسی کرتا ہے اور دیگر مظلوم قومیتوں اور محنت کش طبقات پر بہیمانہ ظلم و ستم کا ہی تسلسل ہے۔ سب سے پہلے تو دوست اور دشمن کی پہچان بہت ضروری ہے۔ اس تحریک کا سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو یہ سمجھتا یا سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ’یہ صرف پشتونوں کی لڑائی ہے ‘۔یہ صرف پشتونوں کی لڑائی نہیں ہے یہ ریاست کے ظلم اور حکمران طبقے کے استحصال کا شکار ہر قوم ، طبقے اور فرد کی لڑائی ہے۔ یہ سب سے بڑھ کر مزدوروں اور کسانوں اور طلبہ کی بقا کی لڑائی ہے۔بلوچ ، سندھ ، کشمیر اور دیگر مظلوم قوموں کے جاگیرداروں ، قبائلی سرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات بھی پشتون سرمایہ داروں اور حکمران طبقات کی طرح ریاستی اداروں کے مفادات سے ہی جڑے ہوئے ہیں۔ اے این پی کی قیادت اور دیگر سیاسی رجحانات انہی حکمران طبقات کے سیاسی نمائندے ہیں اور امریکی سامراج کے دلالی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کی پراکسی لڑائیوں میں حکمران طبقات کے کچھ لوگ بھی مارے گئے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ملک کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر بھی مارا گیا مگر اس سے جس طبقے کی وہ نمائندگی کرتا تھا ، اسکا کردار تبدیل نہیں ہو جاتا۔ اس لیے ریاستی پراکسیوں میں مارے جانے والے پشتون سیاسی قائدین بھی جس طبقے کے نمائندہ تھے ، اسکا کردار بھی عوام دشمنی پر ہی مبنی تھا، ہے اور رہے گا۔ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ڈرون حملوں ، ریاستی آپریشنوں ، فوجی چیک پوسٹوں وغیرہ سے متاثر عام طور پر غریب ، محنت کش پشتون اور بلوچ ہی ہوئے ہیں۔ جبکہ امیر پشتونوں نے اس عرصے میں بھی اقتدار کے مزے ہی لوٹے ہیں۔اس لیے ان امرا اور ان کی ریاست سے کسی بھی قسم کی بہتری یا اچھائی کی توقع رکھناسراسر حماقت ہو گی۔ بلوچ قومی تحریک کا سرسری سا جائزہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہو گا کہ جب جب اس ریاست نے وعدوں اور لارے لپوں کا آسرا دے کر سمجھوتے کیے ، ہمیشہ انہوں نے وعدہ خلافی کی اور ان کے حواریوں نے تحریکوں کی پیٹھ میں چھرے گھونپے۔ اس لیئے ضروری ہے کہ تحریک کی حتمی فتح تک ریاست سے کسی بھی قسم کا سمجھوتہ یا سمجھوتے کی کوشش نہ کی جائے ۔کیونکہ ایسی کوئی بھی کوشش تحریک کا مومینٹم توڑنے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کا باعث بنے گی اور حاصل وصول سوائے پہلے سے بھی زیادہ جبر اور بربریت کے کچھ نہیں ہو گا۔
قیادت کی آزمائش
نقیب اللہ محسود کا قتل بلاشبہ وہ نکتہ ابال ثابت ہوا ، جس نے برسوں سے دبے ہوئے عوامی غیض و غضب کو ہوا دے دی اور یہ تحریک جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔لیکن تحریک کے اس سالماتی عمل کو محض بیان کر دینا ہی مارکس وادیوں کے لیے کافی نہیں۔اور خاص طور پر اس عمل کو ایک میکانکی انداز سے بھی نہیں سمجھا جا سکتا کہ ’مقداری تبدیلیاں ایک خاص نہج پر پہنچ چکی تھیں ، اور نقیب اللہ محسود کا قتل ایک معیاری جست کا باعث بنا ،وغیرہ وغیرہ‘۔یہ درست ہے کہ یہ تحریک ایک حد تک خود رو تحریک تھی اور روایتی قیادتیں چونکہ اس سے خوفزدہ تھیں ، اس لیئے وہ اس کی قیادت کرنے سے قاصر تھیں اور کوئی مارکسی انقلابی قوت بھی اس حجم اور تیاری کے ساتھ موجود نہیں تھی جو فوری طور پر تحریک کی انگلی پکڑ کر اسے آگے بڑھانا شروع کر دیتی۔ایسے میں قیادت کے وسیع خلا کو پشتون تحفظ تحریک کی حالیہ قیادت نے پر کر دیا۔ لیکن یہ عمل جتنا سادہ دکھائی دیتا ہے ، اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ سائنسی نظریات سے مسلح قیادت کی عدم موجودگی کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس تحریک کی قیادت پکے پکائے پھل کی طرح کسی کی بھی جھولی میں گر سکتی تھی۔ یہ مکمل طور پر یکطرفہ اور اتفاقی امر نہیں ہے۔ نہ ہی قیادت کے خلا میں کسی کی بھی لاٹری نکل سکتی ہے۔ حقیقت میں جتنے اشتعال ، نفرت ، انتقام اور سرشاری سے اس تحریک کا سماجی مواد لبریز ہے ، اس سے بڑھ کر ان خصوصیات کی حامل شخصیت یا افراد ہی اس تحریک کی قیادت کے اہل ہو سکتے تھے۔ اس لیے منظور پشتین اور اس کے ساتھیوں نے بے پناہ عزم ، جرات ، استقامت اور ثابت قدمی کے بلبوتے پر اس تحریک کی قیادت حاصل کی ہے ۔اس قیادت کو ’پرانی قوم پرست قیادت کی بچی کھچی ریڈیکل پرتیں ‘ قرار دینا نہ صرف اس قیادت بلکہ تحریک کے کردار کے ساتھ بڑی نا انصافی ہو گی۔اس کے بالکل الٹ پرانی روایات کے پیلے آسمان کا پردہ چاک کر کے ہی ان لوگوں نے اس تحریک کے ابھار کو یقینی بنایا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی یہ تازہ دم سیاسی قیادت کا ابھار ہے جس کو ان گنت چیلنجز کا سامنا ہے اورجس نے بے پناہ اہداف اور منازل طے کرنی ہیں۔
یہ خطہ گزشتہ کئی دہائیوں سے علاقائی اور عالمی سامراجی قوتوں کی پراکسی جنگوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ چین کی 60 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے منصوبے سی پیک نے صورتحال کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ جہاں ایک طرف چین کے روایتی حریف یعنی انڈیا اور امریکہ چین کے اہداف کے راستے میں روڑے اٹکانے کے لیے یہاں پر جاری مظلوم قوموں کی تحریکوں کو استعمال کرنے کی پالیسی پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں وہیں پاکستانی ریاست کے حاوی دھڑے چینی سامراج کی ایما پر ان تحریکوں کی قیادتوں کو کچھ دے دلا کر یا وحشیانہ تشدد کے ذریعے ڈرا دھمکا کر اس منصوبے پر کسی بھی قیمت پر عملدرآمد کروانے پر بضد ہیں۔ حال ہی میں ایسی رپورٹس بھی منظرِ عام پر آ رہی ہیں کہ مغربی سامراج کی گود میں بیٹھے بہت سے بلوچ علیحدگی پسند پاکستانی ریاست سے چینی ثالثی میں ’بات چیت ‘ کرنے پر آمادہ ہو رہے ہیں۔ یہ اصل میں پہلے ہی بلوچ عوام سے مکمل طور پر کٹی ہوئی نام نہاد قیادتیں ہیں۔ ایسی پیچیدہ صورتحال میں ابھرنے والی اس پشتون بہار کی قیادت کو بھی مختلف اطراف کے متغیر اور مسلسل دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستانی ریاست پہلے دن سے ہی اس تحریک کی قیادت پر ’را‘ سے رابطوں کے الزامات عائد کر رہی ہے ۔ چند روز قبل حالیہ مہینوں میں عمران خان سے مبینہ اختلافات کے بعد سیاسی طور پر الگ ہو کر نام کمانے والی گلالئی سے پریس کانفرنس کروائی گئی جس میں محترمہ کا کہنا تھا کہ اس کے پاس منظور پشتین اور ’را‘ کی اعلیٰ قیادت کی ملاقاتوں کے ثبوت ہیں لیکن نہ صرف اس پریس کانفرنس میں وہ ثبوت پیش نہیں کیے گئے بلکہ اس کے بعد بھی وہ ثبوت منظرِ عام پر نہیں لائے گئے۔آئے روز اسٹیبلشمنٹ کی بوکھلاہٹ بڑھتی جائے گی اور وہ تحریک کی قیادت کو بدنام کرنے کے لیے ہر گھٹیا حربہ استعمال کرے گی۔
انہی وجوہات کی بنا پر تحریک کی قیادت کے لیے لازم ہے کہ کھل کر دنیا بھر میں جاری مظالم کی پرزور مذمت کی جائے۔ ہر ظالم کو للکارا جائے اور ہر مظلوم کی داد رسی کا اعلان کیا جائے۔تحریک کی صفوں میں شامل بے صبرے ’عملیت پسند ‘ بھی دوسری طرف قیادت پر دباؤ بڑھائیں گے کہ ’ہم پر الزام تو ویسے بھی ہے ، ایسے بھی سہی ‘ یا پھر یہ گھسی پٹی دلیل دہرائی جائے گی کہ ’دشمن کا دشمن تو دوست ہی ہوتا ہے ‘۔ اسی دلیل نے بلوچ قومی تحریک کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی ریاست نے فاٹا اورپشتون ، بلوچ بیلٹ میں بربریت اور وحشیانہ اقدامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر امریکی اور بھارتی سامراج بھی مظلوم قوموں اور طبقات پر جبر اور قتلِ عام کرنے کی ایک پوری بہیمانہ تاریخ رکھتے ہیں۔پشتون تحریک کی قیادت کو دنیا بھر کی مظلوم قوموں اور طبقات کی جدوجہد کی حمایت کرنی ہوگی اور کسی دوسری مظلوم قوم پر ظلم کرنے والے سامراج کے خلاف اسی نفرت اور حقارت کا مظاہرہ کرنا ہو گا جس کی پاکستانی ریاست مستحق ہے اور بھگت بھی رہی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ان سامراجی قوتوں نے چھوٹی مظلوم قومیتوں کی تحریکوں کو دیگر سامراجی طاقتوں سے لڑائی میں توازن کو اپنے پلڑے میں کرنے کے لیے استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح مسل کر پھینک دیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال شام میں کردمزاحمتی تحریک پر امریکی ’کرم فرمائی ‘ کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ خطے کی دیگر علاقائی قوتوں کی پراکسیوں کے خلاف کردوں کو استعمال کرنے کے بعد انہیں قربانی کے جانوروں کی طرح ذبح کرنے اور ان کا گوشت نوچنے کے لیے انہیں وحشی بوڑھے اژدہے اردگان کے آگے بے یارو مددگار پھینک دیا گیا ہے اور ایران اور روس سمیت باقی تمام سامراجی گدھ خاموش تماشائی بنے اپنی باری کے منتظر ہیں۔
پشتون تحریک کے سماجی مواد کا جائزہ لیا جائے تو اس میں زیادہ ترقبائلی افراد، قوم پرست جماعتوں کے سیاسی کارکنان، طلبہ، کسان ، درمیانہ طبقہ اور پسماندہ علاقوں کی دیگر سماجی پرتیں ہی شامل ہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو ان کی اکثریت اسی سماجی مواد پر مشتمل ہے جس پر ریاست گزشتہ عرصے میں تکیہ یا انحصار کرتی رہی ہے۔اس لیے اس تحریک نے ریاست کے وجود کے لیے سنجیدہ چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ مگر یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ پشتون محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں اور خطے کی دیگر مظلوم قوموں اورمحنت کشوں کی حمایت جیتے بغیر یہ تحریک نہ صرف یہ کہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے گی بلکہ سیاسی بے راہروی کا شکار بھی ہو سکتی ہے۔ قبائلی سماج بہرحال مختلف قدامت پسند روایات ، عقائد اور نظریات کا ملغوبہ ہے جس میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے چند انقلابی خصوصیات کو بھی جنم دے دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ عین ممکن ہے کہ آپ اس فقید المثال تحریک کے کسی انتہائی سرگرم کارکن سے یہ سوال کریں کہ ’کیا مشال خان کو قتل کرنا جائز تھا؟‘ اور جواب آئے کہ ’ہاں ، اگر میں ہوتا تو میں بھی ایسے ہی کرتا‘۔لیکن جوں جوں تحریک آگے بڑھتی جائے گی اس کے شرکا دنوں میں سالوں اور مہینوں میں صدیوں کا شعوری سفر طے کرتے جائیں گے اور رجعتی نظریات اور روایات الگ ہوتے جائیں گے ۔اس قسم کے سماجی مواد میں مہم جوئی کا رجحان ہمیشہ غالب ہوتا ہے۔ تحریک لا امتناعی طور پر ایک ہی شدت اور حدت سے آگے نہیں بڑھتی رہے گی بلکہ اس میں نشیب و فراز آنا ناگزیر ہے۔تحریک کی ہلکی سی بھی پسپائی سے یہ مہم جوئی منظرِ عام پر آ کر مسلح جدوجہد کی طرف بڑھنے کی ضرورت کے اسرار کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ تحریک کے کسی بھی مرحلے پر اس قسم کے رجحانات کے خلاف قیادت کو غیر متزلزل لڑائی لڑنے کی ضرورت پڑے گی۔ ریاست خود بھی چاہے گی کہ تحریک کو یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ غدار کا لیبل لگا کر تحریک کو دیگر قومی تحریکوں سے کاٹ کر خون میں نہلایا جا سکے۔
ریاست کے ممکنہ اقدام(options)
کسی بھی لڑائی کو جیتنے کے لیے جہاں اس لڑائی کے داؤ پیچ پر عبور کی ضرورت ہوتی ہے وہیں دشمن کی ممکنہ چالوں کو قبل از وقت بھانپ لینا بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے تاکہ یہ سمجھا جائے کہ کونسا داؤ کب کارگر ہو سکتا ہے۔تحریک کے حالیہ مرحلے پر ریاست کے لیے تحریک پر براہِ راست حملہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔اگرچہ اس تحریک کے دوران چندسرگرم کارکنان کے قتل اور گرفتاریوں وغیرہ کی رپورٹس سننے میں آئی ہیں مگر ساتھ ہی بہت سے مسنگ پرسنز کی واپسی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ لانگ مارچ کے دوران تحریک کی قیادت پر بغاوت اور دیگر سنگین جرائم کی ایف آئی آرز بھی درج کی گئیں مگر پھر بلوچستان ہائی کورٹ نے ان ایف آئی آرز کو غیر آئینی قرار دے کر خارج کر دیا۔ اصل میں اس طرح کے اقدامات خوف کی بجائے مزاح کا باعث بن رہے تھے۔ ریاست کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اس تحریک نے سب سے پہلے جس چیز کو فتح کیا ہے وہ موت کا خوف ہے ، اس لیے اس تحریک کو کم از کم خوفزدہ کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ اپنے پالتو وحشی بنیاد پرستوں کے ذریعے دھماکہ وغیرہ کروانا بھی اب شاید ممکن نہیں کیونکہ اس کے بعد جو لاوا پھٹے گا اس میں ریاست خود بھی موم کی طرح پگھل سکتی ہے۔
عام طور پر اس طرح کی صورتحال میں ریاستی پالیسی سازوں کے اندر پھوٹ دیکھنے میں آتی ہے۔ کچھ ہٹ دھرم ماضی کی طرح جبر کو ہی جاری رکھنے پر زور دیتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں کسی بھی قسم کی رعایت ابھی تک خاموش تماشائیوں اور حمایتیوں کو بھی میدانِ عمل میں دھکیل سکتی ہے۔ ریاست کے زیادہ شاطر اور لچکدار دماغ مذاکرات اور سیاسی حل کی بات کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جبر سے صورتحال کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔ اس وقت بھی کئی انتہائی زرق برق اور آسائش و آرائش سے آراستہ ڈرائنگ روموں میں آرام دہ کرسیوں پر براجمان انتہائی معزز خواتین و حضرات اس انتہائی تکلیف دہ مباحثے میں سر کھپا رہے ہوں گے۔ حقیقت میں دونوں رجحانات ہی اپنی اپنی جگہ سہی ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ریاست کے پاس کسی بھی قسم کی رعایت یا اصلاح کی گنجائش نہیں ہے جس کی بنیادی وجہ عالمی معاشی بحران ہے ۔جواباً یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اس تحریک کے حاوی مطالبات تو معاشی نوعیت کے نہیں ہیں جیسا کہ ’راؤ انوار کی پھانسی ، چیک پوسٹوں کا خاتمہ ، سکیورٹی فورسز کا انخلا وغیرہ ‘ تو ان پر عملدرآمد کا معاشی بحران سے کیا تعلق؟ مطالبات چاہے کچھ بھی ہوں ، لیکن تحریک کی اتنی وسیع سماجی حمایت کی بنیادی وجہ غربت ، دربدری ، بے روزگاری اور مہنگائی ہی ہیں۔ اس لیے جلد یا بدیر تحریک کو ان مطالبات کی طرف آنا ہی ہو گا۔ دوسری طرف ریاست اگر ایک راؤ انوار کو پھانسی دیتی ہے تو اس ریاست کو چلانے کے لیے تو ایک نہیں ہزاروں راؤ انواروں کی ضرورت پڑتی ہے تو باقی ماندہ راؤ انواروں کو اس راؤ انوار کی پھانسی سے جو پیغام جائے گا وہ یہ ریاست افورڈ نہیں کر سکتی۔ اس لیے اصلاحات یا رعایتیں اگرچہ ناممکن ہیں مگر ریاست کے پاس رعایتوں کی پیشکش کے جھانسے کے علاوہ کوئی اور حل بھی نہیں ہے۔ اس لیے جلد یا بدیر وزیرِ اعظم ، صدرِ مملکت ، وزیرِ اعلیٰ یا چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے ’دوستی کا ہاتھ ‘ بڑھنا ناگزیر ہے۔ لیکن قیادت ان میں سے کسی پر بھی اعتماد کرتی ہے تو تحریک سے کٹ سکتی ہے ۔ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہی ریاستیں عام طور پر خود ایسی مسیحا نما شخصیات کو پروان چڑھاتی ہیں جن پر انتہائی مشتعل عوام بھی اعتماد کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ بدقسمتی سے اس وقت پاکستانی ریاست کے پاس ایسی شخصیات کی بھی کمی ہے ۔ عبد الستار ایدھی شاید قبل از وقت رحلت فرما گئے۔
ملالہ یوسفزئی کی اچانک پاکستان آمد بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔کہا یہ جا رہا ہے کہ ’ناکام ریاست ‘ کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے یہ دورہ کروایا گیا ہے تاکہ مغرب اور بالخصوص امریکہ کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ پاکستانی ریاست امریکہ کے ’اشارے ‘ پر اپنا قبلہ درست کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اگر یہ ایک پہلے سے طے شدہ دورہ ہوتا تو مقامی لبرلز اور روشن خیال حلقوں ، این جی اوز وغیرہ نے پہلے سے ہی آسمان سر پر اٹھایا ہوتا۔بہرحال منظور پشتین نے ملالہ کو اپنے ملک واپس آنے پر خوش آمدید کہا ہے۔ ہم مارکس وادی بھی اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ ملالہ کے آتے ہی ریاست کے رجعتی دھڑے کی طرف سے ملالہ کے خلاف غلیظ پروپیگنڈے کا آغاز ہو گیا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ بہر حال اس وقت ہم ملالہ کے سیاسی کردار پر زیادہ بحث نہیں کر سکتے مگر اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت خاص طور پر پشتون سماج کی رگوں میں جاری بغاوت سے عوام کی توجہ اتنی آسانی سے ملالہ کے کردار اور آمد پر بحث مباحثے کے ذریعے مبذول نہیں کروائی جا سکتی۔ ملالہ یوسفزئی نے پشتون تحفظ تحریک کے تمام مطالبات کو جائز قرار دیا ہے اور حکامِ بالا سے اس مد میں بات کرنے کے ارادے کا اظہار بھی کیا ہے۔ملالہ کا حالیہ دورہِ پاکستان اگرچہ مختصر مدت کے لیے ہے مگر مستقبل میں پشتون بہار کے طوالت اختیار کرجانے کی صورت میں اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ملالہ یوسفزئی کو بھی اس تحریک کی قیادت کے ساتھ بات چیت کے عمل میں استعمال کرنے کی کوشش کی جائے۔کسی بھی با اثر ثالث کی ’ضمانت‘ پر تحریک ختم کرنے کے سوال پر تحریک میں پھوٹ ڈلوا کر اسے کمزور کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یا پھر سکیورٹی کے سخت اقدامات کا جواز بنا کر سیاسی اجتماعات پر پابندی لگائی جا سکتی ہے جو بعد ازاں صوبے میں ایمرجنسی کے نفاذ کی تمہید بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ اس طرح کے تمام اقدامات کے نتائج توقع کے عین مطابق ہی نکلیں۔
ریاست کے پاس ایک روایتی حربہ اس طرح کی تحریکوں کو پارلیمانی سیاست کے سراب سے گمراہ کرنے کا بھی ہوتا ہے۔ آئندہ چند ماہ میں پاکستان میں انتخابات ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔ منظور پشتین نے ابھی تک تو پارلیمانی سیاست سے کنارہ کش رہنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ قیادت کو آنے والے دنوں میں یہ پیشکش کی جا سکتی ہے کہ بجائے اس کے کہ سکیورٹی فورسز اور چیک پوسٹوں کو متنازعہ علاقوں سے ہٹایا جائے، اس سے سکیورٹی رسک بڑھ جائے گا بلکہ آپ صوبے اور قبائلی علاقہ جات کی سیاسی باگ ڈور سنبھال لیں ، پھر آپ خود ان امور کی نگرانی کریں تاکہ عوامی تحفظات کو دور کیا جا سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ دھوکہ جس جس نے بھی کھایا ، وہ نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ لیکن پارلیمانی سیاست کا سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ ہم انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے ، کافی نہیں ہے ۔اس صورت میں ملاں یا روایتی اصلاح پسند یا قوم پرست پھر اقتدار میں آ جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ ان کا راستہ روکنے کے لیے خود تحریک کی صفوں کے اندر سے قیادت پر پارلیمانی سیاست میں جانے کے لیے دباؤ شدت اختیار کر جائے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت جو لوگ لاکھوں کی تعداد میں تحریک کے سیاسی اجتماعات کا حصہ بن رہے ہیں وہ اے این پی یا دیگر سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو ووٹ کیسے ڈال سکتے ہیں؟ اس لیے انتخابات میں حصہ لینے کے حق میں بھی مؤثر دلائل سامنے آئیں گے۔ اس لیے پارلیمانی سیاست کا سوال تحریک کے عمومی پھیلاؤ اور منظم ہونے کے ساتھ منسلک ہے۔ تحریک کو بہرحال اپنے سیاسی ڈھانچے بنانے اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ پارلیمانی سیاست میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ اسی وقت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے جب تحریک کو ملک کے طول و عرض تک پھیلانے کا پروگرام دیتے ہوئے منظم اور مؤثر سیاسی بائیکاٹ کی مہم کا اعلان کیا جائے۔ بصورتِ دیگر اس کے بالکل الٹ نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔
نظریات کی اہمیت
بائیں بازو کے تمام سیاسی کارکنوں کے لیے اس تحریک کی حدود قیود کو سمجھنا بھی بے حد ضروری ہے۔ابھی تک تحریک کی کوئی واضح نظریاتی بنیادیں یا سیاسی سمت نہیں ہے۔ تحریک کی قیادت کی طرف سے جاری کیے گئے حالیہ پمفلٹ میں ’آئینی حدود ‘ میں رہ کر جدوجہد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔تحریک کی صفوں میں تنگ نظر قوم پرست بھی شامل ہیں اور بائیں بازو کے اصلاح پسند بھی۔ در حقیقت تحریک کی قیادت کا اپنا کردار بھی ریڈیکل اصلاح پسندی کی طرز کا ہے۔ ان نظریات کی اپنی حدود ہیں۔ آگے چل کراس تحریک کو واضح نظریاتی سمت درکار ہو گی ورنہ قیادت کنفیوژن کا شکار ہو کر موقع پرستی یا انتہا پسندی کا شکار ہو سکتی ہے۔ ریاست کے کردار کو سمجھنے کے لیے سوشلزم اور مارکسزم سے بہتر سائنسی نظریات ہو ہی نہیں سکتے۔ قیادت کو دیکھنا ہو گا کہ یہ ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے جس کا حکمران طبقہ عالمی اجارہ داریوں کی گماشتگی کرنے پر مجبور ہو ۔ ریاست کی طبقاتی بنیادوں کو تبدیل کیے بغیر کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکتا۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سوشلسٹ نظریات (اگرچہ صرف نعروں کی حد تک )کی بنیاد پر ہی سماجی حمایت حاصل کی تھی۔ اسی طرح ڈیورنڈ لائن کے پار افغانستان میں ثور انقلاب برپا کرنے والی قیادت بھی مارکسی نظریات سے ہی وابستہ تھی۔ اس تحریک نے بھی لگ بھگ چالیس سال بعد پھر ڈیورنڈ لائن کے آر پار بیک وقت سیاسی ابال کو جنم دیا ہے۔ چند روز قبل افغانستان کے شہر ہلمند میں خواتین کی بڑی تعداد نے اس پشتون بہار کی حمایت میں احتجاج کیا۔ یاد رہے کہ یہ شہر طالبان اور منشیات کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل کابل میں بھی اس تحریک کی حمایت کا اظہار ہو چکا ہے۔ اس تحریک کی قیادت کو بھی اس شاندار ماضی سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تنگ نظر قوم پرستی آج کے عہد میں سیاسی طور پر ایک بند گلی کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ ہم حال ہی میں اسپین کے صوبے کیٹالونیا کی شاندار تحریک میں قوم پرستی کی محدودیت کا واضح اظہار دیکھ چکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ قیادت کو یہ احساس ہو گا کہ اسے پاکستان کے چپے چپے سے حمایت جیتنے پڑے گی۔اہم ترین بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے ہر صوبے میں ریاست کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ریاست کے تمام ادارے آپسی لڑائیوں کی زد میں آنے کے باعث عوام کے سامنے ننگے ہوتے جا رہے ہیں۔
خاص طور پر پنجاب کے عوام میں بھی نام نہاد ’پاکستانیت ‘ کی شدت آئے روز کم ہوتی جا رہی ہے۔ پنجاب کا درمیانہ طبقہ بھی اب یہ سوچنے پر مجبور ہو رہا ہے کہ تمام دیگر صوبوں کی عوام میں ان کے خلاف شدید نفرت پیدا کرنے کی ذمہ دار پنجاب کے حکمران طبقات اور یہ فوجی اشرافیہ ہی ہے۔ روزگار کی تلاش میں ملک کے کسی بھی صوبے میں جانے والے پنجابی محنت کش بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ ہی سمجھتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پنجاب میں بلوچستان یا پشتونخواہ کی طرح چیک پوسٹیں یا براہِ راست فوجی جبر موجود نہیں ہے مگر غربت ، بیروزگاری، مہنگائی کا ناگ روز عوام کو ڈستا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں حالات بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ڈاکٹروں ، نرسوں ، پیرامیڈکس، صنعتی مزدوروں ، کسانوں ، سرکاری ملازمین ، طلبہ اور محکوم قوموں کی تحریکیں علیحدہ علیحدہ چل رہی ہیں جن کو یکجا کرنے کے لیے سائنسی سوشلزم سے بہتر آج کے عہد میں کوئی دوسرا نظریہ موجود نہیں ہے۔ جہاں پشتون بہار کو ان سائنسی نظریات کی ضرورت ہے وہیں پاکستان کے مارکس وادیوں پر بھی انتہائی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان کا کام محض کسی بھی تحریک کی سرگرم پرتوں کو نصیحتیں کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ان تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہر مارکس وادی کا اولین فریضہ ہے۔ محض ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سچے اور شفاف نظریات کا پرچار بے معنی اور بے نتیجہ ثابت ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے ہر کونے تک اس تحریک کا پیغام پہنچایا جائے اور اس تحریک کی حمایت میں خاص طور پر محنت کش طبقات کو تیار کیا جائے۔ صرف اسی ایک طریقے سے ہی اس تحریک کو قوم پرستی کی دلدل میں غرق ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
پروگرام و مطالبات
موجودہ مطالبات کے ساتھ تحریک کا ملکی سطح تک پھیلاؤ نا ممکن ہے۔ بلکہ ان مطالبات کے ساتھ تحریک کی موجودہ حمایت کو برقرار رکھنا بھی دشوار دکھائی دیتا ہے۔یاد رہے کہ یہ نعرہ کہ ’یہ جو دہشت گردی ہے ، اس کے پیچھے وردی ہے ‘ بھی صرف ایک حد تک ہی مؤثر ہے۔ کیونکہ یہ ریاست اور سماج کی طبقاتی ساخت اور شناخت کو واضح کرنے کی بجائے مبہم بنا دیتا ہے۔پاک افواج کے عام سپاہی بھی کسانوں یا نچلے طبقے کی اولاد ہی ہیں۔ اور 22 فیصد کے قریب غریب پختون بھی محض زندہ رہنے کے لیے انہی افواج میں ملازمت کرنے پر مجبور ہیں جن کے خلاف یہ پشتون مزاحمت ابھر کر سامنے آئی ہے۔یہ غریب پشتون اور دیگر عام سپاہی اس پشتون بہار کا حدف نہیں ہیں۔ فوجی اشرافیہ کے خلاف فوج کی نچلی پرتوں میں شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ماضی میں اپنے ہی ملک کی عوام کے خلاف کیے جانے والے آپریشنوں میں بہت سے سپاہی گولی چلانے یا دیگر احکامات بجا لانے سے انکار کرنے کے جرم کی پاداش میں پابندِ سلاسل رہ چکے ہیں۔ فوج کے ادارے کی لوٹ مار سے محض فوجی اشرافیہ ہی بہرہ ور ہوتی ہے جو سماجی تناسب کی طرح ہی دو سے پانچ فیصد کے برابر ہی ہے۔ ایسے میں ان نعروں سے آگے جا کر دوست اور دشمن کی واضح شناخت کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے ۔ تحریک کی قیادت کے پاس لامحدود وقت اور مواقع نہیں ہیں۔ اس لیے جلد سے جلد قیادت کو حالیہ مطالبات کے ساتھ ساتھ سیاسی و معاشی پروگرام پیش کرنا ہو گا۔ مندجہ ذیل مطالبات اس حوالے سے انتہائی اور فوری اہمیت کے حامل ہیں۔
1۔ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول گزشتہ چند سالوں میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر بٹورے گئے 33 ارب ڈالر اور دیگر رقوم کی پائی پائی کا حساب دیا جائے۔
2۔یہ لوٹی گئی تمام رقم فوجی جرنیلوں ، سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں سے وصول کرکے جنگ سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے منصوبوں ، مسمار شدہ گھروں کے اہلِ خانہ کے لیے جدید رہائشی کالونیوں اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر خرچ کی جائے۔
3۔دفاعی بجٹ کو کم سے کم کیا جائے اور اس سے بچنے والی خطیر رقم کے ذریعے عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری منصوبے تشکیل دیئے جائیں۔
4۔تمام بینکوں ، صنعتوں ، جاگیروں ،نجی تعلیمی اداروں اور نجی ہسپتالوں کو قومی تحویل میں لے کر ہر سطح پر تعلیم اور علاج مفت فراہم کی جائے۔
5۔بلوچستان ، سندھ ، گلگت اور دیگر علاقوں کے وسائل کی لوٹ مار بند کی جائے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اجارہ داریوں کے تمام ٹھیکے فوری طور پر منسوخ کیے جائیں۔
6۔زرعی اصلاحات کے ذریعے زمینیں بے زمین ہاریوں اور کسانوں میں تقسیم کی جائیں۔
7۔بنیاد پرستوں ، مذہبی جنونیوں اور فرقہ پروروں کی ریاستی پشت پناہی ختم کی جائے اور اقلیتوں کو سماجی تحفظ فراہم کیا جائے۔
اس طرح کے عبوری مطالبات کے ذریعے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ دنیا بھر کے محنت کش عوام کی حمایت اور دل جیتے جا سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریکوں کا نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ نسلِ انسانی کو سوشلزم یا بربریت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔