|تحریر: آدم پال|
نقیب اللہ محسود کے قتل کیخلاف ابھرنے والی تحریک تھمنے کی بجائے تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کراچی میں راؤ انوار جیسے خونی درندے کے ہاتھوں اس بہیمانہ قتل کے بعد ابھرنے والی یہ تحریک پشتونخوا اور بلوچستان کے وسیع حصوں تک پھیل گئی تھی۔ اسلام آباد میں کئی روز تک جاری رہنے والے دھرنے میں ہزاروں افراد نے ملک کے تمام حصوں سے شرکت کی اور پولیس سمیت ریاست کے تمام سکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کیخلاف اپنی شدید نفرت کا اظہار کیا۔ اسی تحریک کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان میں نام نہاد امن کمیٹی کے دفاتر پر بھی عوام نے دھاوا بول دیا اور وہاں موجود سامان کو نذر آتش کر دیا۔ اسی دوران لنڈی کوتل جیسے انتہائی پسماندہ اور دور افتادہ علاقے میں بھی سینکڑوں لوگ سکیورٹی اداروں کے مظالم کیخلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اس کے چند روز بعد باجوڑ ایجنسی جیسے پسماندہ علاقے کے لوگ کراچی یونیورسٹی میں ایک نوجوان کے قتل کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور ہزاروں افراد نے اس احتجاج میں حصہ لیا۔ اس احتجاج میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل تھی جو سکیورٹی اداروں کی غنڈہ گردی کی شدید مذمت کر رہی تھی۔
اسی دوران سوات میں فوجی چوکیوں اور ناکوں پر عوام کی تذلیل اور اہلکاروں کی غنڈہ گردی کیخلاف ایک احتجاج ہوا۔ اس احتجاج کی بنیاد ایک چھوٹی بچی کی ہلاکت بنی جو بیماری کے باعث چیک پوسٹ پر تلاشی کی اذیت برداشت نہ کر سکی اور موقع پر ہی دم توڑ گئی۔ اس ہلاکت کیخلاف نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر احتجاج کی کال دی تو چند سو افراد اس احتجاج میں شریک ہوئے۔ اس احتجاج میں کسی بھی شخص کا شریک ہونا موت کو دعوت دینا تھا۔ کیونکہ اس سارے علاقے کو طالبان سے خالی کرانے کے بہانے فوج نے ایک چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ کسی بھی شخص کی کسی بھی جگہ تلاشی لی جا سکتی ہے اور اس دوران اس کی تذلیل اور تضحیک کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا جاتا۔ مزاحمت کرنے والوں کو اٹھا کر نامعلوم مقامات پر بند کر دیا جاتا ہے اور اس کی کوئی رپورٹ کہیں بھی درج نہیں کی جاتی۔ ان افراد کو طالبان یا دہشت گردی کا لیبل لگا کر کوئی بھی سزا دی جا سکتی ہے اور بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے جس کیخلاف کہیں بھی آواز بلند نہیں کی جا سکتی۔ چیک پوسٹوں پر عام افراد کو کان پکڑا کر مرغا بنا کر بھی سر عام تذلیل کی جاتی ہے اور ملک کی افواج کا نام بلند کیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں فوج کے جبر کیخلاف احتجاج کی کال دینا اور پھر اس احتجاج میں شرکت کرنے کے لیے غیر معمولی جرات اور دلیری کی ضرورت تھی۔ لیکن عام لوگوں کی ان چیک پوسٹوں اور فوجی جبر کیخلاف نفرت اور غصہ اتنا زیادہ تھا کہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر بڑی تعداد میں لوگوں نے اس احتجاج میں شرکت کی۔ اس احتجاج کی تصاویر سوشل میڈیا پر تیزی سے گردش کرنے لگیں جس کے بعد روایتی بکاؤ میڈیا نے بھی ان خبروں کو شائع کرنا شروع کر دیا۔ اس احتجاج کی پاداش میں احتجاج کرنے والے چند افراد کو اٹھا کر نا معلوم مقام پر بھی منتقل کیا گیا جبکہ ایک ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی جس میں حسب معمول دہشت گردی کی دفعات شامل کر لی گئیں۔ اس ریاست کا ہر جگہ معمول بن چکا ہے کہ اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے والوں پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کر دیئے جاتے ہیں جبکہ خود کش حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی کھلے عام پشت پناہی کی جاتی ہے۔ لیکن سوات میں اس انتقامی کاروائی کیخلاف شدید عوامی رد عمل دیکھنے میں آیا اور پہلے سے بڑے احتجاج کی کال دی گئی۔ اور اب کی بار خواتین کی بھی خاطر خواہ تعداد کی ان احتجاجوں میں شمولیت عوامی شعور میں معیاری تبدیلیوں کی غمازی کر رہی تھی۔ یہ ریاست اور اس کے کارندے اتنے بزدل اور خوفزدہ ہیں کہ اس عوامی رد عمل کے نتیجے میں ایف آئی آر کو واپس لیا جا رہا ہے اور چیک پوسٹوں کو مقامی پولیس کے حوالے کرنے کی خبر گردش کر رہی ہے۔ اگر یہ عوامی رد عمل نہ آتا تو ان ریاستی اہلکاروں نے سینہ چوڑا کر کے انہی احتجاج کرنے والوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنانا تھا اور انہیں بوٹوں تلے روندنا تھا۔
یہ تمام صورتحال عوام پر ایک طویل جبر اور مظالم کیخلاف ابھرنے والی تحریک کا آغاز ہے۔ پورے ملک میں عموماً اور پشتون علاقوں پر خصوصی طور پر ایک لمبے عرصے سے ریاستی جبر جاری ہے جس میں پورے علاقے کو فوجی چھاؤنی بنا دیا گیا ہے۔ ہر چند کلومیٹر کے بعد ایک چیک پوسٹ ہے جہاں عام راہگیروں کی بڑی تعداد کی تذلیل کی جاتی ہے اور جامہ تلاشی کے نام پر ہر قسم کا جبر کیا جاتا ہے۔ کئی کئی گھنٹے لائنوں میں لگا کر محنت کشوں کا قیمتی وقت برباد کیا جاتا ہے اور معمولی سی بھی کوتاہی پر غلیظ گالیاں اور تشدد کیا جاتا ہے۔ شناختی کارڈ سمیت دیگر دستاویزات کی پڑتال ایسے انداز میں کی جاتی ہے جیسے کسی مقبوضہ علاقے میں سامراجی فوجیں کرتی ہیں۔ اس تمام جبر کی بنیاد دہشت گردی کے واقعات کو بنایا جاتا ہے۔ لیکن ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جب شدید ترین تلاشیوں اور سخت چیک پوسٹوں کے باوجود دہشت گرد آسانی سے اپنی کاروائی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پشاور سے لے کر کوئٹہ تک سینکڑوں ایسے مقامات ہیں جہاں ان سخت ترین چیک پوسٹوں کے عقب میں دہشت گردی کے حملے ہوئے ہیں۔ اس سے عام لوگوں پر واضح ہو چکا ہے کہ یہ دہشت گردی کے حملے ریاستی ادارے خود کرواتے ہیں جبکہ چیک پوسٹوں کا مقصد عوام میں خوف و ہراس اور دہشت کو مزید پھیلانا ہوتا ہے۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول کا واقعہ ہو یا کوئٹہ میں وکیلوں پر دہشت گرد حملہ کئی ایسے واقعات موجود ہیں جن کی انکوائری رپورٹوں میں ثابت ہو چکا ہے کہ ریاستی ادارے ان دہشت گردی کے واقعات کی پشت پناہی میں شامل تھے۔ یہ تمام تر جبر ایک لمبے عرصے سے جاری تھا اور پچھلے عرصے میں اس میں شدت آ گئی تھی۔
افغانستان میں پاکستان کی سامراجی پالیسی کی شکست کے باعث کھسیانی بلی نے کھمبا نوچنا شروع کر دیا تھا اور پاکستان میں رہنے والے افغانیوں کو اپنی انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ یہ افغانی ایک لمبے عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں اور اس خطے کے ساتھ ان کے تاریخی، سیاسی، ثقافتی اور خاندانی تعلقات موجود ہیں۔ پاکستانی ریاست نے بھی جہاں افغانستان میں سامراجی مقاصد کے لیے امریکی جنگ میں گماشتے کا کردار ادا کیا وہاں افغان مہاجرین کو پناہ دینے کے نام پراربوں ڈالر ہڑپ کیے۔ ان مہاجرین کو اپنے ملک سے دربدر کرنے کے بعد ان کا یہاں بد ترین استحصال کیا گیا اور ان سے انتہائی کم اجرت پر یہاں کے ٹھیکیداروں اور صنعتکاروں نے کام لیا اور اپنے منافعوں میں کئی گنا اضافہ کیا۔ انہی سرمایہ داروں نے افغانستان کو اپنی اشیا کی فروخت کے لیے منڈی کے طور پر بھی استعمال کیا۔ امریکی سامراج کے ساتھ مل کر انہی افغانیوں کو پہلے مذہبی دہشت گردی کی بھینٹ بھی چڑھایا گیا اور پھر دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ میں بھی اس ملک کو تاراج کیا گیا جس میں پاکستانی ریاست نے گماشتگی کی خاطر خواہ فیس وصول کی۔ اب امریکی سامراج سے اختلافات کے باعث انہی افغانیوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے شناختی کارڈ کینسل کرنے سے لے کر ان کی بلا جواز گرفتاریاں اور ملک بدری کی دھمکیاں جاری کی جا رہی ہیں۔ اس عمل میں مقامی پشتونوں پر بھی اپنی مرضی سے غدار اور دہشت گرد کا لیبل لگا کر انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان علاقوں میں رہنے والے محنت کش عوام پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ طالبان اور دیگر تمام دہشت گرد تنظیموں کا وجود سامراجی طاقتوں اور ریاستی پشت پناہی کے باعث ہے اور اگر یہ پشت پناہی موجود نہ ہو تو یہ تنظیمیں ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتیں۔ عام لوگ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ جیلوں سے سینکڑوں کی تعداد میں فرار ہونے کے بعد انہی چیک پوسٹوں سے یہ دہشت گرد بآسانی فرار ہو جاتے ہیں جہاں عوام کو کئی کئی گھنٹے تلاشی دینا پڑتی ہے۔ اسی طرح روز مرہ کی زندگی میں سکیورٹی اداروں اور ان دہشت گردوں کا دوستانہ میل جول واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ انہی قوتوں کیخلاف ایک نام نہاد آپریشن میں جب سوات اور وزیرستان کے مختلف علاقوں سے لاکھوں افراد کو ہجرت پر مجبور کیا گیا اس وقت بھی ریاست کیخلاف نفرت اور غم و غصہ عروج پر تھا۔
نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد ابھرنے والی تحریک میں یہ تمام غصہ اور نفرت شامل تھی جو ایک لمبے عرصے لوگوں کے دلوں میں پک رہی تھی۔ اس دوران مالی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کا غصہ بھی اس تحریک میں شامل تھا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
لیکن اس تحریک کا اہم ترین عنصر یہ ہے کہ اس کی قیادت کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس نہیں۔ پشتون قوم پرست پارٹیوں کی سماجی حمایت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے جس کی وجہ ان کی اپنے نعروں اور نظریات سے بدترین غداری ہے۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں عوامی نیشنل پارٹی اقتدار میں شامل رہی لیکن اس دوران محنت کشوں پر بد ترین معاشی حملے کیے اور بنیاد پرستوں سے غلیظ ترین معاہدے کیے گئے۔ اس کے علاوہ امریکی سامراج کی غلامی کا طوق زیادہ مضبوطی سے گلے میں ڈال لیا گیا جو ابھی تک موجود ہے۔ موجودہ حکومت میں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اقتدار میں شامل ہے اور بد ترین کرپشن اور لوٹ مار میں ملوث ہے۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیاں بھی ان تمام مسائل کے حل کا کوئی پروگرام نہیں دے سکیں بلکہ زرداری، جو خود ایک غلیظ غنڈہ اورجرائم پیشہ افراد کا سرغنہ ہے، اس نے راؤ انوار کو ٹی وی پر شاباش دی اور اس کے اقدامات کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس سے پیپلز پارٹی کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہو گیا اور ان خبروں کی تصدیق ہو گئی کہ راؤ انوار کی پشت پناہی کرنے والا درحقیقت زرداری اور اس کا شراکت دار ملک ریاض ہے۔ اس کے علاوہ فضل الرحمان سے لے کر جماعت اسلامی تک کی غلاظت کو اس تحریک پر مسلط کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ حکمرانوں کے ٹاؤٹ او ر مشہور ٹی وی اینکر حامد میر کی تقریر بھی کروائی گئی تاکہ کسی بھی طرح اس غم و غصے کو ٹھنڈا کیا جا سکے لیکن اس کے باوجود یہ بغاوت پھیلتی جا رہی ہے۔
اس سارے عمل میں قومی سوال پر ایک دفعہ پھر بحث کا آغاز ہو چکا ہے جو اس سماج میں موجود قومی محرومی اور پاکستان کی سامراجی ریاست کے مظلوم قومیتوں پر کیے جانے والے مظالم کا رد عمل ہے۔ جیسے جیسے ریاست کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ویسے ویسے قومی جبر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ ریاست زیادہ وحشیانہ انداز میں مظلوم قومیتوں کو جبر کا نشانہ بنا رہی ہے۔ بلوچوں پر ہونے والے مظالم اور بد ترین فوجی آپریشن ہو یا گلگت بلتستان میں قومی جبر اوراس کیخلاف ابھرنے والی تحریک پر بزدلانہ حملے ہر طرف ریاست کا ننگا جبر بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن اس تمام عمل میں قوم پرست پارٹیاں اور ایک لمبے عرصے سے موجود قوم پرست سیاست زوال پذیر ہو کر ختم ہوتی جا رہی ہے۔
یہ تمام تحریکیں ایک نئے عہد اور ایک نئی سیاست کا آغاز ہیں جس نے شروع سے ہی تمام پرانی قیادتوں اور پارٹیوں کو رد کر دیا ہے۔ ابھی تک کوئی نئی پارٹی یا قیادت واضح طور پر ابھر کر سامنے نہیں آئی لیکن آنے والے دنوں میں ہمیں ایسے رجحان ابھرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ تحریکیں اپنے اندر ایک وسیع عوامی تحریک کے بیج لیے ہوئے ہیں اور ان کی قیادت وہی کر سکتا ہے جو اس تحریک میں شامل ہونے والے افراد سے زیادہ جرات اور دلیری رکھتا ہو اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہیں درست نعرے اور پروگرام دے سکے۔ بزدل اور جمود کا شکار ذہن ان تحریکوں میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اس تحریک کو اگلے الیکشنوں میں کامیابی کی سیڑھی بنانے والے بھی منہ کی کھائیں گے اور عوام کی قیادت کرنے کی بجائے ان کے غیض و غضب کا شکار ہوں گے۔
اس کے علاوہ قومی بنیادوں پر ان مسائل کا کوئی بھی حل پیش نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی آج قوم پرستی کی بنیاد پر ان مسائل کو کوئی حل موجود ہے۔ اپنے آپ کوبائیں بازو کا کہنے والے دائیں بازو کے قوم پرست اور این جی اومالکان بھی اپنا کاروبار چمکانے یہاں پہنچ رہے ہیں لیکن جلد ہی ان کا نقاب بھی عوام کے سامنے اتر جائے گا اور حقیقی مکروہ چہرہ لوگوں کے سامنے آ جائے گا۔
آج ان تحریکوں میں ابھرنے والے سوالات کا جواب صرف مارکسزم کے بین الاقوامی نظریات کے تحت دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں جاری پشتونوں سمیت تمام مظلوم قومیتوں پر جبر کا خاتمہ کرنے کے لیے اس سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے تمام اداروں کو اکھاڑنا پڑے گا جو صرف محنت کش طبقے کے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت جہاں پشتونوں کی ایک تحریک کا آغاز ہو چکا ہے وہاں ملک بھر میں نجکاری کیخلاف اساتذہ، ینگ ڈاکٹر، پیرا میڈیکس، نرسیں اور دیگر شعبوں کے محنت کش بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ صنعتی اداروں کے بھی لاکھوں ملازمین اجرتوں کی ادائیگی اور دیگر مطالبات کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ آج ضرورت ایک ایسے پلیٹ فارم کی ہے جو ان تمام تحریکوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے ایک انقلابی جدوجہد کا آغاز کر سکے۔ اس جدوجہد کا مقصد الیکشن جیتنا نہیں بلکہ ریاست اور اس کے تمام ادارے جن میں کرپٹ عدلیہ، بیوروکریسی، پولیس اور تمام سکیورٹی ادارے شامل ہیں ان کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔ مسئلہ صرف ایک راؤ انوار کا نہیں بلکہ اس ملک کے ہر تھانے میں ایک راؤ انوار بیٹھا ہے جو دن رات بے گناہوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ ہر تھانے کی چار دیواری بے گناہوں کے خون سے لتھڑی ہوئی ہے اور ان کی چیخ و پکار وہاں کے در و دیوار میں محفوظ ہے۔ تھانوں اور پولیس کے انہی مظالم کو عدالتیں، پارلیمنٹ اور جرنیل تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس پر قانون او ر آئین کا خونی غلاف چڑھایا جاتا ہے۔ انہی مظلوموں کی لاشوں پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے محل تعمیر ہوتے ہیں اور محنت کشو ں کا استحصال جاری رکھنے کے لیے انہیں طاقت ملتی ہے۔
اس تمام تر ظلم اور جبر کیخلاف خطے کے تمام محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیورنڈ لائن جیسی سامراجی لکیر کو تسلیم کرنے والے بھی حکمران طبقے کے دلال ہیں اور محنت کشوں کو ان تمام سامراجی لکیروں سے بلند ہو کر ایک طبقے کی بنیاد پر اکٹھا ہو کر اپنے حقوق کی جدوجہد کرنی ہے۔ اسی جدوجہد سے سرمایہ دارانہ نظام اور اس ظالم ریاست کا خاتمہ کر کے ایک سوشلسٹ سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے جس میں تمام قوموں کو مکمل آزادی حاصل ہوگی اور امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق کا خاتمہ کرتے ہوئے غربت، محرومی، بیروزگاری، بیماری اور ناخواندگی کا بھی مکمل خاتمہ کیا جا ئے گا۔ تمام بنیادی سہولیات عوام کو مفت فراہم کی جائیں گی اور کسی شخص اور ادارے کا دوسرے پر جبر اور استحصال ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – پشتون تحفظ تحریک کے کارکنان کی گرفتاریوں اور مقدمات کیخلاف ملک گیر احتجاجی مظاہرے
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – پشتون تحفظ تحریک: مستقبل کے امکانات اور روایتی قیادت کا بحران!