|خصوصی رپورٹ: ورکرنامہ|
ملک بھر میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد فوج اور حکومت نے دہشت گردی کے سدباب کے لئے ’’ردالفساد‘‘ کے نام سے ایک نیا فوجی آپریشن شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ضربِ عضب سمیت بہت سے فوجی آپریشن کئے گئے اور ہر آپریشن کے دوران ’دہشت گردوں کی کمر توڑنے‘ کے بلند و بانگ دعوے سننے کو ملے۔ لیکن ہر کچھ عرصے بعد بم دھماکوں کا ایک نیا سلسلہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ریاستی اداروں کی نیت اور صلاحیت پر ایک سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ اسی طرح آپریشن ردالفساد شروع کرنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب بری طرح ناکام ہوا اور اس کی کامیابی کے متعلق کئے گئے تمام سرکاری دعوے جھوٹے تھے۔ ہر آپریشن کے دوران فوج اور دیگر ریاستی اداروں کو دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر عام لوگوں پر ہر طرح کا جبر اور زیادتی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ سڑکوں پر ناکوں اور چیک پوسٹوں کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کے نام پر نیم فوجی دستوں کو تعینات کرکے چھاؤنیوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ غریبوں کی بستیوں میں دن رات سرچ آپریشنز کے نام پر عوام کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ایجنسیوں کو کسی بھی شخص کو غائب کرنے کے لئے مکمل اختیارات مل جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کو دہشت گردوں کے خاتمے کی بجائے عوام کی تذلیل، طلبہ اور مزدوروں کے سیاسی حقوق سلب کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف دہشت گرد اور ان کے حامی ان ریاستی اداروں کی ناک کے نیچے کھلے عام گھومتے ہیں۔
پنجاب کے علاوہ ملک کے قریباً تمام حصوں میں اس نوعیت کے نام نہاد آپریشن پچھلے کئی سالوں سے جاری ہیں لیکن آپریشن ردالفساد میں باقی علاقوں کے ساتھ ساتھ پنجاب پر بھی خصوصی ’توجہ‘ دی جائے گی۔ اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ اب لاہور، راولپنڈی، ملتان اور فیصل آباد جیسے شہروں کے طلبہ اور محنت کش بھی اُسی ریاستی غنڈہ گردی کا شکار بنیں گے جو کہ پختونخواہ، بلوچستان اور کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں کے عوام کا عرصے سے مقدر بنی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ریاست نے جہاں ایک طرف عوام کے آزادئ اظہار رائے پر آمرانہ پابندیاں لگاتے ہوئے ہر قسم کے جلسے جلوس اور سیاسی اکٹھ پر پابندی لگا دی ہے وہیں دوسری طرف پنجاب اور خصوصاً لاہور میں محنت مزدوری کی غرض سے آئے ہوئے افغان اور پشتون محنت کشوں پر دہشت گرد کا لیبل لگا کر ان کے خلاف انتہائی زہریلا نسلی پروپیگنڈا اور پکڑ دھکڑ شروع کر دی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران لاہور شہر میں انجمن تاجران، پنجاب پولیس اور ’نامعلوم‘ افراد کی طرف سے ہزاروں لیف لیٹ تقسیم کئے گئے جن میں لاہور میں سالوں سے بسنے والے پرامن افغان اور پشتون محنت کشوں کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف خوب زہر اگلا گیا۔ اور پھر انہیں لیف لیٹس کو ’عوامی رائے‘ قرار دیتے ہوئے ریاستی اداروں نے ان محنت کشوں اور لاہور میں پڑھنے والے پشتون طلبہ پر کھلے عام ریاستی غنڈہ گردی کا آغاز کردیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس سارے ڈھونگ کو رچانے کا مقصد جہاں ایک طرف ریاستی اداروں کی مکمل نااہلی پر پردہ ڈالنا ہے وہیں دوسری طرف ان گھناؤنے اقدامات کے ذریعے ریاست اور حکمران طبقہ محنت کشوں کی طبقاتی جڑت کو توڑ کر انہیں نسلی اور قومی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتاہے۔ ورنہ کس کو نہیں معلوم کہ دہشت گرد اور ان کے حمایتی کون لوگ ہیں۔ پاکستانی ریاست کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت پچھلی تین دہائیوں سے جاری ہے اور پچھلے دس سالوں میں دہشت گردی کے ہاتھوں چالیس ہزار عوام کے قتل عام کے باوجود ریاست اپنی اس پالیسی پر قائم ہے۔ جہاں ایک طرف دہشت گردی کے خلاف ’جنگ‘ کا نام لے کر عام لوگوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف تمام نام نہاد ’کالعدم‘ تنظیموں، دہشت گردی کی نرسریاں بننے والے مدرسوں اور تبلیغی مراکز کو بھرپور ریاستی حمایت حاصل ہے۔ لاہور میں پشتون محنت کشوں کو دہشت گرد قرار دے کر تشدد کا نشانہ بنانے والے ریاستی اداروں کو نہ تو شہر میں کھلے عام متوازی عدالتیں لگانے والی مسلح مذہبی تنظیمیں نظر آتی ہیں اور نہ ہی منبروں پر بیٹھ کر فرقہ وارانہ زہر اگلنے والے مولوی۔ پولیس، پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے والے ایک عام پشتون یا بلوچ طالبعلم کو تو شناختی کارڈ پاس نہ ہونے کے ’جرم‘ میں فوراً حوالات میں بند کردیتی ہے لیکن اسے پچھلی تین دہائیوں سے پنجاب یونیورسٹی میں دہشت گردوں کی حامی تنظیم ’اسلامی جمیعت طلبہ‘ کی طرف سے کی جانے والی کھلم کھلا غنڈہ گردی نظر نہیں آتی۔
دہشت گردی کا یہ کاروبار اب ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کرچکا ہے اور اس کی جڑیں پاکستان کی کالی معیشت میں پیوست ہیں جو کہ پاکستان کی کل معیشت کا کم ازکم 45فیصد بناتی ہے۔ اس کالی معیشت کا کم از کم نصف براہ راست طور پر ہیروئن سمگلنگ، اسلحہ سمگلنگ، انسانی سمگلنگ، بھتہ خوری، لینڈ مافیا، اغوا برائے تاوان اور ان جیسے دیگر جرائم پر مبنی ہے۔ یہ کالی معیشت پاکستان کے حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ میں کینسر کی طرح سرایت کرچکی ہے۔ یہی کالی معیشت دہشت گردی کو معاشی بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ، فوجی اشرافیہ، سول بیوروکریسی اور عدلیہ اس کالے دھن کی دلدل میں بری طرح غرق ہیں اور لوٹ مار کی اس معیشت میں حصہ دار بن کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ریاست اور حکمران طبقہ کبھی بھی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھائے گا کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے اپنے معاشی مفادات پر ضرب پڑے گی۔
پاکستان کے محنت کش طبقے کو ریاست کی اس ’’تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ کی عیارانہ پالیسی کو ناصرف سمجھنے بلکہ طبقاتی بنیادوں پر منظم ہوتے ہوئے اس کا بھرپور مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں دہشت گردی کے متعلق ناکام ریاستی پالیسیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو یہ نتیجہ اخذ کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی ریاست اور حکمران طبقہ اپنے مالی مفادات کی وجہ سے کبھی بھی دہشت گردی اور کالی معیشت کا خاتمہ نہیں کرے گا۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے کالی معیشت کا مکمل خاتمہ ضروری ہے جو کہ صرف ایک مزدور تحریک کے نتیجے میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے۔