پشتون قومی جرگہ: اہداف، چیلنجز اور امکانات، ایک کمیونسٹ تجزیہ

|تحریر: زلمی پاسون|

11، 12 اور 13 اکتوبر کو خیبر پختونخواہ کے ضلع خیبر میں پشتون تحفظ موومنٹ کی میزبانی میں پشتون قومی جرگے کا انعقاد ہوا۔ جرگے کے انعقاد سے کچھ دن قبل ریاست نے ظلم اور جبر کی روایت کے تحت پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر پابندی عائد کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ یہ تنظیم ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ میں ملوث ہے۔ وفاقی حکومت نے نہ صرف پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دیا بلکہ اس تنظیم سے وابستہ افراد کے نام فورتھ شیڈول میں بھی ڈال دیے۔ اس دوران ملک بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں پی ٹی ایم سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے، تھری ایم پی او کے تحت گرفتاریاں اور سزائیں اس کے علاوہ تھیں۔ جس میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کو بھی ہراساں کیا گیا۔

علاوہ ازیں اس جرگے کے انعقاد پر ریاست کی جانب سے شدید کریک ڈاؤن اور حملے ہوئے جس کے نتیجے میں چار افراد موقع پر شہید ہو گئے، جبکہ پانچویں کارکن جرگے کے دوسرے روز ہسپتال میں شہید ہو گئے جبکہ درجن سے زیادہ کے قریب نوجوان شدید زخمی ہوئے جن میں سے چند تاحال پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس کے علاوہ خیبر سمیت لگ بھگ پورے خیبر پختونخواہ میں انٹرنیٹ اور موبائل سگنل کو مکمل طور پر بند کیا گیا تھا جس کو جرگہ ختم ہونے کے ایک دن بعد کھول دیا گیا۔ جبکہ صوبے کے دیگر شہروں کو پشاور سے ملانے والے تمام تر راستوں کو مختلف مقامات پر بند کر کے جرگے کے لیے آنے والے شرکاء کو نہ صرف ہراساں کیا گیا بلکہ اکثر مقامات پر رکاوٹوں کی وجہ سے جرگے میں شرکت کرنے والے لوگوں نے کئی کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا۔

اس قومی جرگے میں خیبر پختونخواہ، بلوچستان کے پشتون علاقوں سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی، جس کا درست اندازہ لگانا کافی مشکل تھا، کیونکہ 400 کے قریب صرف خیمے لگائے گئے، جبکہ جرگہ گاہ میں کیمپوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جن کا ایک جگہ پر بیٹھنا مشکل تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جرگے میں خواتین کی مخصوص تعداد موجود تھی۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے پشتون قومی عدالت/جرگہ میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے جرگے کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور جرگے کے انعقاد پر ریاستی جبر اور پولیس گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ جبکہ جرگے کے مختلف مقامات پر پنڈال کے سامنے بک سٹال بھی لگائے، جس میں لوگوں نے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے پروگرام میں دلچسپی دکھاتے ہوئے کثیر تعداد میں انقلابی لٹریچر خریدا اس کے علاوہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبرز نے پختونوں کے مسائل اور ان کے حل پر موبیلائزیشن کرتے ہوئے اپنے واضح نکتہ نظر کے ساتھ لیفلٹ تیار کیا تھا، جس کو تقریبا ًتمام ضلعوں کے پنڈال اور دیگر شرکاء میں تقسیم کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جرگے کی منتخب شدہ 80 رکنی کمیٹی میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے نمائندگی کی اور اپنا واضح مؤقف رکھا۔

جرگے کا اعلامیہ

سب سے پہلے اس جرگے کو پشتون وطن کی تاریخ اور ماضی کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے بلائے گئے حالیہ جرگوں کا تسلسل سمجھا گیا۔ جرگہ کو پشتون وطن کا مشترکہ جرگہ کہا گیا۔ اس جرگہ میں موجود تمام 80 نمائندوں نے اس جرگہ کو مستقل تسلیم کیا اور فیصلہ کیا کہ اسی میدان میں پشتونوں کا ایک مرکز بنایا جائے گا جہاں ہر ضلع اور ہر سیاسی جماعت کا ایک دفتر ہو گا۔

1۔ جرگہ نے فیصلہ کیا کہ اس وطن میں کوئی جنگ یا جھگڑا نہیں ہے، مگر پاکستانی فوج اور مسلح تنظیمیں جو طالبان سے لے کر داعش تک مختلف ناموں سے جانی جاتی ہیں، ان کی وجہ سے بدامنی اور دہشت گردی ہے، لہٰذا یہ جرگہ ان کو 60 دن میں خیبرپختونخوا سمیت دیگر تمام پشتون علاقوں سے نکل جانے کا کہتا ہے۔ اگر وہ نہ نکلے تو قوم ان کے اخراج کا بندوبست جرگہ خود کرے گا۔

2۔ فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ہر ضلع اور سیاسی جماعت سے تین تین ہزار نوجوان یعنی کل دو لاکھ چالیس ہزار افراد قومی لشکر کو دیے جائیں گے، جو غیر مسلح اور پرامن طریقے سے مسائل کا حل تلاش کریں گے۔

3۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ 80 رکنی جرگہ یہاں کے تمام وسائل کے بارے میں ایک کمیٹی تشکیل دے گا۔ جو کہ دکی سے لے کر کوہستان چترال تک، تمام وسائل کی معلومات حاصل کرے گی۔ عوام کے فائدے کے وسائل برقرار رکھیں گے اور جس پر ناجائز قبضہ ہو گا اس کو بند کر دیا جائے گا۔

4۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ اس وطن کے شہیدوں، لاپتہ افراد اور قبضہ شدہ زمینوں کے لیے پشتون وطن کے نمائندہ وکلاء اکٹھے کیے جائیں گے۔ یہ وکیل عدالتوں میں لاپتہ افراد کے لیے کیس لڑیں گے اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ اور اقوام متحدہ میں اپنے شہیدوں اور قبضہ شدہ زمینوں کے کیسز بھی پیش کریں گے۔

5۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ بجلی پشتون وطن کی پیداوار ہے اور قبائلی علاقوں میں مفت ہو گی۔ جبکہ دیگر پشتون علاقوں میں پانچ روپے فی یونٹ سے زیادہ ادائیگی کسی بھی صورت میں نہیں کی جائے گی۔ اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو جرگہ اس بات پر اتفاق کرے گا کہ ان تاروں کو کاٹ دیا جائے جو دوسرے صوبوں کو بجلی فراہم کرتی ہیں۔

6۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ ڈیورنڈ لائن پر جتنی بھی گزر گاہیں اور راستے ہیں، 1893ء سے 2010ء تک پشتون افغانوں کو جس قانون کے تحت بغیر پاسپورٹ ویزا کے آنے جانے کی اجازت تھی، وہ بحال کیا جائے گا۔ اگر یہ فیصلہ نافذ نہ ہوا تو جرگہ کسٹم وغیرہ کے دفاتر کے سامنے بیٹھ کر ان کو بند کرے گا۔

7۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ پشتونوں کے قبائل اور فرقوں کے مابین جتنے بھی جھگڑے ہیں، ان کو حل کرنے کے لیے جرگہ اپنی جرگہ مقرر کرے گی جو تمام اضلاع خصوصاً سب سے پہلا ہدف کرم ضلع کا ہو گا۔

8۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ اگر کوئی وردی والا یا بغیر وردی کے بھتہ مانگے، تو اسے کوئی روپیہ نہیں دیا جائے گا۔ اگر کوئی زبردستی لے گا تو پوری قوم اس کے خلاف کھڑی ہو گی۔

9۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ جتنے بھی آئی ڈی پیز اور مہاجرین ہیں، ان کے لیے جرگہ اور قوم ان کے اپنے علاقوں میں واپسی کا خود بندوبست کرے گی۔

10۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ پنجاب، سندھ اور دیگر وفاقی علاقوں میں پشتون طلبہ، مزدور اور دیگر پشتونوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہوتا ہے، وہ بند ہونا چاہیے۔ اگر یہ سلوک جاری رہا تو جرگہ اور قوم کے نمائندے وہاں جا کر مسئلے کے سدباب کرنے کے لیے ارباب اختیار کے ساتھ مل کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

11۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ پاکستان میں موجودہ عمرانی معاہدے کو مسترد کرتے ہیں اور نیا عمرانی معاہدہ مقامی رہنماؤں کی مشاورت سے لکھا جائے۔

12۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ قبائلی علاقوں کے لیے جن امدادوں کا اعلان کیا گیا تھا، ان پر عملدرآمد کیا جائے۔

13۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 244 فوج کو سیاست اور انتظامی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر فوج نے یہ مداخلت کی ہے تو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

14۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 161C2 کے مطابق بجلی کے جتنے بھی واجبات ہیں، وہ مکمل طور پر خیبر پختونخوا کو ادا کیے جائیں۔

15۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ پشتون ملٹری کورٹ اور انٹرنمنٹ سینٹر کو تسلیم نہیں کرتے اور انہیں فوری طور پر ختم کیا جائے۔

16۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 158 کے مطابق قدرتی گیس اور 1991ء کے پانی کے وسائل پر پشتون وطن کا جو حق ہے، وہ انہیں دیا جائے۔

17۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ بلاک شدہ شناختی کارڈز کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو تمام پشتون اپنے شناختی کارڈ واپس کریں گے۔

18۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ تمام سیاسی قیدیوں کو فوراً رہا کیا جائے۔ حالیہ دنوں میں جرگہ کی بنیاد پر گرفتار ہونے والے افراد کو فوراً رہا کیا جائے۔

19۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ جرگہ میں شرکت یا اس میں تعاون کی بنیاد پر کسی فرد کے خلاف کوئی کاروائی کی گئی، تو جرگہ ایسا فیصلہ کرے گا جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

20۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور قانون پشتونوں پر ایک سیاہ قانون ہے اور اسے فوری طور پر ختم کیا جائے۔

21۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ پشتون روایت کے تحت دشمنی میں کسی لڑکی کی زبردستی شادی کروانا مزید قابل قبول نہیں ہے، یہ رسم ختم کیا جائے گا۔

22۔ جرگے نے درخواست کی کہ افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت دی جائے۔

23۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اتوار کو اس جرگہ کی حمایت میں اور ظلم کے خلاف تمام اضلاع اور سیاسی جماعتیں ہر ضلع کے مرکزی مقام پر احتجاج کریں گی۔

24۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر لگی پابندی کو فوری طور پر ہٹایا جائے۔

25۔ جرگے نے فیصلہ کیا کہ ان شہداء کے لیے جو یہاں قتل ہوئے، ان کی موت کے ذمہ دار افراد کے خلاف عدالتی کمیشن بنایا جائے اور انہیں سزا دی جائے۔

جرگے کے اثرات اور ممکنہ حاصلات

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس جرگے کے انعقاد کے لیے ریاست نے جو مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کیں، اس کے باوجود ایک کامیاب جرگے کے انعقاد نے تمام شرکاء اور دیگر لوگوں کو حوصلہ عطا کیا، کہ ریاست چاہے جتنا بھی فرعونیت کے ساتھ جبر کرے مگر وہ عوامی مزاحمت کو کسی بھی شکل میں دبانے سے قاصر ہی رہتی ہے اور اس جرگے کے انعقاد نے عوامی مزاحمت پر لوگوں کے یقین کو مزید پختہ کر دیا۔ اس وقت پاکستان بھر میں جاری عوامی تحریکوں کو بھی شکتی اور حمایت مل سکتی ہے، بالخصوص اگر اس تحریک کو ’کشمیر، بلوچستان اور گلگت بلتستان‘ جبکہ سندھ اور پنجاب میں تحریکوں کی چنگاری کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے۔

ہم نے بارہا واضح کیا ہے کہ بنیادی طور پر جرگہ انتہائی قدیم، فرسودہ اور رجعتی ادارہ رہا ہے جہاں پر محض قبائلی تنازعات کو نمٹایا جا سکتا تھا۔ مگر نظریات کی تنگ نظری اور واضح لائحہ عمل کی عدم موجودگی میں یہ قدیم اور فرسودہ ادارہ بار بار مسلط کیا جا رہا ہے، جس کے عموماً متعینہ نتائج حاصل کرنے کے بہت محدود امکانات ہوتے ہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی کئی جرگے ہوئے ہیں مگر ان کے فیصلہ جات کو کبھی بھی قابل عمل نہیں بنایا گیا اور اس جرگے کا بھی دیگر روایتی جرگوں کی طرح اعلامیہ جاری کرتے ہوئے عہد کے تبدیل شدہ حالات و واقعات کو پس پشت ڈال کر تمام مطالبات کو پاکستانی آئین اور تنگ نظر قوم پرست نظریات کے تحت حل کرنے تک محدود کر دیا گیا۔ جو کہ تاحال ناممکن ہی نظر آ رہا ہے۔

یاد رہے کہ پشتون قومی جرگے کا اعلامیہ 25 نکات پر مشتمل تھا جس میں چند نکات ایسے ہیں، جو کہ پارلیمانی سیاست کے حوالے سے مسائل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کیونکہ اس اعلامیہ پر پارلیمانی پارٹیوں کا اثر رسوخ بہت زیادہ رہا، جس میں اکثر مسائل اور ان کے حل کو پارلیمانی نظام کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا، جو کہ در حقیقت پی ٹی ایم کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ کیونکہ پی ٹی ایم پارلیمانی سیاست سمیت ریاست کے تمام اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ان کو کس طرح حل کیا جائے اور جو فریم ورک جرگے کی جانب سے بنایا گیا ہے وہ ان مسائل کو مکمل طور پر حل کرنے سے قاصر رہے گا۔

اس کے علاوہ پی ٹی ایم پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے، جس میں پی ٹی ایم کی قیادت نے زوال پذیر سیاسی پارٹیوں کو ایک بار پھر عوام پر مسلط ہونے کا موقع دیا، اور یہ تمام سیاسی رجحانات اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی سر توڑ کوششیں کریں گے، مگر عوامی شعور کے سامنے یہ کوشش محض ڈھکوسلا ثابت ہو گا۔ پی ٹی ایم کی قیادت بار بار اس غلطی کی مرتکب ہو رہی ہے، کہ جن سیاسی رجحانات کو عوام مسترد کر چکی ہے، اور ان پارٹیوں کو مسترد کرنے میں خود پی ٹی ایم کے کارکنان کی اکثریت شامل ہے، انہیں جرگے کی 80 رکنی کمیٹی میں اہم نمائندگی حاصل ہے۔ یہ جرگہ کمیٹی جب تلک رہے گی، پی ٹی ایم کے لیے گلے کا طوق ہو گا، کیونکہ پی ٹی ایم اس جرگہ کی نمائندہ کمیٹی اور ان کے فیصلہ جات سے وقتی طور پر روگردانی کا نہیں سوچ سکتی اور یہ صورتحال پی ٹی ایم کے اندرونی صفوں میں بھی سوالات اور انتشار کو جنم دے سکتی ہے۔

گزشتہ لگ بھگ سات سالوں سے پی ٹی ایم نے جس خلاء کو پر کیا تھا، اب انہیں دوبارہ انہی سیاسی پارٹیوں کے پیچھے چلنے کے احکامات پی ٹی ایم کے کارکنوں میں تذبذب کو جنم دے سکتے ہیں۔ یوں ان پارٹیوں کی موجودگی میں پی ٹی ایم کو مزید کسی دشمن کی بہت کم ضرورت پڑے گی۔ کیا یہ اہداف حاصل کرنا ممکن ہیں؟

جرگے کے اعلامیے میں چند ایسے نکات ہیں جو کہ پوری طور پر صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں ان پر گزشتہ روز وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے پشتون جرگے پر اسمبلی کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کر لیا اور کہا کہ اسمبلی اجلاس میں مطالبات پر بات کریں گے۔ جبکہ جو مطالبات صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں نہیں ہیں اُن کو متعلقہ وفاقی اور دیگر حکام کے ساتھ بیٹھ کر اِن مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

پشتون قوم کا اتحاد مگر کیسے؟

جرگے کی اعلامیہ کے جزیات پر جانے سے بہتر ہے کہ ہم اس پورے جرگے کے عمومی کریکٹر کا جائزہ لیں۔واضح رہے کہ یہ جرگہ پشتون تحفظ موومنٹ نے اپنے مرکزی ساتھی گیلہ من وزیر کے جنازے پر اعلان کیا تھا جس میں انہوں نے باقاعدہ طور پر پاکستان میں موجود پشتون قوم کے جتنے بھی وسائل اور ان کی لوٹ مار جبکہ دیگر تباہی اور بربادی پر ڈاکومنٹری بنا کر پیش کرنے اور اس پر ایک متفقہ لائحہ عمل بنانے کی بحث شامل کی تھی۔ اس ضمن میں انہوں نے پشتون قوم میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کو مدعو کیا تھا اور انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم پشتون قوم کو ایک پیج پر لائیں گے، اور اس جرگے کے ذریعے وہ اپنے آپ کو کامیاب تصور کر رہے ہیں کہ ہم نے پشتون قوم کو ایک پیج پر لانے کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔

اب اس پورے صورتحال کا اگر ہم بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ تمام تر سیاسی پارٹیاں اس وقت تک جرگے میں اپنی شرکت کرنے کے حوالے سے گومگو کی کیفیت سے دوچار تھے۔ جب جرگے کے انعقاد پر ریاست نے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں گرفتاریاں کیں اور آخری دن سٹریٹ فائرنگ کے نتیجے میں موقع پر چار نوجوان شہید اور درجنوں نوجوان زخمی ہوئے، اس کے بعد وزیراعلیٰ نے جرگے کے انعقاد کی اجازت دی۔

تمام گرفتار شدہ ساتھیوں کی رہائی جبکہ بند رستوں کو کھولنے کے احکامات جاری کیے۔ گو کہ یہ عمل تمام تر سیاسی پارٹیاں اور بالخصوص پاکستان تحریک انصاف اپنے لیے کامیابی سمجھتی رہی مگر یہ کامیابی حتمی طور پر پشتون تحفظ مومنٹ کے ان سیاسی کارکنوں کی قربانیوں کی بے لوث اور جرأت مندانہ جدوجہد کا نتیجہ تھا جس پر ریاست بالآخر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی، حالانکہ ریاست نے وفاقی سطح پر پشتون تحفظ مومنٹ کو کالعدم قرار دیا تھا اور یہ جرگہ پشتون تحفظ مومنٹ کو کالعدم قرار دینے کے باوجود بھی کامیابی سے منعقد ہوا۔

پاکستان میں براجمان سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی کسی بھی صورت میں پشتون قوم کے اتحاد کا واضح ثبوت نہیں بلکہ یہ سیاسی پارٹیاں اپنی نام نہاد سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے جمع ہوئیں۔ خیبر پختونخواہ میں پچھلے ڈیڑھ دہائی سے برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے لوگوں میں جو غم غصہ پایا جاتا ہے اس کا ادراک اس پورے جرگے کے اندر ہوا، جہاں پر ہر باشعور سیاسی کارکن پاکستان تحریک انصاف کی دوغلی پالیسی پر شدید تنقید کر رہا تھا۔ بالخصوص جب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ نے جرگے میں تقریر کی تو نیچے سے نوجوانوں نے ان کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ یہی صورتحال گورنر خیبر پختون خواہ پیپلز پارٹی کے رہنما کی بھی تھی۔

اس پوری بحث کا مقصد صرف یہی ہے کہ اس وقت پاکستان میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں جو پشتون سماج کے اندر سیاست کر رہی ہیں وہ کبھی بھی پشتون کے نام پر یکجا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی انہیں یکجا کرنے کے لیے وہ وجوہات موجود ہیں کیونکہ ان سیاسی پارٹیوں کی اکثریت اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھی ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے سٹیج پر کھڑی ہو کر یہ سیاسی پارٹیاں بحیثیت پشتون نمائندہ اپنے اتحاد کا ڈھونگ رچا رہی ہیں، عملی طور پر یہی پارٹیاں محض لب کشائی پر ہی اکتفاء کریں گی۔ جبکہ جرگے کے فیصلہ جات کو محض کاغذ کا ہی ٹکڑا سمجھ کر اپنے مفادات کی دھن میں مگنرہیں گی۔

اس ضمن میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پشتون قوم کی نجات محض طبقاتی بنیادوں پر ہی ممکن ہے۔ پشتون قوم کے اندر بھی دیگر اقوام کی طرح مختلف طبقات واضح طور پر موجود ہیں جس میں بلاشبہ پشتون اشرافیہ کو اس وقت نہ صرف ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ افغانستان پر براجمان پشتون اشرافیہ عالمی و علاقائی سامراجیوں کی ایک دلال نمائندہ ہے، جن کے حامیوں و کارندوں کو بھی اس جرگے میں دعوت دی گئی ہے، جن کے ہاتھ پشتون قوم کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ انہی قوتوں نے پشتون سماج میں مذہبی بنیاد پرستی کی جڑوں کو مضبوط کرنے اور پشتون سماج کو تخت و تاراج کرنے میں ہمیشہ ریاستی و سامراجی قوتوں کے آلہ کار کے طور پر کام کیا ہے۔ جبکہ ایسے پشتون قوم دشمن عناصر کو بھی دعوت دی گئی ہے، جنہوں نے پشتون قوم کے وسائل کو لوٹنے میں پاکستانی سول و فوجی اشرافیہ کی ہر قسم کی معاونت کی ہے۔

فوج اور دہشتگرد جتھوں کا انخلا؟

اس کے علاوہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے جرگے میں جو لیفلٹ اتارا تھا یا جرگے کے جن فورمز پر پارٹی کی نمائندگی کی وہاں پر ہم نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں یہ بات رکھی تھی کہ اس وقت جو بھی تجاویز یا فیصلہ جات رکھے جاتے ہیں تو ان فیصلہ جات کو عملی شکل دینے کے لیے متبادل تجویز موجود ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر جرگے کا سب سے اہم فیصلہ کہ خیبر پختونخوا سمیت دیگر تمام پشتون علاقوں سے فوج اور طالبان دونوں فوری طور پر نکل جائیں، مگر اس پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں کیا ہو گا؟

اس کے علاوہ ایسے بہت سارے ایشوز ہیں جن کو بہرحال زیر بحث لانا ضروری ہے مگر بطور کمیونسٹ ہم عظیم انقلابی استاد کامریڈ لینن کے ان الفاظ پر عمل کرنے کی متمنی ہیں کہ ہر مظہر کی ”صبر کے ساتھ وضاحت“ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں پر دہشت گردی کے خلاف لڑائی کو لڑنے کے لیے فوج سمیت جتنے بھی ریاستی سیکیورٹی ادارے ہیں وہ تو مکمل طور پر شروع دن سے ناکام ہو چکے ہیں یا ملوث ہیں، لہٰذا ان کا مقابلہ جمہوری طور پر منتخب عوامی کمیٹیوں کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے اور یہی جمہوری طور پر منتخب عوامی کمیٹیاں وسائل کی لوٹ مار کا نہ صرف خاتمہ کر سکتی ہیں، بلکہ قدرتی و معدنی وسائل کو عام محنت کش عوام کی حق ملکیت میں دینے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

دیگر مطالبات اور ان سے وابستہ توقعات

اس کے علاوہ جرگے میں بجلی کے حوالے سے ایک انتہائی اہم فیصلہ کیا گیا مگر خیبر پختون خواہ میں جو نجکاری کی پالیسیاں جاری ہیں ان پر مکمل طور پر خاموشی برقرار رکھی گئی حالانکہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے یہ نقطہ بار ہا اٹھایا گیا کہ اگر ہم خیبر پختونخواہ کے محنت کش عوام کو اپنے ساتھ جوڑنے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ان کے مسائل کو لازمی طور پر جرگے کے فیصلہ جات کا حصہ بنانا ہو گا۔ اس کے علاوہ قبائلی تنازعات کو نمٹانے کے لیے جرگے نے جو فیصلہ جات کیے ہیں وہ انتہائی خوش آئند ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس جرگے کے انعقاد کے مثبت نتائج بہرحال نکلیں گے کیونکہ اس جرگے کے ذریعے پشتون نوجوانوں کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ ہم پشتون قوم کو ایک پیج پر لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور جو فیصلہ جات لیے گئے ہیں ان کو متبادل کی عدم موجودگی کی وجہ سے پذیرائی مل رہی ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ سوالات اٹھیں گے، جب جرگے کے فیصلہ جات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے گی تو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور جرگے میں جتنے بھی فیصلہ جات لیے گئے ہیں وہ سیاسی طور پر اصلاح پسندی کی ہی دوسری شکل ہے۔

اس وقت اصلاحات عالمگیر سطح پر ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں اور پاکستان چونکہ ناگزیر طور پر عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ہی ایک ملک ہے جہاں پر مکمل طور پر سرمایہ داری رائج ہے اور اصلاح پسندی پر مشتمل تمام تر فیصلہ جات پر عملدرآمد قدرتی وسائل سے لے کر نئی عمرانی معاہدہ تک ناممکن ہے۔ جرگے کے فیصلہ جات کو قابل عمل بنانے کے لیے جتنے بھی مسائل اور مشکلات ہوں گے وہ نئے سوالات کو جنم دیں گے اور ان سوالات کو عہد حاضر کے جدید نظریات ہی جواب دے سکتے ہیں۔ جو کہ نوجوانوں میں ایک نئی متبادل کی سوچ کو پروان چڑھائیں۔ بالخصوص اس وقت خیبر پختونخواہ میں جو غم و غصہ موجود ہے۔ جرگے کے فیصلہ جات سے توقعات رکھنے والے نوجوان بہت جلد نتائج نکالنے کی جستجو کریں گے کیونکہ سرمایہ داری کی زوال پذیری کے ساتھ مسائل اور مشکلات کی شدت میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے جو کہ نوجوانوں میں سیاسی شعور کے ارتقا کو تیز کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ اس وقت خیبر پختونخواہ سمیت دیگر پشتون علاقوں اور بالعموم پورے پاکستان میں رائج الوقت سیاسی رجحانات، ان کی قیادت اور ڈھکوسلوں پر مشتمل پروگرام سے جتنی نفرت اور غصہ موجود ہے شاید یہ پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے اور یہی غم و غصہ اور نفرت ریاست پاکستان کے تمام ریاستی اداروں بالخصوص فوجی اشرافیہ سے بھی موجود ہے۔

راہ نجات کیا ہے؟

ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک جابرانہ اور مصنوعی فیڈریشن ہے جہاں پر روز اول سے مظلوم اقوام کو بزور طاقت اکٹھا کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں پشتون قوم سمیت دیگر مظلوم اقوام پر ریاست پاکستان کے حکمران (فوجی و سول) اشرافیہ نے اپنی تجوریوں کو بھرنے، عیاشیوں کو برقرار رکھنے اور اس مصنوعی اور جابرانہ فیڈریشن کو برقرار رکھنے کے لیے پنجاب کے بالادست فوجی و سول حکمران طبقے نے مظلوم اقوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے ہیں۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے لے کر آج تک پشتون قوم کو کبھی بھی چین و سکون سے رہنے نہیں دیا گیا اور اس کا آغاز 12 اگست 1948ء کے خونی واقعے یعنی بابڑہ سے ہوا ہے جہاں پر خدائی خدمت گار تحریک کے سینکڑوں کارکنوں کو نوزائیدہ ریاست پاکستان کے حکمران طبقے نے پرامن جدوجہد کرنے والوں پر دن دہاڑے گولیوں کی بوچھاڑ کی، حالانکہ پاکستان کی جنرل اسمبلی میں پشتونوں کی نمائندہ خدائی خدمت گار تحریک کی قیادت نے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد پھر سلسلہ وار تحریکیں چلتی رہیں مگر پشتون قوم کے حوالے سے ٹرننگ پوائنٹ افغانستان میں برپا ہونے والا 1978ء کا انقلاب تھا۔

افغانستان میں برپا ہونے والے ثور انقلاب کے بعد یہاں پر پٹرو ڈالر جہاد کے نام پر پشتون سماج کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اس کے نتائج آج تک پشتون سماج بھگت رہا ہے۔ پورے پشتون سماج کو مذہبی انتہا پسندی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈال دیا گیا، اور آج تک مذہبی انتہا پسندی اور ریاستی پشت پناہی میں مذہبی دہشت گردی کا راج ہے۔ 2001ء میں امریکی سامراج کی افغانستان میں مداخلت کے بعد اس خونی کھیل میں ایک نئی شفٹ آ گئی جہاں پر افغانستان پر مسلط کرنے والے مذہبی بنیاد پرست طالبان جو کہ آج بھی عالمی سامراجی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی سر پرستی میں افغانستان کے نام نہاد حکمران ہیں، ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد خیبر پختونخواہ کے بالخصوص سابقہ فاٹا کے علاقے ان دہشت گردوں کے مراکز بنے رہے اور مشرف دور میں سابقہ فاٹا کے اندر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد مختلف فوجی آپریشنز کیے گئے، جس کے نتیجے میں ریاست پاکستان کی فوجی اشرافیہ نے اپنے مفادات کے تحفظ اور ڈالر بٹورنے کی خاطر مصنوعی دہشت گرد جھتے (ٹی ٹی پی) تیار کیے، جس کی آج بحث تبدیل ہو چکی ہے۔

اس کے علاوہ پشتون خطے میں جنگ کی نوعیت بھی وہی نہیں رہی جس کی آج بھی پشتون قوم پرست بات کر رہے ہیں۔ کیونکہ افغانستان میں امریکی سامراج کے انخلاء کے بعد جو صورتحال موجود ہے، اس ضمن میں امریکہ کے ڈالری جنگ کا دور تقریباً اپنے اختتام کو پہنچا ہے، اور امریکی سامراج اپنے پالتو دلالوں کے ذریعے اس خطے کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں مگن ہے۔ امریکی سامراج کی لڑائی کا رخ چین کی طرف ہو چکا ہے، جس میں پشتون خطے کی اہمیت ان کے لیے ثانوی ہو چکی ہے۔

قوم پرست نظریات کی محدودیت اور متبادل نظریات کی ناگزیر اہمیت

2001ء میں امریکی سامراج کی افغانستان میں مداخلت کے بعد جو صورتحال بنی تھی اس پر المیہ یہ تھا کہ نام نہاد لبرل پختون قوم پرست نہ صرف مکمل طور پر مجرمانہ خاموشی برقرار رکھے ہوئے تھے۔ بلکہ انہوں نے افغانستان میں امریکی سامراج کے مداخلت کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان سے افغانستان کو ایک جدید قومی ریاست بنانے کی امیدیں لگائیں۔ اس تمام تر صورتحال میں سابقہ فاٹا کے اندر پشتون قوم کے ساتھ ریاست پاکستان کی فوجی اشرافیہ نے جو مظالم کیے ان پر بھی پشتون قوم پرست مسلسل خاموش تھے۔

اس ریاستی جبر کے خلاف 2018ء میں پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے ایک تحریک ابھری جنہوں نے پشتون قوم پر ہونے والی نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ کے ضمن میں ریاستی جبر کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی جس پر پاکستان میں رہنے والے پشتون قوم کی اکثریت نے لبیک کہتے ہوئے اس تحریک کو مضبوط کر دیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ حالات کے مختلف نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی گئی مگر ایک پروگرامیٹک لائن کی عدم موجودگی اور قوم پرستی کے فرسودہ تنگ نظریات کی بدولت انہیں پشتون قوم نے جو مینڈیٹ دیا تھا اس پر پورا نہیں اتر سکی۔

قیادت کی تمام تر نظریاتی کمزوریوں کے باوجود پشتون تحفظ موومنٹ نے ریاست پاکستان کے اندر ریاستی اداروں کے خوف ڈر اور ہراس کے طلسم کو توڑتے ہوئے ایک نئی روایت قائم کی جہاں پر مظلوم اقوام سمیت پسے ہوئے محروم طبقات کو بھی ریاستی مظالم کے خلاف بولنے کی شکتی ملی۔ پشتون قوم پر ہونے والی ریاستی جبر کو پاکستان سمیت پوری دنیا پر آشکار کیا۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی مذکورہ تحریک کے ساتھ روز اول سے چٹان کی طرح مضبوط کھڑی رہی ہے اور ہم نے بار ہا قیادت کی کمزوریوں کو مختلف طریقوں سے سامنے لایا اور آج بھی ہم یہی سمجھتے ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت کے پاس گو کہ عوامی قوت ہے مگر ان کے پاس عہد حاضر کے جدید نظریات اور سیاسی پروگرام کی عدم موجودگی بدستور برقرار ہے۔ گو کہ اس جرگے کے ذریعے تحریک کی قیادت نے پروگرامیٹک لائن دینے کی کوشش کی ہے مگر وہ اپنی جوہر کے اندر انتہائی محدود اور اصلاح پسندی پر مشتمل ہے۔ جس کے حوالے سے اوپر مفصل بحث ہو چکی ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ نے ایسی حالات میں جرگہ کیا، جہاں پر پشتون قوم نے ایک واضح فیصلہ کیا ہے اور قومی جبر سے لے کر معاشی استحصال اور دیگر ریاستی مظالم کے خلاف انہوں نے دو ٹوک پیغام دیا ہے۔ جرگے کے تمام فیصلہ جات کو درست سمت دینے اور پھر ان کو قابل عمل بنانے کے لیے نظریات کی بحث ایک اہم سنگ میل ہے جس طرح ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ قوم پرستی کے نظریات کے تنگ نظر دائرے میں اس وقت پشتون قوم کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھتے جا رہے ہیں اور قوم پرستی کے نظریات اس وقت ریاست پاکستان کے موجودہ جابرانہ فیڈریشن کو تقویت دے رہے ہیں۔

اگر قوم پرستی کے نظریات کی بات کریں، تو ان نظریات کی بنیاد دو انتہاؤں پر منتج ہوتی ہے ایک طرف موقع پرستی اور دوسری طرف مہم جوئی، اس کے علاوہ ان نظریات کے پاس کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ اسی لیے جرگے کے فیصلہ جات پر عمل درآمد متبادل نظریات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جبکہ عمومی طور پر عوامی شعور قوم پرستی کے فرسودہ نظریات سے کوسوں دور نکل چکا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام پی ٹی ایم سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت سے آگے کھڑی ہے۔

اس وقت پشتون قوم بحیثیت ایک مظلوم قوم کے ریاست پاکستان کے جابرانہ اور مصنوعی فیڈریشن کے اندر موجود ہے اور پشتون قوم پر ہونے والے قومی جبر کی انقلابی کمیونسٹ پارٹی ہر وقت اپنے واضح مؤقف کے ساتھ بھرپور مذمت کرتی آئی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ پشتون قوم پر ہونے والے ریاستی جبر کا خاتمہ اس جابرانہ اور مصنوعی فیڈریشن کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس مقصد کے لیے جرگے کو بلوچ، سندھی، کشمیری اور دیگر مظلوم اقوام کی تحریکوں سے یکجہتی کرنی ہو گی۔

جب کہ عمومی طور پر پشتون قوم کے قومی سوال کو حل کرنے کے لیے افغانستان کے ریاست کا موجودہ شکل بھی مسمار کرنا ہو گا جو کہ اس خطے کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے ساتھ جڑا ہوا ایک اہم بحث ہے اور سوشلسٹ فیڈریشن کی تعمیر کے لیے متبادل نظریات کی ضرورت ہوتی ہے جس سے نہ صرف پشتون قوم بلکہ اس خطے میں موجود تمام مظلوم اقوام اور پسے ہوئے طبقات کو جبر کی ہر قسم سے نجات مل سکتی ہے۔ یہ سب کچھ محنت کش طبقے کی قیادت میں طبقاتی جدوجہد کے مرہون منت ہے، جس کے لیے کمیونزم کے انقلابی نظریات کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.