|تحریر: رائے اسد|
دیکھتے کچھ ہیں دکھاتے ہمیں کچھ ہیں کہ یہاں
کوئی رشتہ ہی نہیں خواب کا تعبیر کے ساتھ
آج کل پاکستان میں ”پری زاد“ نامی ایک ڈرامہ بہت مشہور ہے۔ ڈرامہ میں پری زاد کا مرکزی کردار احمد علی اکبر نے ادا کیا ہے جو ایک چھوٹے شہرکا رہنے والا ہے اور اپنی شکل و صورت اور غربت کی وجہ سے معاشرے میں حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ماں باپ کی وفات کے بعد بھائی اور بھابھیاں بھی اسے ناپسند کرتی ہیں اور بے روزگاری کے طعنے دیتی ہیں۔پری زاددورِ جدید کا ایک ”ابھرتا“ ہوا ”شاعر“ بھی ہے جس نے چند مشہور نظمیں لکھ رکھی ہیں۔ پری زاد کوشروع سے لے کر آخر تک ایک فرشتہ صفت انسان دکھایا گیا ہے جو حقیقت سے انتہائی دور ہے۔سماج کی جانب سے اس کی ہونے والی تذلیل اور بے توقیری کے باوجود اس میں دوسروں کیخلاف کوئی نفرت یا حقارت موجود نہیں۔ اس کردار میں احساس کمتری کا کچھ عنصر دکھایا گیا ہے لیکن یہ عنصر بھی اس کی شخصیت کو فرشتہ بننے سے کبھی نہیں روکتا۔ دوسرے الفاظ میں وہ کہانی کے دوران اپنے عمل اور تضادات کے نتیجے میں درست فیصلے کرنے سے ہیرو نہیں بنا بلکہ کہانی کے آغاز میں ہی باا خلاق، شائستہ، انسانوں کا ہمدرد اور ہیرو ہے اور اس کے ارد گردخواہ کچھ بھی ہوتا رہے وہ ہمیشہ اعلیٰ ترین اخلاقیات کا ہی حامل رہتاہے۔ اسے کسی بھی سچوئیشن میں ڈال دو وہ ہمیشہ انسانی ہمدردی اور ارفع خیالات کا ہی مظاہرہ کرے گا اور کسی کے ساتھ بھی برا نہیں کرتا حتیٰ کہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی صرف ڈرا کر معاف کر دیتا ہے۔ یہی اس کہانی کا مصنوعی اور کھوکھلا پن اور ایک مخصوص پراپیگنڈے کا اظہار نظر آتا ہے جس کے باعث یہ ڈرامہ انتہائی پست سطح پر گر جاتا ہے۔
اس کہانی کا ہیرو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق دکھائی دیتا ہے کیونکہ کہانیوں کے ہیرو بہرحال ایک تو فرشتے نہیں ہوتے بلکہ سماج کا حصہ ہوتے ہیں۔دوسرا یہ کہ ہیرو بنے بنائے (ریڈی میڈ) کہانی میں نہیں ڈالے جاتے بلکہ کہانی ایک معمولی کردار کو مختلف تضادات کے کے دوران اس کے عمل اور اس کے اپنے فیصلوں کے نتیجے میں اسے ہیرو بناتی ہے۔اس کی مثالیں ماضی میں بے شمار ڈراموں اور فلموں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔لیکن آج کل یہ عمومی رجحان بن چکا ہے کہ کردار کی بجائے اداکار کو دیکھا جاتا ہے اور جو اداکار ہیرو کے طور پر مشہور ہیں انہی کے چند ڈائیلاگ اور مار پیٹ کے مناظر دکھا کر فلمیں اور ڈرامے ہٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی فلم کودیکھ کے معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں ہیرو ہے اور پھر لوگ فلم کی بجائے فلاں ہیرو کی قلابازیاں دیکھنے جاتے ہیں۔
پری زاد کی شہرت کی وجہ ابتدائی اقساط میں کہانی کا منفرد ہونا تھا۔ ان قسطوں میں اس کردار میں بہرحال ہمیں غربت کی چکی میں پسنے والے افرادکی ہلکی سی جھلک کہیں نہ کہیں نظر آ جا تی ہے۔ اس ملک میں نوجوانوں کی اکثریت ڈگریاں لینے کے بعد در در کی ٹھوکریں کھاتی ہے اور بے روز گاری کے طعنے ہی سنتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سماج میں رنگ، نسل، زبان، ذات پات یا مذہب وغیرہ کی بنیاد پر لوگوں کو کم تر یا برتر سمجھا جاتا ہے۔سیاہ رنگت کو واقعی سماج میں ذلت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ گوری رنگت کامیابی اور خوبصورتی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہار ہر جگہ نظر آتے ہیں اور یہ صنعت اربوں روپیکے حجم تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح سماج میں ظاہری وضع قطع، لباس اور گاڑی یا گھر دیکھ کر کسی بھی شخص کی اہلیت اور قابلیت کو پرکھا جاتا ہے جبکہ اس شخص کے خیالات اور احساسات کی کوئی وقعت نہیں۔اس ڈرامے میں جب سماج کے ان غلیظ اور گھٹیا پیمانوں کو موضوع بنایا گیا تو اسے بہت پذیرائی ملی، خاص طور پر وہ سین بہت مقبول ہوا جب ایک لڑکی کی امیر ماں اس کا رشتہ قبول کرنے کی بجائے اسے غربت اور بدصورت ہونے کا طعنہ دے کرگھر سے نکال دیتی ہے اور اسے بہت سا پیسہ کمانے کا مشورہ دیتی ہے۔
یہاں تک پری زاد کسی حد تک ان کروڑوں نوجوانوں کا نمائندہ ہی تھا۔یہ الگ بات ہے کہ ڈرامہ بنانے والوں کو پری زاد کا کردار نبھانے کے لیے پاکستان جیسے ملک میں کوئی سیاہ رنگت کا اداکار نہیں ملا۔پھر پری زاد کو جن لڑکیوں سے عشق کرتے دکھایا گیا ہے وہ بھی دورِ جدید میں حسن کے معیار کے مطابق ”خوبصورت“ ہی ہیں۔یعنی پری زاد صاحب کو بھی سیاہ رنگت پسند نہیں ہے اور گورے رنگ کے ہی دلدادہ واقع ہوئے ہیں۔ظاہر ہے سارا شوبز کا دھندا ہی اسی کلچر پہ چل رہا ہے۔
اس کے بعد کچھ یوں ہوتا ہے کہ ہر طرف سے دھتکارے جانے کے بعد پری زاد پہ یہ راز کھلتا ہے کہ پیسہ ہی اس سماج میں سب سے بڑی طاقت ہے۔پری زاد گاڑیاں مرمت کرنے کا کام سیکھنا شروع کرتا ہے جہاں اس کا استاد اسے کراچی میں اپنے ایک شاگرد کے بارے میں بتاتا ہے کہ اگر زیادہ پیسہ کمانا ہے تو اس کے پاس چلے جاؤ، وہ تمہیں کسی نوکری پہ لگا دے گا۔ یوں پری زاد پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی مرکز کراچی میں پہنچ جاتا ہے۔وہاں اس کا دوست اسے بہروز کریم نامی ایک سرمایہ دار کی کمپنی میں نوکری پہ رکھوا دیتا ہے۔ یہاں سے کہانی اور اس کے کردار حقیقت سے دور ہوتے چلے جائیں گے اور ہمیں وہ نظر آئے گا جو لکھنے اور بنانے والے ہمیں دکھانا چاہتے ہیں۔ پری زاد کو ایک نڈر آدمی دکھایا گیا ہے اور اس خوبی سے متاثر ہو کر بہروز کریم اسے اپنی بیوی کی رکھوالی کے لیے رکھ لیتا ہے۔بہروز کریم اپنی بیوی سے کچھ زیادہ ہی ”محبت“ کرتا ہے اور اس کا ثبوت ڈرامے میں یہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو دنیا سے چھپا کے چار دیواری میں قید رکھنا چاہتا ہے۔بہروز کی بیوی کو زر خرید غلام ہی دکھایا گیا ہے جسے صرف اس کا مالک ہی استعمال کر سکتا ہے۔ کوئی کم عقل ہی اس نام نہاد محبت کا دفاع کرے گا۔بہروز کریم کو جب اپنی بیوی کے کسی دوسرے مرد کے ساتھ تعلقات کا علم ہوتا ہے تو وہ اسے قتل کر دیتا ہے۔یہاں سے بھی لکھنے والے کی گھٹیا سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس قتل کو بھی رومانوی رنگ دیا گیا ہے اور اس کے بعد بھی بہروز کریم کو ایک با وفا اور با کردار شخص دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔یعنی ڈرامہ لکھنے اور بنانے والوں کے نزدیک پاکستان میں غیرت کے نام پہ ہونے والے قتل کوئی جرم نہیں ہیں بلکہ مردوں کی محبت کی معراج ہے۔
پری زاد جوبلا وجہ ہی ایک ”اچھا انسان“ ہے وہ نہ صرف اس بہیمانہ اور ہولناک قتل پہ خاموش رہتا ہے بلکہ مالک کی غلامی کرتے ہوئے جرم اپنے سر لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے مالک کے اتنے گھناؤنے فعل،جو درحقیقت پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، اس کو شاعری اور ادبی جملوں کے ذریعے ر ومانس اور محبت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور خواتین پر بد ترین جبر کرنے والے شخص کو تحفظ دیتے ہوئے اپنے ”اعلیٰ کردار“ کا بھی ثبوت دیتا ہے۔ اس پورے عمل میں سماج میں موجود خواتین پر جبرکے لیے جو پسماندہ اور رجعتی دلائل موجود ہیں وہ تمام پیش کر دیے جاتے ہیں جبکہ خواتین کے حقوق کے دفاع میں کوئی بھی دلیل سامنے نہیں آتی۔اس کے علاوہ سرمایہ دار طبقے کے انسانیت سوزجرائم پر بھی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان جرائم کوبے وفائی کے نتیجے میں ایک ”مجبوری“ بنا کر پیش کیا جاتا ہے نہ کہ اس طبقے کی لالچ، ہوس، قبضے اور ملکیت کی خواہش اورانسان دشمن رویوں کے نتیجے میں ابھرنے والے عمل کے طور پر۔
پری زاد کی اس غلامانہ وفاداری سے بہروز کریم خوش ہوتا ہے اور اسے اپنے سب سے وفادار غلاموں میں شامل کر لیتا ہے۔اس قتل کے کیس میں پری زاد کچھ عرصہ جیل میں گزارتا ہے لیکن آخر کار ”پولیس“ ”اصل قاتل“ تک پہنچ جاتی ہے۔ بہروز کریم جیل جانے کی بجائے خودکشی کر لیتا ہے حالانکہ وہ اپنے تعلقات استعمال کر کے آسانی سے بچ سکتا تھا۔ حقیقت میں اس کے برعکس دیکھا گیا ہے اورامیر مجرم کبھی بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچتے اور عدالتوں سے لے کر پولیس تک تمام ریاستی ادارے ان کی لونڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ڈرامے میں ایک طرفپولیس کو بھی غیر جانبدار اورمجرموں کو کٹہرے میں لانے والا دکھایا گیا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے جبکہ دوسری جانب تھانوں میں ہونے والے انسانیت سوز تشدد کے عمل کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی کی بجائے جرم تک پہنچے کا درست طریقہ کار دکھایا گیا ہے۔اس ملک کا ہرشہری اچھی طرح جانتا ہے کہ اس پولیس نے آج تک کتنے امیروں کے گریبان پکڑے ہیں اور کتنے بے گناہوں اور مظلوموں کو جھوٹے مقدمات میں سزائیں دلوائی ہیں۔قصہ مختصر کہ مرتے وقت بہروز کریم اپنی جائیداد کا بڑا حصہ اور کمپنیاں پری زاد کے نام کر دیتا ہے۔اس سے زیادہ مضحکہ خیز پلاٹ شاید ہی بن سکتا تھا۔دراصل یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سرمایہ داروں کی غلامی کر نا ہی امیر ہونے کا واحد راستہ ہے اور بیروزگاروں کو منظم ہو کرسرمایہ دار طبقے کے خلاف بغاوت کرنے اور اپنے حقوق چھیننے کی بجائے ان کے زر خرید غلام بننے کی تلقین کی گئی ہے۔دوسری جانب مالک بھی ”میرٹ“ پر سب سے وفادار شخص کو اپنا جانشین مقرر کرتا ہے اور اس میں وراثت کے عمل اوراس نظام کی بنیاد میں موجود نجی ملکیت کی جکڑ بندی کو غیر حقیقی طور پر نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس سے آگے ڈرامے کو زبردستی طول دیا گیا ہے۔پری زاد ایک ”اچھا سرمایہ دار“ بنتا ہے اور پیسے نوکریاں وغیرہ بانٹتا ہے اور اچانک انتہائی امیر ہونے کے بعد بھی اس کے کردار میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور وہ بظاہر پہلے کی طرح انسان دوست اور غریبوں کا ہمدرد ہی رہتا ہے۔ حقیقی زندگی میں کسی شخص کے پاس چند ہزار روپے بھی زیادہ آ جائیں تو اس کے کردار میں تبدیلی آنے لگتی ہے اور خاص طور پر ذرائع پیداوار اور وسیع جائیدادوں کی ملکیت انسان میں ہوس، لالچ اور انسان دشمنی جیسے جذبات کو پروان چڑھاتی ہے۔ سرمایہ خود اپنے ایک کردار کا حامل ہوتا ہے اور سرمایہ دار شخص اس کی گرفت میں ہوتا ہے اور اسی نظام کے تحت محنت کشوں کا استحصال کرتا ہے۔ یہی دولت اس کے کردار میں غریبوں کی توہین، بے توقیری اور ان سے نفرت کو پروان چڑھاتی ہے جبکہ اس ڈرامے میں ایسا کوئی تضاد سرے سے ابھرتا ہی نہیں اس کا پروان چڑھنا اور کسی کردار کوتبدیل کرنا تو دور کی بات ہے۔
امیر ہونے کے بعد پری زاد ایک اندھی لڑکی سے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انتہائی سطحی شاعری کا تڑکا، رنگ برنگے ڈائلاگز کا روایتی چورن اور محبت کی رسمی کہانیملا کر اگلی قسطیں پوری کی گئی ہیں۔آخری قسطوں میں صوفی ازم کا مصالحہ بھی ڈالا گیا ہے جب پری زاد ”اپنی“ تلاش میں کشمیر کے پہاڑوں میں نکل جاتا ہے۔ خیر ڈرامے کی ”ہیپی اینڈنگ“ ہو چکی ہے۔
یہ ڈرامہ دیکھ کر بانو قدسیہ اور اشفاق احمد جیسے لوگوں کی تحریریں ذہن میں دوڑنے لگتی ہیں جن کو ضیاء آمریت میں زبرستی نوجوانوں کے ذہنوں پہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ایسے ادیبوں کو باقاعدہ عوام دشمن ریاست کی طرف سے لانچ کیا گیا تھا۔اس کی وجہ عوام کے شعور کو مسخ کرنا تھا تاکہ وہ ضیاء آمریت کے خلاف آواز نہ اٹھا پائیں۔ریاست نے نصاب، میڈیا، مذہب اور ادب سمیت ہر چیز کو اسی مقصد کے لیے استعمال کیا۔ایسے کئی ادیب اور شاعر حکمران طبقے کے تنخواہ دار ملازم تھے جو عشق معشوقی اور خوشنما جملوں کا تڑکا لگا کر اپنا ادبی چورن بیچتے تھے۔ آج بھی پاکستان کے اندر نوجوان اور محنت کش طبقہ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔یہ نظام زندہ رہنے کا حق بھی چھین رہا ہے اور اس کے خلاف سماج میں بغاوت پھوٹ رہی ہے۔ ایسے میں عوام کے شعور کو مسخ کرنا حکمران طبقے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے اور ایسے ڈرامے بھی اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔
لیکن حکمران طبقہ اور اس کے پالتو لکھاری یہ بھول جاتے ہیں کہ عوامی بغاوتوں کا راستہ ایسے نہیں روکا جا سکتا۔عوام ٹی وی کی اسکرینوں سے نہیں بلکہ اپنی زندگیوں کے تلخ تجربات سے سیکھتے ہیں۔اکشے کمار، سلمان خان اور اجے دیوگن فلموں میں جتنے مرضی پولیس کے کردار ادا کر کے پولیس کا اصلی چہرہ چھپانے کی کوشش کر لیں، لوگوں کو روز مرہ کے تجربات بتاتے ہیں کہ پولیس کا ادارہ عوام دوست نہیں ہو سکتا بلکہ ریاستی جبر کا آلہ ہی رہے گا۔پاکستان میں جرنیل حب الوطنی کے جتنے مرضی گانے بنا لیں وہ اپنی لوٹ مار کو نہیں چھپا سکتے اور ان کیخلاف ابھرنے والی عوامی نفرت کو نہیں روک سکتے۔اسی طرح پری زاد جیسے ہزاروں ڈرامے سرمایہ داروں کے کردار اور اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے کہ یہ سرمایہ دار اور ان کا نظام ہی ہے جو انسانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔یہی سرمایہ دار ہیں جو مزدوروں سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کروا کے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور مزدوروں کو غربت سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔یہی گدھ نما سرمایہ دار عوام کا گوشت نوچ کر عیاشیاں کرتے ہیں۔
ایسے ڈرامے اور کہانیاں پراپیگنڈے اور سطحی جذباتیت کے تحت وقتی طور پر تو شہرت حاصل کر لیتے ہیں لیکن سماج پر دیرپااثرات مرتب نہیں کر سکتے۔صرف اعلیٰ ادب اور فن ہی وقت کی حدود پھلانگ کر شہرتِ دوام حاصل کر سکتا ہے۔ ایسا ادب جو سماج کے سلگتے ہوئے تضادات کی حقیقت کو منظر عام پر لائے اور اسٹیٹس کو کیخلاف بغاوت اور انقلاب کا جذبہ ابھارے، صرف وہی اعلیٰ کہلا سکتا ہے اور سماج کی گہرائیوں میں اپنی جڑیں بنا سکتا ہے۔ دوسری جانب سستی شہرت حاصل کرنے والی کہانیاں آسانی سے فراموش بھی ہو جاتی ہیں۔ آنے والی نسلیں ایسے فن اور فنکاروں پہ قہقہے لگائیں گی۔ایسے بکاؤ ادیبوں اور ایسے عوام دشمن فن کا اصل مقام تاریخ کی ردی کی ٹوکری ہے اور اس کے مقابلے میں عوام دوست فن اور فنکار ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے:
مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دزد نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا