|تحریر: ریولوشن، ترجمہ: یار یوسفزئی|
(مندرجہ ذیل مضمون عالمی مارکسی رجحان کے فرانسیسی سیکشن ”ریوولوشن“ کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا تھا۔ 2021ء میں پیرس کمیون کی 150 ویں برسی منائی جائے گی اور اس موقع پر ویل ریڈ بکس کی جانب سے کارل مارکس کی کتاب ”فرانس میں خانہ جنگی“ شائع کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ایک آن لائن تقریب بھی منعقد کی جائے گی (تقریب کے متعلق تفصیلات جاننے کیلئے یہاں کلک کریں، اپنے آپ کو رجسٹر کروانے کیلئے یہاں کلک کریں)۔ اس مضمون کا ترجمہ بھی اسی سلسلے میں پیشِ خدمت ہے، جو پیرس کمیون کے عظیم الشان ابھار، المناک زوال اور آج کے انقلابیوں کے لیے اس کے اسباق پر مختصر الفاظ میں روشنی ڈالتا ہے۔)
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پیرس کمیون فرانسیسی محنت کش طبقے کی تاریخ کے سب سے بڑے ابواب میں سے ایک ہے۔ 18 مارچ کی بغاوت اور مئی کے آخر میں ”خون آلود ہفتہ“ کے بیچ پیرس پر مزدوروں کی جمہوری کمیٹیاں حکومت کر رہی تھیں، جنہوں نے سماج کو مکمل طور پر نئی بنیادوں کے اوپر منظم کرنے کی کوشش کی، ایک ایسا سماج جو جبر اور استحصال سے پاک ہو۔ ان واقعات کے اسباق آج بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔
پیرس کمیون سے بیس سال قبل 2 دسمبر 1851ء کو نپولین سوم نے ’کُو‘ کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ شروع میں اس کی حکومت نا قابلِ تسخیر معلوم ہوتی تھی۔ مزدور تنظیموں کو دبا دیا گیا تھا۔ مگر 1860ء کی دہائی کے اواخر تک شاہی حکومت معاشی بڑھوتری میں رکاوٹ، (اٹلی، کریمیا اور میکسیکو میں ہونے والی) جنگ کے اثرات اور مزدور تحریک کے دوبارہ ابھار کی وجہ سے کمزور پڑ چکی تھی۔ صرف ایک نئی جنگ اور فوری فتح کے ذریعے ہی ”نپولین دی لٹل“ کے زوال کو مؤخر کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ جولائی 1870ء میں اس نے بسمارک کے پروشیا کے ساتھ جنگ کا آغاز کر دیا۔
جنگ اور انقلاب
جنگ بسا اوقات انقلاب کے لیے راہ ہموار کر دیتی ہے۔ جنگ لوگوں کو اچانک ان کے روزمرہ کے معمولات سے نکال کر انہیں عظیم تاریخی محرکات کے میدان میں اتار دیتی ہے۔ عوام جنگ کے دوران سربراہانِ مملکت، جرنیلوں اور سیاستدانوں کے رویوں کا امن کے دور کی نسبت زیادہ غور سے جائزہ لے رہے ہوتے ہیں۔ خاص کر شکست پانے کی صورت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بہرحال نپولین سوم کی جانب سے شروع کی گئی جنگ میں اسے جلد ہی شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ 2 ستمبر کو بادشاہ اپنے 75 ہزار فوجیوں سمیت سیدان کے قریب بسمارک کی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ پیرس کے اندر سلطنت کے خاتمے اور جمہوری حکومت کے قیام کے حق میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔
نچلی پرتوں کی جانب سے دباؤ آنے کے بعد ”اعتدال پسند“ جمہوری حزبِ اختلاف نے 4 ستمبر کو جمہوریہ کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اس کو ”قومی دفاعی حکومت“ (گورنمنٹ آف نیشنل ڈیفنس) کا نام دیا گیا۔ بورژوا ریپبلکن اور وزیرِ خارجہ جولز فارف نے فخریہ اعلان کر دیا کہ ہماری زمین کا ایک انچ اور ہمارے قلعوں کا ایک پتھر بھی پروشیا کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
جرمن فوجی دستوں نے فوراً پیرس کو اپنے گھیرے میں لے کر شہر کا محاصرہ کر لیا۔ پہلے پہل تو پیرس کے محنت کش طبقے نے غیر ملکی دشمن کے خلاف ”اتحاد“ کے نام پر نئی حکومت کی حمایت کی۔ مگر اس کے بعد آنے والے واقعات نے اس اتحاد کا قلع قمع کر کے اس کی آڑ میں چھپائے گئے متضاد طبقاتی مفادات کو سطح کے اوپر اچھال دیا۔
در حقیقت قومی دفاعی حکومت کا ماننا تھا کہ پیرس کا دفاع کرنا ممکن تو دور، اس حوالے سے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ با ضابطہ فوج کے علاوہ دو لاکھ افراد پر مشتمل نیشنل گارڈ کی طاقتور ملیشیا نے بھی شہر کے دفاع کے لیے خود کو پیش کر دیا۔ مگر فرانسیسی سرمایہ داروں کیلئے پیرس کے اندر موجود مزدوروں کی مسلح ملیشیا، شہر کا محاصرہ کیے غیر ملکی فوج سے کہیں بڑھ کر خطرناک تھی۔ حکومت نے بسمارک کی فوج کے سامنے جلد سے جلد ہتھیار ڈال دینے کو ہی بہتر سمجھا۔ البتہ نیشنل گارڈ کے لڑاکا مزاج کو مدّ نظر رکھتے ہوئے حکومت اپنے ارادوں کا کھلے عام اعلان نہیں کر پائی۔ قومی دفاعی حکومت کا صدر جنرل تروشو اس امید میں تھا کہ محاصرے سے پڑنے والے معاشی و سماجی اثرات پیرس کے محنت کشوں کی مزاحمت کو آخرکار ختم کر دیں گے۔ حکومت کو مزید وقت درکار تھا؛ خود کو پیرس کے دفاع کے حق میں ظاہر کر کے اس نے بسمارک کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کر دیے۔
ہر گزرتے ہفتے کے ساتھ پیرس کے محنت کش حکومت سے مزید متنفر ہوتے جا رہے تھے۔ بسمارک کے ساتھ مذاکرات کی افواہیں گردش کرنے لگی تھیں۔ میتز شہر میں شکست کھانے کے بعد 8 اکتوبر کو ایک نیا عوامی مظاہرہ منعقد کیا گیا۔ 31 اکتوبر کو نیشنل گارڈ کے متعدد دستوں نے ٹاؤن ہال (حکومتی انتظامیہ کا دفتر) پر حملہ کر کے اسے عارضی طور پر اپنے قبضے میں لے لیا۔ البتہ اس مرحلے پر محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک حکومت کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ مطلوبہ حمایت میسر نہ آنے کی وجہ سے یہ بغاوت جلد ہی ختم ہو گئی۔
پیرس کے محاصرے کے تباہ کن اثرات پڑے۔ اس کا جلد خاتمہ کرنا انتہائی ضروری ہو چکا تھا۔ 19 جنوری 1871ء کو بزینوال گاؤں میں پناہ لینے کا منصوبہ ناکام ہو گیا، جس کے بعد جنرل تروشو کے پاس استعفیٰ دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس کی جگہ وینوئی نے اقتدار سنبھال لیا، جس نے فوراً ہی اعلان کر دیا کہ پروشیا کو شکست دینا اب ممکن نہیں رہا۔ تب یہ بات سب پر واضح ہو گئی کہ حکومت ہتھیار ڈالنا چاہ رہی ہے، جو اس نے 27 جنوری کو ڈال دیے۔
پیرس کے باسی اور کسان
فروری کو ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں کسانوں نے اپنا ووٹ بڑی تعداد میں شاہ پرست اور قدامت پسند امیدواروں کے حق میں ڈال دیا۔ نئی اسمبلی نے ایڈولف ٹیئر کو حکومت کا سربراہ منتخب کر لیا، جو انتہا درجے کا رجعتی شخص تھا۔ پیرس اور ”دیہاتی“ اسمبلی کے بیچ تنازعہ ابھرنا نا گزیر تھا۔ ردّ انقلاب کے خطرے نے اپنا سر اٹھا لیا تھا مگر وہ پیرس کے انقلاب کے لیے عمل انگیز ثابت ہوا۔ نیشنل گارڈ کے مسلح مظاہرے تعداد میں بڑھنے لگ گئے، جن کو آبادی کی غریب ترین پرتوں کی بڑی حمایت حاصل تھی۔ مسلح محنت کشوں نے ٹیئر اور شاہ پرستوں کو غدار قرار دے کر تمام لوگوں سے جمہوریہ کے دفاع کے لیے جنگی میدان میں اترنے کی اپیل کر دی۔
نیشنل اسمبلی تسلسل سے پیرس کے لوگوں کو اشتعال دلا رہی تھی۔ محاصرے کے نتیجے میں کئی محنت کش اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے؛ وہ محض نیشنل گارڈ کو دیے جانے والے معاوضے کی بدولت فاقہ کشی سے بچے ہوئے تھے۔ مگر حکومت نے ان تمام گارڈز کا وظیفہ ختم کر دینے کا فیصلہ کیا جو یہ ثابت نہ کر سکے کہ وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اس نے کرائے کے بقایا جات کو ادا کرنے کا حکم بھی جاری کیا اور تمام قرضوں کو 48 گھنٹوں کے اندر واپس کرنے کا قانون رائج کیا۔ ان سمیت دیگر اقدامات کے غریب ترین افراد پر برے اثرات مرتب ہوئے، مگر اس کی وجہ سے درمیانے طبقے کے خیالات میں انقلابی تبدیلیاں بھی آئیں۔
حکومت کے بسمارک کے سامنے ہتھیار ڈال دینے اور بادشاہت کی بحالی کے خطرے سے نیشنل گارڈ میں بھی تبدیلی آ گئی۔ ”نیشنل گارڈ فیڈریشن کی مرکزی کمیٹی“ کا انتخاب کیا گیا، جو 2 ہزار توپوں اور 4 لاکھ 50 ہزار رائفلوں سے لیس 215 بٹالین کی نمائندگی کر رہی تھی۔ نئے قوانین اپنائے گئے، جس میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ ”نیشنل گارڈ کو اپنے قائدین منتخب کرنے کا پورا حق ہے اور جیسے ہی وہ ان کے اوپر اعتماد کھونے لگیں تو ان کو برطرف بھی کر سکتے ہیں۔“ یہ مرکزی کمیٹی اور بٹالین کی سطح پر موجود اس سے منسلک ڈھانچے بالکل اسی طرز کے تھے جس طرح بعد میں روس کے اندر 1905ء اور 1917ء کے انقلابات میں محنت کشوں اور سپاہیوں کی سوویتیں بنائی گئی تھیں۔
نیشنل گارڈ کی نئی قیادت کو اپنے اختیارات آزمانے کا موقع جلد ہی میسر آ گیا۔ جب پروشیا کی فوج پیرس میں داخل ہونے کی تیاری کر رہی تھی، پیرس کے اندر ہزاروں کی تعداد میں مسلح لوگ حملہ آوروں پر دھاوا بولنے کے ارادے سے اکٹھے ہو گئے۔ مرکزی کمیٹی نے مداخلت کرتے ہوئے اس جنگ کو روک دیا جس کے لیے وہ ابھی تیار نہیں تھی۔ اس معاملے پر اپنی رائے مسلط کرتے ہوئے مرکزی کمیٹی نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اس کے فیصلہ جات کو نیشنل گارڈ اور پیرس کے باشندوں کی اکثریت تسلیم کرتی ہے۔ پروشیا کی فوج نے دو دن تک شہر کے ایک حصّے پر قبضہ جمائے رکھا مگر پھر وہ واپس لوٹ گئی۔
18 مارچ
اسمبلی کے ”دیہاتی لوگوں“ کے ساتھ ٹیئر نے بادشاہت کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ مگر اس کا فوری فریضہ پیرس کے اندر ”دوہری طاقت“ والی صورتحال کا خاتمہ کرنا تھا۔ نیشنل گارڈ کے قبضے میں موجود اسلحہ، خاص کر مونٹ مارٹرے کے پہاڑ کی اونچائیوں پر، سرمایہ دارانہ ”نظم و ضبط“ کے لیے خطرے کا باعث تھا۔ 18 مارچ کو رات تین بجے جنرل لیکومٹے کی قیادت میں 20 ہزار فوجیوں اور پولیس والوں کو اسلحہ اپنے قبضے میں لینے کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ اس کارروائی میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ البتہ اسلحے کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے درکار گاڑیوں کے انتظامات کے بارے میں افسران نے پہلے سے نہیں سوچا تھا۔ اس حوالے سے ان کی معاونت کے لیے روانہ ہونے والے ساتھی صبح سات بجے تک بھی نہیں پہنچے۔ اپنی کتاب ”کمیون کی تاریخ“ (ہیسٹوئر دی لا کمیون) میں لیپیل یٹیئر اس واقعے کو یوں بیان کرتا ہے:
”خطرے کی گھنٹی بجنے کے فوراً بعد ہم نے کلیگنن کورٹ روڈ کے اوپر ڈھول بجنے کی آوازیں سنیں جو مارچ کرنے کی دھن بجا رہے تھے۔ اس کے بعد ماحول فوری طور پر ایسا بدل گیا جیسا تھیٹر میں بدلتا ہے؛ پہاڑ کو جانے والے سارے رستے آگے بڑھتے ہجوم سے بھر گئے۔ خواتین اکثریت میں موجود تھیں؛ بچے بھی شامل تھے۔ مسلح نیشنل گارڈز ایک ایک کر کے باہر آ نکل آئے اور ہم شاٹاؤ روژ کی جانب روانہ ہوئے۔“
سپاہیوں کو بڑھتے ہوئے ہجوم نے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ ضلع کے باشندے، نیشنل گارڈز اور لیکومٹے کے آدمی بہت بڑی تعداد میں ایک جگہ پر اکٹھے ہو گئے تھے۔ بعض سپاہی کھلے عام گارڈز کے ساتھ دوستیاں بنا رہے تھے۔ لیکومٹے نے حالات کو دوبارہ سے قابو میں لینے کی بیتاب کوشش کرتے ہوئے اپنے آدمیوں کو ہجوم کے اوپر گولیاں چلانے کا حکم دے دیا۔ کسی نے بھی گولی نہیں چلائی۔ اس کے بعد سپاہیوں اور نیشنل گارڈز نے خوشی کے نعرے لگائے اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔ لیکومٹے اور کلیمنٹ تھامس کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ غصّے سے بھرے سپاہیوں نے تھوڑی دیر بعد ان کو سزائے موت دے دی۔ کلیمنٹ تھامس جون 1848ء کے اندر باغی محنت کشوں پر گولیاں چلانے کے حوالے سے مشہور تھا۔
ٹیئر اپنی فوج سے یہ توقع نہیں کر رہا تھا۔ وہ خوف و ہراس کے عالم میں پیرس سے فرار ہو گیا۔ اس نے فوج اور انتظامیہ کو شہر اور آس پاس موجود قلعوں سے انخلاء کا حکم دیا۔ وہ فوج کو انقلابی ”وباء“ سے دور رکھنا چاہ رہا تھا۔ بعض سپاہی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ویرسائی کی جانب واپس چلے گئے، جن میں سے کچھ کھلے عام سرکشی کرتے ہوئے انقلابی نعرہ بازی کر رہے تھے۔
پیرس کے اندر پرانی ریاستی مشینری ڈھیر ہو جانے کے بعد نیشنل گارڈ نے مزاحمت کا سامنا کیے بغیر شہر کے تمام اہم مقامات کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ مرکزی کمیٹی نے ان واقعات میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود 18 مارچ کی شام اسے پتہ چلا کہ مسلح نیشنل گارڈ کی بنیاد پر قائم نئی انقلابی حکومت کا اقتدار اس کے ہاتھوں میں آ گیا ہے۔
مرکزی کمیٹی کا تذبذب
مرکزی کمیٹی کی اکثریت نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ خود کو اقتدار سے دستبردار کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس آخر حکمرانی کے لیے ”قانونی اختیار“ نہیں ہے! لمبے بحث مباحثوں کے بعد مرکزی کمیٹی متذبذب انداز میں یہ ماننے پر مجبور ہوئی کہ وہ ٹاؤن ہال میں ”کچھ دنوں“ کے لیے رہے گی اور اس دوران بلدیاتی (کمیونل) انتخابات منعقد کروائے جائیں گے۔
مرکزی کمیٹی کو جس فوری مسئلے کا سامنا تھا، وہ ٹیئر کی قیادت میں ویرسائی کی جانب پیش قدمی کرتی ہوئی فوج تھی۔ یوڈیس اور ڈووال نے تجویز دی کہ نیشنل گارڈ کو فوراً ویرسائی کی جانب بڑھنا چاہیئے تاکہ وہاں پر موجود ٹیئر کی بچی کھچی فوج کا صفایا کیا جا سکے۔ مگر ان کی نہیں سنی گئی۔ مرکزی کمیٹی کی اکثریت کا ماننا تھا کہ ہمیں خود کو ”جارحیت پسند“ نہیں ظاہر کرنا چاہیئے۔ مرکزی کمیٹی کی اکثریت ایماندار افراد پر مشتمل تھی مگر وہ بہت معتدل تھے، بہت ہی زیادہ اعتدال پسند۔
مرکزی کمیٹی کی توانائی بلدیاتی انتخابات کی تاریخ اور طریقہ کار کے بارے میں لمبے مباحث پر خرچ ہو رہی تھی۔ آخرکار 26 مارچ کو انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ٹیئر نے اس قیمتی وقت کا فائدہ اٹھایا۔ بسمارک کی مدد طلب کرنے کے بعد ویرسائی میں موجود اس کی فوج کی امداد کے لیے بڑے پیمانے پر فوجی دستے اور اسلحہ پہنچ گیا، جن کا مقصد پیرس پر چڑھائی کرنا تھا۔
الیکشن کی رات نیشنل گارڈ کی مرکزی کمیٹی نے ایک یادگار بیانیہ جاری کیا، جس سے آنے والی نئی حکومت کی قربانی کے جذبے اور صداقت کا اظہار ہوتا ہے:
”ہمارا کام ختم ہوا۔ ہم ٹاؤن ہال میں اپنی جگہ آپ کے نئے منتخب شدہ نمائندگان کو دے رہے ہیں، آپ کے با قاعدہ نمائندگان کو۔“
مرکزی کمیٹی نے ووٹ ڈالنے والوں کو محض ایک ہدایت دی:
”اس حقیقت کو مت بھولیے گا کہ آپ کی خدمت گزاری پر مامور افراد کو آپ اپنے درمیان سے منتخب کریں گے، جو آپ جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور جن کو آپ والے مسائل کا سامنا ہے۔ مفاد پرستوں اور اپنے عہدے پر غرور کرنے والوں سے خبردار رہیں۔ (۔۔۔)ان بیان بازی کرنے والوں سے خبردار رہیں جو عملی کام کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ (۔۔۔)“
بلدیہ کا پروگرام
نئی منتخب شدہ کمیون نے انقلابی پیرس کی سرکاری حکومت کے طور پر نیشنل گارڈ کے اقتدار کی جگہ لے لی۔ اس کے اکثریتی 90 ممبران کو ”بائیں بازو کے ریپبلکن“ کہا جا سکتا ہے۔ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ورکرز (جن کی قیادت کارل مارکس سمیت دیگر کر رہے تھے) اور بلانکی اسٹ (جو توانائی سے بھرپور مگر سیاسی الجھن کا شکار تھے) کے لڑاکا کارکنان کمیون کے ایک چوتھائی ممبران کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اقلیت میں منتخب ہونے والے دائیں بازو کے کچھ افراد مختلف موقعوں پر استعفیٰ دے کر اپنے عہدوں سے دستبردار ہو گئے۔
کمیون کے تحت سرکاری افسران کی تمام مراعات کو ختم کر دیا گیا۔ خاص کر یہ طے پایا کہ ان کی اجرت ایک ہنر مند محنت کش کی اجرت سے زیادہ نہیں ہونی چاہیئے۔ ان کو کسی بھی وقت عہدے سے برطرف کرنا بھی ممکن تھا۔
کرائے کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ترک کیے گئے کارخانوں کو مزدوروں کے اختیار میں دیا گیا۔ کام کے اوقاتِ کار کو محدود کرنے اور غرباء اور بیماروں کے لیے وظیفہ مقرر کرنے کے اقدامات اٹھائے گئے۔ کمیون نے اعلان کیا کہ ”سرمایہ داروں کے مفادات کی خاطر مزدوروں کے بیچ پُر انتشار اور تباہ کن مقابلہ بازی کا خاتمہ ہوگا۔“ فوجی فرائض نبھانے کے قابل سارے لوگوں کو نیشنل گارڈ میں شمولیت اختیار کرنے کی اجازت تھی، جو سخت جمہوری اصولوں پر کار بند تھی۔ ”لوگوں سے کٹے ہوئے“ افواج کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔
چرچ کو ریاست سے الگ کر کے مذہب کو ”ذاتی معاملہ“ قرار دیا گیا۔ بے گھر افراد کے لیے عوامی عمارتوں میں انتظام کیا گیا، سب کو مفت تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی، نیز ثقافتی تعلیمات کا اہتمام بھی کیا گیا۔ غیر ملکی محنت کشوں کو ”عالمی جمہوریہ“ کی جدوجہد کے اتحادیوں کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ دن رات مختلف اجلاس منعقد کیے جانے لگے، جن میں ہزاروں کی تعداد میں عام مرد و خواتین سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو ”مشترکہ مفاد“ کی خاطر منظم کرنے کے حوالے سے بات چیت کرتے تھے۔ پیرس میں جو نیا سماج تعمیر ہو رہا تھا، وہ بالکل سوشلسٹ خصوصیات کا حامل تھا۔
شکست
یہ سچ ہے کہ کمیونارڈز سے کئی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ مارکس اور اینگلز نے ان پر بجا تنقید کی کہ انہوں نے فرانس کے مرکزی بینک کو اپنے قبضے میں نہیں لیا، جو ٹیئر کو لاکھوں فرانکس ادا کر رہا تھا، جس کی مدد سے اس نے اپنی افواج کو مسلح اور منظم کیا۔
اسی طرح ویرسائی میں موجود خطرے کو کمیون نے زیادہ توجہ نہیں دی، جس نے یہ کہ نہ صرف حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی (کم از کم اپریل کے پہلے ہفتے تک)، بلکہ دفاع کے لیے بھی سنجیدہ تیاری نہیں کی۔ 2 اپریل کو کمیونارڈ کے کوربیوئی جانے والے دستے پر حملہ کر کے انہیں پیرس واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔ ٹیئرز کی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے قیدیوں کو سزائے موت دے دی گئی۔ اگلے دن نیشنل گارڈ کے دباؤ میں آ کر کمیون نے ویرسائی پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر کمیونارڈ کے بٹالین جوش و خروش سے سرشار ہونے کے باوجود فوجی اور سیاسی طور پر تیار نہیں تھے، جس کی وجہ سے یہ حملہ ناکام ہو گیا۔ کمیون کے قائدین کا خیال تھا کہ 18 مارچ کی طرح نیشنل گارڈ کو دیکھتے ہی ویرسائی میں موجود فوج کمیون کے ساتھ مل جائے گی۔ ایسا نہیں ہوا۔
اس دھچکے کے بعد پیرس کے اوپر شکستوں کی ایک لہر چھا گئی۔ پہلے ہفتوں کے دوران شدید رجائیت پسندی میں مبتلا ہونے کے بعد ناگزیر ناکامیوں سے دوچار ہونا پڑ گیا، جس کے نتیجے میں فوج کے اندر ٹھوٹ پھوٹ بھی شروع ہو گئی۔ آخرکار ویرسائی کی فوج 21 مئی کو پیرس میں داخل ہو گئی۔ ٹاؤن ہال کے اندر کمیون فیصلہ کن لمحات کے دوران کوئی کارگر فوجی حکمتِ عملی اپنانے سے قاصر تھی۔ اس کا وجود دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گیا اور اس نے اپنے سارے اختیارات نا اہل کمیٹی آف پبلک سیفٹی کے سپرد کر دیے۔
نیشنل گارڈز کے مرکزی اقتدار کو ختم کر کے انہیں اپنے مقامات پر بھیج دیا گیا۔ اس فیصلے کے ذریعے کمیونل افواج کو ویرسائی کے دستوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے ایک جگہ پر جمع ہونے سے روک دیا گیا۔ کمیونارڈز بے پناہ جرأت کے ساتھ لڑتے رہے مگر انہیں بتدریج شہر کے مشرقی علاقے میں دھکیلا گیا اور آخرکار 28 مئی کو انہیں شکست دے دی گئی۔ مزاحمت کرنے والے آخری کمیونارڈز کو بیسویں ایرونڈیسیمنٹ (انتظامی ضلع) میں موجود ”فیڈریٹڈ وال“ کے قریب مارا گیا، جس کو آج بھی پیرے لاشائز قبرستان میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ”خون آلود ہفتہ“ کے دوران ٹیئرز کی افواج نے کم از کم 30 ہزار آدمیوں، خواتین اور بچوں کا قتلِ عام کیا، جنہوں نے کچھ ہفتے بعد 20 ہزار مزید ہلاکتوں کا دعویٰ کیا۔
مزدور ریاست
پیرس کمیون تاریخ کی پہلی مزدور ریاست تھی۔ مارکس اپنی کتاب ”فرانس میں خانہ جنگی“ میں وضاحت کرتا ہے کہ کمیون نے ثابت کیا کہ؛ محنت کشوں کو ”موجودہ ریاستی مشینری پر قبضہ کر کے اسے اپنے طور پر استعمال کرتے ہوئے مطمئن نہیں ہونا چاہیئے۔ سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ طبقاتی تسلط کے اس اوزار کو تباہ کر دیا جائے۔“ بلاشبہ کمیونارڈز نے پیرس کے اندر سرمایہ دارانہ ریاست کے کھنڈرات کے اوپر ایک نئی مزدور ریاست تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس عمل میں انہوں نے مزدور ریاست کی بنیادی خصوصیات کو لاگو کیا؛ افسر شاہی کا خاتمہ، عوام سے لا تعلق فوج کا خاتمہ، مراعات یافتہ افسران کا خاتمہ، تمام افسران کا جمہوری انتخاب اور انہیں برطرف کرنے کا حق، وغیرہ۔
کمیونارڈز کو اپنا اقتدار مستحکم کرنے کا وقت میسر نہیں آیا۔ فرانس کا ایک بڑا حصّہ تب کسانوں پر مشتمل تھا، جس میں تنہا رہ جانا ان کے لیے مہلک تھا۔ آج اس کے برعکس سماج میں موجود لوگوں کی اکثریت اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔ انیسویں صدی کی نسبت آج سوشلسٹ انقلاب کی معاشی بنیادیں کہیں زیادہ تیار ہیں۔ چنانچہ یہ ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ اس سوشلسٹ، آزاد اور جمہوری سماج کا قیام عمل میں لائیں، جس کی خاطر کمیونارڈز لڑے تھے اور جانیں دی تھیں۔