[تحریر: پارس جان]
عمران خان نے اپنے 14 اگست کے مارچ کا مقصد ’’آزادی‘‘ کا حصول قرار دیا ہے۔ گویا دائیں بازو کے اس ’’محب الوطن‘‘ سیاست دان نے بالواسطہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ اس ملک کو ابھی تک آزادی نصیب ہی نہیں ہوئی۔
سنا ہے کہ انسانی تہذیب کے اس کھنڈر اور بے مثال ثقافت کے اس ملبے جسے عام طور پر پاکستان کہا جاتا ہے، میں پھر نام نہاد آزادی کا دن منانے کی مکروہ بے حسی کا تماشا لگنے والا ہے۔ کچھ دل سوختہ سادہ لوح یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اس مقدس دن کو ان 27 لاکھ معصوم انسانوں کی برسی کا سوگ کیوں نہیں منایا جاتا جن کو محض اللہ یا بھگوان پر مشکوک طور پر ایمان رکھنے کے جرم کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ ان بے گناہ معصوم عصمتوں کے لٹنے کا ماتم کون کرے گا جن کی چیخیں آج بھی تاریخ کے گنبد میں گونج رہی ہیں۔ ایک نئے جیون کے آغا ز کی امیدا ور آنکھوں میں چمکنے والے نئے خواب کے جھانسے نے ایک نسل کو تو ان زخموں کو فراموش کر دینے کی اخلاقی جرات عطا کردی تھی یا کم از کم بلکتے ہوئے ارمانوں کو مصنوعی مسکراہٹوں کے تلے دبائے رکھنا ممکن بنا دیاتھا مگر اب اس خود فریبی کے ساتویں عشرے کے اختتام کے قریب آتے وقت چمکتے ہوئے خوابوں نے آنکھوں کو جھلسا کے رکھ دیا ہے۔ خواب تو درکنار لوگ اپنے سامنے کا کوئی منظر دیکھنے کی جسارت بھی نہیں کر سکتے۔ بارود سے بھری فضا میں قومی ترانوں کا سرکاری شور شرابہ بھی کسی بھوکے اور بیمار کی بے قابو آہ و بکا کی طرح ہی سنائی دیتا ہے۔ زندگی اور حرارت سے محروم جسم کس قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ ملی نغموں کی نہیں نوحوں اور مرثیوں کی سرزمین بن چکی ہے۔ یہ ’چاند زمیں‘ کب کی گہنا چکی۔ یہ ’پھول وطن‘ کھلنے سے قبل ہی کب کا مرجھا چکا۔ اس کی مٹی میں لعل ناپید ہیں اور بم بارود کاشت کیے جاتے ہیں۔ شیروانیوں میں ملبوس حکمران ہراساں مسکراہٹوں کے باوجود لیڈر وں سے زیادہ جلاد دکھائی دیتے ہیں۔ بھوک، بیماری اور غذائی قلت کے ساتھ ساتھ بد امنی، ٹارگٹ کلنگ، جعلی آپریشنوں، دہشت گردی، فرقہ واریت اور ڈرون حملوں میں بغیر کسی جرم کے اپنے عزیزوں کی لاشیں اٹھانے والے اور ششدر نگاہوں اور پشیمان دھڑکنوں سے ٹی وی سکرینوں پر مناظر دیکھنے والے بھی اگر پاکستانی ہونے پر فخر کرنے کے مغالطے میں مبتلا ہو جائیں تو اسے کربناک نفسیاتی بیماری کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
تاریخ کے بہت سے طالبِ علموں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بٹوارے کے وقت جو کچھ ہوا اس المیے کو دیکھے اور اس میں سے گزرے بغیر اس اذیت کو محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ حکمران اپنی رعایا کو چند سالوں کے وقفوں کے بعد بار بار اس انسانی المیے کو محسوس کرنے کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ وزیرستان سے ہجرت کرنے والے کسمپرسی کی حالت میں بنوں یا ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے والے ہزاروں گھرانوں کی حالتِ زار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم گزشتہ 68 سال سے ایک ہی چوراہے پر کھڑے ہیں۔ سیلاب، زلزلوں اور آپریشنوں میں بے گھری اور جلا وطنی کاٹنے والے لاکھوں نفوس کے لیے بھلا آزادی کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے۔ دس لاکھ سے زائد لوگ اس وقت بھی خیرات کے منتظر ہیں۔ ہاں ’مخیر‘ خواتین و حضرات کو سرِ عام اپنی سخاوت اور دریا دلی کا تماشا کرکے آقائیت اور برتری کا تفاخر بٹورنے کی بھر پور آزادی حاصل ہے اور کردار کی اس عظمت کے طفیل وہ مزید ’مخیر‘ ہونے کے لیے اس ’وطنِ عزیز‘ کے تمام تر ذرائع بغیر کسی قانونی اور اخلاقی قدغن کے استعمال کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہیں۔
لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ ان مخیر صاحبان کے لیے صرف سیلابوں، زلزلوں یا آپریشنوں میں ہی دادطلبی کے محدود مواقع دستیاب ہیں بلکہ یہاں بے یارو مددگار لوگوں کا انبوہِ بے پناہ ہر شاہراہ اور ہر کونے کھدرے میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان این جی اوز کے لیے بہترین تجربہ گاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہاں بیچنے کے لیے بھوک، بیروزگاری، جنسی استحصال، جہالت، بیماری اور لاعلاجی سمیت ہر طرح کی اجناس کی فراوانی ہے۔ سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر کی حالتِ زار سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہو چلا ہے کہ اس دشت میں واقعی کبھی کوئی شہر بھی ہوا کرتا تھا۔ مملکتِ خداداد میں ابھی حال ہی میں تھر کے علاقے میں 700 (سرکاری اعدادوشمار)سے زائد انسان بھوک کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ 3 کروڑ 90 لاکھ سے زائد انسانوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ نام نہاد آزادی کے وقت 5000 کیوبک فی کس پانی میسر تھا۔ آج 2014ء میں یہ کم ہو کر صرف 1500 کیوبک فی کس رہ گیا ہے۔ 8 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو 24 گھنٹوں میں بمشکل ایک دفعہ کھانا نصیب ہوتا ہے۔ 4 کروڑ سے زائد لوگوں کو بیت الخلا کی بنیادی ضرورت کے لیے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کو کھلے آسمان اور اس مقدس دھرتی سے فیضیاب ہونے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ ۔ ۔ !
62 فیصد سے زائد دیہی آبادی کو بنیادی ضروریات کے لیے ایڑیاں رگڑنی پڑتی ہیں۔ صرف سینی ٹیشن کی خستہ حالت کی وجہ سے ملک کو سالانہ 5.7 ارب امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ 5 سال سے کم عمر کے ہر 1000 بچوں میں سے 99 زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ سالانہ 5 لاکھ کے لگ بھگ خواتین زچگی کے دوران مر جاتی ہیں۔ 80 فیصد سے زائد آبادی غیر سائنسی علاج کراتی ہے۔ ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہیں۔ تعلیم کے شعبے کی حالت اس سے بھی زیادہ دگر گوں ہے۔ تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے پاکستان221 ممالک میں سے 180 ویں نمبر پر ہے۔ 40 فیصد سے زائد بچے سکول ہی نہیں جا سکتے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق صرف 3 فیصد ہی کالج تک پہنچ پاتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک فیصد گریجوایشن کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں HEC کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی ایک یونیورسٹی بھی شامل نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکمران انتہائی ڈھٹائی سے یہ واویلا کرنے پر مصر ہیں کہ ’ہم زندہ قوم ہیں‘ اور ترقی کی طرف سفر تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔
حقیقی صورتحال تو یہ ہے کہ زندہ ہونا تو کجا ہم ابھی ایک قوم بھی نہیں ہیں۔ یہ آزادی جس کا آج ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے وہ برطانوی سامراج کے ساتھ کسی قومی جمہوری جدوجہد میں برسرِ پیکار ہو کر حاصل نہیں کی گئی تھی بلکہ ان کی خوشامد اور خیرات کے ذریعے ملی تھی اس لیے قومی تشخص یا وحدت کے برعکس وقتی جھانسوں اور مفادات کے ذریعے مختلف قومیتوں پر مبنی ایک مصنوعی وفاق تشکیل دیا گیا جس میں معاشی ناہمواری اور انحصار کی وجہ سے قومی احساسِ محرومی کم ہونے کی بجائے وقتاً فوقتاً مسلسل بڑھتا ہی رہا اور آج صورتحال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ نظریۂ پاکستان نامی مفروضے کے لیے تاریخ کے عجائب گھر میں بھی کوئی مرتبان خالی نہیں ہے۔ خود حکمران طبقے کے تمام سنجیدہ تجزیہ نگار اور ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے وظیفہ خوار دانشور بھی ملکی سالمیت کے حوالے سے نہ صرف خود تشویش میں مبتلا ہیں بلکہ باقی لوگوں پر بھی اسی پژمردہ یاسیت کو مسلط کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس ملک اور اس طرح کی دیگر نو آبادیاتی ریاستوں کی سالمیت کا تعلق خود سامراجی قوتوں کی معاشی پالیسیوں اور سٹریٹیجک حکمتِ عملی کے مرہونِ منت رہا ہے۔
پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد Neo colonialism (نونوآبادیاتی) نظام کو متعارف کروانا سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے معاشی اور سیاسی ارتقا کا ناگزیر مرحلہ تھا۔ یہ لولی لنگڑی آزادیاں محنت کش طبقے کی تحریک کے خوف کے ساتھ ساتھ اسی سامراجی پالیسی کا نتیجہ تھیں تاکہ براہِ راست فوجی قبضے کے ذریعے مہنگی لوٹ مار کے برعکس مقامی گماشتہ حکمرانوں کی خدمات حاصل کی جائیں اور لاگت کو کم سے کم کر کے لوٹ مار کی شرح میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکے۔ سامراجیوں نے 200 سال کے براہِ راست قبضے سے اتنا مال نہیں بٹورا تھا جتنا گزشتہ 67 سالوں کی اس خیراتی آزادی کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔ اس کی سب سے بہترین اور حالیہ مثال IPPs سے لی جا سکتی ہے جو 20 سال کے اندر محض 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے بدلے 35 ارب ڈالر سے زائد کا سرمایہ بیرونی بینکوں میں منتقل کر چکی ہیں جبکہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ جوں کا توں ہے بلکہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اسی طرح معدنیات اور کارپوریٹ فارمنگ کے شعبے میں علاقائی اور عالمی قوتوں کی لوٹ مار کی شرح دنیا میں شاید سب سے زیادہ ہے۔ اور یہی نہیں کہ اس لوٹ مار کے ذریعے ملکی وسائل کا ضیاع معمول بن چکا ہے بلکہ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اس لوٹ مار میں ملوث مختلف سامراجی قوتوں کی آپسی لڑائیوں اور تضادات کی وجہ سے خانہ جنگیاں اور انتشار ملکی سیاست کا معمول بنتا جا رہا ہے جس میں بے گناہ اور معصوم ہزاروں لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ یہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت ہے کہ ہر چیز کی کوئی قیمت ضرور ادا کرنی ہوتی ہے۔ یہ انتشار، بھوک، بیماری، قتل و غارت اور اذیتیں سب اس آزادی کے دام ہی تو ہیں جو اب تیسری کے بعد چوتھی نسل کو بھی چکانے پڑ رہے ہیں۔
صنعتی انقلاب کی مہمیز کے بغیر ہی جنم لینے والی قومی ریاست محض ایک بازاری خواجہ سرا کی سی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے حکمران طبقے کا کردار بھی سامراجی آقاؤں اور اداروں کی بھڑوت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی حکمران طبقہ بھی تاریخی نااہلی اور تاخیرزدگی کی وجہ سے قومی ریاست کی تشکیل کا کوئی بھی فریضہ پورا کرنے سے قاصر تھا۔ شروع شروع میں جب کسی حد تک انفراسٹرکچر کو سامراجی امداد کے بل بو تے پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی تو اس ترقی کی ناہمواریت کی وجہ سے محنت کش طبقے نے اس ابھرتی ہوئی گماشتہ بورژوازی کی اطاعت کرنے کی بجائے اپنی راہیں خود متعین کرنے کی سعی شروع کر دی۔ محنت کش طبقے کی اس انگڑائی سے خوفزدہ ہو کر حکمران طبقہ پہلے سے بھی زیادہ رجعتی، بدعنوان، بے ضمیر اور بدحواس ہو گیا اور سامراجی غلامی کی تمام حدودسے تجاوز کرتا چلا گیا۔ اور داخلی طور پر بھی خود اپنی ہی ریاستی مشینری پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنے پر مجبور ہوتا چلا گیا۔ وہ ملاں اشرافیہ جس کو کمزور کر کے ایک سیکولر ریاست کا قیام عمل میں لایا جانا کم از کم ایک مفروضہ ضرور تھا اسے سانجھے دار بنا کر ریاست کے اندر ’نیم ریاستیت‘ کی بنیاد رکھ چھوڑی گئی جوآج بوکھلاتی ہوئی اس ریاست کے بنیادی ستون کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
جاگیر دار جو تاریخی طور پر ابھرتی ہوئی بورژوازی کے رقیب ہوا کرتے تھے انہیں بہترین حبیب اور رفیق کا درجہ دے دیا گیا۔ پارلیمان کو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مشترکہ باورچی خانے کے طور پر پروان چڑھایا گیا۔ یوں ریاست کے مکمل طور پر عدم توازن اور ہیجان کی وجہ سے ابھرنے والے ثالث کے خلا کو پر کرنے کے لیے ریاستی مشینری اس حد تک متحرک ہوئی کہ وہ سیاست اور معیشت کی نکیل کو کافی حد تک سنبھالنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس بہتی گنگا میں یوں تو عدلیہ، سول بیوروکریسی سمیت تمام ریاستی اداروں نے ہاتھ دھوئے مگر جو اشنان ’پاک‘ فوج اور اس کی معاون ریاستی ایجنسیاں کرنے میں کامیاب ہوئیں اس کی جدید تاریخ میں شاید ہی کہیں اور کوئی مثال دی جا سکے۔ یوں اس بے ہنگم انتشار نے ایک نئے نظم و ضبط کو جنم دیا اور یہ نیا نظم و ضبط سامراجی نمائندوں، مقامی سرمایہ داروں، رجعتی جاگیرداروں، پروردہ ملاؤں، بدعنوان فوجی جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹوں اور سیاستدانوں کے ایک بدکار ملغوبے (Evil Nexus) پر مشتمل تھا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں اس ملغوبے میں بہت سے میڈیا مالکان کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اسی بدکردار حکمران اشرافیہ کو مظلوم طبقات اور قومیتوں کے اس جیل خانے میں صحیح معنوں میں ’پاکستانی‘ کہا جا سکتا ہے۔ سرکاری نصابوں، اخلاقیات، قوانین اور میڈیا کے پرچار کے ذریعے جسے قومی سلامتی کہا جاتا ہے وہ دراصل انہی کی سلامتی تو ہوتی ہے۔ مبلغین و ناصحین ہمہ وقت عوام کوجس ’ملکی ترقی‘ کے لیے دن رات محنت کرنے کا درس دے رہے ہوتے ہیں وہ بھی در حقیقت انہی بدکاروں کی ترقی ہی تو ہوتی ہے۔ اور جب ملک ’خطرناک دور‘ سے گزر رہا ہوتا ہے تو اسی بدکردار ملغوبے کے لیے قربانیاں دینے کی تلقین کی جا رہی ہوتی ہے۔ اس ثقافتی طور پر پسماندہ حکمران طبقے نے جذبہ حب الوطنی کو بھی باقی تمام جذبوں اور انسانی آدرشوں کی طرح سیاست کے نیلام گھر میں رکھ چھوڑا ہے۔
حکمران طبقے کے اس ملغوبے کے یک جنس(Homogenious) نہ ہونے کی وجہ سے اور نظام میں مزید رتی بھر ترقی دے سکنے کی نا اہلیت کے باعث ان کے درمیان بھی شدید تضادات موجود ہیں۔ یہ تضادات مختلف ریاستی اداروں کے درمیان اور پھر ریاستی اداروں کے اندر شخصی اور گروہی چپقلشوں کی شکل میں منعکس ہوتے رہتے ہیں۔ آجکل یہ کھینچا تانی عروج پر ہے اور ’گنگا نہائی‘ فوج اس کی روحِ رواں بنی ہوئی ہے۔ جوں جوں معیشت کے زوال کے باعث عوامی لاوے کی حدت کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے تو طاقت کے ایوانوں میں یہ رسہ کشی بھی شدت اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ نظام کو برقرار اور مستحکم رکھنا تمام متحارب اداروں اور اشخاص کے مفاد میں ہوتا ہے۔ اس لیے پھر ملکی بقا اور قومی سلامتی کی نئی فلم ریلیز کی جاتی ہے۔ بڑے بڑے اور تازہ دم سیاسی کارٹونوں اور مداریوں کو سٹیج پر اتارا جاتا ہے۔ جمہوریت کے چیمپئین سرگرمِ عمل ہو جاتے ہیں۔ بکاؤ تجزیہ نگاروں کو ان تھک خوشامد کا فریضہ سونپ دیا جاتا ہے۔ بد شکل اور بے سرے گلوکاروں سے نام نہاد وطن کے لیے گانے گوا کر طبقاتی شعور کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لوگوں کو بے گھر کر کے پھر ’مخیر‘ حضرات کی عظمت کے گن گائے جاتے ہیں۔ سوموٹو ز کے ایک تسلسل کے ذریعے عدلیہ کے تقدس کو مسلط کیا جاتا ہے۔ اپنے ہی پروردہ دہشت گردوں یعنی ’B‘ ٹیموں کے خلاف مصنوعی آپریشنوں میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے چند باوردی مزدوروں کو قتل کروا کر فوج کو قومی ہیرو ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر یا اس ٹوپی ڈرامے کے قدرے بے قابو ہو جانے کے باعث سرمائے کی دیوی کو خوش کرنے کے لیے حکمران طبقے کے کسی فرد کی بھی بلی چڑھانی پڑ جاتی ہے۔ بعض اوقات اس کھیل میں حکومتی اور ریاستی ذمہ داریوں پر براجمان چہروں کی تبدیلیاں بھی ناگزیر ہو جاتی ہیں۔
جہاں فصیل و در کی بنیادوں میں بھونچال بسیرا کر لیں اس مکان کو گھر کیسے کہاجا سکتا ہے۔ جہاں آفات اور عذاب زمین سے اگتے اور آسمان سے برستے ہوں اسے وطن کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ یہ مٹی زرخیز نہیں ہے یا اب کچھ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ فلک بوس پہاڑوں، مسحور کن وادیوں، زرخیز کھلیانوں، پر کشش میدانوں، بیش قیمت معدنیات اور وسائل سے مالا مال اس جنت نظیر خطہ ارضی کو آج بھی حقیقی جنت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی حالیہ تباہی کا ذمہ دار یہ انسان کش بے رحم سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام ہے۔ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔ اگر ان تمام وسائل کو اجتماعی ملکیت میں لے کر، کالے دھن کا قلع قمع کر کے، منصوبہ بند معیشت کے تحت منتظم کیا جائے تو ایک خوشحال انسانی معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ لیکن آج یہ نظام صرف اس ملک کے باسیوں کو ہی نہیں بلکہ اس سارے سیارے کے محنت کشوں اور غریبوں کو غربت اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلتا چلا جا رہا ہے۔ اس ملک، خطہ ارضی اور جغرافیے کے مظلوم عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا بھر کے مظلوموں، غریبوں اور بے نواؤں کی طرف سے جاری بغاوت اور سرکشی کا حصہ بن جائیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے پیداواری قوتوں کی ترقی کے ذریعے ایک گلوبل ولیج کی بنیادیں رکھ چھوڑی ہیں مگر اس نظام کی بقا کے لیے قومی اور ملکی تضادات کو ہوا دینا بھی پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ پیداواری عمل میں کام کی بین الاقوامی تقسیمِ کار کے باعث ایک بین الاقوامی شعور بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ملکوں کی تحریکیں اور انقلابات علاقائی اور عالمی شکلیں اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں قومی ریاست یکسر غیر ضروری اور اضافی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل کارل مارکس کی طرف سے دیا جانا والا پیغام آج نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔
’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!‘
متعلقہ:
آزادی کے چھاسٹھ سال
۔65 واں جشنِ آزادی : حکمران آزادی کا جبر۔۔۔ کب تلک؟
اداریہ جدوجہد:آزادی کا اندھیر۔۔۔۔؟
وہ منزل ابھی نہیں آئی۔ ۔ ۔