|تحریر: پارس جان|
بالآخر سپریم کورٹ میں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (JIT )کی رپورٹ پیش کر دی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور اس کے خاندان کی آمدنی اور ان کے اخراجات میں پایا جانے والا تفاوت اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مالیاتی بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں۔ اس حوالے سے تحقیقاتی ٹیم نے سفارش کی ہے کہ مزید جانچ پڑتال کے لیے وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف نیب کو ریفرنس بھیج دیا جائے۔ تحریکِ انصاف اس رپورٹ کو اپنی اور مبینہ طور پر جمہوریت کی فتح قرار دے رہی ہے۔ وزیرِ اعظم اور ان کی سیاسی و قانونی ٹیم نے رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے اور اسے کسی پسِ پردہ ڈرامے کا سکرپٹ قرار دے دیا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ یہ رپورٹ پانامہ کیس کا حتمی فیصلہ نہیں ہے بلکہ اس کی روشنی میں سپریم کورٹ مقدمے کی مزید کاروائی کو آگے بڑھائے گی۔ فی الحال مقدمے کی کاروائی کو آئندہ سوموار تک موخر کر دیا گیا ہے۔ لیکن دونوں متحارب فریقین کے مابین لڑائی بے قابو ہو کر اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان کی کمائی میں بے پناہ اضافہ کر رہی ہے۔
دائیں بازو کے عمر رسیدہ سیاستدان جاوید ہاشمی کی تازہ پریس کانفرنس نے صورتحال کی سنسنی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ اس ملک میں صرف سیاستدانوں کا ہی احتساب کیا جا سکتا ہے ججوں اور فوجی اشرافیہ کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان کے مطابق کوئی ایک بھی جج یا جرنیل صادق یا امین نہیں ہے۔ ایک حاضر سروس جج کا بھی پانامہ میں نام ہے لیکن اس پر سب خاموش ہیں۔ پرویز مشرف اور دیگر کی لوٹ مار پر کوئی بات نہیں کرتا۔ ISI کے سابقہ جرنیل تقریباً تمام ہی امریکہ میں مقیم ہیں۔ راحیل شریف کے کردار پر انگلی اٹھانے والا کوئی نہیں۔ لگ بھگ تمام سیاستدان اور تجزیہ نگار جانتے ہیں کہ ہاشمی صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی صداقت نہیں ہے کہ ہاشمی صاحب نے کبھی بھی پسِ پردہ ہدایات کے بغیر کوئی ’راست اقدام‘ نہیں کیا۔ وہ فوج اور ISI کے خلاف بول رہے ہیں تو فوج اور ISI کے ہی ناراض لوگ ان کی سرپرستی بھی کر رہے ہیں۔ جس کا اظہار تحریکِ انصاف کی طرف سے فواد چوہدری اور انکے ساتھیوں کی طرف سے کی جانے والی جوابی پریس کانفرنس میں بھی کیا گیا ہے، جس میں نواز شریف اور جاوید ہاشمی کے ماضی کو بے نقاب کرتے ہوئے ان پر ایجنسیوں کے ایجنٹ ہونے اور پیسے لینے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان پر بھی لعن طعن کی گئی ہے۔ غرضیکہ جے آئی ٹی رپورٹ نے ایک پینڈورا بکس کھول دیا ہے اور کھلی، ننگی اور جارحانہ لڑائی کی شروعات کر دی ہے۔ ابھی بہت جلد طاہر القادری صاحب بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ واپس دیس پدھاریں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاشمی اور فواد چوہدری سمیت مزید جتنے بھی مہرے اس لڑائی میں اتریں گے سب سچ بول رہے ہونگے۔ عوام کی اپنے محبوب قائدین کے بارے میں جو تھوڑی بہت خوش گمانیاں باقی بچی تھیں وہ بھی اللہ کو پیاری ہو جائیں گی۔ نامور ماہرینِ قانون اور سیاسی تجزیہ نگار کی آرا بھی منقسم ہیں۔ ریاست کے گھاگھ اور دور اندیش معذرت خواہان اس بات پر ضرور متفق ہیں کہ یہ صورتحال ایک تشویشناک سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ تمام منہمک چہرے اور شکن آلود پیشانیاں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حالیہ صورتحال نے یکدم کسی بحران کو جنم دے دیا ہے، یعنی یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی تو ملکی سیاست اور سماجی کیفیت میں بہت استحکام اور توازن پایا جاتا تھا۔ حقیقتاً یہ سب مکر اور فریب سے حقائق چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بحران اس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ یہ رپورٹ سالہاسال سے چلے آ رہے اور مسلسل پیچیدہ اور نا قابلِ مراجعت بحران کے مخصوص مرحلے کی پیداوار اور عکاس ہے۔ ہاں البتہ یہ بات بالکل درست ہے کہ اس رپورٹ سے بحران حل ہونے کی بجائے اور بھی شدت اختیار کرے گا۔ بحران اور اس کے نتائج کے ممکنہ تناظر کو سمجھنے کے لیے ریاست کے حقیقی نامیاتی تضادات پر طائرانہ نظر ڈالنی پڑے گی۔
ریاستی اداروں کا خلفشار اور خارجہ پالیسی
مملکتِ خداداد کب کی اپنی طبعی عمر پوری کر چکی۔ اب یہ مصنوعی سانسیں ہی لے رہی ہے۔ اچھے طبیب جانتے ہیں کہ مریض جب وینٹی لیٹر پر ہوتا ہے تو دوبارہ ایک تنومند زندگی کے امکان نہ ہونے کے برابر ہی رہ جاتے ہیں۔ اور اس ریاست کا المیہ یہ ہے کہ اس کو جس وینٹی لیٹر سے مصنوعی آکسیجن مہیا کی جا رہی ہے اس کی بھی معیاد ختم ہو چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وینٹی لیٹر پہلے جواب دیتا ہے یا مریض۔ جی ہاں وہ وینٹی لیٹر عالمی مالیاتی نظام ہے جو یورپ، امریکہ اور دیگر تمام خطوں میں نت نئے بحرانوں کا منبع بنا ہوا ہے۔ ابھی حال ہی میں G20 اجلاس میں مختلف سامراجی قوتوں کے تضادات انتہاؤں پر نظر آئے اور دوسری طرف نسبتاً مستحکم دکھائی دینے والی جرمن ریاست میں اسی روز نہ صرف جرمن حکمران طبقے بلکہ عالمی سامراجیوں کے خلاف عوامی نفرت کا بھی بھرپور مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ پاکستان کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ یہاں تمام آمریتیں اور جمہوریتیں امریکی اور مغربی سامراجی قوتوں کی مالیاتی کمک کی محتاج رہی ہیں۔ بظاہر متبادل کے طور پر ابھرنے والا چینی سامراج اپنے رقیبوں کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہو سکتا۔ امریکی حکمران طبقے کے تضادات نے پاکستانی ریاست کے بحران کو اور گہرا کر دیا ہے۔ جان مکین اور دیگر امریکی سینیٹرز کا حالیہ دورہِ پاکستان جہاں امریکی حکمرانوں کی فرسٹریشن اور پاکستانی کٹھ پتلیوں پر مکمل عدم اعتماد کی عکاسی کرتا ہے وہیں پاکستانی ریاستی اداروں کی امریکی اطاعت اور غلامی میں کمی کے عمومی تاثر کو بھی غلط ثابت کرتا ہے۔ پاک فوج اور سکیورٹی ادارے پہلے ہی کالے دھن کی دلدل میں غرق ہو کر ایک طرف تو اتنے گل سڑ چکے ہیں کہ ایک اکائی کے طور پر منظم ہو کر دوبارہ ملکی انتظام و انصرام کو براہِ راست اپنے ہاتھوں میں لینے کی جسارت نہیں کر سکتے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ خاص طور پر مسلسل اور توقع سے کئی گنا بڑھ کر برق رفتار مشرقِ وسطیٰ کی نام نہاد مضبوط بادشاہتوں کا خلفشار پاکستانی ریاست کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے۔ شیعہ، سنی گروہی تعصبات فوج سمیت دیگر ریاستی اداروں کی رگ وپے میں سرایت کر چکے ہیں۔ پارا چنار کے معاملے میں آرمی چیف کو خود یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ یہ شیعوں، سنیوں، بلوچوں، پنجابیوں وغیرہ کی مشترکہ اسلامی ریاست ہے۔ لیکن چیف صاحب کو خود بھی اس بات کا ادراک تھا کہ وہ ہوا میں تیر چلا رہے ہیں۔ محترم اگر صرف اپنے کور کمانڈرز کو ہی ایک پیج پر لے آئیں توعالمی امن کے نوبل انعام کے مستحق قرار پائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ راحیل شریف جیسا مبینہ ’ہر دلعزیز‘ چیف بھی یہ کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا بلکہ الٹا خودایران مخالف سعودی فوجی اتحاد کا کمانڈڑ بن بیٹھا تو باجوہ صاحب کے بیانات کی اصلیت پر زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ راحیل شریف کی سوشل میڈیا اور سیاسی و سماجی حلقوں میں ہونے والی رواں عوامی ’چھترول‘ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کا بحران اس نہج کو پہنچ رہا ہے جہاں یہ جس کو بھی ’رحمان‘ بنا کر پیش کریں گے وہ بالآخر ’شیطان‘ ہی قرار پائے گا۔
عدلیہ میں بھی شوکت صدیقی جیسے جج صاحبان کی کمی نہیں ہے جو برملا اور کھلم کھلا بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور روشن خیالی اور آزادیِ اظہار کو خود ریاست کے وجود کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی متعصب اور متشدد ذہنیت کی حکمرانی ہے۔ بیورو کریسی اور پولیس کی بنیادیں ہی عوام دشمنی اور حکمران طبقے کی دلالی کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی نفسیات پر ہی استوار کی گئی ہیں اور اب یہ نفسیات مکمل طور پر پراگندگی اور حقارت آمیز بے حسی کے منطقی عروج کو چھور ہی ہے۔ ارسلا سلیم والا واقعہ بھی اس کی واضح مثال ہے۔ پولیس کی وردیاں بدل دینے سے انکی نفسیات نہیں بدلی جا سکتی بلکہ خوف اور رعب کی علامت سمجھی جانے والی وردی کی تبدیلی پولیس کے دبدبے اور عوام کے اندر ان کے خوف کو کم کرنے کا موجب ہی بنے گی۔ سب سے زیادہ کرپشن اینٹی کرپشن میں کی جاتی ہے۔ انسدادِ دہشت گردی کے ادارے ہی دہشت گردی کی حقیقی نرسریوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ احتساب کمیشن کے سربراہان اور اہلکاروں کا اگر احتساب شروع کر دیا جائے تو شاید ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن بھی نئی نویلی دلہنیا کی طرح شرما جائیں۔ غرضیکہ ریاست کے تمام اداروں کے لوگ منی لانڈرنگ، اغوا برائے تاوان، لسانی و فرقہ وارانہ تشدد اور سامراجی پراکسیوں میں بڑے پیمانے پر ملوث ہیں۔ ایسے میں تمام اداروں کا نہ صرف ایک دوسرے سے تصادم بلکہ خود اداروں کے اندر خونخوار خانہ جنگی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ امریکہ، چین اور خلیجی آقاؤں سمیت تمام دیگر علاقائی و سامراجی قوتوں نے وقتاً فوقتاً اس ریاست کو بحیثیتِ مجموعی یا کسی خاص دھڑے کو استعمال کیا ہے جس سے یہ ریاستی بحران اب مشتعل ہو کر مکمل بے قابو ہو چکا ہے۔ کوئی بھی جب اس غلام ریاست کودوبارہ استعمال کرنے کے لیے یکجا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ پہلے سے بھی زیادہ انتشار اور بد نظمی کا شکار ہو جاتی ہے۔ افغانستان بھی اسی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
ایسی کیفیت میں ایک سویلین حکومت کے ذریعے سے بھی اس ملک کو چلانا مشکل سے ناممکن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ماضی میں نواز شریف کی حکومت کا اتنا بھاری مینڈیٹ سعودی بادشاہت کے مرہونِ منت تھا۔ وہ امریکی ایما پر یہاں حکومتوں کی تشکیل کے اہم ترین عامل رہے ہیں۔ اب انکی اپنی ریاست کے اندر اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ انکے بڑھتے ہوئے تضادات نے صورتحال کو اور بھی پیچیدہ کر دیا ہے۔ عالمی منڈی میں مسلسل گرتی ہوئی تیل کی قیمتیں ان ریاستوں کا دھڑن تختہ کرنے کی طرف جا سکتی ہیں۔ کویت، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا انجام بھی عراق، لیبیا، یمن اورشام جیسا ہو سکتا ہے۔ ایسے میں انکے لیے پاکستان میں اپنی گماشتہ حکومتوں کو قائم رکھنا یا متبادل حکومتی سیٹ اپ کی تشکیل کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ ابھی تک پاکستانی ریاست کی خارجہ پالیسی کو اگر ایک عوامی محاورے میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ’پیسہ پھینک، تماشا دیکھ‘ کی عملی تعبیر معلوم ہوتی ہے۔ اب تماشائی خود تماشا بنے ہوئے ہیں تو پانامہ کیس کا پتلی تماشہ بھی بے ہنگم ہو کر سیاسی بے راہروی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر کرپشن کی بنیاد پر نواز شریف کی حکومت ختم کی بھی جاتی ہے تو متبادل کون ہے؟اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ آصف علی زرداری اور ان کی پوری ٹیم کی کرپشن کے قصے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ باہر بھی زباں زدِ عام ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے سب سے زیادہ تجربہ کار بدعنوان رفقا خواتین و حضرات آجکل کرپشن کے خلاف جنگ کے چیمپئین عمران خان کے پہلو میں براجمان ہیں۔ ان سے پہلے بھی جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور دیگر منجھے ہوئے لٹیرے بھی خان صاحب کے دائیں اور بائیں بازو کے طور پر سرگرمِ عمل ہیں۔
سماجی اور ثقافتی مضمرات
مذکورہ بالا بحران بہت غیر معمولی اور حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے لیکن اگر پاکستانی سماج کی حقیقی کیفیات پر نظر ڈالی جائے تو ساری حیرت لمحہ بھر میں زائل ہو جاتی ہے۔ اس سماج میں جتنی گھٹن، تعفن، بے یقینی، تنگدستی اور بے چینی ہے اس پر ایسی ہی سیاست ہو سکتی ہے۔ تمام تر سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر منہدم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ شہروں میں رہائش، ٹرانسپورٹ، سیوریج، علاج، تعلیم، پانی، بجلی اور گیس کی قلت جیسے مسائل نے انسانوں کی بھاری اکثریت کو جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ فوک اور رومانوی شعرا اور ادیب ایک وقت میں دیہی زندگی کو شہری عفریت سے فرار کی راہ قرار دیا کرتے تھے۔ آج دیہی زندگی شہر سے بھی زیادہ دشوار گزار اور دگرگوں ہے۔ زراعت کی مکمل تباہی کے باعث عملاً دیہات ختم ہوتے جا رہے ہیں اور ایک نئی طرز کی بیہودہ اربنائزیشن جنم لے رہی ہے۔ پسماندگی میں جدیدیت کے ملغوبے نے گاؤں کو قصبے اور مضافات میں بدل کر سرمایہ دارانہ رشتوں کی دیہی سماج کی رگ وپے میں سرایت کے عمل کو مکمل کر دیا ہے۔ پرانا خاندانی نظام منتشر ہو رہا ہے اور اسکی جگہ لینے کے لیے متبادل کچھ بھی نہیں۔ اس کے نفسیات اور ثقافت پر غلیظ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انفرادی بقا کی جنگ نے تمام رشتوں کی افادیت اور اہمیت کو چکنا چور کر دیا ہے۔ یوں شہروں اور دیہاتوں میں بیروزگاروں اور غیر تربیت یافتہ نوجوانوں کی بھاری اکثریت دہشت گردی، منشیات اور دیگر جرائم کے لیے خام مال کے طور پر بڑھتی جا رہی ہے جسے بآسانی مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور کسمپرسی کا عالم یہ ہے کہ وہ استعمال کرنے والوں کو ہی اپنا مسیحا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ وقتی طور پر ان کے اور ان کے اہلِ خانہ کے شکم کی آگ بجھانے کا باعث بنتا ہے۔ مادی حالات اور سماجی بنتر میں بنیادی تبدیلی کے بغیر اس صورتحال میں بہتری کا کوئی امکان نہیں جبکہ حکمران طبقات اور ان کے وظیفہ خوار محض تبلیغ اور تدریس سے ہی سماجی نظم و نسق کو برقرار اور بحال رکھنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ سارے سماجی ڈھانچے کو از سرِ نو مرتب کرنے کی ضرورت جب کوئی منطقی اور مہذب راستہ تلاش نہیں کر پاتی تو مختلف دل دہلا دینے والے واقعات اور حادثات کی شکل میں اپنا اظہار کرتی رہتی ہے۔
حال ہی میں احمد پور شرقیہ میں ہونے والا دلسوز واقعہ انہی واقعات کے تسلسل کی ایک کڑی ہے۔ نہ صرف احمد پور شرقیہ بلکہ ملک بھر کی آبادی کی اکثریت کے لیے اب وہ تمام تہوار جو کبھی خوشیوں اور شادمانی کی علامت سمجھے جاتے تھے اب عزتِ نفس کے قتل اور ندامت کی عوامی تقریب کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح عید پر اپنے بچوں کی معصوم خواہشات اور اپنے خاندانوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے پریشان عوام الناس کو جب مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے یا کسی اور ذرائع سے یہ اطلاع ملی کہ ہائی وے پر ایک بڑا آئل ٹینکر حادثے کی وجہ سے الٹ گیاہے اور کئی ٹن تیل سڑک پر بہہ رہا ہے تو تمام تر خطرات اور خدشات کو بھانپنے کے باوجود بھی لوگ دیوانہ وار زندگی کی ادنیٰ سی خوشیوں کی لوٹ مار کے لیے دوڑ پڑے۔ اتنی شدید گرمی میں ایسی صورتحال میں آگ لگنا ناگزیر تھا۔ کئی گھنٹے تک ریاست اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں کیے جا سکے جس کے نتیجے میں 225 کے لگ بھگ غربا جل کر خاکستر ہو گئے۔ اس کے علاوہ 100 سے زائد لوگ آج بھی لا پتہ ہیں ظاہر ہے کہ وہ بھی لقمہ اجل بن چکے ہونگے۔ یہی تمام اخلاقی مبلغین جو آج مرنے والوں کو لالچی اور جاہل قرار دے رہے ہیں، اگر یہ حادثہ نہ ہوتا تو سب سے زیادہ تیل اکٹھا کرنے والوں کو بہادر، جراتمند اور ذمہ دار شہری قرار دیا جا رہا ہوتا۔ جو لوگ اس معرکے کو سر کرنے میں نامراد لوٹتے ان کو انکے بیوی بچے ہی کاہل اور بزدل ہونے کے طعنے دے دے کر جیتے جی مار دیتے۔ یہی اس متروک اخلاقی نظام کا دوغلا پن ہے جو متروک سماجی و معاشی نظام کی دین ہے۔ بدعنوانی درحقیقت سماجی معمول کا جزوِلاینفک بن چکی ہے۔ لیکن ایک طبقاتی معاشرے میں باقی تمام روایات اور معمولات کی طرح کرپشن بھی طبقاتی ہوتی ہے۔ غریب لوگ اپنی سانسوں کا رشتہ بحال رکھنے کے لیے، مکانوں کے کرائے اور بزرگوں کے علاج وغیرہ کے لیے ہیرا پھیری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر ناکام ہی رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف حکمران طبقات اپنی عیاشیوں اور مراعات میں اضافے کے لیے لوٹ مار کرتے ہیں۔ درمیانہ طبقہ جلد ازجلد حکمران طبقے کا تشخص اور معیارِ زندگی حاصل کرنے کے لیے کرپشن کے نئے نئے طریقے متعارف کرواتا رہتا ہے اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہی لوگ کرپشن کے خاتمے کا نعرہِ مستانہ بلند کرتے رہتے ہیں۔ جب تک یہ نظام موجود ہے سانحہ احمد پور شرقیہ کی طرز یا اس سے بھی بڑے حادثات وقفے وقفے سے ہوتے رہیں گے۔ ان کی ذمہ داری ریاست اور حکمران طبقات پر ہی عائد کی جا سکتی ہے۔
بحران کی معاشی بنیادیں
تمام تر سیاسی اور سماجی بحران کی جڑیں پاکستان کے مسلسل مہمیز ہوتے ہوئے معاشی بحران میں پیوست ہیں۔ عالمی معیشت 2008 ء سے بھی بڑے معاشی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پاکستانی معیشت جو پہلے ہی دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اس ممکنہ عالمی بحران میں اوندھے منہ جا گرے گی۔ سیاسی بحران واپس معیشت کے بحران کو مزید مشتعل کرے گا۔ ابھی ہم نے دیکھا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے ساتھ ہی کراچی سٹاک ایکسچینج بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کے ترقی اور خوشحالی کے تمام تر دعوے کھوکھلے اور جعلی ہیں۔ اسحاق ڈار نے گزشتہ مالی سال میں 5.3 فیصد کی شرحِ ترقی ظاہر کی ہے جو اعدادو شمار کی جعلسازی کے علاوہ کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیداواری معیشت کی شرحِ ترقی منفی میں ہے۔ برآمدات مسلسل گر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے تجارتی عدم توازن اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہا ہے۔ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہے جو 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خسارہ بھی بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔ یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے بحران کی وجہ سے ترسیلاتِ زر گر رہی ہیں جو بہت تیزی سے سکڑ سکتی ہیں۔ سی پیک کے ذریعے قرضوں کا بوجھ بھی مزید بڑھے گا۔ ایک طرف تو ملکی معیشت کی بربادی سے آمدن اور ریونیو میں کمی آئے گی جبکہ دوسری طرف قرضوں کے سود کی ادائیگیاں کرنی پڑیں گی جس سے نوٹ چھاپنے اور عوام پر بے پناہ ٹیکس لگانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ نئے نئے ناموں سے بے پناہ ٹیکس لگائے جائیں گے۔ قرضوں کا سود دینے کے لیے دوبارہ IMF سے مزید قرضے لینے پڑیں گے جو اور بھی تلخ شرائط عائد کریں گے۔ یوں ملکی معیشت ایک بند گلی میں پھنستی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ جس کا خمیازہ افراطِ زر، مہنگائی، بیروزگاری، بھوک اور بیماری کی شکل میں عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام یہ سب کچھ کب تک برداشت کر سکیں گے۔
عوام کا اجتماعی شعور اور تحریک کا تناظر
عوام ابھی تک ایک طرف تو اپنے روزمرہ کے حالات اور دوسری طرف ان حکمرانوں کی لڑائیوں کو دیکھ کر اہم اسباق سیکھ رہے ہیں۔ محنت کش طبقے کی بہت سی پرتیں اگرچہ تحرک میں ہیں مگر بحیثیتِ طبقہ ابھی اجتماعی مزاحمت کا آغاز نہیں ہوا ہے۔ لیکن ریاست کا حالیہ بحران جہاں ایک طرف ریاست کے انہدام کی طرف بڑھ رہا ہے وہیں اس ریاست اور اس پر براجمان حکمران طبقات کے خلاف نفرت اور حقارت میں کئی گنا اضافہ بھی کر رہا ہے۔ لوگ اگر نواز شریف کے دفاع میں متحرک نہیں ہو رہے ہیں تو وہ عمران خان یا دیگر نام نہاد قیادتوں کی کال پر بھی لبیک نہیں کہیں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ میڈیا کے ہنگامہ خیز شور وغل سے عوام بڑے پیمانے پر لاتعلق ہیں۔ ریاستی پالیسی ساز نون لیگ کے مقابلے میں قبل از انتخابات اتحاد بنا کر نئی حکومت کی تشکیل کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کوئی ایک بھی پارٹی تنِ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اسلیے وہ وسطی اور بالائی پنجاب میں تمام جیتنے والے گھوڑوں کو تحریکِ انصاف میں جبکہ جنوبی پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی چھتری نیچے اکٹھا کر رہے ہیں۔ رہی سہی کسر ایم کیو ایم اور فضل الرحمان جیسے خدمت گزاروں سے پوری کر لی جائے گی۔ لیکن یہ سارا منصوبہ بننے سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ نون لیگ اور حتیٰ کہ شریف خاندان کے اندر بھی دراڑیں موجود ہیں۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف کا کردار آجکل موضوعِ بحث ہے۔ اس ساری کیفیت میں فوج، عدلیہ اور ریاست کے دیگر اداروں کی طرح تمام سیاسی پارٹیوں، قوم پرست قیادتوں اور مذہبی جماعتوں سے بھی عوام کا اعتماد مکمل طور پر اٹھ چکا ہے۔ وہ نئی سیاست اور نئی بغاوت کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ان کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ انکی اپنی ٹریڈ یونین اشرافیہ ہے۔ وہ جوں جوں ایک تحریک میں متحد اور منظم ہوتے جائیں گے ان قیادتوں کو بھی مسترد کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور ایک نئی انقلابی قیادت تراش لائیں گے۔