تحریر: |راشد خالد|
پانامہ لیکس کے منظرعام پر آتے ہی عالمی سطح پر ایک سیاسی ہیجان کی سی کیفیت بن گئی ہے۔ ہر طرف حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی آف شور کمپنیوں اور آف شور اثاثوں پر بحث و مباحثہ چل رہا ہے۔ پانامہ لیکس نے کئی ملکوں کی سیاسی اشرافیہ کی اس پس پردہ دولت اور کاروبار کی محفوظ پناہ گاہوں کا پردہ چاک کر دیا۔ جس کے بعد کچھ ملکوں کے سیاسی سربراہان کو تو اقتدار تک سے ہاتھ تک دھونے پڑے۔ دنیا کی چوتھی بڑی آف شور لاء فرم سے ہونے والی لیکس نے ایک تہلکہ مچا رکھا ہے۔ ابھی تک منظرعام پر آنے والے ناموں میں 12مختلف ملکوں کے سربراہان اور 143 دیگر سیاست دان شامل ہیں۔ ان میں تیل کی دولت پر عیاشی کرنے والے عرب شیوخ بھی ہیں اور غربت اور پسماندگی میں گھرے افریقی ممالک کے سربراہان بھی، خانہ جنگی سے برباد مشرق وسطیٰ سے لے کر دنیا کے لئے ایک وقت تک مثال رہنے والے یورپی ممالک کے سربراہان بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ لیکن ان سب میں سرفہرست ماضی قریب میں منڈی کی معیشت کا حصہ بننے والے چین اور روس کے سیاست دان اور سرمایہ دار اشرافیہ ہیں۔ ماضی میں بھی مختلف لیکس نے دنیا میں تہلکہ مچایا ہے لیکن پانامہ لیکس ان سب کی نسبت اپنے حجم اور معیار کے اعتبار سے بہت ہی آگے ہیں۔
پانامہ لیکس نے جہاں دنیا کے دیگر ممالک کے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے پول کھولے ہیں وہیں پاکستان کے حکمران بھی ان کے باعث کافی ہزیمت کا سامنا کر رہے ہیں۔ پانامہ لیکس کی پہلی قسط میں ہی وزیر اعظم نواز شریف کے اہل خانہ کا نام آیا جس کے بعد پاکستان میں سیاسی ماحول میں کافی گرما گرمی دیکھنے کو ملی۔ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والی کیمپئین سے تو یہ لگتا تھا کہ ایک بڑی سیاسی تبدیلی جلد دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن مزید تفصیلات میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے سرکردہ رہنماؤں یا ان کے قریبی عزیزوں کے نام بھی منظر عام پر آتے گئے۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف بھی اس میں شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا نام تو بذات خود ایک آف شور کمپنی کے مالک کے طور پر سامنے آیا اور کرپشن کے خلاف تحریک کے چیمپئین عمران خان نے جو جو ڈینگیں ابھی تک ماری ہیں وہ سب بھی اپنا اخلاقی جواز اس خبر کے کھلتے ہی کھو گئیں۔ اس کے علاوہ جو جو نام آئے ان میں بابائے ایٹم بم ڈاکٹر قدیر سے لیکر کئی جج اور بیوروکریٹ بھی شامل ہیں۔
گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان میں چلنے والے سیاسی سرکس میں ہر طرف کرپشن کرپشن کی مالا جپی جا رہی ہے۔ جن کے نام کرپشن میں سر فہرست ہیں وہ معصومیت کاناٹک کر رہے ہیں اور جن کی کرپشن کی کہانیاں ابھی درپردہ ہیں وہ دوسروں کی کرپشن پر اپنی سیاست چمکائے جا رہے ہیں۔ سیاسی پنڈت مختلف طرح کے تجزیئے پیش کر رہے ہیں۔ ایک نا ختم ہونے والی خرافات کا سلسلہ ہے۔ لیکن اس کے پہلو میں نیب کی کرپشن کے خلاف کاروائیاں بھی جاری ہیں جس میں صرف بلوچستان کے فنانس سیکرٹری صاحب کے گھر سے 63کروڑ روپے نقد برآمد ہوئے اور کروڑوں کی مالیت کاسونا اور بانڈز الگ تھے۔ یہ صرف ایک سیکرٹری کے گھر پر موجود جمع پونجی تھی اور وہ بھی بلوچستان کے جہاں کا بجٹ انتہائی کم ہوتا ہے۔ فوج بھی اس مقدس کام میں کسی سے پیچھے نہیں رہی اور چیف آف آرمی سٹاف نے بھی درجن بھر فوجی افسران کو کرپشن کے زمرے میں فوج سے برخاست کر دیا جس میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک میجر جنرل، تین کرنل اور ایک میجر شامل تھے۔
اپوزیشن مسلسل وزیر اعظم کے مواخذے کی باتیں کر رہی ہے۔ لیکن وزیر اعظم کے ایوان میں آنے کے وقت اپوزیشن کے بائیکاٹ کا ڈرامہ بذات خود اپوزیشن کی لڑکھڑاتی لرزتی بیساکھیوں کو بے نقاب کر رہا ہے۔ میڈیا پر بڑی بڑی ڈینگیں تو سب خوب مار رہے ہیں مگر کوئی بھی کسی تبدیلی کے عمل کا واضح پروگرام نہیں دے رہا جس کی بنیادی وجہ ان تمام تر کرداروں کے اپنے دامن پر لگے داغ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’متحدہ اپوزیشن‘‘ کو وزیر اعظم کی تقریر کے موقع پر ایوان سے اٹھ کر جانا پڑا کیونکہ کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں تھی کے اس پنڈورا باکس کو کھولے جس میں سے نکلنے والی غلاظت نے سب کے منہ کالے کر دینے تھے۔ اور یوں متحدہ اپوزیشن پس پردہ اسی حکومتی سیٹ اپ کو برقرار رکھنے کے لئے سپورٹ کر رہی ہے جس کے خلاف ہونے کا ناٹک وہ کر رہی ہے۔ در حقیقت اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔
معاشی طور پر خستہ حال اس ریاست کا کوئی بھی ادارہ صحت مند سرگرمی کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔ یہاں کا سرمایہ دار طبقہ عالمی منڈی میں کبھی بھی مقابلہ بازی کے قابل نہیں رہا، یہاں کی ملکی منڈی پر بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلبہ ہونے کی وجہ سے اپنے منافعوں کو برقرار رکھنے کی ہوس میں یہ ہر طرح کے وسائل کو بروئے کار لاتا ہے جس میں ٹیکس چوری سے لے کر بجلی چوری تک سب شامل ہے۔ اسی طرح یہاں کا حکمران طبقہ یا تو براہ راست سرمایہ کار ہے یا پھر سرمایہ کاروں کا ایجنٹ۔ ہر کام میں یہ اپنی حصے داری کو ضرور برقرار رکھتا ہے سو یوں یہ سارا عمل ایک انتہائی گمبھیر غلام گردش کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔اور اسی وجہ سے اس نظام میں پاکستان میں ٹیکس چوری اور کرپشن کے خلاف کبھی بھی کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ نیب جس قدر زیادہ چھاپے مارے گی، اسی قدر زیادہ گند کھلے گا اور اسی قدر زیادہ یہ نظام عوام کے لئے ناقابل اعتبار ہوتا جائے گا۔ اسی طرح اگر آف شور کمپنیوں کی بات کی جائے تو کسی مبالغے سے قطع نظر پاکستان جیسے ممالک کے افراد کی آف شور سرمایہ کاری کا بنیادی مقصد ہی ٹیکس سے بچنا اور کالے دھن کو محفوظ پناہ گاہوں میں چھپا کر رکھنا ہوتا ہے۔ یوں بھی پاکستان کا حکمران طبقہ ایک لمبے وقت سے پاکستان میں سرمایہ کاری پر عدم اعتماد کا شکار ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کرپشن اور لوٹ مار سے کمایا ہوا پیسہ فوری طور پر ملک سے باہر منتقل کرنے کی سوچتا ہے۔ جہاں ایک طرف تمام سیاسی پارٹیاں بیرونی سرمایہ کاری(FDI) کے لئے پاکستان میں سازگار ماحول فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں وہیں پاکستان کی یہ حکمران کلاس پاکستان میں کسی بھی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے سے کتراتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان سے باہر ایسی پناہ گاہیں ڈھونڈی ہیں جہاں ان کا سرمایہ محفوظ بھی رہے اور ٹیکس سے بھی جان چھڑائی جا سکے۔ لیکن اس سب میں بنیادی سوال یہ نہیں کہ ان حکمرانوں کا پیسہ ملک کے اندر ہے یا باہر، یہاں بنیادی سوال یہ بنتا ہے کہ یہ پیسہ آیا کہاں سے؟ اپنے اثاثے 10، 10یا 20، 20کروڑ بتانے والوں کے پاس یہ اتنے کروڑ کہاں سے آئے؟ کوئی بھی انسان محنت سے 20ہزار یا 20لاکھ روپے تو بنا سکتا ہے لیکن 20کروڑ جمع کرنے کے لئے یقیناًکسی نہ کسی کا پیٹ ضرور کاٹنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں تقریر میں بھی یہ راگ بڑا الاپا ہے کہ ان کے والد محترم بہت امیر انسان تھے، اتنے امیر انسان تھے کہ بس۔۔۔! لیکن یہ باتیں حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتیں۔ ان تمام تر امرا کی دولت اس ملک کے عوام کے جسموں سے نچوڑے گئے خون سے کشید کی گئی ہے۔ محنت کشوں کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے پیسے پر ہاتھ صاف کر کے اکٹھی کی گئی ہے۔ مشتاق رئیسانی کوئی پہلی اور آخری کہانی نہیں ہے، اس سے قبل ڈاکٹر عاصم اور اس سے بھی قبل ظفر گوندل جیسے کیس اس نظام کے کارندوں کی کرپشن کا کچا چٹھا پاک کر دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس نظام میں منظر عام پر بس انہی کے کیس آتے ہیں جو یا تو حد سے زیادہ خود اعتمادی دکھائیں یا جو طے شدہ حصہ داری کو احسن طریقے سے نبٹا نہ سکیں۔ باقیوں کی گنگا ہمیشہ بہتی رہتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج میں سے کرپشن کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر نوکریوں سے برخواست کیا گیا ہے۔ گو کہ پاک فوج اس وقت ایک کارپوریٹ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں پاک فوج کی سرمایہ کاری نہ ہو، سیمنٹ، سریے اور بینکنگ سے لے کر دلیے تک۔ اور مالیاتی سرمائے کی فوج میں حد سے بڑھی ہوئی سرایت کی وجہ سے ایک لمبے وقت سے پاک فوج کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا لیکن اس تنقید کو کبھی بھی فوج نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ ابھی بھی فوج کو یہ اقدام خارجی کی بجائے داخلی تضادات کی وجہ سے اٹھانا پڑاہے۔ لیکن اس اقدام کی وجہ سے ابھی تک چلی آنے والی مقدس گائے بھی عوام کی نظروں میں ننگی ہو گئی ہے۔ اور وہ تمام تر مہرے جو فوج کے سر پر کھیلنے کی کوشش کر رہے تھے ان کی بساط بھی الٹی گئی ہے۔ ایسے موقع پر ان ٹٹ پونجیئے سیاست دانوں کے ’’فوج نے کرپشن کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے‘‘ جیسے جملے بذات خود فوج کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں۔
کرپشن کا کارڈ ماضی میں نئی آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو ذلیل کرنے اور اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے استعمال کیا کرتی تھی مگر اب کہ معاملہ بالکل الٹ ہو چکا ہے۔ درحقیقت عالمی سطح پر پانامہ لیکس ہوں یا ملکی سطح پر کرپشن کے کیس، ان سب کو سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی بحران کے منظر نامے میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل اس نظام نے حکمران طبقے کی عیاشیوں اور چور راستوں کی جو تشکیل کی تھی اب وہ خود اس نظام کے گلے کا طوق بنتے جا رہے ہیں۔ ماضی میں اس نظام میں گنجائش تھی کہ وہ عالمی سطح پر ہونے والی معاشی سرگرمی کے پس پردہ سرمائے کو عالمی سطح پر کچھ محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر سکے۔ لیکن ایک ایک کر کے وہ سب ڈھے رہی ہیں۔ برٹش ورجن آئی لینڈز، بہاماس، پانامہ، سیشیلز، موریشس اور اسی طرح کی دیگر ٹیکس ہیونز اب راز ہونے کے باوجود صیغۂ راز نہیں رہ گئیں اور محنت کش عوام کے سامنے یہ سوال کھڑا کر رہی ہیں کہ جہاں ایک طرف غربت، بھوک، بیروزگاری، مہنگائی، بیماری اور محرومی دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو متاثر کر رہی ہیں وہیں ایک محدود اقلیت کے دولت کے انبار کیسے وجود میں آئے۔ یہ نظام ہر گزرتے دن کے ساتھ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو مزید غیر منصفانہ کرتا جا رہا ہے۔ یہ نسل انسانی کی زندگیوں کو مزید تاریک کر رہا ہے۔مگر جب تک یہ نظام رہے گا اس کے تضادات یونہی پھٹتے اور غلاظت پھیلاتے رہیں گے۔ اس کا حل اس نظام کو اکھاڑ کر اس تمام تر دولت کو ضبط کر کے نسل انسانی کی بقا کے لئے استعمال کرنے کے سوا کوئی نہیں ۔