|تحریر: آفتاب اشرف|
آج سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر اپنی تاریخ کے بد ترین نامیاتی بحران سے گزر رہا ہے۔ کرۂ ارض کے ہر سماج کا حکمران سرمایہ دار طبقہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ وہ اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر منتقل کرے اور مزدوروں کی ہڈیوں سے گودا نچوڑ کر اپنی منافع خوری کو قائم رکھے۔ ایسے میں پاکستان جیسے پسماندہ سرمایہ دارانہ ملک جس کی معیشت موجودہ عالمی معاشی بحران کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی زبردست گراوٹ کا شکار تھی، کو کوئی استثناء کیوں کر حاصل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں اور عالمی مالیاتی اداروں کی دلالی پر مامور پاکستان کے حکمران اور ریاست یہاں کے محنت کشوں پر ملکی تاریخ کے بدترین معاشی، سماجی و سیاسی حملے کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے خون آشام قرض پروگرام کے تحت عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا کمر توڑ بوجھ، بڑھتی مہنگائی، ترقیاتی بجٹ، عوامی سہولیات اور عوامی سبسڈیوں میں بڑے پیمانے کی کٹوتیاں، سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے پر ملکی تاریخ میں نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کا سب سے بڑا حملہ بھی کیا جا رہا ہے اور اسٹیل ملز، پی آئی اے، واپڈا، ریلوے، یوٹیلیٹی سٹورز سے لے کر سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں تک ہر عوامی ادارہ نجکاری کی زد میں ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی ادارے کے ہزاروں مزدوروں کو بیک جنبش قلم جبری برطرف کرنے کا حکومتی اعلان سامنے آتا ہے جبکہ دوسری طرف سرمایہ دار طبقے کو ”معاشی ریلیف“ کے نام پر دسیوں کھرب روپے کے پیکجز، ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیوں سے نوازا جا رہا ہے اور یہ سرمایہ دار حکومت سے کھربوں روپے ڈکارنے کے بعد بھی بھر پور ریاستی آشیرباد کے ساتھ نہ صرف اجرتوں میں بڑی کٹوتیاں اور اوقات کار میں غیر انسانی اضافہ کر رہے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر نجی صنعتوں اور کاروباروں سے محنت کشوں کو جبری برطرف بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن سرمایہ داروں کے لئے حکومتی خزانے کا منہ کھول دینے والے ان عوام دشمن حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کی جانب سے ملک کے معاشی بحران کا بہانہ بنا کر شدید مہنگائی کے باوجود نہ صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ پنشن کے خاتمے اور ملازمین کی قبل از وقت جبری ریٹائرمنٹ کے منصوبے بھی تیار کر لئے گئے ہیں۔ اسی طرح، شدید بیروزگاری کے باوجود نہ صرف اندھا دھند ڈاؤن سائزنگ کی جارہی ہے بلکہ سرکاری محکموں میں لاکھوں کی تعداد میں خالی آسامیاں بھی ختم کر دی گئی ہیں۔ ایسی کیفیت میں محنت کش طبقے کی ممکنہ بغاوت کے خوف کی وجہ سے آئے روز ریاستی جبر میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ایمر جنسی قوانین اور لازمی سروسز ایکٹ جیسے ہتھکنڈوں کا سہارا لے کر یونین سرگرمیوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ آزادیئ تحریر و تقریر کی راہیں مسدود کی جارہی ہیں اور نجی صنعتی علاقوں میں احتجاجی محنت کشوں پر پولیس کی براہ راست فائرنگ سے لے کر انقلابی سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی سمیت ریاستی جبر کا ہر داؤ آزمایا جا رہا ہے۔
مگر محنت کش طبقہ بھی ان تمام حملوں کا بھر پور جواب دینے کے لئے کمر کس رہا ہے۔ حالات کے جبر سے محنت کشوں کی وسیع ترین پرتوں نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ انہیں اپنی بقا کی خاطر ایک فیصلہ کن معرکہ لڑنا پڑے گا ورنہ یہ حکمران طبقہ ان کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے سے گریز نہیں کرے گا۔ ابھی تک 2008 ء کے عالمی معاشی بحران کے اثرات کے تحت پاکستان میں دوبارہ جنم لینے والی مزدور تحریک کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ یہ بے شمار عوامی اداروں اور نجی صنعتوں میں ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور کٹی ہوئی لڑائیوں پر مشتمل تھی حالانکہ محنت کشوں کے مسائل ومطالبات بڑی حد تک مشترکہ تھے۔ ان علیحدہ علیحدہ لڑائیوں کے کارن ایک طرف تو مزدور تحریک ابھی تک ملک کے سیاسی و سماجی افق پر ایک متحد قوت بن کر نہیں ابھر پائی اور دوسری طرف حکمرانوں ومالکان کے لئے بھی ایک دوسرے سے کٹی ہوئی ان لڑائیوں کو کچلنا آسان تھا۔ فی الحال ہمارے پاس جگہ نہیں ہے کہ ہم مزدور تحریک کی اس کمزوری کی وجوہات پر تفصیلی بحث کریں لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ اس کمزوری کا کارن سوویت انہدام کے بعد کے عرصے میں پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی مزدور تحریک اور بائیں بازو کی سیاست کا زوال، ٹریڈ یونین قیادتوں کی موقع پرستی و تنگ نظری اور پاکستان میں محنت کش طبقے کی روایت پیپلز پارٹی کی مکمل سیاسی زوال پذیری جیسی وجوہات تھیں نہ کہ محنت کش طبقے کی کوئی نامیاتی خامی۔ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ایک طویل عرصے کے بعدمزدور تحریک اس کیفیت سے باہر آ رہی ہے اور صوبائی و ملکی سطح پر اجرتوں میں اضافے، مستقل روزگار کے حصول، نجکاری کی روک تھام اور آئی ایم ایف کے مزدور دشمن قرض پروگرام سے چھٹکارے جیسے مشترکہ مطالبات کے گرد مختلف ٹریڈ یونینز اور مزدور ایسوسی ایشنز کے الائنس بن رہے ہیں جو بلاشبہ ایک متحد مزدور تحریک کی تشکیل میں ایک نہایت اہم پیش رفت ہے۔ مزدور اتحاد کی جانب ہونے والی اس پیش رفت میں جہاں ایک طرف حالات کے جبر، معاشی بربادی اور حکمرانوں کے تابڑ توڑ معاشی، سماجی و سیاسی حملوں کی وجہ سے ٹریڈ یونین قیادتوں پر نیچے سے پڑنے والے دباؤ کا ایک اہم کردار ہے وہیں بائیں بازو کے سیاسی کارکنان اور تنظیموں کی طویل شعوری کاوشیں بھی اس میں شامل ہیں۔
ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کے پلیٹ فارم سے آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس خیبر پختونخوا، بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس، آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس پنجاب، آل پاکستان ایمپلائز ولیبر تحریک اور آل پاکستان ملازمین و مزدور اتحاد جیسے مزدور اتحادوں کی تشکیل کا بھر پور خیر مقدم کرتے ہیں اور مزدور اتحاد کی مزید بڑھوتری و مضبوطی میں ہر ممکن کردارادا کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بطور مارکس وادی ہمیں یہاں پر موجود خامیوں اور کمزوریوں سے نظر بچانے کی بجائے ان پر مسلسل ایک تعمیری تنقید بھی رکھنا ہو گی۔ واضح رہے کہ ان الائنسز میں شامل یونینز اور ایسوسی ایشنز کی قیادتوں میں سے ایک بڑی اکثریت کا ماضی بے شمار موقع پرستیوں اور غداریوں سے داغدار ہے اور اگر ہم اس زیر تشکیل مزدور اتحاد کی بڑھوتری و مضبوطی کے خواہاں ہیں تو ہمیں موقع پرست یونین قیادتوں اوربائیں بازو کی دیگر تنظیموں کی طرح ”سب اچھا ہے“ اور ”شاندارکامیابی“ جیسی موقع پرستانہ رپورٹنگ کی بجائے محنت کشوں کے ساتھ ہمیشہ سچ بولنے کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے ان قیادتوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی تا کہ انہیں اپنے تمام قول و فعل کے لئے محنت کشوں کے سامنے جوابدہ بنایا جا سکے۔ اسی طرح ہمیں محتاط رہنا ہو گاکہ کہیں ہم ”ابھی تنقید کرنا اتحاد کے لئے نقصان دہ ہو گا۔۔“ جیسی بیہودہ بلیک میلنگ کا شکار ہو کرانجانے میں یونین قیادتوں کی موقع پرستی کوسہارا دینے کے بھیانک سیاسی جرم کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں۔ اس زیر تشکیل مزدور اتحاد میں مزدور دشمن سیاسی پارٹیوں اور غلاظت سے لتھڑی لیبر این جی اوز کی ممکنہ مداخلت کا مقابلہ کرنا بھی مارکس وادیوں کے اہم ترین فرائض میں شامل ہے۔ اسی طرح، محنت کش طبقے کو سائنسی سوشلزم کے مزدور نظریات سے مسلح کرنے کے اہم ترین کام کو کسی غیر معینہ مدت کے لئے ٹالنے کی بجائے ابھی سے شروع کرنا ہو گا اور اس کام میں رکاوٹ ڈالنے والی یونین قیادتوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان کے حقیقی مزدور دشمن کردار کو بے نقاب کرنا ہو گا۔ ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم محض کوئی ٹریڈ یونین کارکن نہیں بلکہ سوشلسٹ انقلاب کے سپاہی ہیں اور ہمارا حتمی مقصد ٹریڈ یونین ازم کرنا نہیں بلکہ اس دھرتی پر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہے۔
مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اس زیر تشکیل مزدور اتحاد میں درج ذیل نکات کے حوالے سے ایک واضح موقف رکھیں:
1۔ ان الائنسز میں شامل یونینز اور ایسوسی ایشنز کی ایک قابل ذکر تعداد ایسی ہے جن میں قیادت کے چناؤ کے لئے ایک طویل عرصے سے داخلی انتخابات نہیں ہوئے ہیں اور نتیجتاًقیادت اپنے فیصلوں کے لئے محنت کشوں کو جوابدہ نہیں ہے۔ اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ مزدور اتحاد میں شامل ایسی تمام یونینز اور ایسوسی ایشنز جلد از جلد اپنے داخلی انتخابات کرائیں جس سے ایک طرف تو محنت کشوں میں جمہوری و سیاسی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور دوسری طرف ایک باقاعدہ منتخب ہو کر سامنے آنے والی قیادت سے جواب طلبی کرنا بھی محنت کشوں کے لئے نسبتاً آسان ہو گا۔ انتخابات کے عمل کی شفافیت کو بہتر بنانے کے لئے مناسب ہو گاکہ متعلقہ الائنس کی مرکزی باڈی کے تجویز کردہ چند ممبران، جو کہ دوسرے اداروں، محکموں یا مزدور تنظیموں سے تعلق رکھتے ہوں، بھی سارے انتخابی عمل میں بطور مبصر موجود رہیں۔
2۔ فی الوقت کسی حد تک آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس خیبر پختونخوا کو چھوڑ کر باقی تمام الائنسز قیادت کی سطح تک ہی محدود ہیں اور متعلقہ اداروں، محکموں اور صنعتوں کے عام محنت کشوں کو ان کے بارے میں کچھ خبر نہیں۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک کمزوری ہے اور اس زیر تشکیل مزدور اتحاد کو دیرپا اور مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ جلد از جلد ان الائنسز کی وجہئ تخلیق اور مشترکہ مطالبات کو محنت کشوں تک پہنچایا جائے جو یقینا اس پیشرفت کا بھر پور خیر مقدم کریں گے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ایک بھرپور رابطہ کاری کیمپئین چلاتے ہوئے ادارہ جاتی یا محکمہ جاتی مزدور کنونشنز منعقد کئے جائیں جن میں الائنس کی مرکزی قیادت متعلقہ ادارے کے محنت کشوں کے سامنے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ اور جدوجہد کے طریقہ کار و لائحہ عمل کی بحث کے ساتھ پیش ہو اور ان کا اعتماد جیتے۔ آگے چل کر شہر، ضلع اورصوبے کی سطح پر مزدور کنونشنز کا انعقاد کیا جائے اور پھر ملکی سطح کے ایک عظیم الشان کنونشن کا جوکہ ان تمام الائنسز کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کاکام بھی سرانجام دے گا۔ اس سارے عمل میں ان الائنسز میں شامل بائیں بازو کی تنظیموں کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔
3۔ صوبائی اور ملکی سطح کے ان الائنسز کی بنیاد کو مضبوط بنانے کے لئے لازمی ہے کہ کسی بھی ادارے، محکمے یا نجی صنعت کی تمام یونینز اور ایسوسی ایشنز (ماسوائے چند ایک رجعتی یونینز کو چھوڑ کر) بھی ادارہ جاتی الائنس کی صورت میں متحد ہوں۔ اس کی ایک شاندار مثال گرینڈ ہیلتھ الائنس خیبر پختونخوا اور پنجاب سے لی جا سکتی ہے جس میں ان دونوں صوبوں کے سرکاری شعبہئ صحت کے ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈکس، نرسز اور سپورٹ سٹاف کی تمام نمائندہ تنظیمیں متحد ہیں۔ اسی طرح پاکستان ریلوے میں ریل مزدور اتحاد اور ریل گرینڈ مزدور محاذ کے نام سے دو اکٹھ موجود ہیں جو کہ تقریباً ایک جیسے مطالبات کے گرد جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ دونوں اکٹھ ریل مزدوروں کے ایک گرینڈ الائنس کی صورت میں یکجا ہو جائیں تو اس سے مزدور اتحاد کو بہت تقویت ملے گی اور یہی بات باقی تمام اداروں کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے بائیں بازو کے کارکنان کا دباؤ یونین قیادتوں کو اپنی روایتی تنگ نظری چھوڑنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
4۔ مزدور اتحاد کو مضبوط بنانے کے لئے جہاں ایک طرف ایک متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ بہت اہم ہے وہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جدوجہد کے طریقہ کارپر بھی بات کی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں ایک ابھرتے ہوئے مزدور اتحاد کے لئے عملی جدوجہد کا سب سے موزوں اسٹریٹجک نعرہ ملک گیر عام ہڑتال کا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ احتجاجوں، دھرنوں، ریلیوں سمیت سیاسی جدوجہد کی دیگر کسی بھی شکل سے انکار کر دیا جائے یا پھر حال ہی موقع پرستی سے مہم جوئی پر اترنے والے بائیں بازو کے بعض عناصر کی طرح بغیر کسی ٹھوس تیاری کے عام ہڑتال کی تاریخ دے دی جائے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ اس نعرے کو ملک کے تمام محنت کشوں تک پہنچایا جائے اور اس کی بھر پور عملی تیاری کی جائے کیونکہ ایک ملک گیر عام ہڑتال ہی نہ صرف حکمران طبقے کے بڑھتے ہوئے حملوں کے سامنے بند باندھ سکتی ہے بلکہ محنت کشوں کو ان کی طبقاتی طاقت کا احساس دلاتے ہوئے مزدور تحریک کو ملک کے سیاسی وسماجی افق پر ایک متحد اظہار دے سکتی ہے۔
5۔ یہ بات درست ہے کہ تمام محنت کش سوشلسٹ نہیں ہوتے اور نہ ہی ہو سکتے ہیں اور نہ ہی مزدور اتحاد کا حصہ بننے کے لئے محنت کشوں پر سوشلسٹ ہونا لازمی ہے مگر دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سائنسی سوشلزم ہی دنیا کا وہ واحد نظریہ ہے جو محنت کش طبقے کو سرمایہ دارانہ نظام اور گردو پیش کی دنیا کی سائنسی جانکاری دیتے ہوئے انہیں اسے بدلنے اور ایک غیر طبقاتی سماج تعمیر کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ بلکہ آج عالمی سطح پر سرمایہ داری کی تاریخ کے بد ترین نامیاتی بحران کے عہد میں تو کسی مزدور اتحاد کا قائم رہنا اور چھوٹی چھوٹی حاصلات کے لئے جدوجہد بھی سوشلسٹ نظریات کے بغیر ناممکن ہو چکی ہے۔ اسی لئے محنت کشوں میں سوشلسٹ نظریات کی ترویج کے کام کو کسی غیر معینہ مدت کے لئے ٹالا نہیں جا سکتا بلکہ اس کا فوری آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے مختلف الائنسز میں شامل مارکس وادیوں کا فرض ہے کہ وہ فوری طور پر اداروں اور صنعتوں میں محنت کشوں کی تربیتی نشستوں اور سٹڈی سرکلز کے باقاعدہ انعقاد کا سلسلہ شروع کریں۔ ہو سکتا ہے کہ بعض یونین قیادتیں مختلف حیلے بہانوں سے اس عمل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں مگر بائیں بازو کے کارکنان کا فریضہ ہے کہ وہ ایسے کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر ان نام نہاد قیادتوں کی مزدور دشمنی کا پردہ چاک کرتے ہوئے اپنے نظریاتی فرائض کی تکمیل کریں کیونکہ یہی مزدور تحریک میں ان کا تاریخی کردار ہے۔
ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کے پلیٹ فارم سے مزدور اتحاد کی جانب ہونے والی ہر کوشش کی نہ صرف بھر پور حمایت کرتے ہیں بلکہ مختلف اداروں، شعبہ جات اور صنعتوں کے محنت کشوں اور ان کی یونینز و ایسوسی ایشنز کے بیچ ہمیشہ کی طرح ایک پل کا کردار ادا کرتے ہوئے مزدور اتحاد کی بڑھوتری و مضبوطی کے لئے ہر دم کوشاں رہنے کے عزم کا بھی اعادہ کرتے ہیں۔
ایک کا دکھ۔۔سب کا دکھ!!
مزدور اتحاد۔۔زندہ باد!!