|تحریر: زلمی پاسون|
محنت کش عوام کی بھوک اور بیماریوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی جانب حکمرانوں کی بے حسی نئی نہیں بلکہ اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔انقلاب فرانس کے موقع پر بھی ایک ایسا ہی واقعہ مشہور ہوا تھا جب عوام بادشاہ سے اپنی بھوک کی شکایت کرنے کے لیے گئے تھے تو اس وقت کی فرانس کی ملکہ نے کہا تھا کہ اگر روٹی نہیں مل رہی تو کیک کھا لو!اس کے بعد کے عرصے میں ایک ایسے انقلاب کا آغاز ہوا تھا جس میں نہ صرف فرانس کے بادشاہ اور ملکہ کے سر قلم کر کے نیزے پر رکھ کر پیرس شہر میں گھمائے گئے تھے بلکہ حکمران طبقے کا تختہ ہی الٹ دیا گیا تھا۔اسی طرح جنرل ایوب کے مارشل لاء کے وقت جب آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوا اور کوئی عوامی تحریک نہ ابھری تو حبیب جالب نے لکھا کہ ”بیس روپے من آٹا۔۔ اس پر بھی ہے سناٹا“۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد جالب کا یہ گلہ دور ہو گیا اور یہاں کے محنت کشوں نے اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی انقلابی تحریک برپا کی جس نے نہ صرف ایوب خان کی آمریت کا خاتمہ کیا بلکہ سوشلزم کے نعروں کے ساتھ یہاں موجود سرمایہ دارانہ نظام کو بھی چیلنج کیا۔
ایسے ہی حالات آج ایک دفعہ پھر دکھائی دے رہے ہیں۔عوام آٹے کی لائنوں میں لگے ہیں اور حکمرانوں کے محلوں میں ان کے کتے بھی بہترین غذا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔حکمران طبقے کے افراد خوبصورت اور پر کشش گالف کے میدانوں میں اپنا فارغ وقت گزار رہے ہیں جبکہ کروڑوں لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔پر تعیش زندگیاں گزارنے والے امیر ترین افراد زیادہ کھانا کھانے کے باعث پریشان ہیں اور وزن میں کمی کے لیے ورزش کرنے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں جبکہ ملک میں رہنے والے پچاس فیصد بچے غذائی قلت کے باعث جسمانی نشوونما میں ادھورے رہ گئے ہیں۔اس تمام تر گھناؤنی طبقاتی تفریق میں حکومتی وزیر ایسے بیانات دے رہے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ انسانوں کی شکل میں موجود بھیڑیے ہیں جنہیں عوام کا خون پینے اور گوشت نوچنے کے لیے رکھا گیا ہے۔
مملکتِ خداداد میں غذائی اشیا کی قلت سمیت دیگر بنیادی ضروریات کی دستیابی کے بحران تو کافی عرصے سے چلے آرہے ہیں، مگر ان تمام تر بحرانا ت کا اظہار 2018ء کے انتخابات کے بعد شدید تر ہوتا گیا ہے جس میں نئے پاکستان کے نام نہاد حکمران طبقے نے تبدیلی کا ڈھونگ رچاتے ہوئے آئی ایم ایف کے منظور شدہ بجٹ کی وجہ سے مفلوک الحال محنت کش عوام کا جینا محال بنا دیا ہے۔ آئے روز مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری میں اضافے کی وجہ سے غربت اور امارت کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے جس کا اظہار مختلف اداروں کے ملازمین کے احتجاجوں میں بھی ہوتا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال میں 80لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے گر چکے ہیں اور پچاس لاکھ اگلے چھ ماہ میں گریں گے۔ اسی طرح برسرروزگار افراد میں سے 31فیصد یا تقریباًایک تہائی بیروزگار ہوئے ہیں۔صحت، تعلیم بجلی، پٹرول اور گیس مہنگی کرنے کے بعد گزشتہ کئی دنوں سے نئے پاکستان میں آٹے کا بحران ہر خاص و عام کے زبان پر ہے۔ مگر یہاں پر بھی ان نام نہاد حکمرانوں کے غلیظ نمائندے آٹے کے بحران پر اپنی گھٹیا ترین دلائل دیتے ہوئے نہیں تھکتے جن کی مماثلت ملکہ فرانس کے بیان سے ملتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ملک بھر میں محنت کش طبقہ اس پوری صورتحال میں کسمپرسی کی حالت میں موت کے منہ میں جا رہا ہے۔
آٹے کے اس مصنوعی بحران کے حوالے سے زیادہ تفصیل میں اور نہ ہی زیادہ دور جانے کی ضرورت ہے بلکہ تبدیلی سرکار کے ہی دور میں سٹیٹ بینک کی ایک دستاویز کے مطابق اگست 2018ء سے لیکر اگست 2019ء تک 2لاکھ53ہزار ٹن سے زائد گندم ملک سے باہر فروخت کی گئی۔ جبکہ فروری سے مئی2018ء تک صرف چار مہینوں میں 4 لاکھ ٹن سے زائد گندم بیرونِ ملک فروخت کی گئی۔ملک بھر میں آٹے کے موجودہ بحران کے بعد تبدیلی سرکا ر نے 3لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی ہے جس کی پہلی کھیپ 15فروری کو پہنچ جائیگی۔ اب یہاں پرسوال پیدا ہوتا ہے کہ آج سے ٹھیک پانچ مہینے پہلے لاکھوں ٹن گندم برآمد کی جاتی ہے، جبکہ پانچ مہینے بعد ملک میں آٹے کا بحران جنم لیتا ہے۔ اس حوالے سے دو واضح باتیں سامنے آتی ہیں ایک طرف حکمران طبقے کی نااہلی اور دوسری طرف منافع خوری۔ گندم کی درآمد اور برآمد سے جن جن طریقوں سے حکمران طبقات اربوں روپے بناتے ہیں وہ ایک الگ کہانی ہے، مگرغریب اور محنت کش عوام پر درآمد اور برآمددونوں صورتوں میں اضافی بوجھ ڈالا جاتا ہے۔گندم کے بحران ہوں یا چینی کا بحران ہوں یہ حکمران طبقات اپنے مفادات اور زیادہ سے زیادہ منافع بٹورنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں۔ حالیہ چند دنوں میں ملک کے مختلف شہروں میں آٹا 70سے80روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کیا جارہاہے، مگر اس تمام تر مہنگائی کے باوجود بھی آٹا نایاب ہے۔ حکمرانوں کے گمراہ کن دعووں کے باوجود آٹے کی قیمت میں نہ صرف اضافہ ہوتا جارہا ہے بلکہ خیبر پختونخوا میں نانبائیوں کی ہڑتال کے باعث 10روپے والی روٹی 60روپے میں فروخت کی جارہی ہے جس کی وجہ سے محنت کش عوام کے لیے ایک وقت کی روٹی حاصل کرنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ آٹے کا یہ بحران صرف خیبر پختونخوا یا پنجاب تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک کے اندر اس وقت یا تو آٹا نایاب ہوچکا ہے یا پھراس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں تقریباََ پچھلے دو سے تین مہینوں کے اندر آٹے کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا، جہاں 20کلو آٹے کا تھیلا 820روپے کے بجائے 1100تک پہنچ گیا مگر نااہل حکمرانوں کو اُس وقت ہوش آیا جب ملکی سطح پر اس کا کھل کر اظہار ہونے لگا۔ اس کے علاوہ سندھ میں بھی آٹے کی قلت بدستور قائم ہے۔ جہاں پر تھر کے علاقوں میں لوگ پہلے ہی سے غذائی قلت کے شکار ہیں اور سینکڑوں بچے غذائی قلت کے باعث مر چکے ہیں۔مگر آٹے کے اس موجودہ بحران نے سونے پہ سہاگہ والا کام کیا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں نام نہاد جمہوریت کے نام پر عوام اس اُمید سے ہر پانچ سال بعد ووٹ کے ذریعے ایسے حکمرانوں کے چناؤ کی کوشش کرتی ہے جو ان کے لیے مسیحا بن سکے۔ گو کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ انتخابات بھی ایک ڈھونگ کے سوا کچھ بھی نہیں اور انتخابات کے نتائج کا فیصلہ حکمران طبقے کے افراد اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں۔2018ء کے انتخابات میں عمران خان نے مسیحائی کے دعوے کیے اورپاکستان تحریک انصاف کو اقتدارپر بٹھا دیاگیا۔اس سے پہلے الیکشن کیمپئن میں عمران خان نے بُلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر دینے کیساتھ ساتھ کرپشن کا خاتمہ کرے گا۔ لیکن ڈیڑھ سال کے عرصے میں کرپشن کا خاتمہ،روزگار اور بے گھر لوگوں کے مسائل کے حل کا وعدہ تو کجا مہنگائی کا اس قدر بوجھ بڑھادیا گیا کہ غریب گھرانے موت کے منہ میں پہنچ گئے ہیں۔ رہی سہی کسر حالیہ آٹا بحران نے پوری کردی ہے۔ اس کے ساتھ ہی گھی اور پکانے کے تیل کی قیمت میں ایک ہی دن میں 30روپے فی کلو اضافہ ہو گیا جس کے باعث دو وقت کی روٹی کھانے والے ایک یا آدھے وقت کی روٹی بھی بمشکل حاصل کر پا رہے ہیں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق دسمبر کے مہینے میں ملک میں افراط زر کی شرح ایک سال قبل اسی مہینے کے مقابلے میں 12.63فیصد تھی جو گزشتہ نو سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح حکومتی رپورٹ کے مطابق دسمبر کے مہینے میں خوراک کی اشیا پر افراط زر کی شرح شہری علاقوں میں 16.7 فیصد اور دیہاتی علاقوں میں 19.7فیصد تھی۔لیکن حفیظ پاشا کی ایک رپورٹ کے مطابق SPI(Sensitive Price Index)سے تھوڑی بہت حقیقت کا پتہ چلتا ہے جو 22فیصد کی شرح پر ہے۔یہ انڈیکس حساس اشیا کے متعلق ہے اور اس میں خوراک کی تمام اہم اشیا بھی شامل ہیں۔صرف اسی ایک رپورٹ سے حکومتی اعداد و شمار کا جھوٹ کھل جاتا ہے اور واضح ہوتا ہے کہ اشیائے خورد ونوش میں سرمایہ دار بہت بڑے پیمانے پر لوٹ مار کر رہے ہیں اور حکومت ان کا مکمل ساتھ دے رہی ہے۔ آٹے کے بعد اب چینی میں بھی مزیدلوٹ مار کا آغاز ہوچکاہے اوراس وقت چینی 70سے80روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی جارہی ہے۔ اسکے علاوہ دیگر اشیائے خوردو نوش جن میں سبزی،دالیں، گھی شامل ہیں تیزی سے مہنگی ہورہی ہیں،جبکہ گیس،بجلی اور پٹرولیم کی قیمتیں روزانہ کے حساب سے بڑھتی جارہی ہیں۔ جس کی وجہ سے محنت کش عوام فاقہ کشی کے شکار ہورہے ہیں۔ مگر اس تمام تر صورتحال کے باوجود حکمران طبقے کے نمائندے اپنی گھٹیا ترین لفاظیوں کے بلبوتے پر محنت کش عوام کے زخموں پر نما چھڑک رہے ہیں۔
پاکستان میں جاری بحران درحقیقت سرمایہ دارانہ نظم کا بحران ہے جو محنت کش عوام کو آج بھوک اور بیماری کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔ یہ نظام آج پوری دنیا میں بحران کا شکار ہے اس وقت پوری دنیا کے اندر مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ معاشی استحصال و ریاستی جبر اس وقت عالمی سطح پرموجود اور اس کے خلاف ہر طرف بغاوتیں مختلف شکلوں میں ابھر رہی ہیں۔ یہاں بھی اس جبرکیخلاف عوام کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور ایک بہت بڑی بغاوت سماج کی کوکھ میں پنپ رہی ہے۔
کچھ ماہ قبل ہسپتالوں کی نجکاری اور آئی ایم ایف کے نافذ کردہ بجٹ کیخلاف محنت کشوں کی جدوجہد ابھری تھی جو ابھی بھی سلگ رہی ہے اسی طرح دوسرے اداروں میں بھی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔اس وقت ملک کے کونے کونے میں مختلف اداروں اور صنعتوں میں مزدور طبقہ حکمران طبقے کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ حکمرانوں کے پاس ان مسائل کا کوئی حل نہیں اورسرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے آئی ایم ایف کی غلامی ان حکمرانوں کا مقدر ہے جس سے مہنگائی،بیروزگاری، لاعلاجی، غربت، استحصال اور جبر کا خاتمہ نہیں ہو سکتا بلکہ آنے والے عرصے میں ان تمام تر مظالم میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ یہ نظام اپنی طبعی زندگی پوری کرچکاہے اور سامراجی قرضے انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ یہ نظام محکوم طبقات کو سہولیات دینے کے بجائے وہ سب کچھ چھیننے لگا ہے جوکہ اُن کے پاس پہلے سے موجود تھیں۔ ا س غیر منصفانہ نظام کا صفایا کرنے کے لیے محنت کشوں کو ایک انقلاب برپا کرنا ہو گا اوراس نظام کو جڑ سے اُکھاڑ کر ایک سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھنی ہو گی جہاں کوئی شخص منافع کی ہوس کے لیے کسی دوسرے سے روٹی، علاج اور دیگر بنیادی ضروریات چھیننے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکے گا۔