|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
واپڈا کی یونین کا ماضی، حال اور مستقبل پر تناظر بنایا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں واپڈا ہائیڈرو یونین دوسرے عوامی اداروں کی یونین کے مقابلے میں ایک طاقتور اور منظم یونین رہی ہے۔اس کی قیادت بھی ٹریڈ یونین کی روائتی قیادت کی طرح مفاد پرست اور مفاہمت پرست ہی تھی لیکن ایک وقت آنے پر ورکرز کے دباؤ پر اسی ہائیڈرو کی قیادت نے صدارتی حکم ماننے سے انکار کیا اور صدر ہاؤس، آرمی ہاؤس اور پارلیمنٹ ہاؤس کی بجلی بند کر دی اور وقت کے ڈکٹیٹر کو گھر بھیجنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ورکرز اور قیادت میں خلا پیدا ہوتا گیا اور تمام بڑی قیادت مفاد پرستی اور موقع پرستی کی دلدل میں غرق ہو کر حکمرانوں کی بی ٹیم بنتی چلی گئی۔ورکرز کے مفادات کی حفاظت کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کو مدِنظر رکھ کر مفاہمتی پالیسی اپنائی گئی اور بجائے اس کے کہ دوسرے عوامی اداروں کو ساتھ ملاکر جڑت بنائی جاتی اور اپنے ہی ادارے کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں حکومت کی پالیسی کے سامنے ڈٹ جایا جاتا، ورکرز کو چھوٹے چھوٹے مفادات کے پیچھے لگا کر اصل ایشونجکاری کے معاملے سے دور رکھا گیا۔ 1998ء میں پاکستان میں سب سے بڑے عوامی ادارے واپڈا کو بارہ بڑی کمپنیوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ جو کہ نجکاری کی طرف حکومت کا پہلا قدم تھا جس کو واپڈا کی یونینیں سمجھ نہیں سکیں یا اس کے خلاف مزاحمت کی اہلیت نہ ہونے پر اس اقدام کو روک نہ سکیں اور وہ یونین، جس کا نعرہ تھاکہ’’ دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ‘‘، اس کے سی بی اے ہونے کے باوجود ایک عوامی ادارے کے محنت کش بارہ حصوں میں تقسیم ہو گئے۔
پوری دنیا کی سرمایہ دار حکومتوں کی طرح پاکستانی حکومت نے بھی نجکاری کے ذریعے عوامی اداروں کو اونے پونے داموں بیچنا شروع کر دیاجس میں بینک، پاورپلانٹ، PTCL، NPCC، نیشنل ریفاینریز، PARCO، ٹریکٹر، سیمنٹ، گھی ، کھاد ، ٹیکسٹائل اورکیمیکل کے کارخانے شامل تھے۔واپڈا جیسے بڑے محکمے کو اکھٹا فروخت کرنے میں مشکلات ہونے کی وجہ سے اس ادارے کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے مظفرگڑھ، کوٹ ادو اور کراچی الیکٹرک کمپنی کو نجکاری کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اگر اس وقت یونین واپڈا کی تقسیم کے خلاف پورے ملک میں ہڑتال کی کال دیتی اور ادارے کی تقسیم کے خلاف ڈٹ جاتی تو آج نجکاری کی تلوارواپڈا کی ان مختلف کمپنیوں کے سر پر نہ لٹک رہی ہوتی۔اور یونین کا ریفرنڈم کمپنی وائیز الگ الگ ہونے کی نوبت ہی نہ آتی جس کے نتیجے میں مزدور اتحاد کو مزید ضرب لگ سکتی ہے۔
آج کی صورتِ حال پر نظر دوڑائی جائے تو ریفرنڈم کی لڑائی عدالتوں میں لڑی جا رہی ہے اور ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ریفرنڈم نیشنل سطح پر ہو گا یا کمپنی وائیز سی بی اے بنے گی۔ پیغام یونین اس بات پر زور دے رہی ہے کہ ریفرنڈم کمپنی وائیز ہو اور ان کو بھی ایک دو کمپنیوں میں سی بی اے بننے کا موقع ملے۔ وہ اس بات کو بالکل نظر انداز کر رہے ہیں کے اس سے محنت کشوں کی طاقت تقسیم ہو جائے گی لیکن ان کا نظریہ تو جماعت اسلامی کا نظریہ ہے کہ مزدوروں کے یہ مشکل حالات اوپر والے کے پیدا کردہ ہیں اور جب تک وہ نہیں چاہتا حالات بدلنے ناممکن ہیں۔ جبکہ ہائیڈرو یونین اس نظریہ پر یقین رکھتی ہے کہ محنت کش اپنے اتحاد اور جدوجہد سے اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ اس لئے تمام مزدوروں کا اتحاد ضروری ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب تمام واپڈا کے محنت کش ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوں اور دوسرے عوامی اداروں کو ساتھ ملاتے ہوئے اپنے حقوق کی جنگ لڑیں۔ اگر کمپنی وائیز ریفرنڈم ہوتا ہے تو ورکرز کی طاقت ٹکڑوں میں بٹنے سے نجکاری اور دوسری کٹوتیوں کے خلاف مزاحمت کمزور ہوجائے گی، جس کے نتیجے میں چھوٹے سے چھوٹا وزیر یا مشیر بھی یونین پر اپنی غنڈاگردی کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
موجودہ حالات میں واپڈا کی یونین کو دوسرے اداروں کی یونینوں کے ساتھ مل کرنجکاری کی پالیسیوں کے خلاف ایک بند باندھنا چاہیئے اور نجکاری مخالف ایک متحدہ محاذ قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔اور پی ائی اے، ٹیچر، طلباء، ڈاکٹر، ریلوے، سٹیل مل، OGDCLاور دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر مزدوروں کا وسیع تر اتحاد بنا کر اور بھرپور طاقت کے ساتھ نجکاری اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کو مزیدتیز کرتے ہوئے عام ہڑتال کی طرف بڑھنا چاہئے۔اس تمام جدوجہد میں واپڈا ہائیڈرو یونین ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے لیکن مرکزی قیادت اپنے نظریاتی ابہام اور مفاہمتی پالیسی کی وجہ سے اس کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔اب ورکرز پر ذمہ داری آن پڑی ہے کے قیادت پر دباؤ کو بڑھائے اور اس کو یہ بات یاد دلائے اور باور کرائے کے وہ ورکرز کے ترجمان ہیں نہ کہ مالک۔