|تحریر: آدم پال|
آج دنیا بھر میں انقلابی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور ہر طرف سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف ایک سلگتی ہوئی نفرت اور امنڈتی ہوئی بغاوت نظر آتی ہے۔ وہ لوگ جو سماج میں انقلابات کے کردار سے ہی یکسر انکار کرتے تھے اور یہ دعویٰ کرتے دکھائی دیتے تھے کہ اب جمود کے لاامتناعی دور کا آغاز ہو چکا ہے اورانقلابات ماضی کا قصہ بن چکے ہیں اور اب کبھی بھی ایسی سماجی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہو سکتی، ایسے افراد کو اب اپنا منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی۔ اس وقت پوری دنیا عوامی تحریکوں کی لپیٹ میں ہے اور ایک کے بعد دوسرے ملک میں ریاستی جبر اور حکمران طبقے کے مظالم کے خلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور ایک بنیادی سماجی تبدیلی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
ہانگ کانگ سے لے کر چلی تک اور لبنان و عراق سے لے کر الجزائر اورکیٹالونیا تک ہر طرف ہمیں بنیادی مسائل پر عوامی تحریکیں ابھرتی نظر آ رہی ہیں۔ اس تمام صورتحال سے واضح ہو چکا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں ناکام ہو چکا ہے اور عوام کی وسیع اکثریت کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ خود اس نظام کے بنیادی ستون لرز رہے ہیں اور برطانیہ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک اور اس نظام کے رکھوالوں کے گھر میں عوام نے بغاوت کا علم بلند کر دیا ہے۔ اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سب سے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے اور چندامیر ترین افراد کے ہاتھوں میں دنیا کی تین چوتھائی دولت کا ارتکاز پورے سماج میں ان کے خلاف نفرت اور حقارت کو جنم دے رہا ہے۔
ایسی صورتحال میں پاکستان کے حکمران طبقات یہاں کی عوام سے ان خبروں کو چھپانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اورتمام ذرائع ابلاغ پر مکمل کنٹرول حاصل کرتے ہوئے وہ ایسی تمام خبروں کو سامنے آنے سے مسلسل روک رہے ہیں۔ کسی ٹی وی چینل پر اس اہم سماجی تبدیلی پر کوئی گفتگو نہیں کی جاتی جس کی لپیٹ میں ساری دنیا آ چکی ہے اور بائیں اور دائیں بازو کی بحثیں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں شدت اختیار کر چکی ہیں۔ اسی طرح کسی اخبار کے کالم میں ان عوامی تحریکوں کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر کہیں کوئی حوالہ دیا جاتا ہے تو بھی اسے دنگے اور فساد کہہ کر حقارت سے رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ خیال پیش کیا جاتا ہے کہ اُس ملک کا حکمران طبقہ اپنے ملک میں جاری ان ”ہنگاموں“ پر جلد ہی قابو پالے گا۔ اسی طرح یہاں جاری مصنوعی تحریکوں اور دھرنوں سے مماثلت ثابت کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ کوئی بیرونی سازش ان میں ملوث ہو سکتی ہے۔
لیکن یہاں کا حکمران طبقہ اور اس کے کرائے کے دانشور یہاں پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ یہ بھی ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک طویل عرصے سے کبھی کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی کبھی آ سکتی ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی اس مجرمانہ کاوش میں عظیم انقلابِ روس کو ہی رد کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ابھرنے والی عالمگیر سطح کی انقلابی تحریکوں اور نوآبادیاتی ممالک میں آزادی کی جدوجہدوں کو بھی فراموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس ملک کے حوالے سے بھی یہی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہاں برطانوی سامراج سے آزادی محض قانونی طریقہ کار اور عدالتی کاروائیوں کے ذریعے ہی حاصل ہو سکی تھی اور اس میں عوام کی بھرپور شرکت اور مسلح بغاوتوں کا کوئی خاص کردار نہیں تھا۔ تاریخ کے متعلق جھوٹوں کے اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ تحریکیں سماج کو تبدیل نہیں کر سکیں اس لیے انہیں انقلابات نہیں گردانا جا سکتا اور یہ محض حکمران طبقے کے لیے ایک نئے رستے کا تعین کرنے کا باعث ہی بنتی ہیں۔
یہ جھوٹا دعویٰ کرنے کے بعد اسے پاکستان کے 69-1968ء کے انقلاب پر بھی مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کی آمریت کے خلاف ابھرنے والا یہ انقلاب، درحقیقت، ایک معمولی سا احتجاج تھا جس کے بعد ایک آمر نے استعفیٰ دیا اور اس کی جگہ دوسرا آ گیا اور سماج پہلے کی طرح دوبارہ رواں دواں ہو گیا۔ اس طرح یہ ثابت کر دیا جاتا ہے کہ اس سماج میں پہلے کبھی بھی انقلاب نہیں آیا اور اسی لیے اب بھی کبھی نہیں آ سکتا۔ اسی لیے ظلم اور جبر پر مبنی یہ استحصالی نظام اسی طرح جاری وساری رہے گا اور عوام اسی طرح نسل در نسل ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے۔ یہ خیال حکمران طبقے کے دانشوروں کی جانب سے مختلف اخبارات میں پیش کیاگیا ہے جن میں روزنامہ ڈان کا کالم بھی شامل ہے۔ سامراجی طاقتوں کے کاسہ لیس اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے پالتو دانشور اس سے زیادہ اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک انقلاب کے خیال سے ہی ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، ان کا جسم کانپنے لگتا ہے اور پیروں کے نیچے زمین ہلنے لگتی ہے۔ اس لیے یہ اس خیال کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے ایک برا خیال سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ اس ملک کے محنت کشوں اور مظلوموں کو بھی یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ انقلابی تحریکوں اور عوامی احتجاجوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اتنی زیادہ قربانیاں دینے کے بعد بھی سب کچھ رائیگاں چلا جاتا ہے بلکہ جبر میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے عوام کو احتجاج کا خیال ہی دل سے نکال دینا چاہیے اور جو کچھ ہو رہا ہے اسے مقدر کا لکھا سمجھ کر تسلیم کر کے سرخم کر دینا چاہیے۔ لیکن اس تمام تر گفتگواور امن و آشتی کے درس کے دوران حکمران طبقے کی لوٹ مار جاری رہتی ہے اور عوام پر مظالم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی پوری شدت کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔ اسی لیے اس کے خلاف بغاوت کے آثار بھی دکھائی دیتے ہیں جو ان حکمران طبقات کو خوفزدہ کیے رکھتے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھر میں ابھرنے والی حالیہ تحریکوں سے مقامی حکمرانوں کا خوفزدہ ہونا اور اپنی انقلاب دشمنی کو عیاں کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔
لیکن اس دوران محنت کش طبقے کے لیے بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی تاریخ سے واقفیت حاصل کرے اور جھوٹ کے پہاڑوں تلے دبائی گئی اس حقیقی تاریخ کو نکال کر سامنے لائے اور اس پوری نسل کے تجربات سے اہم نتائج اور اسباق حاصل کرے۔ اس حوالے سے اس ملک کے محنت کش طبقے کی تاریخ کا ایک روشن باب 69-1968ء میں رقم ہوا تھا جب اس ملک کے لاکھوں محنت کشوں نے اس سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کیا تھا اور یہاں پر موجود حکمران طبقے کوپسپائی پر مجبور کیا تھا۔ جب ہر طرف بائیس امیر ترین خاندانوں کی بڑھتی ہوئی دولت کے قصے زبان زد عام تھے اور عوام کی اکثریت انتہائی غربت اور ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی تھی، ایک انقلابی تحریک نے پورے سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے اس ملک کے اندر جنرل ایوب خان کی خوفناک آمریت کے خلاف تحریک ابھری اور گلی گلی میں سوشلزم کی صدا بلند ہوئی۔ اسی تحریک کے دوران کھیتوں کھلیانوں سے لے کر صنعتی مراکز تک ہر جگہ ”سوشلزم آوے آوے“ کا نعرہ گونج رہا تھا۔ لیکن درست قیادت نہ ہونے کے باعث اس انقلابی تحریک کی قیادت مغربی پاکستان میں ایک حادثاتی کردار ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آ گئی تھی جو نظریاتی طور پر دائیں بازو کا رجحان رکھتا تھا لیکن تحریک کی قیادت حاصل کرنے کے لیے اس نے بائیں بازو کی لفاظی کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ مشرقی پاکستان میں بھی انقلابی تحریک کو زائل کرنے کے لیے قوم پرستی کے زہرکو استعمال کیا گیا اور بالشویک نظریات سے لیس قیادت کی عدم موجودگی میں قوم پرست لیڈر مجیب الرحمان اس تحریک کی قیادت میں ابھر کر سامنے آ گیا۔
ان دونوں لیڈروں کے کردار اور تحریک کے ساتھ ان کے تعلق پر طویل گفتگو کی جا سکتی ہے اور آج نصف صدی بعد یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ ان دونوں نے اپنے اپنے انداز میں تحریک سے کس طرح غداری کی اور اپنا کام نکلنے کے بعدحکمران طبقے نے انہیں کس طرح موت کے منہ میں دھکیل کر محنت کش طبقے کی تحریکوں کو کچلنے کا آغاز کیا۔ لیکن آج ضروری ہے کہ قیادتوں کی بجائے اس انقلابی تحریک کے کارناموں کو سامنے لایا جائے جنہیں آج کا حکمران طبقہ تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
انقلابی تحریک کا آغاز 7 نومبر 1968ء کو راولپنڈی کے ایک طالب علم عبدالحمید کی شہادت سے ہوا تھا جسے پولیس نے گولی ماری تھی۔ لیکن اس سے پہلے کئی سالوں سے طلبہ اور مزدوروں کی ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے بیرونی دشمن کے ساتھ جنگ کا حربہ بھی استعمال کیا گیا تھا اورملکی سلامتی اور ”نازک صورتحال“ جیسے چورن بھی بیچنے کی متعدد کوششیں کی گئی تھیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سلسلہ پوری شدت کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔
عبدالحمید کے قتل اور راولپنڈی میں طلبہ کے احتجاجی مظاہرے پر پولیس کے جبر کے خلاف پورے ملک کے طلبہ نے احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا تھا اور مغربی پاکستان میں کراچی سے لے کر پشاور تک کے تعلیمی اداروں میں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کے سلسلے کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس تحریک کی قیادت بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں کر رہی تھیں جن میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن سر فہرست تھی۔ مشرقی پاکستان کے طلبہ بھی کچھ ہی عرصے میں اس تحریک میں شامل ہو گئے تھے اور انہوں نے بھی اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے ایوب آمریت کے خلاف ہڑتالوں کے سلسلے کا آغاز کر دیا تھا۔
لیکن سب سے اہم پیش رفت مزدور تنظیموں کی شمولیت تھی جو بڑی تعداد میں اس تحریک میں شامل ہوئی تھیں اور ایوب آمریت کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کردیا تھا۔ صنعتی مزدوروں سے لے کر چھوٹے سرکاری ملازمین تک، ہر شعبے کے محنت کش ملک گیر ہڑتالوں میں شامل ہو رہے تھے جو بتدریج منظم ہوتے ہوئے مارچ 1969ء میں ایک ملک گیر عام ہڑتال پر منتج ہوئی تھیں۔ اس سے قبل جنوری اور فروری میں ایک روزہ اور دوروزہ ملک گیر عام ہڑتالوں کی کال دی گئی تھی لیکن اس پر بھی جب ایوب خان مستعفی نہیں ہوا تو ایک غیر معینہ مدت کے لیے عام ہڑتال کی کال دی گئی جو تقریباً ایک ہفتہ جاری رہی اور اس کے دباؤ کے تحت فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کی تمام تر رعونت آخر کار خاک میں مل گئی اور وہ 25 مارچ 1969ء کو استعفیٰ دے کر گھر چلا گیا۔
اس سے قبل ایوب خان کئی دفعہ استعفیٰ دینے سے صاف انکار کر چکا تھا اور واضح کر چکا تھا کہ مزدور تنظیموں اور طلبہ تحریک سے سختی کے ساتھ نپٹا جائے گا۔ اسی طرح تحریک پر ”بیرونی سازش“ کا لیبل لگانے کے ساتھ ساتھ کئی دیگر الزامات بھی لگائے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ ان ہڑتالوں میں شامل افراد کے خلاف قانونی اور آئینی طریقے سے نپٹا جائے گا۔ اسی طرح ملک کی عدالتوں سے لے کر ضلعی انتظامیہ تک اور فوج سے لے کر پولیس تک ہر ادارے کو تحریک کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن محنت کش طبقے کی جڑت اور انقلابی تحریک کے باعث ایوب خان کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور تمام تر ریاستی طاقت ہونے اور سامراجی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے باوجود اسے عوامی طاقت کے سامنے شکست تسلیم کرنی پڑی۔
اس انقلابی تحریک کا مطالبہ صرف آمرانہ طرز حکومت کا خاتمہ یا ایک جرنیل کی جگہ دوسرے کی تعیناتی نہیں تھا بلکہ اس تحریک کے نعروں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس کا کردار نظام کی حقیقی تبدیلی کے مطالبے پر مبنی تھا۔ چٹاگانگ سے لے کر پشاور تک پورا ملک سوشلزم کے نعروں سے گونج رہا تھا اور اس نظام کو یہاں نافذ کرنے کے لیے لاکھوں طلبہ، مزدور اور کسان عوامی تحریک کا حصہ بن چکے تھے۔ ایوب خان نے اقتدار کے آخری دنوں میں رجعتی قوتوں کی حمایت سے تحریک کوکچلنے کی متعدد کوششیں کیں اور رائج الوقت سیاسی پارٹیوں کے ذریعے مذاکرات کا ڈھونگ بھی کئی دفعہ رچایا گیا لیکن ان پارٹیوں کا وقت ختم ہو چکا تھا اور سیاسی افق پر نئی سیاسی قوتیں عوامی حمایت کے ساتھ طلوع ہو رہی تھیں۔ تمام تر ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہی ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی کہ رائج الوقت مختلف پارٹیاں ہی اس تحریک کی حقیقی نمائندہ ہیں اور صدر مملکت ان کے ساتھ مذاکرات کر کے صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان پارٹیوں میں جماعت اسلامی سے لے کر مسلم لیگ کے مختلف دھڑے اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی شامل تھیں جن کے ساتھ جنوری اور فروری کے دوران مذاکرات کے دور چلائے گئے۔ حتیٰ کہ بھٹو اور مجیب کے ساتھ بھی مذاکرات کے امکان کو سامنے لایا گیا۔ لیکن اس وقت تحریک کسی بھی لیڈر کے کنٹرول میں نہیں تھی اور درحقیقت یہ لیڈر بھی تحریک کے دباؤ کے تحت ہی اپنے فیصلے کرنے پر مجبور تھے۔ جبکہ پرانی تمام پارٹیاں رد ہو چکی تھیں اور تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بننے کی طرف بڑھ رہی تھیں۔
لیکن اس تحریک میں سب سے بڑی غداری بائیں بازو کے لیڈروں کی جانب سے نظر آئی۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت اس وقت سٹالنسٹ نظریات کے حامل افراد کے پاس تھی جو ماسکو نواز اور پیکنگ نواز دھڑوں میں منقسم تھے۔ ان دونوں دھڑوں کی قیادتوں کے شدید باہمی اختلافات تھے لیکن ایک نکتے پر دونوں متفق تھے کہ پاکستان میں ابھی سرمایہ دارانہ نظام کو پورے طریقے سے رائج کرنے کی ضرورت ہے اور سوشلزم کا مرحلہ ایک صدی سے زائد کے فاصلے پر ہے۔ اسی لیے ایوب خان کی حمایت وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کیا جاسکے۔ ان لیڈروں نے عوامی تحریک سے نہ صرف سب سے بڑی غداری کی بلکہ عوام کی اس عظیم الشان انقلابی تحریک اور قربانیوں کو امریکی سازش قرار دے کر اسے رد کرنے کی کوشش کی۔ انقلابِ روس کی تاریخ سے نا بلد ان نام نہاد کمیونسٹوں نے اس ملک میں سوشلسٹ انقلاب کرنے کا ایک تاریخی موقع گنوا دیا اور یہاں کے محنت کش عوام کو ایک بار پھر انہی سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے چنگل میں پھنسے رہنے کے لیے چھوڑ دیا۔
اس ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد ایوب خان کے شرمناک استعفے کے بعد بھی جاری رہی اور جنرل یحییٰ خان کی آمریت کے خلاف بھی طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کے احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں پہلے سے زیادہ شدت سے جاری رہے۔ اسی دور میں مزدوروں نے اپنے لیے بہت سی حاصلات لینے کے سلسلے کا بھی آغاز کیا جس میں نہ صرف یہاں پہلی دفعہ مزدور قوانین کا اجرا کیا گیا بلکہ اس ملک میں پہلے عام انتخابات کا انعقاد بھی یقینی ہوا۔ وہ بنیادی حق جس سے یہاں کے عوام کو نام نہاد آزادی کے کئی سال بعد تک محروم رکھا گیا تھا اس کا حصول بھی اسی انقلابی تحریک کا ہی مرہون منت ہے جسے آج کے حکمران طبقات اور ان کے گماشتہ دانشور جھٹلانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ درحقیقت، انقلابی تحریک کا رستہ روکنے کے لیے جہاں بد ترین ریاستی جبر اور تشدد کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے وہاں حکمران طبقہ مراعات کا اعلان بھی شروع کر دیتا ہے۔ آغاز میں صرف اعلانات کے ذریعے تحریک کو زائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اوراگر اس میں کامیابی مل جائے تو ان اعلانات کے عملدرآمد میں قانونی اور آئینی پیچیدگیوں کا بہانہ بنا کر تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر تحریک زائل ہو جائے تو یہ اعلانات صرف تقریروں تک ہی محدود رہتے ہیں لیکن اگر تحریک پوری شدت کے ساتھ جاری رہے تو ان اعلانات کو عملی جامہ پہنا کر حکمران طبقہ اپنے مال و دولت کا کچھ حصہ عوام کو دینے پر راضی ہوجاتا ہے۔ کیونکہ حکمران طبقے کا حتمی مقصد اس نظام کا دفاع ہوتا ہے جس نظام کے تحت اس کی تمام تر دولت اور جائیداد نہ صرف محفوظ رہ سکے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی منتقل ہوتی رہے۔ اسی تمام تر نجی ملکیت کا دفاع کرنے کے لیے ہی ریاست کا ادارہ بنایا گیا ہے اور ایسے قوانین ترتیب دیے گئے ہیں جن کے ذریعے حکمران طبقے کی حاکمیت برقرار رہے اور محنت کش عوام ظلم کی چکی میں نسل در نسل پستے رہیں۔
69-1968ء کے انقلاب میں یہ موقع موجود تھا کہ یہاں اس نظام کا خاتمہ کر دیا جاتا اور سرمایہ دار طبقے کی اس حاکمیت کو ہی اکھاڑ پھینکا جاتا۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت تھی جو اس وقت پورے ملک میں موجود نہیں تھی۔ انقلابی پارٹی سب سے پہلے ایک نظریہ ہوتی ہے جو موجودہ نظام سے جدید نظام کا حقیقی منصوبہ سائنسی نظریات کی بنیاد پر استوار کرتی ہے۔ 1917ء کے انقلابِ روس میں بالشویک پارٹی نے یہی کردار ادا کیا تھا۔ اپنی انتہائی قلیل تعداد کے باوجود ان کے پاس وہ نظریاتی بنیادیں موجود تھیں جن کے تحت وہ زار روس کی ظالمانہ ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ایک سوشلسٹ ریاست کی بنیادوں کو تعمیر کر سکتے تھے۔ اسی لیے جب فروری 1917ء میں عوام نے زار روس کی بادشاہت کو اکھاڑ پھینکا تو بالشویک پارٹی نے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں ایک سوشلسٹ ریاست کا نعرہ واضح انداز میں پیش کیا۔ اس کے بعد کے طوفانی واقعات میں بھی وہ اپنے نظریات پر قائم و دائم رہے اور انہی نظریات کے تحت اکتوبر 1917ء میں سوشلسٹ انقلاب کی قیادت کی۔ اس انقلاب کو برپا کرنے کے بعد ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم فراہم کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری قرار پایا۔ لیکن اس سے پہلے سرمایہ دارانہ ریاستی ڈھانچے، اس کی عدالتوں اور انتظامی امور کو اکھاڑ کر تمام تر اقتدار مزدوروں کی منتخب کمیٹیوں کے سپرد کر دیا گیا جنہیں وہاں سوویت کہا جاتا تھا۔ اس انقلاب نے دنیا بھر میں انقلابات کے ایک نئے سلسلے کو جنم دیا تھا اور خاص کر دوسری عالمی جنگ کے بعد چین سمیت بہت سے ممالک میں سوشلسٹ انقلابات کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا گیا تھا۔
1967ء میں پیپلز پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنانے والوں کے سامنے یہ تمام تر صورتحال اور تجربات موجود تھے جس کی ایک ہلکی سی جھلک پارٹی کی تاسیسی دستاویزات میں نظر آتی ہے۔ گو کہ قومی سوال سمیت مختلف دوسرے اہم مسائل پر تاسیسی دستاویز میں انتہائی رجعتی نظریات کی آمیزش بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح مشرقی پاکستان کے قوم پرستوں نے بھی بائیں بازو کا لبادہ پہن رکھا تھا لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے حوالے سے ان کا نہ کوئی ارادہ تھا اور نہ ہی حکمت عملی۔ مغربی پاکستان کے تمام قوم پرستوں کی صورتحال بھی مختلف نہیں تھی۔ مرحلہ وار انقلاب کے غلط سٹالنسٹ نظریات سے لیس کمیونسٹ پارٹیاں بھی سرمایہ دارانہ نظام پرمکمل ایمان لا چکی تھیں بلکہ ماؤزے تنگ اور ایوب خان کی دوستی کو دونوں جانب سے ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہر اقرار دیا جا رہا تھا۔ اس کی وجہ بھی درحقیقت امریکی سامراج اور چین کی سٹالنسٹ بیوروکریسی کی بڑھتی ہوئی قربتیں تھیں جن میں پاکستان ڈاکیے کا کردار ادا کر رہا تھا۔
ان نظریاتی غداریوں کے باعث اس پورے ملک میں چھوٹی سی بھی ایسی قوت نہیں تھی جو نظام کی تبدیلی کے لیے اس تحریک کی قیادت کر سکتی۔ پیپلز پارٹی سمیت دیگر بائیں بازو کی پارٹیوں میں ہزاروں ایسے کارکنان تھے جو سوشلسٹ نظام کے قیام کے لیے جان بھی قربان کر سکتے تھے اور ہر رکاوٹ عبور کرنے کے لیے تیار تھے۔ پورے ملک میں مزدور تحریک انتہائی مضبوط بنیادوں پر موجود تھی اور محنت کشوں کی ہراول پرتوں میں بائیں بازو کے نظریات بڑے پیمانے پر سرایت کر چکے تھے۔ مختلف صنعتی علاقوں میں فیکٹریوں پر قبضوں کا آغاز ہوچکا تھا جو واضح کرتا تھا کہ محنت کش ملکیت کے بنیادی رشتوں کو چیلنج کر رہے ہیں اور نجی ملکیت کے بجائے اجتماعی ملکیت کے نظام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ طلبہ تنظیموں میں بھی بائیں بازو کے نظریات وسیع مقبولیت رکھتے تھے اور کوئی یونیورسٹی اور کالج ایسا نہیں تھا جس میں بائیں بازو کے طلبہ کی رجعتی تنظیموں کے مقابلے میں وسیع اکثریت موجود نہ ہو۔ اسی طرح کسانوں کی مسلح بغاوتوں کا بھی آغاز ہو چکا تھا اور مختلف علاقوں میں بڑی بڑی جاگیروں پر قبضوں کاسلسلہ تیزی سے جاری تھا۔ قومی جبر کے خلاف بھی مظلوم قومیتوں کی جانب سے عوامی تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا جس کا سب سے بڑا اظہار مشرقی پاکستان میں نظر آیا اور جسے کچلنے کے لیے حکمران طبقے کی جانب سے جنگ مسلط کی گئی۔ اس جنگ میں حتمی تجزئیے میں ہندوستان کے حکمران طبقے نے بھی پاکستانی حکمرانوں کا ساتھ دیا جبکہ اس وقت دونوں ممالک کے حکمران عالمی طور پر دو مخالف کیمپوں میں موجود تھے۔ ہندوستان کے حکمرانوں کو خدشہ تھا کہ یہ تحریک مغربی بنگال کے ذریعے پورے ہندوستان میں پھیل سکتی ہے اس لیے اسے سرحد کے پار ہی کچلنا بہتر رہے گا۔ حکمرانوں کی اس دوستی کا سب سے واضح اظہار اس وقت نظر آیا جب سقوطِ ڈھاکہ کی رات دونوں ممالک کے فوجی جرنیلوں نے مل کر قہقہوں کی محفل سجائی اورلاکھوں افراد کے خون سے ہولی کھیلنے اور انقلابی تحریک کو کچلنے کا جشن اکٹھے منایا۔
اس موقع پر ہر طرف نظریاتی بحثوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہو چکا تھا۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے مختلف دھڑوں سے لے کر مغربی پاکستان کی فیکٹریوں، تعلیمی اداروں اور دیہاتوں تک ہر جگہ انقلاب کے مستقبل کے حوالے سے بحثیں ہو رہی تھیں۔ اس وقت ان بحثوں میں رجعتی قوتوں کو شکست ہو چکی تھی اور بائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد ہی مختلف علاقوں میں تحریک کی قیادت کے طور پر ابھر رہے تھے۔ لیکن بائیں بازو کے نظریات کے حامل تمام دھڑوں میں سے کسی کے پاس بھی سماج کی مکمل تبدیلی کا پروگرام نہیں تھا اور قوم پرستوں سے لے کر پیپلز پارٹی میں شامل بائیں بازو کے افراد تک سب سیاسی کارکنان سرمایہ دارانہ نظام کو ہی مضبوط کرنا چاہتے تھے اور صرف اس نظام میں رہتے ہوئے ہی مزدوروں کے حق میں زیادہ سے زیادہ اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی میں شامل بائیں بازو کے افراد نے 1970ء کے عام انتخابات سے قبل براہ راست انقلاب کا پروگرام ضروردیاتھا جو یقینا آگے کا قدم تھا لیکن پارٹی کے اندر منظم شکل میں موجود نہ ہونے کے باعث انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت عام انتخابات کا انعقاد، درحقیقت، انقلابی تحریک کو زائل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ کیونکہ اس وقت پورے ملک میں مزدوروں اور کسانوں کی کمیٹیاں تیزی سے ابھر رہی تھیں اور فیکٹریوں اور جاگیروں پر قبضوں کے سلسلے کا بھی آغاز ہو چکا تھا۔ مشرقی پاکستان میں یہ عمل زیادہ تیز رفتاری اور شدت سے جاری تھا۔ یہ تمام کمیٹیاں، درحقیقت، ایک متوازی ریاست کے اداروں کے طور پر کام کر رہی تھیں اور گلی محلوں کے انتظامی امور سے لے کر مختلف صنعتی شہروں کے اہم امور انہی کمیٹیوں کے ذریعے انجام دیے جاتے تھے۔ اپنا استعفیٰ دینے سے پہلے ایوب خان نے اپنی ڈائری میں بھی یہی لکھا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اور پولیس کے سربراہوں کی عملداری ختم ہو چکی ہے اور گلی محلوں میں عوامی کمیٹیوں کے ذریعے ہی تمام تر معاملات چلائے جا رہے ہیں۔
اگر اس وقت بالشویک پارٹی کی طرز پر پارٹی موجود ہوتی اور تمام تر اقتدار مزدوروں اور کسانوں کی ان منتخب کمیٹیوں کو سپرد کرنے کا مطالبہ کرتی تو اس کو پورے ملک میں عوامی مقبولیت حاصل ہو سکتی تھی اور پرانی سرمایہ دارانہ ریاست کے انتخابی ڈھونگ کو ٹھوکر مارتے ہوئے سماج کی تبدیلی کا عمل مکمل کیا جا سکتا تھا۔ دیہاتوں اور شہروں میں موجود یہی منتخب کمیٹیاں ہی تمام تر ریاستی امور اپنے کنٹرول میں لے سکتی تھیں اور برطانوی سامراج کے بنائے گئے مالیاتی، انتظامی، عدالتی اور دفاعی ڈھانچے کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی تھی اور اس کو ختم کر کے انقلابی بنیادوں پر مزدور ریاست قائم کی جا سکتی تھی۔
لیکن یہ سب کچھ نہیں کیا جا سکا اور اسی نظام اور اس کے تحفظ کے لیے قائم ریاست کو ہی جاری رہنے کا موقع ملا۔ اسی باعث سامراجی طاقتوں کو بھی یہاں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا ایک اور موقع ملا جس کے بعد انہوں نے یہاں کے محنت کش طبقے سے یہ انقلاب برپا کرنے کا انتقام لینا شروع کر دیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کو دوبارہ استوار کرنے اور اس ریاست کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے خود اس تحریک کے قائدین کو مزدور دشمن اقدامات کرنا پڑے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمن، دونوں نے اپنے ملکوں میں اس انقلاب میں شامل سیاسی کارکنان کو نشانہ بنانا شروع کیا اور ریاستی جبر کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جن میں ایوب آمریت سے بھی زیادہ خوفناک جبر کے نئے ادارے بنائے گئے۔ باقی ماندہ پاکستان میں مظلوم قومیتوں پر بھی جبر کے نئے سلسلے کا آغاز ہو اجبکہ مزدوروں سے قبضہ کی گئی صنعتوں کو واپس لینے کا سلسلہ شروع ہوا جس کے لیے مزدوروں پر گولیاں بھی چلائی گئیں۔ اسی طرح کسانوں کی بغاوتوں کو بھی کچلا گیا اور جاگیر داروں کو دوبارہ اقتدار میں حصہ دیا گیا۔ یہ سار ا عمل تحریک کو کمزور کرنے کا باعث بنتا چلا گیا جس نے بالآخر قیادت کو عوام سے بالکل کاٹ کر رکھ دیا۔ اسی دوران حکمران طبقے نے آخری حملہ کیا اور بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ اس کے بعد سامراجی طاقتوں اور مقامی حکمران طبقے نے پوری قوت سے محنت کش طبقے سے انتقام لینے کے عمل کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں مختلف عوامی تحریکیں بھی ابھری ہیں اور اس ریاستی جبر کو چیلنج بھی کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود انقلابی قیادت کے فقدان کے باعث وہ فیصلہ کن انداز میں آگے نہیں بڑھ سکیں۔
آج دنیا پھر ایک انقلابی عہد میں داخل ہو چکی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ایک دفعہ پھر ہل رہی ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ سماج میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں پہلے ہی بہت کمزور ہیں اور عالمی مالیاتی بحران کے اثرات اس کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔ ایسے میں 69-1968ء سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر انقلابی تحریکیں ابھر سکتی ہیں جو اس نظام کو پاش پاش کرنے کی جانب بڑھیں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی انقلابی پارٹی کی تعمیر تیزترین انداز میں کی جائے جو اس نظام کے خاتمے کی جدوجہد پر یقین رکھتی ہو اور ایک مزدور ریاست کی تعمیر کرنے کے نظریات سے لیس ہو۔ سب سے بڑ ھ کر ماضی کے انقلابات کے تجربات سے سیکھتے ہوئے ضروری اسباق اخذ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ ایسی انقلابی پارٹی کی موجودگی میں لاکھوں عوام کی سرکشی کو منزل مقصود تک پہنچانا اور سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا اسی نوجوان نسل کے لیے ممکن ہو گا۔