|تحریر: آدم پال|
یہ 1968ء کے انقلابات کی نصف صدی کا سال ہے۔ پاکستان میں بھی اس سال ایک انقلاب ابھرا تھا جس نے یہاں پر حکمرانوں کے ایوانوں کے در ودیوار ہلا کر رکھ دیے تھے۔ لیکن یہاں کہیں بھی اس انقلاب کا ذکر سننے کونہیں ملتا اور نہ ہی کسی تاریخ کی کتاب میں ایسے کسی واقعہ کو بیان کیا جاتا ہے۔
حکمران طبقے کے گماشتہ تاریخ دانوں کی لکھی گئی تاریخ میں کبھی بھی محنت کش طبقے کی تحریکوں اور انقلابات کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ ایسی لکھی گئی تمام تحریروں میں حکمران طبقات کی حاکمیت کو ازلی اور ابدی بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اقتدار میں تبدیلیوں کا محرک اکثر محلاتی سازشوں یا ذاتی رنجشوں اور خامیوں کو بیان کیا جاتا ہے۔ان تحریروں میں کبھی بادل نخواستہ محنت کشوں کے احتجاجوں کے ذکر کی ضرورت پیش آ بھی جائے تو ایسا انتہائی حقارت اور بے دلی سے کیا جاتا ہے جبکہ زیادہ اصرار اس کے کچلے جانے پرہوتا ہے۔ اس بیان کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے اسے ایک بیکار عمل کے طور پر پیش کیا جائے اور اس کیخلاف نفرت ابھاری جائے۔ یا پھر ان احتجاجوں پر ہونے والے ریاستی جبر سے خوفزدہ کیا جائے اور عوام الناس کو ایسی کوششوں سے دور رکھا جائے۔ یہاں تاریخ لکھنے کا مقصدایک ایسے سماج کی تصویر کشی کرنا ہوتا ہے جس میں ایک پتہ بھی حکمرانوں کی مرضی سے ہلتا ہے اور اس ساکت و جامد نظام کو دنیا کی کوئی طاقت تبدیل نہیں کر سکتی۔تاریخ کے ساتھ ساتھ دیگر سماجی علوم میں بھی یہی نقطہ نظر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں امیر اور غریب پرمبنی طبقاتی نظا م پر کبھی کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا اور اسے ایک فطری امر کے طور پر لیا جاتا ہے جس پر سوال تک اٹھانے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔
لیکن درحقیقت کوئی انسانی سماج ایسا نہیں جس میں تحریکیں اور انقلابات برپا نہ ہوئے ہوں اور سماج کی تبدیلی کا عمل عوام کی بڑے پیمانے کی شمولیت کے بغیر آگے بڑھا ہو۔ آج انسانی سماج جس شکل میں موجود ہے اور جو سماجی ڈھانچے آج پوری آب و تاب کے ساتھ سماج پر حاوی نظر آتے ہیں وہ ماضی کے انہی انقلابات کی دین ہے جن میں عوام نے بھرپور شرکت کی تھی۔ پاکستان سمیت اس پورے خطے کے متعلق یہ تاثر زیادہ زور و شور سے دیا جاتا ہے کہ یہاں کبھی کوئی انقلاب نہیں آیا۔ یہاں پر بہت سے نام نہاد انقلابی بھی یہاں کے محنت کش عوام پر اکثر طعنے کستے ہوئے اور لعن طعن کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہاں نہ کبھی کوئی انقلاب آیا ہے اور نہ ہی کبھی آ سکتا ہے۔ یہ روایتی جملہ ایک طرف تو حکمران طبقے کے مسلط کیے گئے نظریات کی ترجمانی کرتا ہے تو دوسری جانب انقلابی سیاست کرنے والوں کے تاریخ کے علم اور اس کی درست سمجھ بوجھ کے فقدان کی غمازی کرتا ہے۔پاکستان اور اس پورے خطے کی تاریخ انقلابات سے بھری ہوئی ہے اور یہاں کے محنت کش طبقے نے متعدد بار یہاں کے حکمرانوں کے خلاف بغاوتیں اور انقلابات برپا کیے ہیں۔ ان انقلابات کو تاریخ کی کتابوں سے تو مٹا دیا گیا لیکن موجودہ سماج میں ان انقلابی تحریکوں اور بغاوتوں کے اثرات آج بھی محفوظ ہیں۔درحقیقت آج کے سماج کی موجودہ ترتیب اور بنیاد ان انقلابات نے ہی تشکیل دی ہے۔ اسی لیے آج کے سماج کو سمجھنے کے لیے ان انقلابات کو درست انداز میں سمجھنا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے۔اسی کے ساتھ ان انقلابی تحریکوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے بھی اہم اسباق حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ آنے والی انقلابی تحریکوں میں ان اسباق سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی جا سکے۔
1968ء کے انقلابات کی نصف صدی گزرنے کے باعث پوری دنیا میں ان انقلابات کے بارے میں بحث مباحثے جاری ہیں اور ایک دفعہ پھر ان کے اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسی کوئی تحریر نظر نہیں آتی اور نہ ہی ایسے کسی مباحثے کا ذکر ملتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے حکمران طبقے کے ساتھ ساتھ یہاں کے نام نہاد بائیں بازو کے دانشور اور انقلابی بھی یہاں برپا ہونے والے اس انقلاب کا ادراک نہیں رکھتے یا پھر اسے مکمل طور پر فراموش کر دینا چاہتے ہیں۔درحقیقت پاکستان کے بائیں بازو نے اس انقلاب کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا اور اسے ایک سازش قرار دے کر رد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس انقلاب کے سیاست اور پاکستان کے سماج پر پڑنے والے دیو ہیکل اثرات کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ اس سماج کا درست سائنسی تجزیہ و تناظر تخلیق نہیں کیا جا سکا۔یہ اعزاز بھی عالمی مارکسی رجحان کو ہی جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کے 69-1968ء کے انقلاب کی حقیقی تاریخ کو اجاگر کیا اور اس سے درست نتائج اخذ کرتے ہوئے یہاں کے محنت کش طبقے کی حقیقی تاریخ کو منظر عام پر لے کر آیا۔ محنت کش طبقے کی حقیقی تاریخ مرتب کرتے ہوئے ہی اس سماج کا سائنسی بنیادوں پر درست تجزیہ ممکن ہوا جس کے باعث ایک درست تناظر تخلیق کیا جا سکا۔ آج نصف صدی گزرنے کے بعد ایک دفعہ پھر پاکستان کے محنت کش طبقے کی اس عظیم تاریخ پر نظر دوڑانے کی ضرورت ہے اور اس سے درست نتائج اخذ کرتے ہوئے مستقبل کے انقلابات کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ملک کی سرکاری تاریخ میں اس عظیم انقلاب کا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا ۔ صرف سرسری طور پر بتایا جاتا ہے کہ جنرل ایوب نے خراب ملکی حالات کے پیش نظر اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کر دیا تھا جس نے بعد ازاں اس ملک کے پہلے عام انتخابات کروائے تھے۔غیر سرکاری تاریخ کی کتابوں میں بھی فیلڈ مارشل ایوب خان کیخلاف ہونے والے مظاہروں کو جمہوریت کی بحالی کے لیے ہونے والے احتجاجی مظاہرے قرار دیا جاتا ہے اور ان کی تفصیلات بتانے سے عمومی طور پر گریز کیا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کے مسلط کردہ نظریات کے تحت لکھی جانے والی تاریخ سے اس کے علاوہ توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ اس تاریخ میں شخصیات کو غیر معمولی طور پر بڑا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور سماج میں جاری مختلف عوامل اور ان عوامل کے تضادات کا ذکر شاذونادر ہی ملتا ہے ۔ نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ مختلف شخصیات کن رجحانات کی نمائندگی کر رہی تھیں اور ان کی حمایت سماج کے کس طبقے میں موجود تھی۔ جنرل ایوب کے بعد جو شخصیت اس عہد کی تاریخ پر حاوی نظر آتی ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کی ہے۔ 69-1968ء کے انقلاب کے دوران جو قیادت ابھر کر سامنے آئی تھی وہ یقیناً بھٹو کی ہی تھی اور بعد ازاں وہ ملک کے سربراہ بھی بنے ۔ بھٹو کی شخصیت میں اس انقلاب اور اس عہد کے تضادات کی عکاسی بھی نظر آتی ہے اور اس کا تفصیلی جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ مارکسزم کا تاریخ کو جاننے کا عمل تاریخی مادیت کہلاتا ہے اور یہ سائنسی نکتہ نظر تاریخ میں فرد کے کردار کو کبھی بھی فراموش نہیں کرتا۔ لیکن دوسری جانب فرد کے کردار کو ہی تمام تر صورتحال پر مسلط کر دینا اور سماج میں جاری عمل سے مکمل طور پر انکار کر دینا بھی انتہائی غیر سائنسی طریقہ کار ہے جس کے مرتکب یہاں کے اکثر مورخ ہوئے ہیں خواہ ان کا تعلق بائیں بازو سے ہو یا دائیں بازو سے۔ اس لیے آج اس انقلاب کی نصف صدی گزرنے کے بعد یہ انتہائی ضروری ہے کہ ان تمام تر واقعات کا گہرائی میں سائنسی تجزیہ کیا جائے تاکہ نہ صرف اس عہد کے کردار کو درست انداز میں سمجھا جا سکے بلکہ اس سے درست نتائج اخذ کرتے ہوئے مستقبل کے انقلابات کی تیاری کی جا سکے۔
1968-69ء کا انقلاب
انقلاب کا آغاز 7 نومبر 1968ء کو ہوا جب راولپنڈی میں ایک طالب علم عبدالحمید کو پولیس نے قتل کر دیا۔ پولی ٹیکنیک کالج کے طلبہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کیخلاف احتجاج کر رہے تھے جس پر پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور ان پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس پھینکی گئی۔ اس دوران پولیس کی جانب سے گولی بھی چلائی گئی جس سے یہ نوجوان ہلاک ہو گیا۔ اس نوجوان کی ہلاکت کے بعد طلبہ نے اپنے احتجاج کا دائرہ کار وسیع کر دیا اور شہر کے دیگر تعلیمی اداروں سے طلبہ بھی ان کے احتجاج میں شریک ہونے لگے۔ دیکھتے دیکھتے یہ احتجاج پورے ملک میں پھیل گئے اور ایک ملک گیر احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔ کراچی سے لے کر چٹاکانگ تک طلبہ ایوب خان کی حکومت کیخلاف سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاجی مظاہروں کا دائرہ کار وسیع ہونے لگا۔ ایوب خان اس وقت اپنے دس سالہ دور اقتدار کا جشن منارہا تھا اور اس سلسلے میں پورے ملک میں تقریبات منعقد کی جا رہی تھیں۔ ’’ترقی کی دہائی‘‘ کے عنوان سے جاری ان تقریبات کیخلاف بھی عوامی نفرت پہلے سے موجود تھی جو اس تحریک میں پھٹ کر سامنے آ گئی۔اس ترقی کی نمائش کے لیے چلنے والی ایک ٹرین کو عوام نے بہاولپور کے مقام پر آگ لگادی۔ طلبہ کے مظاہروں کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقہ بھی اس تحریک میں شامل ہو گیا اور پورے ملک میں احتجاجوں اور ہڑتالوں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغازہوا۔ سرکاری اداروں کے ملازمین اور نجی صنعتوں کے محنت کش لاکھوں کی تعداد میں ان مظاہروں اور ہڑتالوں میں شریک ہوئے اور جنرل ایوب کی آمریت کیخلاف اپنی نفرت اور غم و غصے کا اظہار کیا۔اس انقلابی تحریک کے نتیجے میں 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان مستعفی ہو گیا اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیا گیا جس نے ملک کے پہلے عام انتخابات کروانے کا وعدہ کیا۔
7 نومبر 1968ء سے لے کر 25 مارچ 1969ء تک ہونے والے یہ واقعات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس ملک کے محنت کش طبقے کی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ اس تمام تر تاریخ کو مسخ کرنے کی ہمیشہ کوشش کی گئی ہے اور ان واقعات کی تفصیلات کو منظر پر آنے سے دبایا گیاہے۔ تاریخ کی کسی بھی کتاب میں ان واقعات کی تفصیل درج نہیں۔ بھٹو کے پہلے وزیر خزانہ اور پیپلز پارٹی کے بنیادی رکن ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنی ایک کتاب میں ان واقعات کی تھوڑی بہت تفصیل دی ہے لیکن اس میں بھی مشرقی پاکستان میں جاری تحریک اور اس کے وسیع اثرات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ مغربی پاکستان کے واقعات کا بھی تفصیلی ذکر نہیں کیا گیا۔ لیکن اس دور کے اخبارات اور رسائل کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سے اہم واقعات کی جانکاری حاصل ہوتی ہے اور واضح طور پر نظر آتا ہے کہ یہ انقلاب کتنا طاقتور تھا اور اسے ایک بالشویک قیادت میسر ہوتی تو مارچ 1969ء میں یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا تھا۔مشرقی و مغربی پاکستان میں برپا ہونے والا سوشلسٹ انقلاب ہندوستان سمیت پورے خطے میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور اس پورے خطے سے سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے کا باعث بن سکتا تھا۔ لیکن ایک بالشویک قیادت کی عدم موجودگی کے باعث ایسا نہ کیا جا سکا۔اس دوران تحریک کی قیادت کرنے والے افراد جن میں مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان شامل تھے، کے مصالحانہ کردار کا بھی تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو اس انقلاب کو زائل کرنے کا باعث بنا۔ اسی طرح بائیں بازو کی سٹالنسٹ (بشمول ماؤاسٹ) قیادتوں کے کردار کا بھی احاطہ کرنے کی ضرورت ہے جو مرحلہ واریت کے غلط نظریے کے باعث سوشلسٹ انقلاب کی بجائے جمہوریت کی بحالی پر ہی اکتفا کرنا چاہتے تھے جبکہ انقلاب سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا تقاضا کر رہا تھا۔
مشرقی پاکستان
مشرقی پاکستان میں رہنے والے بنگالیوں پر قومی جبر کا آغاز پاکستان کی تخلیق کے ساتھ ہی ہو گیا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آ رہی تھی۔ آغاز میں ہی ان پر جبراً اردو کو قومی زبان کے طور پر مسلط کیا گیا اور ان کے قومی تشخص کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس قومی جبر کیخلاف 1950ء کی دہائی میں ہی وسیع پیمانے پر احتجاجی تحریکوں کا آغاز ہو گیا تھا جنہیں ریاستی جبر کے ساتھ کچلا جاتا تھا۔ اس عمل میں جب پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی تو نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے نام سے بائیں بازو کی قوتوں نے اپنے کام کا آغاز کر دیا جس کی قیادت مولانا بھاشانی کر رہے تھے۔ مشرقی پاکستان میں انہیں تیزی سے عوامی بنیادیں حاصل ہوئیں اور طلبہ اور محنت کشوں میں انہیں بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی۔ مجیب الرحمان جو پہلے اسی پارٹی کا حصہ تھا، نے بعد ازاں اس سے علیحدگی اختیار کر کے عوامی لیگ کے نام سے الگ پارٹی بنائی جو سٹالنسٹ نظریات سے زوال پذیر ہو کر بنگالی قوم پرست نظریات پر اپنی بنیاد رکھتی تھی۔ مغربی پاکستان میں بھی یہ عمل ہمیں بتدریج نظر آیا گو کہ اس کی تاریخ بنگال سے مختلف ہے۔
عوامی لیگ کے بننے اور عوامی حمایت لینے کی بڑی وجہ سٹالنسٹ پارٹیوں کا قومی سوال پر غلط مؤقف تھا۔سٹالنزم کبھی بھی قومی سوال پر لینن کے نظریات اور مؤقف کے تسلسل کو قائم نہیں رکھ سکا اور اس سے غداری کرتا رہا ہے۔مشرقی پاکستان میں بھی یہی عمل بڑے پیمانے پر نظر آتا ہے۔ 69-1968ء کے انقلاب میں قومی سوال انتہائی اہمیت کا حامل تھا اور خاص کر مشرقی پاکستان میں یہ ایک سلگتا ہوا مسئلہ تھا لیکن اس پر کوئی بھی سیاسی جماعت درست لینن اسٹ مؤقف اختیار نہ کر سکی۔ انقلاب کے معروضی حالات نے دونوں بازوؤں کے محنت کش طبقے کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا تھا اور حکمران طبقے کی جانب سے مسلط کردہ نفرت اور تعصبات کو چیرتے ہوئے محنت کش طبقہ انقلاب کے دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکا تھا۔ لیکن اس کے پاس ایسی کوئی قیادت نہیں تھی جو اس طبقاتی جڑت اور قومی آزادی کے سوال کو جوڑتے ہوئے ایک واضح حل پیش کرتی۔ مجیب کی قیادت میں عوامی لیگ کی جڑیں بنیادی طور پر مشرقی پاکستان کی پیٹی بورژوازی میں تھیں۔ وہ مغربی پاکستان کے سرمایہ داروں کی جکڑ سے خود کو آزاد کرانے کی کوششیں کر رہے تھے اور زیادہ بہتر شرائط پر مغربی پاکستان کی سامراجی غلامی کا طوق پہننا چاہتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف بھٹو بنگالیوں کیخلاف شدید تعصب رکھتاتھا اور ان پر قومی جبر جاری رکھنے کا حامی تھا۔ ایوب خان کے وزیر کے طور پر بھی وہ ان خیالات کا اظہار کر چکا تھا اور انقلابی تحریک کے دوران بھی ان میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی کو مشرقی پاکستان میں کبھی کوئی حمایت نہیں مل سکی۔
1966ء میں جب مجیب نے اپنے مشہور زمانہ چھ نکات پیش کیے تو ان میں علیحدگی کا مطالبہ شامل نہیں تھا بلکہ وہ فیڈریشن کا حصہ رہتے ہوئے ہی زیادہ اختیارات کا مطالبہ کر رہا تھا۔پاکستان کی 1947ء میں تخلیق کے بعد سے اس دور تک یہاں پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ناٹک کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی اور حکمران طبقہ براہ راست اپنی حاکمیت مسلط کیے ہوئے تھا۔ ایسے میں جمہوری حقوق اور ووٹ جیسا بنیادی مطالبہ بھی وسیع عوامی حمایت کا باعث بنا خاص کر مظلوم قومیتوں میں یہ مطالبہ اہمیت کا حامل تھا۔ ایوب خان نے چھ نکات پیش کرنے پر عوامی لیگ کے خلاف شدید جبر کا آغاز کر دیا جس میں اس کے اہم وزیر بھٹو نے اس کی مکمل معاونت کی۔ اس دوران بھٹو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں اس غدارانہ مہم سے سختی سے نپٹنا ہو گا اور اسلام کے تشخص کا تحفظ کرنے کے لیے اپنے وطن کا دفاع کرنا ہو گا۔ایوب آمریت کی جانب سے عوامی لیگ کو کچلنے کا آغاز کیا گیا لیکن اس سے قومی مسئلہ ختم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کر گیا۔ مجیب کو قید کر دیا گیا اور وہ تین سال بعد انقلابی تحریک کے دوران ہی قید سے باہر آیا۔اس طرح خود ایوب آمریت نے اسے تحریک کا قائد بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1968ء کے آغاز میں ہی اس پر اگرتلہ سازش کیس کے نام سے ایک مقدمہ بنایا گیا جس میں مجیب اور اس کے 34 ساتھیوں پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اگرتلہ میں ہندوستان سے مل کر مشرقی پاکستان کو الگ ریاست بنانے کی سازش تیار کی ہے۔ اس مقدمے میں اپنے دفاع کے باعث مجیب الرحمان مشرقی پاکستان میں مزید مقبول ہو گیا۔اس دوران بھاشانی نے بھی الگ پارٹی ہونے کے باوجود مجیب کی حمایت کی اور جلسے جلوس منعقد کیے۔
7 نومبر کو راولپنڈی میں نوجوان طالب علم عبدالحمید کے قتل کے بعد احتجاجی تحریک کا آغاز ہو چکا تھا جس کا دائرہ کار وسیع ہوتا جا رہا تھا اور محنت کش اس میں شامل ہو رہے تھے۔مشرقی پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں نے7 دسمبر 1968ء کو ایوب آمریت کیخلاف ڈھاکہ میں ہڑتال کی کال دی۔ اس دن ایوب خان نے ڈھاکہ کا دورہ کرنا تھا اور سرکاری سطح پر اس کے استقبال کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ اس دن سکیورٹی فورسز نے گولی چلائی اور احتجاج کرنے والے دو افراد ہلاک ہو گئے۔اس کے جواب میں 14 دسمبر کوعوامی لیگ اور بھاشانی نے پورے مشرقی پاکستان کے لیے مل کر ہڑتال کی کال دے دی۔ ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہروں میں عوام کی شرکت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور ان کی شدت بڑھتی جا رہی تھی جس کیخلاف ریاست کا جبر بھی شدت اختیار کر رہا تھا۔ 29 دسمبر کو پورے مشرقی پاکستان میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں ایک جگہ پولیس نے گولی چلائی جس سے تین کسان ہلاک ہو گئے۔ اس سے مشرقی پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں تحریک مزید شدت اختیار کر گئی اور کسانوں نے پولیس سٹیشنوں کو آگ لگا دی یا ان کا کنٹرول خود سنبھال لیا، سرکاری اہلکاروں کو بیدخل کر دیا اور بہت سی جگہوں پر کسانوں کی کمیٹیوں کے ذریعے تمام انتظامی امور خود سنبھال لیے۔
جنوری 1969ء میں ڈھاکہ کے طلبہ نے ایک گیارہ نکاتی پروگرام تشکیل دیا جو مشرقی پاکستان میں جاری اس تحریک کا پروگرام بن گیا۔ یہ گیارہ نکات مجیب الرحمان کے چھ نکات کا ہی تسلسل تھے لیکن اس میں مزید مطالبات بھی شامل کیے گئے تھے۔ان میں بینکوں اور بڑی صنعتوں کی نیشنلائیزیشن،مزارعوں پر ٹیکسوں میں کمی اور مزدوروں کی اجرتوں میں اضافے جیسے نکات شامل تھے ۔اس میں پاکستان کی امریکی سامراج کی کاسہ لیسی کی بھی مذمت کی گئی تھی اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان سیٹو اور سینٹو جیسے سامراجی معاہدوں سے باہر نکلے جو امریکی سامراج نے تشکیل دیے تھے۔ اس کے علاوہ اگرتلہ سازش کیس سمیت تمام سیاسی قیدیوں پر مقدمات ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔مغربی پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی نے بنگالیوں کے قومی حقوق کی حمایت نہیں کی اور ان پر قومی جبر کا رستہ ہموار کرنے کی معاونت کی۔ گوکہ مغربی پاکستان کے محنت کشوں اور طلبہ میں بنگالی عوام کے لئے حمایت موجود تھی جس نے انقلاب کے دنوں میں عملی شکل بھی اختیار کر لی تھی ۔
جنوری کے آغاز پر ہی انقلابی تحریک میں عوامی شمولیت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ 23جنوری کو ڈھاکہ میں 25ہزار افراد نے مشعل بردار جلوس نکالا جس میں مکمل آزادی کا مطالبہ کیا گیا۔ اگلے دن پانچ ہزار افراد نے ڈھاکہ میں اسمبلی پر حملہ کر دیا۔ اسی دن دو حکومتی اخباروں کے دفاتر کو جلا دیا گیا۔کسی انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کے باعث جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں اضافہ ہو رہا تھا اور پولیس مظاہرین پر اندھا دھند جبر کر رہی تھی۔ اس دن چھ سے زائد افراد مظاہروں میں ہلاک ہوئے۔اس کے بعد کے عرصے میں محنت کش طبقہ اس انقلابی تحریک میں شامل ہو گیا جس کے باعث جلاؤ گھیراؤ کی بجائے ہڑتالوں اور سیاسی عمل سے اس انقلاب کو آگے بڑھایا گیا۔
مغربی پاکستان
یہاں بھی بائیں بازو کی قوتوں کی وسیع بنیادیں موجود تھیں۔اس کی ایک اہم وجہ عالمی سطح پر سوویت یونین اور کمیونسٹ چین کی موجود گی تھی جو دنیا بھر میں انقلابی طلبہ اور محنت کشوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے تھے۔ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی ملک بھر کے طلبہ میں مضبوط بنیادیں موجود تھیں اور اس کے لیڈر مقبولیت کی انتہاؤں پر تھے۔ معراج محمد خان کوبغیر کسی مبالغے کے پاکستان کی تاریخ کا سب سے مقبول سٹوڈنٹ لیڈر کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ہزاروں کے اجتماعات سے بھی خطاب کیا ہے اور لاکھوں طلبہ کی قیادت کی ہے۔وہ طفیل عباس کی قیادت میں قائم ماؤاسٹ پارٹی سے وابستہ تھے اور بعد ازاں پارٹی کی ہدایت پر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور بھٹو کی پہلی کابینہ کا حصہ بھی بنے۔
اسی طرح مزدور تحریک میں بھی بائیں بازو کے کارکنان بڑی تعداد میں موجود تھے اور تمام ٹریڈیونینوں کی قیادت بائیں بازو کے پاس تھی۔ 1960ء کی دہائی میں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا تھا اور مزدوروں کی تنظیمیں بھی بننی شروع ہو گئی تھیں۔ ایوب خان کا دور پاکستان کی تاریخ میں معاشی نمو کے حوالے سے سب سے کامیاب دور گردانا جاتا ہے۔ اس میں معاشی نمو سات فیصد کے قریب پہنچ گئی تھی۔ اس معاشی نمو کی بنیاد مصنوعی نہیں تھی اور نہ ہی سستے قرضوں یا پراپرٹی کے بلبلے کے باعث اسے حاصل کیا گیا تھا بلکہ اس کی بنیادیں صنعتی ترقی میں تھیں۔ ایوب خان کے دور میں مغربی پاکستان میں بڑے پیمانے پر نئی صنعتیں قائم ہوئی تھیں جن میں بڑی تعداد میں محنت کش پہلی دفعہ گاؤں سے نکل کر شہروں میں مزدور کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے۔ اس عمل میں جہاں ملک کے امیر ترین افراد کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا تھا اور بائیس امیر ترین افراد کی لوٹ مارکا تذکرہ زبان زد عام تھا وہاں محنت کشوں کی زندگیوں کی تلخیوں میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوا تھا۔ اس دور کا تازہ دم پرولتاریہ سرمایہ دارانہ نظام کے عذابوں کی چکی میں پس رہا تھا اور اس میں اس نظام سے شدید نفرت کا احساس اجاگر ہو رہا تھا۔ گاؤں کی کھلی فضا سے نکل کر شہروں کی تنگ و تاریک غلیظ گلیوں اور کالونیوں میں زندگی گزارنا آسان نہیں تھا۔ صنعتوں میں کام کرنے والا مزدور خود ایک مشین کے پرزے کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی روٹین کا تعین مشین کرتی ہے ۔گاؤں جیسی آزادی ایک نعمت محسوس ہوتی ہے اور گزرے لمحات اور وہاں کی اقدار کی یاد اسے ستاتی ہے۔اس دوران شہر کی چکا چوند مسحور کرنے کی بجائے زندگی میں زہر گھولتی ہے اور غربت اور محرومی میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا ہے۔ایسے میں بائیں بازو کے نظریات سے لیس کارکنان کی جانب سے تنظیم سازی کی مختلف کوششوں کو بڑے پیمانے پرپذیرائی ملی جس میں شہروں میں موجود بیگانگی کا مقابلہ مزدوروں کی جڑت سے کیا گیا۔
سیاسی افق پر موجود کوئی بھی سیاسی پارٹی اس عمل کو سمجھنے سے قاصر تھی جبکہ حکمران ترقی کے گن گا رہے تھے۔ اس ترقی کے کتنے ثمرات محنت کشوں تک پہنچ رہے تھے اور سماج پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے تھے، وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے۔یہی وجہ تھی کہ انقلاب نے حکمرانوں اور تمام سیاسی پارٹیوں کو حیران کر کے رکھ دیا تھا اور کوئی بھی اس سے نپٹنے کے لیے تیار نہ تھا۔ایوب خان کی اپنی ڈائریوں میں اس حیرانگی کا اظہار نظر آتا ہے اور اس عرصے کے مختلف اخبارات بھی اس صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔انقلاب کے دوران پولیس اور انتظامیہ کا روز مرہ کے معاملات میں عمل دخل ختم ہو چکا تھا اور وہ محض تماشائی کی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ ایوب خان نے اپنی ڈائری میں بھی یہی لکھا تھا کہ اس وقت تمام فیصلے گلیوں اور سڑکوں پر ہو رہے ہیں اور ریاست کے تمام ادارے مفلوج ہو چکے ہیں۔
اس انقلاب کے دوران بھٹو اور اس کی پیپلز پارٹی کا مغربی پاکستان میں غیر معمولی کردار نظر آتا ہے۔ بھٹو دائیں بازو کے نظریات رکھنے والا سیاستدان تھا جو ایوب خان سے ذاتی اختلافات کے باعث اس کی وزارت سے الگ ہوا تھا۔ 1967ء میں عالمی سطح پر ہونے والے واقعات سے اہم نتائج اخذ کرتے ہوئے اس نے سوشلسٹ نظریات پر مبنی پیپلز پارٹی کے نام سے لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پرایک نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں دو سو سے تین سو افراد نے شرکت کی تھی اور اس واقعے کو اخبارات میں بھی زیادہ توجہ نہیں مل سکی تھی۔ پیپلز پارٹی کا منشور جے اے رحیم نے لکھا تھا جوپاکستان کا ایک سابقہ سینئر بیوروکریٹ تھااور خارجہ سیکرٹری رہ چکا تھا۔ ایوب خان سے اختلافات کے باعث اس وقت وہ ملک چھوڑ چکا تھا اور فرانس میں مقیم تھا۔ بنگال کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والا جے اے رحیم بائیں بازو کے نظریات سے متاثر تھا اور کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ بھی اس کے تعلقات رہ چکے تھے۔ اس وقت پوری دنیاکی سیاست دائیں اور بائیں کے نظریات کے گرد استوار تھی اور سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہوئے بغیر رہنا ممکن نہیں تھا۔اسی لیے جب بھٹو نے نئی پارٹی بنانے کی تجویز رکھی تو جے اے رحیم نے اس میں سوشلسٹ نظریات کو بھرپور انداز میں متعارف کروانے کی کوشش کی۔ بھٹو خود دائیں بازو کے نظریات کا حامی تھا اور اسی بنیاد پر سیاست کرتا رہا تھا لیکن سوشلسٹ نظریات کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کا خیال اسے پسند آیااور اس نے جے اے رحیم کے ساتھ مل کر اس پر کام شروع کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویز میں واضح طور پر سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ دستاویز کنفیوزڈ اور مبہم انداز میں ان نظریات کو پیش کرتی ہے۔ ایک طرف واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ملک کی 95فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اس لیے یہاں اس مسئلے پر سیاست کرنے کی ضرورت نہیں لیکن دوسری جانب اپنے بنیادی نعروں میں مذہب کو استعمال بھی کیا گیا ہے۔ اسی طرح اہم صنعتوں اور اداروں کی نیشنلائزیشن اور ان کو قومی تحویل میں لیے جانے کا واضح پروگرام نظر آتا ہے لیکن سوشلسٹ منصوبہ بندی کی بنیاد پر معیشت کو استوار کرنے کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات پر پارٹی کا مؤقف ریاست کے مؤقف سے بالکل بھی مختلف نہیں اور کہا گیا ہے کہ ہندوستان سے مخالفت جاری رہے گی۔لیکن دوسری جانب امریکہ کے سامراجی کردار کی مذمت بھی کی گئی ہے مگر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی ممالک کے اتحاد پر زور دیا گیا ہے۔درحقیقت اسلامی سوشلزم کے نام سے یہ ایک ملغوبہ ہے جو اپنے تخلیق کاروں کے کنفیوزڈ نظریات کی عکاسی کرتا ہے۔ تاسیسی کنونشن میں پارٹی کے تین نام تجویز کیے گئے جن میں سوشلسٹ پارٹی آف پاکستان بھی شامل تھا لیکن اسے رد کر کے پاکستان پیپلز پارٹی نام رکھا گیا۔
جس وقت اس پارٹی کا قیام عمل میں آیا اس وقت سماج ایک اہم تبدیلی سے گزر رہا تھا اور ایوب آمریت کیخلاف نفرت بڑھ رہی تھی۔ہڑتالوں اور احتجاجوں میں بتدریج اضافہ ہورہا تھا جس کا نقطہ عروج نومبر 1968ء میں شروع ہونے والا انقلاب تھا۔لیکن اس سے قبل بھی بہت سی اہم ہڑتالیں ہو ئی تھیں جن میں یکم فروری 1967ء کی ریلوے کی ملک گیر ہڑتال اہمیت کی حامل ہے۔ریلوے کے محنت کش پاکستان بننے سے قبل ہی منظم تھے اور 1930ء کی دہائی سے ہی انقلابی کردار ادا کر رہے تھے۔اس وقت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو ملک گیر سطح پر بنیادیں فراہم کرنے میں بھی ریلوے یونین اور اس پر بنائے جانے والے مقدمات کا اہم کردار تھا۔پاکستان میں اس کی قیادت مرزا ابراہیم جیسا ٹریڈ یونین لیڈر کر رہا تھا جو کمیونسٹ پارٹی کا اہم لیڈر بھی تھا۔ریلوے کے محنت کشوں میں بائیں بازو کے نظریات کی وسیع حمایت موجود تھی اور وہ ایوب آمریت کیخلاف احتجاجی تحریکوں میں منظم کردار ادا کر رہے تھے۔ اس دوران 1967ء کی ہڑتال اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن اس ہڑتال کا آغاز خود رو انداز میں ہوا تھا اور تمام ٹریڈ یونین قیادت نے آغاز میں اس ہڑتال کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود محنت کشوں کی نفرت اتنی زیادہ تھی کہ یہ ہڑتال تیزی سے پورے ادارے میں پھیل گئی اور ریل کا پہیہ جام ہو گیا۔ایوب خان نے اس ہڑتال کو توڑنے کے لیے روہڑی کے مقام پر انجن چلوانے کی کوشش بھی کی لیکن محنت کش ریل کی پٹریوں پر لیٹ گئے اور اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔روزنامہ ڈان میں نثار عثمانی کی 2فروری 1967ء کی رپورٹ کے مطابق ہڑتال کا آغاز مغل پورہ ورکشاپ لاہور سے 30جنوری کو ہوا تھا ۔ لوکو شاپ کے مزدور بعد ازاں اس میں شامل ہوئے اور یکم فروری کو پورے ملک کے ریلوے ملازمین اس کا حصہ بن گئے اور ریل کا پہیہ مکمل طور پر جام ہو گیا۔
اسی طرح دیگر اداروں میں بھی ہڑتالوں کا سلسلہ جاری تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا گیا اور 1968ء کے اواخر میں عروج پر پہنچ گیا۔ نجی صنعتوں میں مزدوروں نے فیکٹریوں پر قبضے بھی شروع کر دیے تھے اور بہت سے علاقوں میں لوگوں نے گھروں کے کرایے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح مسافروں نے سرکاری ٹرینوں اور بسوں کے کرائے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کئی علاقوں میں مزارعوں نے بڑے زمینداروں کی زمین پر قبضہ کر لیاتھا۔ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ تحریک کا کردار سوشلسٹ تھا اور وہ نجی ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کر رہی تھی۔ لیکن اس وقت کی کمیونسٹ پارٹیاں اسے ایک جمہوریت کی بحالی کی تحریک قرار دے رہی تھیں اور اس کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے ترقی پسند کردار کی متلاشی تھیں۔ ایسے میں واضح تھا کہ تحریک اس قیادت کی جانب بڑھے گی جو سوشلسٹ پروگرام دے رہی ہو گی۔
انقلاب
7 نومبر کو راولپنڈی سے شروع ہونے والی تحریک تیزی سے پورے مغربی پاکستان میں پھیل گئی اور طلبہ کے احتجاج وسعت اختیار کر گئے۔ راولپنڈی میں بعد کے احتجاجوں پر بھی پولیس نے گولی چلائی جس سے مزید طلبہ ہلاک ہو ئے۔ اس سے غم و غصے میں اضافہ ہوا۔اس وقت بھٹور اولپنڈی کے ہی ایک ہوٹل میں مقیم تھا اور اپنی پارٹی کی ترویج کے لیے ملک گیر پروگرام منعقد کر رہا تھا۔ احتجاجی طلبہ نے اس سے بھی حمایت کی اپیل کی جس پر اس نے ان کی کھل کر حمایت کی۔احتجاجی طلبہ سے اپنی ایک تقریر میں اس نے ایوب آمریت کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور طلبہ کے تمام مطالبات کی حمایت کا اعلان کیا۔یہ خبر تیزی سے ملک میں پھیل گئی اور بھٹو اس تحریک کے ایک لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔راولپنڈی سے جب بھٹو ٹرین میں سفر کر کے لاہور پہنچا تو عوام کا ایک جم غفیر اس کا استقبال کرنے کے لیے جمع تھا۔ عوام کے اتنے بڑے اجتماع نے خود بھٹو کو بھی حیران کر دیا۔عینی شاہدین کے مطابق اس دن لاہور ریلوے اسٹیشن کے اندر اور باہر پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی اور دور دور تک موجود درختوں پر بھی طلبہ موجود تھے اور بھٹو کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے تھے۔ یہاں بھی بھٹو نے طلبہ کے مطالبات کی حمایت کی اور ایوب آمریت کی شدید مذمت کی ۔تقریر کے بعد بھٹو ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر روانہ ہو گیا۔ لیکن بعد ازاں اسے بھی گرفتار کر لیا گیا اور پھر تحریک کے دباؤ کے تحت مجیب الرحمان کے ساتھ رہا کیا گیا۔
طلبہ کے ساتھ ساتھ تحریک محنت کشوں میں بھی پھیل رہی تھی اور ہڑتالوں کا سلسلہ وسیع ہو رہا تھا۔ کراچی میں صنعتی پیداوار میں 30فیصد تک کمی آ چکی تھی اور ریاست کی جانب سے بد ترین جبر کا آغاز ہو چکا تھا۔ جنوری کے مہینے میں یہ جبر انتہاؤں کو پہنچ چکا تھا۔ 29جنوری 1969ء کے پاکستان ٹائمز میں لاہور کے بارے میں یہ رپورٹ شائع ہوئی،
’’سڑکیں ویران تھیں جن پر صرف فوج کے افسر اور سپاہی موجود تھے۔۔۔ ضروری خدمات کے علاوہ شہر میں زندگی مفلوج ہو چکی تھی۔کوئی دکان نہیں کھلی،کوئی کاروبار نہیں ہوا، کسی دفتر میں کام نہیں ہوااور کسی فیکٹری سے دھواں نہیں نکلا۔‘‘
اس موقع پر ایوب خان نے روایتی اپوزیشن کو تحریک پر مسلط کرنے کی کوشش کی اور ان کے ساتھ مذاکرات کے ناٹک کا آغاز کیا۔ ان مذاکرات میں مجیب الرحمان اور بھٹو شامل نہیں تھے۔ یہ پارٹیاں ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی(DAC) کے نام سے کام کر رہی تھیں اور ان کا تحریک سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان میں جماعت اسلامی اور ایسی دیگر پارٹیاں شامل تھیں۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ بھاشانی کی نیپ بھی اس کمیٹی کا حصہ نہیں تھی۔ ان پارٹیوں نے تحریک کو ہائی جیک کرنے کے لیے تحریک کے بہت سے مطالبات اپنے پروگرام میں شامل کر لیے گوکہ بنگالیوں کے حقوق کو نظر انداز کر دیا۔ 17جنوری کو ان پارٹیوں نے اسی پروگرام کے تحت ہڑتال کی کال دی تاکہ خود کو اس تحریک پر مسلط کر سکیں اور اس کی قیادت حاصل کر سکیں۔اس حربے کو وقتی طور پر تو حمایت ملی لیکن کچھ ہی عرصے میں یہ ناٹک عوام کے سامنے بے نقاب ہو گیا اور ان پارٹیوں کی حقیقت عیاں ہو گئی۔ جبکہ مجیب الرحمان اور بھٹو تحریک کے لیڈر بن کر ابھرے۔
17 جنوری کی ہڑتال کے بعد ایوب خان نے اسی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھایا تاکہ انقلاب کو زائل کیا جاسکے لیکن فروری میں ہڑتالوں اور احتجاجوں کی ایک نئی لہر کا آغاز ہو گیا۔ 16فروری 1969ء کے پاکستان ٹائمز میں رپورٹ شائع ہوئی،
’’عوامی غصے کی ایک نئی لہر فیکٹریوں، دکانوں، ریلوے سٹیشنوں کو بہا لے جا رہی ہے۔۔۔ جبکہ صنعتی شعبے میں بھی خدشات موجود ہیں۔‘‘
اس وقت میڈیا پر بد ترین سنسر شپ موجود تھی اور ہڑتالوں اور احتجاجوں کی خبریں شائع کرنے پر قدغن تھی۔ ڈھاکہ میں بائیں بازو کے صحافیوں پر قاتلانہ حملے بھی کروائے گئے تھے جن میں کچھ صحافی شہید بھی ہوئے۔ مغربی پاکستان میں بھی صحافیوں کی تنظیمیں منظم انداز میں انقلاب میں شامل تھیں لیکن اس کے باوجود اخباروں کا کنٹرول ریاست کے پاس ہی تھا۔ اس کے باوجود کچھ خبریں ایسی ملتی ہیں جن سے حالات کا اندازہ ہو سکے۔ اوپر دی گئی خبر ایسی ہی ایک رپورٹ ہے جوفروری میں انقلاب کی شدت کو بیان کرتی ہے۔
15 فروری کو اگرتلہ سازش کیس میں نامزد ایک بنگالی فوجی کو قید میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جس کے خلاف ڈھاکہ سمیت پورے مشرقی پاکستان میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ یہ انقلاب کا اگلے مرحلے کی جانب فیصلہ کن قدم تھا۔اس وقت فوج کو بلا لیا گیااور پولیس نے بھی مظاہرین پر بد ترین تشدد کا آغاز کر دیا۔فوج سڑکوں پر گشت کر رہی تھی اور شہر میں کرفیو نافذ تھا۔ لیکن اس کے باوجود 17فروری کو ڈھاکہ کے طلبہ نے اس قتل کیخلاف احتجاج کی کال دے دی۔ان مقدمات کو سننے والے ججوں کے گھروں پر حملے ہونے لگے۔ڈھاکہ میں ایوب خان کے وزیر بھی عوام کے غیض و غضب سے نہ بچ سکے اور عوام نے ان کے گھروں کو بھی نذر آتش کر دیا۔ اسی دوران مشرقی پاکستان کی اہم بندر گاہ چٹاگانگ پر دو ہزار محنت کشوں نے ہڑتال کر دی جس سے ملکی تجارت جام ہو گئی۔بندر گاہ کے علاوہ صنعتوں کے مزدور بھی طلبہ کے ساتھ شامل ہو گئے اور کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بڑے بڑے مظاہروں کا انعقاد ہونے لگا۔ اس دوران فوج نے بھی عوام پر گولیاں چلانی شروع کر دیں جس کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
اس دوران ایوب خان فرضی اپوزیشن سے مذاکرات کر رہا تھا۔21فروری کو ایوب خان نے اعلان کیا کہ وہ اگلے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لے گااور پہلے عام انتخابات کے امکان کا خیال بھی ظاہر کیا۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ ڈھاکہ میں ایک لاکھ کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے طلبہ قیادت نے ایوب خان کو 3مارچ تک کی مہلت دی کہ وہ استعفیٰ دے یا پھر نتائج بھگتے۔ اس وقت تک مشرقی پاکستان میں کسان کمیٹیاں دیہاتوں کے انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لے چکی تھیں اور زمیندار، جاگیر دار اور تمام سرکاری اہلکار رفو چکر ہو گئے تھے۔ ایوب خان کی ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے اراکین کا نظام بھی زمین بوس ہو چکا تھا اور اس وقت کوئی وجود نہیں رکھتا تھا۔
مغربی پاکستان کے مزدوروں میں بھی انقلاب پھیل چکا تھا اور مزدوروں کی کمیٹیاں وجود میں آ چکی تھیں۔ ہڑتالوں کے ایک سلسلے کا آغاز ہو چکا تھا جس کے باعث مارچ کے آخر تک ایوب آمریت کا خاتمہ ہو گیا۔ مزدور اپنے مطالبات منوانے کے لیے مالکان کو ان کے دفتر میں ہی قید کردیتے تھے اور مطالبات تسلیم کیے جانے پر ہی آزاد کرتے تھے۔ یہ صورتحال کراچی، لاہور، پشاور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ سمیت تمام صنعتی شہروں میں موجود تھی۔ کراچی اور لاہور کے ٹیکسٹائل کے مزدور اس انقلاب میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔ اس صنعت کے محنت کش سب سے زیادہ استحصال زدہ تھے لیکن ساتھ ہی ان کے پاس ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو جام کرنے کی صلاحیت بھی تھی۔
اس دوران پورے ملک میں مزدوروں کی کمیٹیاں ابھر کر سامنے آئی تھیں جو تمام انتظام سنبھال رہی تھیں۔ ریاستی مشینری جس میں ڈپٹی کمشنر اور مجسٹریٹ سے لے کر معمولی پولیس اہلکار تک شامل تھے سب مفلوج ہو چکی تھی اور کوئی بھی ان کا حکم ماننے کو تیار نہیں تھا۔ انتظامی امور سے متعلق تمام فیصلے مزدوروں کی کمیٹیاں سرانجام دیتی تھیں۔ان مزدور کمیٹیوں کو فیکٹریوں کے مزدوروں نے تشکیل دیا تھا جبکہ کچھ جگہوں پر روایتی ٹریڈ یونین قیادتوں کیخلاف بغاوت سے نئی ٹریڈ یونین قیادت ابھری تھی جو ان کمیٹیوں کو منظم کر رہی تھی۔ اگر اس وقت ایک بالشویک پارٹی موجود ہوتی جو درست سوشلسٹ نظریات کے تحت اس تحریک میں مداخلت کرتی تو ان کمیٹیوں کو زیادہ وسیع اور مضبوط پیمانے پر منظم کیا جا سکتا تھا۔ ان کمیٹیوں کو اپنا دفاع کرنے اور خوراک کی ترسیل کے نظام کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داریاں بھی دی جا سکتی تھیں جو 1917ء کے سوشلسٹ انقلاب کی طرز پر آگے کی جانب ایک قدم ہوتا۔لیکن ایسی پارٹی نہ ہونے کے باعث یہ کمیٹیاں روس میں بننے والی سوویتوں کے صرف بیج کے طور پر ہی ابھر کر سامنے آ سکیں، کھل کر تن آور درخت نہ بن سکیں۔
مارچ کے مہینے میں سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد بھی انقلاب کا حصہ بن گئی۔3مارچ کو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف نے ہڑتال کا آغاز کر دیا جو چار دن جاری رہی۔4مارچ کو ڈاکخانے کے ملازمین نے ہڑتال کا آغاز کر دیا۔دس دن بعد پاکستان ٹائمز نے لکھا،
’’پوسٹ آفس کی ہڑتال کے باعث ایکسپورٹرز کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور کوئی بھی پارسل منزل تک نہیں پہنچ رہا جبکہ بیرونی ممالک کی ڈاک بھی بند ہے جس کے باعث آرڈر کینسل ہو رہے ہیں۔‘‘
5 مارچ کو کراچی پورٹ کے دس ہزار مزدوروں نے ہڑتال کر دی جو پانچ روز تک جاری رہی اور پورے ملک کی بیرونی تجارت جام ہو گئی۔ 11مارچ سے ٹیلی کام کے محنت کشوں نے ہڑتالوں کے سلسلے کا آغاز کر دیا۔ ریاست کی جانب سے سگنلز کے شعبے کے فوجی اہلکاروں کو لاہور میں تعینات کیا گیا لیکن وہ ادارے کو چلانے میں ناکام رہے۔ 6مارچ کو کراچی سائٹ ایریا میں ہڑتال کا آغاز ہو گیا جو چار دن جاری رہی۔ اس دوران ایک فیکٹری گارڈ نے مزدوروں کے ایک جلوس پر گولی چلا دی جس سے دو مزدور ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد مزدوروں کا غم و غصہ شدت اختیار کر گیا۔ ہڑتال لانڈھی کے صنعتی علاقے میں بھی پھیل گئی اور وہاں بھی مزدور بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔اس دوران محنت کشوں کی یکجہتی مثالی تھی۔ 8مارچ کو کالج اساتذہ کی یونین نے ہڑتال کی کال دی جس پر پورا کراچی شہر جام ہو گیا۔ اس دن سڑکوں پر ہو کا عالم تھا اور مختلف جگہوں پرصرف مزدوروں کے احتجاج ہی نظر آتے تھے۔
10 مارچ کو ایوب خان نے اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ گول میز کانفرنس بلائی جس میں اس نے دو اہم مطالبات تسلیم کر لیے ۔ اس میں عام انتخابات کا انعقاد اور پارلیمانی جمہوریت کا قیام شامل تھا۔ لیکن اس وقت انقلاب کو زائل کرنا مشکل تھا۔بھٹو ان مذاکرات کا حصہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس نے مجیب کے مشرقی پاکستان کے فیڈریشن میں رہتے ہوئے مزید خود مختاری کے مطالبے کی مخالفت کی۔ اس کے بیانات سے واضح تھا کہ وہ مشرقی پاکستان پر ریاست کے قومی جبر کی حمایت کرتا ہے اور آئندہ بھی یہ جبر پہلے کی طرح ہی جاری رہے گا۔
ایوب خان اور اپوزیشن کے درمیان نام نہاد معاہدے سے انقلابی تحریک کو کچھ فرق نہیں پڑا اور 17مارچ کو ٹریڈ یونین لیڈروں کی جانب سے ایک روزہ عام ہڑتال کا اعلان کیا گیا جس میں مغربی پاکستان کے پچیس لاکھ محنت کشوں نے حصہ لیا۔ ان میں بندر گاہوں کے محنت کش، ڈاکخانے، بجلی، ٹیلی فون، کوئلے کی کانوں،ہوائی سروس، ریلوے، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں سمیت تمام صنعتی اداروں کے محنت کش شامل تھے جنہوں نے پورے ملک کا پہیہ جام کر دیا۔ ٹریڈ یونین لیڈروں نے ایک روزہ عام ہڑتال کی کال دی تھی لیکن یہ ہڑتال اس کے بعد بھی اس وقت تک جاری رہی جب تک ایو ب خان نے 25مارچ کو استعفیٰ نہیں دے دیا۔ 20مارچ کو پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر نے درخواست کی کہ فوج کو بلایا جائے تاکہ صنعتوں کو چالو کروایا جا سکے لیکن فوج کی ہائی کمان نے فوج کے طبقاتی بنیادوں پر بٹ جانے کے خوف سے صاف انکار کر دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ایوب خان اقتدار منتقل نہیں کرتا ایسا کرنا ممکن نہیں۔ ایوب خان نے جب دیکھا کہ مزید جبر کی گنجائش ختم ہو چکی ہے تو اس نے سرمایہ داروں سے درخواست کی کہ وہ تمام مزدوروں کی تنخواہوں میں بیس فیصد اضافہ کر دیں لیکن یہ حربہ بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔24مارچ کو کراچی سمیت ملک بھر کی تمام صنعتیں بند تھیں اور ملک کا پہیہ جام ہو چکا تھا۔ 25مارچ کو ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا اور اقتدار جنرل یحییٰ کو منتقل کر کے گھر چلا گیا۔
یحییٰ خان نے آتے ہی مارشل لا کا نفاذ کیا لیکن ساتھ ہی جلد از جلد عام انتخابات کروانے کی بھی یقین دہانی کروائی۔ ایوب خان کے استعفیٰ کے بعد ہڑتال ختم ہو گئی اور تمام مزدورفتح کا احساس لیے دوبارہ کام پر چلے گئے۔ طلبہ نے بھی کلاسوں کے بائیکاٹ کے خاتمے کا اعلان کیا اور تعلیمی ادارے کھل گئے۔ مشرقی پاکستان میں بھی تمام دفاتر میں کام بحال ہوگیا۔ انقلاب کے دنوں میں عوام کی جانب سے جمع کیا گیا اسلحہ تھانوں میں رضاکارانہ طور پر جمع ہونے لگا۔ بھٹو اور مجیب نے بھی یحییٰ خان کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ انہیں یقین ہے کہ وہ جلد عام انتخابات کروائے گا۔
اسباق
یحییٰ خان کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد انقلابی تحریک کا خاموشی اختیار کر لینا اور انتخابات سے امید باندھ لینا بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ اس وقت صورتحال ایسی تھی کہ سماج کی مکمل سوشلسٹ تبدیلی کی جا سکتی تھی اور نجی ملکیت کوجڑ سے اکھاڑ کر سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ مغربی ومشرقی پاکستان سے سوشلسٹ منصوبہ بندی کا آغاز پورے خطے میں انقلابات کے ایک نئے سلسلے کے آغاز کا باعث بن سکتا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بالشویک قیادت کی عدم موجودگی تھی۔
بھٹو آغاز سے ہی پارلیمانی جمہوریت کو اپنا نصب العین قرار دے چکا تھا اور اس کے خیال میں عام انتخابات کے انعقاد اور جمہوریت کے قیام سے تمام مسئلے حل کیے جا سکتے تھے۔مجیب بھی کسی سوشلسٹ تبدیلی کا پروگرام نہیں دے رہا تھا اور صرف جمہوری مطالبات تک ہی محدود تھا۔ درحقیقت تحریک ان جمہوری مطالبات سے کہیں آگے نکل چکی تھی اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو چیلنج کر رہی تھی۔ بائیں بازو کی دیگر قیادتیں بھی نیپ کے مختلف دھڑوں کی شکل میں خود کو جمہوری مطالبات سے کسی بھی صورت آگے لے جانے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ درحقیقت تمام قیادتیں تحریک کو پیچھے کی جانب کھینچ رہی تھیں اور اس کا دائرہ کار محدود کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ طلبہ کی قیادت بھی سٹالنسٹ نظریات کے زیر اثر تھی۔ خود کو ماؤاسٹ کہنے والے بھی درحقیقت نظریاتی طور پر سٹالنسٹ ہی تھے اور ان کا دوسرے دھڑوں سے بنیادی نظریے پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔ ٹریڈ یونین قیادتیں آخری وقت تک عام ہڑتال کی کال کو مؤخر کرنے کی کوشش کرتی رہیں اور بالآخر نیچے سے دباؤ کے نتیجے میں یہ کال دی۔ اگر وہ یہ کال نہ بھی دیتے تو صورتحال ایسی ہو چکی تھی کہ عام ہڑتال خود رو انداز میں ہو جاتی اور ان ٹریڈ یونین لیڈروں کو چیر کر آگے نکل جاتی۔ درحقیقت تمام قیادتیں تحریک کی رفتار پر بریک لگانے کا کام کر رہی تھیں جبکہ اگر کوئی بالشویک قیادت موجود ہوتی تو وہ اس تحریک کی آگے بڑھ کر قیادت کرتی اور اس کو آگے کا پروگرام دیتی جو سرمایہ دارانہ نظام کی حدودپھاڑ کر باہر نکل جاتا۔
فیکٹریوں پر قبضوں کا آغاز ہو چکا تھا اور کراچی میں دو فلور ملوں پر مزدوروں نے قبضہ کر کے اپنی کمیٹیوں کے ذریعے انہیں چلانا شروع کر دیا تھا۔ جاگیروں پر مزارعوں کی جانب سے بھی قبضوں کا آغاز ہو چکا تھا اور مختلف علاقوں میں یہ عمل خود رو انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔ضرورت اس امر کی تھی کہ اس سارے عمل کو ایک مربوط سیاسی شکل دی جاتی اور اسے ایک منظم انداز میں آگے بڑھایا جاتا۔لیکن بھٹو، بھاشانی اور مجیب سمیت کسی بھی سیاسی قیادت کے پاس وہ صلاحیت نہیں تھی جس کے باعث ایک سوشلسٹ انقلاب کرنے کا موقع ضائع ہو گیا۔
یہاں پر ہمیں نظریات کی اہمیت کا احساس اور ادراک ہوتا ہے۔بھٹو کے کنفیوزڈ کردار کے اثرات پوری تحریک پر مرتب ہوئے جو سوشلسٹ نظریات کو محض سیاست میں کامیابی کے لیے استعمال کر رہا تھا۔تحریک کے دباؤ کے نتیجے میں وہ بائیں جانب جھکتا بھی نظر آتا ہے لیکن اس کا مقصد صرف مجمع کو خوش کرنا اور اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنا تھا۔اگر اس عرصے میں بھٹو کی مختلف تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ وہ سماج کی پسماندہ پرتوں کو بھی متوجہ کرنے کی اتنی ہی کوشش کرتا تھا جتنا وہ سوشلزم کے نعرے کے ساتھ زیادہ با شعور طلبہ اور مزدوروں کو متوجہ کرتا تھا۔ سماج کے پسماندہ حصوں میں تقریریں کرتے وقت وہ مذہبی جذبات کو ابھارنے کی کوشش کرتا تھا اور ان پرتوں کی حمایت جیتنے کے لیے پورا زور لگاتا تھا۔اس کوشش کا کبھی بھی یہ مقصد نہیں تھا کہ سماج کی پسماندہ پرتوں کو سوشلسٹ نظریات پر قائل کیا جائے بلکہ ان کوششوں کا مقصد اپنے لیے حمایت جیتنا ہوتا تھا خواہ اس کے لیے سوشلسٹ نظریات سے دستبردار ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔اس عرصے میں واضح نظر آتا ہے کہ بھٹو کا مقصد اقتدار کا حصول تھا نہ کہ سماج کی سوشلسٹ تبدیلی۔ بعد کے عرصے میں بھی بھٹو کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات تحریک کے شدید دباؤ کے نتیجے میں کیے گئے اور اس میں توازن قائم رکھنے کے لیے بھٹو نے دائیں بازو کی قوتوں کو بھی پروان چڑھایا اور ریاست کے جبر کو پوری شدت کے ساتھ لاگو کیا۔
لیکن انقلابی تحریک کے دوران سوشلسٹ نظریات کی لفاظی نے ہی اسے عوام میں بے پناہ مقبولیت دلا ئی تھی جس سے بائیں بازو کے دوسرے راہنما محروم رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ کمیونسٹ راہنما سوشلزم کی لفاظی سے بھی کتراتے تھے اور اسے سنگین جرم سمجھتے تھے۔ بھاشانی بیجنگ نواز دھڑے کا قائد تھا ۔ اسے بیجنگ سے ایوب خان کیخلاف تحریک کا حصہ بننے سے سختی سے منع کر دیا گیا تھا۔ اسے کہا گیا تھا کہ ایوب خان اور چیئرمین ماؤ کے دوستانہ تعلقات ہیں، اس لیے ہم ایوب خان کو ایک مضبوط صدر کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ان احکامات کے بعد انقلاب کے اہم ترین عرصے میں بھاشانی نے گوشہ نشینی اختیار کر لی ۔ ماسکو نواز دھڑے کی صورتحال بھی مختلف نہیں تھی۔ان کے خیال میں ابھی اس ملک میں سرمایہ داری کو صحت مند بنیادوں پر استوار ہونا تھا تا کہ وہ اپنا ترقی پسندانہ کردار ادا کرسکے۔ ایسا ہونے کے شاید ایک صدی بعد کبھی سوشلزم کی نوبت آ تی۔ یہ سٹالنسٹ نظریہ ہے جوپسماندہ ممالک میں مرحلہ وار انقلاب کا قائل تھا ۔ اس نظریے کا مارکس اور لینن کے نظریات سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں اور اسے لینن کے بعد سوویت یونین پر قابض ہونے والی بیوروکریسی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پروان چڑھایا تھا۔ان غلط نظریات کے باعث دنیا کے بہت سے ممالک کی انقلابی تحریکوں کو ڈبو دیا گیا یا پھر انہیں سرمایہ داروں اور ان کے گماشتوں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا۔ ایران اس کی واضح مثال ہے جہاں شاہ کیخلاف انقلاب برپا کرنے میں کمیونسٹوں کا کلیدی کردار تھا لیکن کامیابی کے بعد انقلاب کی قیادت ملاؤں کے ہاتھ میں دے دی گئی کہ یہ سامراج دشمن ترقی پسندسرمایہ دار کا کردار ادا کریں گے۔ان ملاؤں نے اقتدار سنبھالتے ہی کمیونسٹوں کا قتل عام کروایا اور انقلاب کو ردِ انقلاب میں تبدیل کر دیا۔ یہی کہانی مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے ممالک میں بھی دہرائی گئی۔پاکستان میں بھی بائیں بازو کی پارٹیاں طلبہ اور مزدوروں میں وسیع حمایت رکھتے ہوئے بھی انقلاب کی قیادت نہ کر سکیں اور بھٹو اور مجیب اس کی قیادت پر براجمان ہو گئے۔مغربی پاکستان میں بعد ازاں بائیں بازو کے کارکنان کو کہا گیا کہ وہ پیپلز پارٹی کا حصہ بنیں جس سے پیپلز پارٹی کا ایک وسیع بایاں بازو ابھر کر سامنے آیا۔ بہت سے نوجوان اور مزدور اپنے طور پر بھی ایسا کر رہے تھے اور پیپلز پارٹی عوامی مقبولیت حاصل کر رہی تھی۔مشرقی حصے میں بھی بھاشانی گمنامی میں چلا گیا جبکہ مجیب سیاست پر حاوی ہو گیا۔
پیپلز پارٹی میں وسیع پیمانے پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی شرکت کے باوجود فیصلہ سازی کا اختیار قیادت کے پاس ہی تھا جو زیادہ تر جاگیر داروں پر ہی مشتمل تھی۔ 1970ء کے انتخابات کی تیاری میں سندھ کے ایک مقام ہالہ میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں بائیں بازو کی جانب سے انتخابات کی بجائے براہ راست انقلاب کے پروگرام کا مطالبہ اٹھایا گیا۔ اس بحث کو ’’پرچی یا برچھی‘‘ کی بحث کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پرچی والے انتخابات کے رستے پر ہی آگے بڑھنا چاہتے تھے اور آخر میں فیصلہ بھی پرچی کے حق میں ہی کیا گیا۔
بائیں بازو کی اس دوران کامیاب نہ ہونے کی وجہ جہاں ان کی نظریاتی عدم پختگی تھی وہاں وہ پارٹی میں کسی منظم شکل میں بھی موجود نہیں تھے۔ بلکہ خود پارٹی کے کبھی کوئی منظم ڈھانچے تشکیل نہیں دیے جا سکے۔ انتخابات کی تیاری کے لیے لاہور کے سوشلسٹ لیڈر شیخ رشید کو پنجاب کا صدر مقرر کیا گیا جبکہ ڈاکٹر مبشر حسن کو لاہور کی ذمہ داری دی گئی ۔ لیکن جب انہوں نے تنظیم سازی شروع کی تو خود بھٹو نے اس کی حوصلہ شکنی کی اور ایک موقع پر شیخ رشید کی بنائی ہوئی تنظیموں کو تحلیل کر دیا۔ تمام تر اختیارات کا منبع بھٹو کے پاس ہی تھا اور کوئی بھی اس سے وہ چھیننے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ بھٹو کے اقتدار کے آغاز میں بائیں بازو کے بہت سے لوگوں کو کابینہ میں شامل کیا گیا جن میں جے اے رحیم، معراج محمد خان، شیخ رشید اور ڈاکٹر مبشر حسن شامل تھے لیکن بہت جلد ان سب کے بھٹوسے اختلافات شروع ہو گئے اور وہ ایک ایک کر کے الگ ہوتے گئے۔ اس کے بعد ان کی جگہ پارٹی میں ان جاگیر داروں اور سرمایہ داروں نے لے لی جن کیخلاف لڑائی کے لیے یہ پارٹی بنی تھی۔ یہیں سے پارٹی کے زوال کا آغاز ہو گیا۔
پارٹی کے اندر بائیں بازو کی ناکامی کی وجہ بھی وہی تھی جو پارٹی کے باہر تھی یعنی واضح سوشلسٹ نظریات کا نہ ہونا اور ایک حقیقی بالشویک پارٹی کی تعمیر کی کوشش نہ کرنا۔ بائیں بازو کے یہ تمام لیڈر پارلیمانی جمہوریت کو آگے کا ایک قدم سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ امیدیں بھی وابستہ کر رکھی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ پارلیمانی جمہوریت کے تحت وہ سوشلسٹ اقدامات کر سکیں گے اور نیشنلائزیشن بالآخر بتدریج منصوبہ بند معیشت کی جانب لے جائے گی۔ اس عمل میں وہ انقلاب کی بجائے اصلاح پسندی یا ریفارم ازم کی کھائی میں گرتے چلے گئے ۔1973ء کے آئین میں بھی شیخ رشید نے سوشلسٹ اقدامات کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی تھی جب ریاست کو تمام شہریوں کی بنیادی ضرورتوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اس سارے عمل میں نظر آیا کہ پارلیمانی جمہوریت نے درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کا کردار ادا کیا اور اس جابر ریاست کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا موقع دیا۔ اصلاح پسندی درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کو ہی قابل قبول بنانے کی کوشش کرتی ہے، اسی لیے ہمیشہ انقلاب سے غداری کی مرتکب ہوتی ہے۔ لینن اور ٹراٹسکی پر 1917ء میں ہی یہ واضح تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ایک پسماندہ ملک میں بھی اصلاح پسندی کامیاب نہیں ہو سکتی ،اس لیے آگے کا قدم صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ہے۔پاکستان میں اس وقت کے بائیں بازو کی قیادت اپنی نظریاتی کمزوریوں کے باعث اصلاح پسندی کی کھائی میں گر گئی جس کے باعث حکمران طبقے کوانقلاب زائل کرنے کا موقع ملا۔
قومی سوال پر بھی ہمیں تمام بائیں بازو کا نظریاتی دیوالیہ پن واضح نظر آیا۔ ایک جانب بائیں بازو کے بہت سے لیڈر قوم پرستی کی کھائی میں گر گئے جو سٹالنزم کے غلط نظریات کا منطقی انجام تھا تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کی قیادت ریاست کے قومی جبر کی حمایت کرتی ہوئی نظر آئی۔ اس دوران اگرقومی سوال پر ایک درست لینن اسٹ مؤقف موجود ہوتا تو قومی آزادی کی تحریک کو محنت کش طبقے کی تحریک کے ساتھ جوڑتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا تھا۔ اس سوشلسٹ ریاست میں بنگالیوں کے ساتھ ساتھ پشتونوں، بلوچوں اور سندھیوں سمیت دیگر قوموں کو بھی حق خود ارادیت مل سکتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں مزدور ریاست کا قیام مغربی بنگال میں اس تحریک کو پھیلا سکتا تھا جہاں سے پورے ہندوستان میں سوشلسٹ انقلاب پھیل سکتا تھا۔ انہی خدشات کے پیش نظر یحییٰ خان نے 1971ء میں مشرقی پاکستان پر جنگ مسلط کر دی اور قومی آزادی کی تحریک کوجبر سے کچلنے کی ناکام کوشش کی۔اندراگاندھی کی عوام دشمن حکومت بھی اس خطرے کو بھانپ چکی تھی اور اس نے بھی اس دوران پاکستانی ریاست کو یہ تحریک کچلنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ لیکن جب یہ نظر آیا کہ تحریک اس جبر کو شکست دے رہی ہے اور مزدوروں اور کسانوں کی کمیٹیاں پورے سماج کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں تو پھر ہندوستان کی جانب سے مداخلت کی گئی اور مجیب الرحمان کو اقتدار منتقل کیا گیا۔ جنگ میں شکست کے بعدہی یحییٰ خان نے اقتدار دسمبر 1971ء میں بھٹو کو منتقل کیا اور بھٹو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بر سر اقتدار آیا۔
انقلاب کے اثرات فوج پر بھی مرتب ہوئے تھے اور 1970ء کے انتخابات میں فوج کے اندر سے ڈالے جانے ووٹوں کی بھاری اکثریت پیپلز پارٹی کو ملی تھی۔ 1971ء کی جنگ کیخلاف فوج کے اعلیٰ افسروں میں بھی نفرت پائی جاتی تھی اور وہ آغاز سے قبل ہی اس جنگ میں شکست کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ اپریل 1971ء تک مشرقی پاکستان میں تعینات میجر جنرل (ر) خادم حسین راجہ نے اپنی کتاب میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ’’اپنے ہی ملک میں اجنبی۔۔۔مشرقی پاکستان 1969-71ء‘‘ نامی انگریزی میں شائع ہونے والی اس کتاب کو مصنف کی وفات کے بعد 2012ء میں شائع کیا گیا۔ کتاب کے صفحہ نمبر 98 پر مصنف لکھتا ہے،
’’مشرقی پاکستان کا کمانڈرجنرل نیازی بیلٹ کے ساتھ لگی پسٹل کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ نیازی نے گالیاں بکنی شروع کر دیں اور آپے سے باہر ہو گیا۔ اردو میں بولتے ہوئے اس نے کہا: میں اس حرامزادی قوم کی نسل بدل دوں گا۔یہ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔اس نے دھمکی دی کہ وہ اپنے سپاہیوں کو مقامی عورتوں پر چھوڑ دے گا۔ ان الفاظ پر کمرے میں گہرا سکوت چھا گیا۔ اگلی صبح ہمیں ایک بری خبر ملی۔ ایک بنگالی افسر میجر مشتاق کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے باتھ روم میں گیا اور اپنے سر میں گولی مار لی۔‘‘
جنگ کے بعد بھٹو کی جانب سے مختصر مدت کے لیے بنائے گئے آرمی چیف جنرل گل حسن کی خود نوشت میں بھی اس دور میں فوج کی پر انتشار صورتحال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
1968-69ء کا انقلاب واضح کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست زمین بوس ہو چکی تھی جبکہ محنت کش طبقہ یہاں پر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے مزدور ریاست تعمیر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا۔ریاست کے تمام تر جبر اور سرمایہ داروں کے بد ترین استحصال کے باوجود محنت کش طبقے میں اس جبر کیخلاف لڑائی لڑنے کی پوری صلاحیت موجود تھی جس کا واضح ا ظہار ہمیں اس انقلاب کے دوران نظر آتا ہے۔ لیکن ایک موضوعی عنصر کی کمی کے باعث یہ انقلاب حادثاتی کرداروں کی بھینٹ چڑھتا ہو ا نظرآتا ہے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ کوئی معمولی سی اصلاحات یا مراعات لینے کے لیے بھی محنت کشوں کو اس ریاست اور اس نظام کو چیلنج کرنا پڑتا ہے اور کوئی بھی حق مانگنے سے نہیں ملتا بلکہ اسے آگے بڑھ کر چھیننا پڑتا ہے۔ بھٹو کے دور اقتدار میں محنت کش طبقے کو اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی حاصلات ملیں۔ مزدور یونینیں اور ہڑتال کے حق سے لے کر سوشل سکیورٹی اور دیگر اقدامات بھی کیے گئے۔ تعلیم اور صحت پر اس ملک کی تاریخ میں بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ مختص کیا گیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے دیگر بہت سے اقدامات کیے گئے۔ یہ سب کرنا حکمران طبقے کی مجبوری تھی تاکہ انقلاب کو زائل کیا جا سکے اور سرمایہ د ارانہ ریاستی اداروں کو دوبارہ مستحکم کیا جا سکے۔ لیکن جیسے ہی تحریک نے پسپائی اختیار کی تو محنت کشوں پر دوبارہ حملوں کا آغاز کیا گیا۔ دائیں بازو کی قوتوں کے دباؤ میں آ کر رجعتی اقدامات کئے گئے جن میں بھٹو کا اپنا دائیں بازو کا حقیقی کردار بھی واضح نظر آتا ہے۔
کراچی کے سائٹ ایریا میں قبضہ کی گئی فیکٹریوں کے مزدوروں کی مزاحمت بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی موجود تھی اور وہ قبضے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ بھٹو انہیں مذاکرات کے عمل میں الجھا کر فیکٹریاں مالکان کو واپس دلانا چاہتا تھا اور مزدوروں نے یہ بھانپ لیا تھا۔ وہ بھٹو کی منافقانہ پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ اس ضمن میں کراچی کے علاقے بنارس میں مزدوروں کا ایک بہت بڑا اکٹھ ہوا جو احتجاجی ریلی کی شکل اختیار کر رہا تھا مگر بھٹو نے اسے کچلنے کے لئے گولی چلوا دی جس سے بہت سارے مزدور شہید ہو گئے۔ آج بھی اس علاقے کے قبرستان میں ان مزدوروں کی قبریں بھٹو کی مزدور دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسی طرح کراچی کی گلشن گلستان فیکٹری کے محنت کشوں پر گولی چلائی گئی جس سے سات مزدور ہلاک ہو گئے۔ مزدوروں نے اس کے بعد پورے علاقے پر قبضہ کر لیا اور پولیس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ مزدور قائدین نے بھی اپنی قبریں پیشگی کھدوا کربھٹو کو لڑائی کا پیغام بھجوا دیا۔ اس پر بھٹو نے اپنے وزیر محنت عبدالستار گبول کے ذریعے اس غصے کو زائل کرنے کی کوشش کی۔ گبول سرمایہ دار طبقے کے نمائندے ہارون خاندان کو لیاری سے ہرا کر اسمبلی میں پہنچا تھا۔ لیکن اقتدار میں وہ سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کر رہا تھا اور مزدوروں کو سرمایہ دارانہ ریاست کے جبر کو کچھ معاوضے کے عوض تسلیم کرنے کی تلقین کر رہا تھا۔ اس کی معاونت ماؤ اسٹ کر رہے تھے اور مزدوروں کو ریاست کے تقدس کا درس دے رہے تھے۔ یہی عمل ملک کے طول و عرض میں دہرایا گیا۔ مزدور لیڈروں پر بد ترین جبر کیا گیا اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کو پابند سلاسل کیا گیا اور بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تمام مظلوم قوموں پر قومی جبر میں مزید اضافہ کیا گیا ۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا جس میں عام لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں۔
اس عمل سے دایاں بازو مزید مضبوط ہوا اور انقلاب کے پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ پانے کے باعث مزدور تحریک میں مایوسی پھیلنی شروع ہوئی۔ اس صورتحال میں بھٹو کا مسلسل دائیں جانب بڑھنا لازمی ہو گیا تھا۔ وہ ملاؤں کے مکمل دباؤ میں آتا چلا گیا اور وہ ایک کے بعد دوسرا مطالبہ کرتے چلے گئے۔ جب دایاں بازو بھٹو کے خلاف منظم ہو گیا تواسی موقع سے فائدہ اٹھا کر بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیا اور اسے ادھورا انقلاب کرنے کے تاریخی جرم کے نتیجے میں تختہ دار پر جھولنا پڑا۔
آج نصف صدی بعدانقلابیوں کے لیے ان واقعات سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ آنے والا عرصہ بھی انقلابی تحریکوں سے بھرپور ہوگا۔ اس دوران اگر ٹھوس مارکسی نظریات پر بالشویک طرز کی ایک پارٹی موجود ہوتی ہے تو یقیناًیہاں پر ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے اور اس خطے سے غربت، محرومی،لاعلاجی، جہالت اور قومی جبر کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔