|تحریر: آدم پال|
پاکستان میں معروض ایک نئی کروٹ لے چکا ہے اور سماجی و سیاسی طور پر ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ ”آزاد“کشمیر میں بجلی کے بلوں کے خلاف ابھرنے والی عوامی تحریک نے اس نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔ اس تحریک میں لاکھوں لوگوں نے حکمران طبقے کے خلاف اپنی نفرت اور غصے کا کھل کر اظہار کیا ہے اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ پورے پنجاب میں اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکر اور دیگر سرکاری ملازمین لاکھوں کی تعداد میں احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں اور بدترین ریاستی جبر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس وقت پورے پنجاب کے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں ہڑتال ہے اور لاکھوں اساتذہ اور ان کے طالبعلم سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور بہت سے اداروں کے کلرک اور دیگر ملازمین بھی جزوی طور پر ہڑتال پر ہیں۔
سینکڑوں قائدین کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی تحریک پسپائی کی بجائے شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ہر روز پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اور دوردراز کے دیہاتوں میں بھی ہڑتال اور حتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں جس میں اساتذہ سکولوں کی نجکاری کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کی پنشن اور دیگر بنیادی ضروریات پر حملہ کیا گیا ہے جس کے خلاف وہ سراپا احتجاج ہیں۔
ان ملازمین کے ساتھ یکجہتی میں دیگر صوبوں میں بھی احتجاجی تحریک کا آغاز ہو رہا ہے اور آنے والے عرصے میں وہاں بھی بڑے احتجاج دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اداروں اور صنعتوں کے ملازمین بھی احتجاج ی تحریک کا حصہ بننے کا سوچ رہے ہیں۔ گلگت میں قرارقرم یونیورسٹی کے طلبہ کی فیسوں میں اضافے کے خلاف شاندار احتجاجی تحریک نے پورے ملک کے طلبہ کو واضح پیغام دے دیا ہے۔ پورے ملک کو طلبہ اور نوجوانوں کو اب اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلنا ہوگا اور حکمران طبقے کے ظلم، جبر اور معاشی قتل عام کے خلاف بغاوت کرنی ہوگی۔
درحقیقت پورا ملک ایک بالکل نئی معروضی صورتحال میں داخل ہو چکا ہے اور پہلے والا نسبتاً استحکام واپس نہیں آ سکتا ہے۔ یہ تمام تحریکیں معیاری طوپر پر پچھلے عرصے کی تحریکوں سے مختلف ہیں اور اور ان کے مطالبات اور ان کا جوش و خروش پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ سب سے بڑی تبدیلی خواتین کی ان تحریکوں میں بڑے پیمانے پر شرکت ہے جس نے صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے اور سماج کی نئی کروٹ کی واضح طور پر نشاندہی کر رہی ہے۔ ان تمام تحریکوں میں ”آزاد“ کشمیر میں جاری بجلی کے بلوں کے خلاف تحریک سب سے نمایاں ہے جس نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کر دیا ہے اور سماج کی وسیع ترین پرتوں کو ساتھ جوڑتے ہوئے بغاوت کو نہ صرف جاری رکھا ہے بلکہ پورے خطے کے عوام کو متاثر بھی کیا ہے۔
اس تحریک میں ”آزاد“ کشمیر کے عوام نے بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے اور گزشتہ تین ما ہ سے بجلی کے بل ادا نہیں کیے۔ آنے والے مہینوں میں بھی بجلی کے بل ادا نہیں کیے جائیں گے۔ حکمران طبقہ اپنے تمام تر وسائل، جاہ و جلال، سازشی ہتھکنڈوں اور گماشتوں کی فوج کے ہوتے ہوئے بھی بے بس ہو چکا ہے اور عوامی تحریک کو پیچھے دھکیلنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔
اس تحریک کی روح رواں عوامی ایکشن کمیٹیاں بن چکی ہیں جو گاؤں اور شہر سے لے کر ضلع اور مرکزی سطح تک منظم ہیں اور اس پوری تحریک کی قیادت کر رہی ہیں۔ ان عوامی ایکشن کمیٹیوں کی کال پر متعدد پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتالیں ہو چکی ہیں اور لاکھوں افراد کے احتجاج پورے ”آزاد“ کشمیر میں منظم کیے جا چکے ہیں۔ ابھی تک یہ تحریک پورے زور و شور سے جاری ہے اور سماج کی مزید پرتوں کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
خاص طور پر پہلی دفعہ خواتین کی بڑے پیمانے پر شمولیت نظر آ رہی ہے اور پورے ”آزاد“ کشمیر میں بڑی تعداد میں خواتین انقلابی جوش و جذبے کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہو چکی ہیں۔ خواتین کی اس تحریک میں شمولیت نے ایک معیاری تبدیلی پیدا کی ہے جس سے حکمران طبقہ بوکھلا گیا ہے اور بد ترین ریاستی جبر، گرفتاریوں اور تشدد جیسے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ لیکن جتنے بڑے پیمانے پر جبر کیا جا رہا ہے تحریک اتنی ہی بڑی طاقت اور قوت سے اس کا جواب دے رہی ہے۔
5اکتوبر کو ہونے والی پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال ”آزاد“ کشمیر کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی بغاوت تھی۔ پورے ”آزاد“ کشمیر کے طول وعرض میں مکمل طور پر تالا بندی تھی یہاں تک کہ چھوٹے سے چھوٹے گاؤں اور بڑے کاروباری مراکز تک مکمل طور پر بند تھے۔ ٹرانسپورٹ مکمل طور پر جام تھی اور لاکھوں لوگ ہر طرف احتجاج کر رہے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس دن دو سے تین لاکھ لوگ پورے ”آزاد“ کشمیر میں احتجاج کر رہے تھے جن میں مظفرآباد، میر پور، راولاکوٹ اور کوٹلی جیسے بڑے شہروں میں تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج اور جلوس دیکھنے میں آئے۔ واضح طور پر آبادی کا 80 سے 90 فیصد اس احتجاجی تحریک کی حمایت میں موجود ہے اور حکمران طبقے کے مظالم کو مزید تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
5اکتوبر سے بھی اہم دن 10 اکتوبر کو تھا جب پورے ”آزاد“ کشمیر میں خواتین نے عوام دشمن حکمرانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیے۔ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں اور قصبوں سے لے کر مظفرآباد، میرپور اور راولاکوٹ جیسے شہروں تک ہر جگہ خواتین کے احتجاج نظر آئے جس نے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ 10 اکتوبر ”آزاد“ کشمیر کی تاریخ کا ایک اہم دن بن چکا ہے جب تاریخ میں خواتین کے سب سے بڑے احتجاج دیکھنے میں آئے۔ تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے چھوٹی بچیوں سے لے کر بڑی بوڑھیوں تک ہزاروں خواتین ان احتجاجوں میں شریک ہوئیں اور حکمرانوں کے مظالم کو للکارا۔ بہت سی رجعتی قوتیں ان احتجاجوں کو روکنے کی کوششیں کر رہی تھیں جبکہ حکمرانوں کے ٹاؤٹ بھی سرگرم عمل تھے لیکن اس سب کے باوجود یہ احتجاج کامیاب ہوئے اور ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ اسی طرح 17 اکتوبر کو بارش اور سردی کے باوجود طلبہ نے بھرپور احتجاج کیے۔
بجلی کے بلوں کے خلاف اس تحریک کی کامیابی درحقیقت ایک انقلابی تحریک کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ اگر عوام اس حوالے سے ریاستی جبر اور حکمران طبقے کے ہتھکنڈوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس تحریک کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔ بجلی کے بلوں کے بعد دیگر ٹیکسوں اور حکومتی لوٹ مار کے ذرائع کے خلاف تحریک واضح اقدامات لیتے ہوئے آگے بڑھتی چلی جائے گی اور عام ہڑتالوں کا سلسلہ اقتدار پر قبضے کا سوال اٹھائے گا۔ لیکن یہ تمام تر عمل کبھی بھی سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا اور اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہے گا۔ اس دوران عوامی ایکشن کمیٹیوں کے پلیٹ فارم نے ابھی تک کلیدی کردار ادا کیا ہے اور رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں کے متبادل ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہوئے عوام کے غم و غصے کو اظہار کا ایک وسیلہ فراہم کیا ہے۔ اس تحریک میں یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ محنت کش عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کرنے کے لیے مین سٹریم سیاسی پارٹیوں سے لے کر قوم پرست پارٹیوں تک کوئی بھی پلیٹ فارم قابل استعمال نہیں اور نہ ہی یہ پارٹیاں حکمران طبقے کے خلاف بغاوت کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ درحقیقت یہ پارٹیاں سٹیٹس کو کا حصہ بن چکی ہیں اور حکمران طبقے کے جبر کا آلہ کار ہیں۔ حکمران طبقے کے خلاف بغاوت نے ان پارٹیوں کا دیوالیہ پن بھی عیاں کر دیا ہے اور واضح طور پر سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔
جو کچھ ”آزاد“ کشمیر میں ہو رہا ہے وہی کچھ آنے والے عرصے میں پاکستان کے تمام علاقوں میں بھی دہرایا جائے گا۔گزشتہ چند ماہ میں پاکستان کے تمام شہروں میں بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاج ہوئے ہیں۔ ہر جگہ پر عوام کا غم و غصہ انتہاؤں کو چھوتا ہوا نظر آیا اور مختلف شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر باہر نکل کر احتجاج کرتے ہوئے نظر آئے۔حکمران طبقے نے ان احتجاجوں کی رپورٹنگ پر پابندی لگا رکھی ہے اور غلام میڈیا تابعداری میں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادا رہے، اسی لیے ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے ان احتجاجوں کی خبریں منظر عام پر نہیں آ سکیں۔ سوشل میڈیا کے مالکان امریکی سرمایہ دار بھی دنیا بھر میں احتجاجوں اور تحریکوں کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں اور ایسی تصاویر اور ویڈیوز کو پھیلنے سے روکا جاتا ہے جس کے باعث سوشل میڈیا میں بھی یہ ویڈیوز زیادہ وائرل نہیں ہو سکیں۔ لیکن ورکرنامہ کے اپنے ذرائع کے مطابق پنجاب اور پختونخواہ کے درجنوں شہروں اور دیہاتوں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے اور بجلی کے بلوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیے۔ مختلف جگہوں پر مرکزی شاہراہوں کو بند کیا گیا اور بلوں کو نذرآتش کیا گیا۔ مختلف جگہوں پر ان احتجاجوں کو منظم کرنے کے لیے کمیٹیاں بنانے کی کوششیں بھی کی گئیں اور قریب کے دیگر علاقوں سے جڑت بنا کر بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کو منظم شکل دینے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ لیکن ابتدائی سطح پر ہونے والی ان کاوشوں کو کوئی منظم پلیٹ فارم نہیں مل سکا اور نہ ہی یہ تمام کوششیں کسی واضح سمت میں جاری رہ سکیں جس کے باعث تحریک وقتی طور پر پیچھے جاتی ہوئی نظر آئی۔
”آزاد“ کشمیر میں ابھرنے والی موجودہ تحریک میں بھی ابتدائی طور پر یہی کچھ ہوا تھا۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کے بننے کا عمل دو سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ اس دوران پہلے بھی بجلی بلوں کے بائیکاٹ کی متعدد کوششیں کی گئیں جو ایک یا دو ماہ تک کچھ حمایت حاصل کرنے کے بعد پیچھے جاتی نظر آئیں۔ لیکن کوششیں مسلسل جاری رکھنے کے باعث یہ تحریک آج پورے ”آزاد“ کشمیر میں پھیل چکی ہے اور لاکھوں لوگ اس کا حصہ بن چکے ہیں۔ آغاز میں یہ تحریک صرف ضلع پونچھ کے چند دیہات اور قصبوں تک محدود تھی۔ وہاں سے یہ پورے ضلع اور پھر پونچھ ڈویژن تک پھیلی اور ڈویژن سطح کی متعدد پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتالیں منظم کی گئیں۔ اس کے بعد یہ دیگر اضلاع میں پھیلنا شروع ہوئی اور اب پورے ”آزاد“ کشمیر کے تمام دس اضلاع میں پھیل چکی ہے۔ پاکستان کے تمام علاقوں میں یہ تحریک اسی طرز پر آگے بڑھ سکتی ہے اور آنے والے عرصے میں بجلی کے بلوں یا مہنگائی اور دیگر مسائل پر اسی طرز پر زیادہ بڑے پیمانے پر احتجاج اور تحریکیں ابھر سکتی ہیں جو حکمران طبقے کے جبر کے خلاف عوام کے غم و غصے کا اظہار کریں گی۔
آنے والے عرصے میں مہنگائی اور بیروزگاری کے بھی مزیدبڑے حملے متوقع ہیں اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی ہو سکتی ہے۔ ابھی تک روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کیا گیا ہے۔ اس کے لیے امپورٹ پر بڑے پیمانے کی غیر اعلانیہ پابندیاں ہیں جبکہ ملک کے اندر کرنسی مارکیٹ کو بھی جبری طور پر بند رکھا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ڈالر اور دیگر کرنسیوں کی خرید و فروخت ہی انتہائی محدود کر دی گئی ہے جس کے باعث روپے کی حقیقی قدر کا تعین ہی نہیں ہو پا رہا۔ اس کو موجودہ حکمران اپنی کامیابی بنا کر پیش کر رہے ہیں اور عوام سے مسلسل جھوٹ بول کر معاشی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ آنے والے عرصے میں حکمران امپورٹ پر لگے کنٹرول اور کرنسی کی منڈی کو کھولنے پر مجبور ہوں گے جس کے بعد ڈالر کی قیمت پہلے سے بھی زیادہ بلند سطح پر چلی جائے گی اور روپے کی قدر میں تیزی ترین کمی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ اس ملک کے بہت سے اہم معیشت دان پہلے ہی اس خطرے کی جانب اشارہ کرچکے ہیں اور ایک انتہائی محتاط اندازے لگانے والے معیشت دان خرم حسین نے توڈالر کے پانچ سو روپے تک جانے کی پیش گوئی بھی کر دی ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھ کر یہ پیش گوئی تقریبا ہر سمجھ دار شخص کر سکتا ہے۔
صنعتیں تیزی سے بند ہو رہی ہیں اور لاکھوں مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں۔ زراعت برباد ہو چکی ہے اور یہ ملک انتہائی ضروری اجناس بھی درآمد کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر سامراجی مالیاتی ادارے اور نام نہاد دوست ممالک بھی بھیک دینے سے انکار کر رہے ہیں اور ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے گرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی ملک کی کرنسی کو مصنوعی طور پر مضبوط نہیں رکھا جا سکتا۔ جیسے ہی اس کرنسی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے گا، جو کہ اس نظام میں رہتے ہوئے حکمرانوں کی مجبوری ہے، تو یہ خود لڑھکتی ہوئی اندھی کھائی میں گرتی چلی جائے گی۔ ایسے میں افراط زر اور مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوگا اور ضروریات زندگی کی قیمتیں دو گنا، چار گنا یا اس بھی زیادہ تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آئیں گی۔
درحقیقت اس ملک کی بیمار معیشت بھی اب معیاری طور پر ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں افراط زر مسلسل بڑھتا ہوا نظر آئے گا اور کرنسی کی قدر میں تیز گراوٹ ایک معمول بن جائے گا۔ مہنگائی اور بیروزگاری میں ناقابل یقین حد تک اضافہ مسلسل جاری رہے گا اور سماج کی متوسط اور نسبتاً متمول پرتیں بھی معیشت کے بحران کی زد میں آتی چلی جائیں اور ان کا جینا بھی دوبھر ہوتا چلا جائے گا۔
پاکستان اپنے جنم کے آغاز سے ہی بحرانوں کا شکار رہا ہے اور ا س کی معیشت بھی سامراجی بیساکھیوں کے سہارے چلتی رہی ہے۔ خاص طور پر سامراجی جنگوں میں خون کی ندیاں بہانے کے عوض اس معیشت کو بڑے پیمانے پر امداد ملتی رہی ہے۔ لیکن اب عالمی مالیاتی بحران اور طاقتوں کے بدلتے ہوئے توازن کے پیش نظر پاکستان سمیت درجنوں پسماندہ ممالک کی معیشتیں دیوالیہ ہو رہی ہیں اور یہ صورتحال اب ان ممالک میں ایک مستقل خاصہ بن چکی ہے۔معاشی بحران کے اس نئے معمول کے محنت کش طبقے کے شعور پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور آنے والے عرصے میں حکمران طبقے کے معاشی قتل عام کے خلاف بغاوتیں اور انقلابی تحریکیں وقتاً فوقتاً ابھرتی ہوئی نظر آئیں گی۔انہی تحریکوں اور احتجاجوں کے تجربات سے ہی محنت کش طبقہ اہم نتائج اخذ کرے گا اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جانب بڑھے گا۔
سماج کے اس نئے معمول نے ماضی کی سیاست کو بھی دفن کرنے کا آغاز کر دیا ہے اور نئی سیاسی تحریکوں کے جنم کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ”آزاد“ کشمیر میں ہمیں اس تمام صورتحال کا واضح طور پر اعلان ہوتا ہوا نظر آیا۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کی قیادت میں جاری موجودہ تحریک کے لیے کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس کوئی پروگرام اور لائحہ عمل موجود نہیں تھا اور نہ ہی کسی بھی سیاسی پارٹی کی قیادت اس تحریک کا حصہ بننا چاہتی تھی۔ درحقیقت ان قیادتوں نے اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور سازشی ہتھکنڈوں سمیت ہر حربہ استعمال کیا کہ عوامی ایکشن کمیٹیوں کو ناکام کیا جا سکے لیکن تحریک نے ان تمام حربوں کا منہ توڑ جواب دیا اور تمام رکاوٹیں عبور کرتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
پاکستان کے تمام شہروں میں بھی ہمیں تمام سیاسی پارٹیوں کے خلاف عوام کا غم و غصہ عروج پر نظر آتا ہے اور اس وقت کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس بجلی کے بلوں، مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے کا کوئی پروگرام موجود نہیں۔ تمام پارٹیاں سامراجی طاقتوں کی گماشتہ اور سرمایہ دار طبقے کی دلال ہیں۔ یہ تمام پارٹیاں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کے مزے لوٹ چکی ہیں اور عوام دشمن کاروائیوں میں براہ راست شریک رہی ہیں۔ کسی بھی سیاسی پارٹی نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی کسی میں اتنی جرات ہے کہ آئی ایم ایف کے خلاف ایک لفظ بھی بول سکے۔ اگر کسی نے بولا تو اس نے بھی معافی مانگی اور دوبار ہ اسی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوا۔ اسی عوام دشمن کردار کی وجہ سے یہ پارٹیاں اپنی حمایت کھو چکی ہیں اور سماج کے مختلف حصوں میں جو حمایت انہیں ماضی میں ملتی تھی وہ اب ختم ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنے والے انتخابات عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت کے لیے غیر متعلقہ ہو چکے ہیں۔
حکمران طبقہ اور خاص کر جرنیلوں کا فی الوقت غالب دھڑا ایک جعلی اور فراڈ الیکشن کروا کر پہلے کی طرح ایک مرضی کا سیٹ اپ ملک پر مسلط کرنے کا خواہشمند ہے اور اس حوالے سے تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ لیکن محنت کش عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت کو اس تمام عمل سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی انہیں تھوڑی سی بھی امید ہے کہ الیکشنوں کے ذریعے ان کا ایک چھوٹا سا بھی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ محنت کش عوام جانتے ہیں کہ اگر نون لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت کوئی بھی پارٹی اقتدار میں آجائے وہ مہنگائی اور بیروزگاری کا مسئلہ حل نہیں کر سکتی بلکہ وہ پہلے کی طرح انتہائی مکاری اور چالاکی سے عوام کی خدمت کا واویلا کرتے ہوئے بد ترین مہنگائی عوام پر مسلط کرے گی۔
صرف ایک ڈیڑھ سال قبل اسحق ڈار اور شہباز شریف معیشت کو ترقی دینے کے نعرے لگاتے ہوئے اقتدار پر براجمان ہوئے تھے اور ملکی تاریخ کی بد ترین مہنگائی اور بیروزگاری پھیلا کر چلے گئے۔ اس عوام دشمن کاروائی میں بلاول بھٹو اور زرداری کی پیپلز پارٹی سمیت درجن کے قریب پارٹیاں شامل رہیں اور انہوں نے مل کر لوٹ مار کرتے ہوئے اپنی تجوریاں بھریں اور عوام کو بھوک، بیماری اور لاعلاجی کی خونی دلدل میں دھکیل کر خود رفو چکر ہو گئے۔ اس سے قبل عمران خان کے تقریباً چار سال کے اقتدار کے دوران بھی جہاں ملکی تاریخ کی بدترین لوٹ مار کی گئی وہاں مہنگائی اور بیروزگاری کے تمام ریکارڈ بھی ٹوٹتے ہوئے نظر آئے۔ خاص طور پر کرونا وبا میں سرمایہ دار طبقے نے جتنی لوٹ مار کی اتنی ملکی تاریخ میں کبھی نظر نہیں آئی۔
موجودہ نگران حکومت نے چند ہی ماہ میں پرانے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور پٹرول کی قیمتوں سمیت تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے۔ جرنیلوں اور ججوں کی آشیر باد سے قائم یہ حکومت بھی سرمایہ دار طبقے کو تاریخ کی سب سے بڑی کمائی کروانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور ڈالر اور سونے کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے ذریعے بڑے مگرمچھوں کی تجوریوں میں دولت کے انبار بھرے جا رہے ہیں جبکہ محنت کش طبقہ فاقے کرنے پر مجبور ہے۔
اس صورتحال میں انتخابی عمل، پارلیمنٹ اور تمام سیاسی پارٹیاں ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے جو سماج میں پنپتے ہوئے عوامی غم و غصے کواظہار دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ محنت کشوں کے سینوں میں سلگتے یہ آتش فشاں جب تحریک کی شکل میں پھٹیں گے تو یہ تمام ادارے اور پارٹیاں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے اور محنت کش طبقہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے نئے پلیٹ فارم اور اوزار تشکیل دے گا۔
سیاسی منظر نامہ پہلے ہی معیاری طور پر ایک نئی شکل میں آچکا ہے اور حکمران طبقے کے باہمی تضادات بھی اب پہلے کی نسبت زیادہ شدت سے اپنا اظہار کر رہے ہیں۔ عمران خان کی قید اور اس کی پارٹی کے خلاف ہونے والی کاروائیوں سے بھی یہ واضح ہو چکا ہے کہ حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ اپنی ہی بنائی پارٹی اور اپنے ہی تیار کیے گئے سیاسی کارکنان کو فوجی عدالتوں سے سزائیں دلوانے کی کوشش کر رہا ہے جو اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا۔ درحقیقت حکمران طبقہ واضح طور پر دو دھڑوں میں بٹ چکا ہے اور بر سر اقتدار دھڑا دوسرے دھڑے کو کچلنا چاہتا ہے۔ حکمران طبقے کی یہ دھڑے بندی اور ریاست کے اندر اتنی بڑی آپسی لڑائی پہلے نہیں دیکھی گئی۔ اس لڑائی کی بنیاد لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنا اور دوسرے دھڑے کا حصہ مکمل طور پر ہڑپ کرنا ہے۔
لیکن یہ عمل بھی تضادا ت سے بھرپور ہے اور طاقتوں کا توازن کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتا ہے۔ برسر اقتدار دھڑے کی گرفت اس وقت بظاہر مضبوط دکھائی دیتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ انتخابی عمل کو کامیابی سے عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنی مرضی کے کٹھ پتلی ملک پر مسلط کر لیں گے۔ لیکن یہ صورتحال کسی بھی وقت ان کے کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے اور بازی پلٹ سکتی ہے۔ اس میں سب سے اہم عنصر معیشت کا دیوالیہ پن ہے جبکہ عوامی تحریکوں کا ابھرنا اور حکمران طبقے کی حاکمیت کے خلاف واضح طور پر صف بندی ہونا صورتحال کو حکمرانوں کے کنٹرول سے باہر کر سکتا ہے۔
عوامی تحریک کے خلاف حکمرانوں کے تمام دھڑوں کا اتحاد بھی نظر آئے گا لیکن تحریک کی عدم موجودگی میں یہ آپسی لڑائی زیادہ بھیانک اور خونخوار شکل میں واپس آتی ہوئی بھی نظر آئے گی۔ درحقیقت برسر اقتدار دھڑا خود انتخابی عمل سے خوفزدہ ہے اور اس کی خواہش ہے کہ عوام کی اس میں کم سے کم شرکت ہو۔ ماضی کی طرح اس دفعہ بھی خوف اور دہشت کا ماحول بنا کر اور مصنوعی طور پر حالت جنگ کے قریب قریب صورتحال پیدا کر کے انتخابی عمل کو مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس میں عدالتوں کے گورکھ دھندے اور تاریخ پر تاریخ کے ہتھکنڈے کو بھی مسلسل استعمال میں لایا جائے گا جبکہ میڈیا اور سیاسی پارٹیاں عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر سیاسی لیڈروں کی ذاتی چپقلشوں اور سازشوں اور عدالت کی بیکار کاروائیوں کو اصل مسئلہ بنا کر پیش کرنے کا عمل جاری رکھیں گی۔ لیکن یہ تمام عمل پہلے بھی کئی دفعہ دہرایا جا چکا ہے اور اس ڈرامے میں اب کسی کی بھی دلچسپی نہیں رہی۔ یہاں تک کہ نواز شریف کی واپسی والے ڈرامے کی طرح جہاں کہانی وہی پرانی اور گلی سڑی ہے وہاں ان تمام ڈراموں کے کردار بھی تبدیل نہیں ہو رہے۔ دوسری طرف سماج تبدیل ہو چکا ہے اور اب پرانے طریقوں سے اسے چلانا ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آنے والے عرصے میں ہونے والے بڑے واقعات ان حکمرانوں اور ان کے ڈراموں کی کہانیاں لکھنے والوں کو حیران کر سکتے ہیں۔
سب کو حیران کردینے کا سب سے زیادہ پوٹینشل اس ملک کے محنت کش طبقے میں ہے۔ اس ملک کے تمام دانشور، لکھاری، سیاسی کارکنان اور قائدین اس ملک کے محنت کش طبقے کی طاقت کو مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں۔ ان سب کے مطابق یہاں کا حکمران جو مرضی پالیسی مسلط کر دے عوام نے اس کو ہمیشہ برداشت ہی کرنا ہے۔ درحقیقت یہ ایک ایسی جھوٹی تاریخ بھی تخلیق کرتے ہیں جس میں محنت کش طبقے نے کبھی کوئی بغاوت کی ہی نہیں اور ہمیشہ حکمران ہی سماج کو اپنی مرضی سے ہانکتے رہے ہیں۔ لیکن آنے والے عرصہ ان تمام افراد کو حیران کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ملک کا محنت کش طبقہ بہت بڑی تحریکوں اور بغاوتوں کی جانب بڑھے گا اور یہاں پر مسلط سامراجی گماشتوں اور سرمایہ داروں کے دلالوں کی حکمرانی تسلیم کرنے سے انکار کرے گا۔ درحقیقت آنے والے عرصے میں تحریکیں، احتجاج اور ہڑتالیں ایک معمول کی شکل اختیار کر سکتی ہیں اور محنت کش طبقہ اپنے تجربات سے سیکھتا ہوا زیادہ بڑے پیمانے پر منظم ہونے کے عمل کا آغاز کر ے گا۔
اس ساری صورتحال میں بد ترین ریاستی جبر اور انقلاب دشمن رجعتی قوتوں کے حملے بھی بڑے پیمانے پر نظر آئیں گے اور فوجی عدالتوں سے لے کر دہشت گردی کی کاروائیوں تک ہر طرف سے عوامی تحریکوں پر حملے ہو سکتے ہیں۔ لیکن محنت کش طبقہ ایک دفعہ اگر بغاوت میں اتر گیا تو اس کو پسپا کرنا اس ٹوٹتی اور بکھرتی ہوئی ریاست کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اس دوران محنت کش طبقہ اپنی نئی قیادتوں کو تراشنے کے سلسلے کا بھی آغاز کرے گا اور انقلابی نظریات کی پیاس بھی اپنے عروج پر نظر آئے گی۔ ایسی صورتحال میں ماضی کے معمول میں غرق اور مایوسی اور بدگمانی کا شکار سیاسی کارکنان تحریک کو آگے لے جانے کی بجائے اس کے رستے کی رکاوٹ بنیں گے اور تحریک کو اپنی بدگمانی اور ماضی پرستی کے تابع کرنے کی کوششوں میں خود سیاسی موت مرتے چلے جائیں گے۔ ایسی تحریکوں کی قیادت صرف وہی لوگ کر سکیں گے جو انقلابی نظریات کے ساتھ ساتھ انقلابی جوش اور ولولے سے لبریز ہوں گے اور ان میں پرانی دنیا سے بغاوت اور ایک نئی دنیا تخلیق کرنے کا عزم اور حوصلہ موجود ہوگا۔
سب سے بڑھ کر وہ سیاسی کارکنان جن کے پاس درست نظریات اور تناظر موجود ہوگا وہی آنے والے عرصے کی تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کر سکیں گے۔ کچھ لوگ ماضی میں عام ہڑتال کے نعرے کا مذاق اڑاتے تھے جو آج ایک معروضی حقیقت بن کر ابھر رہی ہے۔ اسی طرح عوامی تحریکوں اور محنت کش طبقے کی طاقت پر سوالیہ نشان اٹھائے جاتے تھے جبکہ امریکی سامراج کی طاقت کو ازلی اور ابدی بنا کر پیش کیا جاتا تھا اور اس کے ہوتے ہوئے کسی تحریک کے ابھرنے سے ہی انکار کر دیا جاتا تھا۔ ایسے ہی معیشت کے دیوالیہ پن کے امکانات کا تمسخر اڑایا جاتا تھا۔ لیکن مارکسزم کے درست نظریات رکھنے والے انقلابی اس وقت بھی نہ صرف اپنے تجزیے اور تناظر پر قائم رہے بلکہ محنت کش طبقے کی انقلاب کرنے کی صلاحیت پر بھی غیر متزلزل یقین کے ساتھ کاربند رہے۔ اسی طرح یہاں کے بہت سے غلیظ دانشور تبدیلی کے نام پر عوام دشمن قوتوں کی حمایت کرتے رہے جبکہ درمیانے طبقے کے لا اُبالی نوجوانوں کو ریاستی پشت پناہی سے اس نام نہاد تبدیلی کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جس کا انجام سب کے سامنے آ چکا ہے۔ جب وہ کشتی ڈوبنے لگی تو اس کی قیادت کرنے والے بہت سے چوہے بھاگتے ہوئے بھی نظر آئے۔ آنے والے عرصے میں بہت سی کشتیاں ڈوبتی ہوئی نظر آئیں گی جبکہ محنت کش طبقہ نئے پلیٹ فارم تخلیق کرنے کی جانب بڑھے گا۔
اسی طرح مزدور دشمن قوتیں بھی اپنے ہتھیار تیز کریں گی اور نئے ناموں اور نئے حربوں سے سامنے آنے کی کوشش کریں گی۔ حتمی طور پر یہ حق اور باطل کا معرکہ ہوگا اور سرمایہ دار اور مزدور طبقے کے درمیان ایک واضح صف بندی ہوتی ہوئی نظر آئے گی۔ اس معرکے میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے یا بقا کی لڑائی ایک فیصلہ کن مرحلے کی جانب بڑھتی ہوئی نظر آئے گی۔ ہر جنگ کی طرح یہ طبقاتی جنگ بھی کسی ایک ہڑتال یا ایک احتجاج یا ایک عوام دشمن کاروائی سے ختم نہیں ہوگی بلکہ جھڑپوں اور لڑائیوں کے برسوں پر پھیلے ایک طویل سلسلے کے بعد ہی اس کا فیصلہ ہوگا۔ اس طبقاتی جنگ میں سوشلزم اور کمیونزم کے واضح نظریات سے لیس سپاہی انقلابی پارٹی میں منظم ہو کر ایک ہراول دستے کا کردار کر سکتے ہیں اور سرمایہ دار طبقے کی حاکمیت کو ختم کرنے کا آغاز کر سکتے ہیں اور سوشلسٹ انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب عالمی سطح پر موجود سامراجی طاقتیں اور حکمران طبقہ بھی اپنا ہر ہتھیار استعمال کرے گا تا کہ اس عوام دشمن نظام کو قائم رکھا جا سکے۔ اس جنگ کا انجام کچھ بھی ہو اور یہ سلسلہ کسی بھی شکل میں آگے بڑھے لیکن یہ طے ہے کہ اب اس طبقاتی جنگ کا بگل بجنے میں طویل عرصہ نہیں رہ گیا۔