پاکستان: معذور افراد کی اصل صورتحال اور ریاست کا توہین آمیز رویہ

|تحریر: عثمان ضیاء|

گزشتہ روز پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان، جو کہ اپنی جہالت اور انسان دشمنی کو بلند و بانگ لہجے میں چھپا کر ڈھٹائی سے اپنا اور اپنی حکومت کا دفاع کرنے کے حوالے سے خاصے معروف ہیں، نے ایک پریس کانفر نس میں جس میں ان کے ساتھ وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی موجود تھیں، یہ کہا کہ معذور بچے والدین کے گناہوں کی سزا کے طور پر پیدا ہوتے ہیں اور معاشرے پر اللہ کا عذاب ہوتے ہیں۔ یہ بیان جہاں معذور افراد کے لیے ہتک آمیز اور تکلیف دہ ہے وہیں وزیر صاحب کی جہالت پر بھی دلیل ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ اس بیان کے پس منظر میں کیا ذہنیت کار فرما ہے۔

یورپ میں صنعتی انقلاب آنے سے پیشتر کلیسائی تسلط کے دور میں معذور ی کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کو نہ صرف والدین کے گناہوں کی سزا سمجھا جاتا تھا بلکہ انہیں سماج پر بوجھ سمجھتے ہوئے سماج سے الگ تھلگ جگہوں پر رکھ کر موت کے انتظار میں چھوڑ دیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں، نازی جرمنی کے دور میں بھی ایک قانون موجود تھا جس کی رو سے ایسے افراد جو معذور ہوں ان کی جان لینا جائز تھا اور ریاست منظم انداز میں ایسے افراد کو قتل کر دیتی تھی جو کسی معذوری کا شکار ہوتے تھے یا ناقابلِ علاج مرض میں مبتلا ہوتے تھے۔ ان دو حقائق کی بنیاد پر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ فیاض چوہان سماج کی اس پرت سے تعلق رکھتے ہیں جن کے لیے وہ تمام افراد جن کو استحصال کا براہِ راست نشانہ بناتے ہوئے ان کی ہڈیوں سے منافع خیزی کرنا مشکل کام ہو نہ صرف قابلِ گردن زدنی ہیں بلکہ معاشرے کے لیے پھٹکا ر بھی ہیں اور لگتے ہاتھ انہیں والدین کے گناہوں کی سزا قراد بھی د یا جائے کیونکہ ان کے بے یارو مددگار والدین جو اپنے معذور بچوں کی تعلیم، معاش، علاج اور دیگرسماجی ضروریات پورا کرنے کے لیے در در کے دھکے کھاتے ہیں وہ مزید مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ جائیں اور اپنے بچوں کو خدا کے عذاب کے طور پر قبول کرنے کیے نفسیاتی اذیت کو تنہا برداشت کریں۔ قصہ مختصر یہ کہ فیاض چوہان کا یہ بیان صرف غیر ذمہ دارانہ نہیں بلکہ ان کی جہالت اور تاریک کلیسائی اور نازی ادوار کی امتیازی ذہنیت کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔

معذور افراد کے استحصال کا سب سے مقبو ل طریقہ انہیں ”پوسٹر چلڈرن“ بنا کر پیش کرنا ہے۔

یہاں بات کو صرف فیاض چوہان کی جہالت اور امتیازی ذہنیت تک محدود کر دینا زیادتی ہوگی۔ آئیے ہم تحقیقی اعدادو شمار کی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں معذور ی کے شکار افراد کی اصل صورتحال ہے کیا۔ سرمایہ دارانہ نظام ہمیشہ استحصال کو انسانی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ گھناؤنا کام سرانجام دینے کے لیے سرمایہ داروں کے پاس این جی اوز اور ان سے ملتے جلتے آلات بکثرت موجود ہوتے ہیں جو اصل صورتحال کو پوشیدہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے سرمایہ داروں کو استحصال جاری رکھنے کا جواز مہیا کرتے ہیں۔ معذور افراد کے استحصال کا سب سے مقبو ل طریقہ انہیں ”پوسٹر چلڈرن“ بنا کر پیش کرنا ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ معذوری کے شکار افراد یا بچوں کی ایک قلیل تعداد کو منظر عام پر لا کر ان کے لیے خیرات اکٹھی کی جاتی ہے اور ان چند افراد کو بہت قلیل مقدار میں سہولیات فراہم کرکے تصاویر کھنچوائی جاتی ہیں اور مشتہر یہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے کمال مہربانی کرتے ہوئے معذور افراد کی خدمت میں دن رات ایک کرتے ہوئے ان کے لیے ایک سکول بنا دیا ہے یا ان میں وہیل چیئرز تقسیم کر دی ہیں لیکن اصل صورتحال اس سارے منظر سے نہ صرف پوشیدہ ہوتی ہے بلکہ انتہائی خوفناک بھی ہوتی ہے لیکن سماج کے اکثر افراد یہی سمجھتے ہیں کہ سیٹھ صاحب اور حکومت نے مل کر انتہائی نیک کام سرانجام دیا ہے۔ آئیے پاکستان میں اس حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے تمام دستیاب وسائل کو استعمال کرتے ہوئے سپیشل ایجوکیشن کا پورا سسٹم صرف4 فیصد معذور ی کے شکار بچوں کو تعلیمی سہولیات مہیا کر رہا ہے

پاکستانی ریاست کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات ہی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے پاس معذور افراد کی تعداد کے حوالے سے پچھلی دو دہائیوں سے کسی قسم کے نئے اعدادو شمار سرکاری سطح پر موجود ہی نہیں ہیں، لہٰذا ہمیں سرکاری اعدار و شمار کے لیے 1998ء کی مردم شماری کو دیکھنا پڑتا ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 2.49 فیصد حصہ ایسے افرا د پر مشتمل ہے جو کسی نہ کسی معذور ی کا شکار ہیں، ایک اور دستاویز کے مطابق یہ تعداد کل آبادی کا 2.54 فیصد ہے1؎۔ معذور افراد کی کل آبادی کا 33فیصد ایسے بچوں پر مشتمل ہے جن کی عمر اسکول میں جانے کی ہے 2؎۔ ASER کے مطابق عالمی اعدادو شمارکی رو سے پاکستان میں معذور افرا د کل آبادی کا 10 سے 15 فیصد ہیں اور یہ تعداد تقریبا دو کروڑ ستر لاکھ افراد پر مشتمل ہے 3؎۔ زیر نظر آرٹیکل میں ہم تمام دلائل کی بنیاد قومی مردم شماری میں دی گئی تعدا د کو بناتے ہوئے آگے چلیں گے۔ہیلپنگ ہینڈ(HHRD) نامی این جی او کی 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق قومی مردم شماری کی رو سے پنجاب کی2.5 فیصدآبادی، سندھ کی 3.05 فیصد آبادی، خیبر پختونخوا کی2.1فیصد آبادی، بلوچستان کی 2.33فیصد آبادی اور اسلام آباد کی 1 فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے۔ اگر سکول جانے کی عمرکے بچوں کے تناسب کے اعتبار سے پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے تمام دستیاب وسائل کو استعمال کرتے ہوئے سپیشل ایجوکیشن کا پورا سسٹم صرف4 فیصد معذور ی کے شکار بچوں کو تعلیمی سہولیات مہیا کر رہا ہے، دیہی اور شہری آبادی کی تقسیم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو صورتحال اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے 4؎۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کی کل آبادی کا 66 فیصد دیہی علاقوں جبکہ 34 فیصد شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہے، جبکہ2006ء میں مرتب کی جانے والی ’معذور افراد کے لیے سہولیات اور خدمات کی ڈائریکٹری‘ 5؎کے مطابق معذور بچوں کو تعلیم مہیا کرنے والے 91 فیصد سکول شہری علاقوں جبکہ صرف 9 فیصد سکول دیہی علاقوں میں قائم ہیں، اس صورتحال سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز میں معذور بچوں کی تعلیم کے لیے موجود ادارے کس قدر ناکافی ہیں، ماضی قریب میں کی جانے والی ایک تحقیق 6؎ کے مطابق غیر معذور بچوں میں سے 68 فیصد بچے سکولوں میں داخلے کا حق حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور 32فیصد بچے سکولوں تک رسائی حاصل نہیں کرپاتے، معذور بچوں کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ مذکورہ تحقیق کے مطابق ہی پاکستان میں صرف4 فیصد معذور بچے سکولوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جبکہ96فیصد معذور بچے سکولوں اور اپنی تعلیم کے بنیادی حق تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پاکستا ن کے نسبتاً ترقی یافتہ صوبے پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں معذور افراد کی تعداد کم و بیش 28 لاکھ پر مشتمل ہے (HHRD,2012)، قومی پالیسی برائے افرا د باہم معذور ی 2002ء کی رو سے ان میں سے 33فیصد ایسے بچوں پر مشتمل ہے جن کی عمر سکول جانے کے قابل ہے، یہ تعدا د 10 لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ پنجاب میں تمام تر حکومتی وسائل اور تحصیل ہیڈ کوارٹر کی سطح تک سپیشل ایجوکیشن سنٹر ز کے قیام کے باوجود صرف 32,345 معذور بچے پنجاب بھر کے سپیشل سکولوں میں زیر تعلیم ہیں، یہ اعدا د و شمار پنجاب حکومت کے محکمہ خصوصی تعلیم کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ ایک اور تحقیق7؎ کے مطابق پنجاب میں عام بچے کو سرکاری پرائمری سکول تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اوسطاً دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جبکہ ایک معذور بچے کو سکول تک رسائی کے لیے اوسطاً12 کلومیٹرکا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ سپیشل ایجوکیشن سکولوں میں مہیا کی جانے والی بسیں عموماً اتنا طویل فاصلہ طے نہیں کرتیں، لہٰذا ایسے بچوں کی اکثریت سکولوں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتی۔

نابینا افراد کے آئے روز ہونے والے احتجاج اور ان پر ریاستی جبر، ریاست کے معذور افراد کی طرف رویے کی درست عکاسی کرتا ہے۔

معذور بچوں کی تعلیم اور بحالی کے حوالے سے پاکستان میں مرتب کردہ پالیسیوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ ہم قانون سازی کی کس سطح پر موجود ہیں اور آیا یہ قوانین معذور بچوں کی تعلیم کے لیے کتنے کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں ہم نے پاکستان میں پالیسی سازی کی تاریخ کا طائرانہ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے: پاکستان میں 1972ء کی تعلیمی پالیسی میں پہلی مرتبہ معذور بچوں کی تعلیم کے لیے فنڈ مختص کرنے کا اعلان کیا گیا، 1980ئسے1990ء کی دہائی معذور افرا د کی عالمی دہائی کے طور پر پاکستان میں بھی منائی گئی اور تمام صوبائی دارلحکومتوں میں اور کچھ چھوٹے شہروں میں بھی سپیشل ایجوکیشن کے ادارے قائم کیے گئے۔ 1985ئمیں سپیشل ایجوکیشن کا کنٹرول وزارتِ تعلیم سے منتقل کر دیا گیا۔ 1986ئمیں قومی پالیسی برائے بحالی معذوراں تیار کی گئی جس کامرکزی نکتہ انضمامی تعلیم تھا، اس پالیسی کی رو سے سپیشل ایجوکیشن کے اداروں کا کام معذور بچوں کو عام سکولوں میں داخلے کے لیے تیار کرنا تھا۔ 1988ئمیں قومی پالیسی برائے تعلیم و بحالی معذوراں جاری کی گئی، اس پالیسی اور پہلے کی پالیسیوں میں بنیادی فرق یہ تھا کہ اس پالیسی نے معذور ی کے بارے میں پائے جانے والے روایتی زاویہئ نظر کو بدلنے کی کوشش کی، اور تعلیم کو معذور بچوں کے لیے خیرات کا درجہ دینے کی بجائے ان کا انسانی حق قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 1993ء تک پاکستان میں معذور بچوں کی تعلیم کے لیے 210 ادارے کام شروع کر چکے تھے۔ وفاقی وزارت برائے خواتین، سماجی بہبود و خصوصی تعلیم، 1998ء کے مطابق 1988ء کی پالیسی کے نفاذ میں حکومت ناکام رہی، اس ناکامی کی بنیادی وجوہات میں تربیت یافتہ سٹاف کی کمی، پیشہ وارانہ مہارت کی کمی، ناکافی بجٹ اور اس شعبے کو دی جانے والی کمتر ترجیح شامل ہیں۔ 1998ء میں قومی پالیسی برائے خصوصی تعلیم تشکیل دی گئی، حکومت اس پالیسی کو نافذ کرنے میں بھی ناکام رہی۔ 2002ء کی پالیسی برائے معذور افراد نے تعلیم کو معذور بچوں کا حق قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس بات پر زور دیا کہ معذور بچوں کو تعلیم شمولیاتی ماحول میں مہیا کی جانی چاہیے۔ اس پالیسی کے موثر نفاذ کے لیے 2006ء میں ایک ایکشن پلان بھی ترتیب دیا گیا لیکن مذکورہ بالا صورتحال میں اس بات کا اندازہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اس پالیسی کے نفاذ میں کتنی کامیاب رہی۔ 18 ویں ترمیم میں آئینِ پاکستان میں آرٹیکل 25-A کا اضافہ کیا گیا جو اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ ریاست 5سے16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم مہیا کرنے کی پابند ہے۔ اس آرٹیکل میں ”تمام“ کا لفظ خاص معانی کا حامل ہے جس سے مراد یہ ہے کہ تمام بچوں میں معذوری کے شکار بچے بھی شامل ہیں اور ریاست اس بات کی بھی پابند ہے کہ وہ معذور ی کے شکار بچوں کو بھی یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرے۔ صوبہ پنجاب میں 2014ء میں پاس ہونے والا صوبائی تعلیمی ایکٹ بھی اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ صوبائی حکومت تما م بچوں کو بلا امتیاز قریب ترین سکولوں میں تعلیم مہیا کرنے کی پابند ہے۔ الف اعلان اور I-SAPS نے 2014ء میں اس ایکٹ کا تنقیدی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایکٹ اس بات کا وعدہ تو کرتا ہے کہ تمام بچوں کو قریب ترین سکولوں میں تعلیم تک رسائی دی جائے گی لیکن”قریب ترین“ کی جغرافیائی حدود کا تعین نہیں کرتا جس کی وجہ سے ایسے تعلیمی اداروں کے خلاف کاروائی ممکن نہیں جو بچوں کو بلا امتیاز تعلیم تک رسائی مہیا نہ کر رہے ہوں، مزید برآں، CPDI نے 2014ء میں اسی بل کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ ایکٹ سیکشن3 معذور ی کے شکار بچوں کو ”مناسب تعلیم“ مہیا کرنے کی بات کرتا ہے، لیکن ”مناسب تعلیم“ کی کوئی وضاحت پیش نہیں کرتا، جبکہ اس ایکٹ میں مناسب تعلیم کی فراہمی اور وضاحت کے رہنما اصول شامل ہونے چاہئیں جن کی غیر موجودگی میں بہت سے وعدے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ماضی قریب یعنی 3دسمبر2019ء کو عالمی یوم معذوراں پر حکومت پنجاب کی وزارتِ خصوصی تعلیم نے پنجاب سپیشل ایجوکیشن پالیسی 2019 کا اجراء کیا جس کو پڑھنے کے بعد علمی حلقوں کی جانب سے خاصی مایوسی کا اظہار اس حوالے سے کیا گیا کہ اس پالیسی میں آٹزم اور لرننگ ڈس ایبلٹی جیسی شدید معذوریوں کو معذور ی تسلیم ہی نہیں کیا گیا جبکہ عالمی سطح پر ا ن معذور یوں کا شمار شدید معذوریوں میں ہوتا ہے اور معذور افراد کی سب سے بڑی تعداد لرننگ ڈس ایبلٹی کے شکار افراد پر مشتمل ہے، یہ ایک ایسی معذور ی ہے جو ظاہری طور پر نظر نہیں آتی لیکن نالائق اور نکمے قرار دے کر سکولو ں سے نکال دیے جانے والے طلبہ کی کثیر تعداد ایسے بچوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کے حوالے سے نہ تو اساتذہ کے پاس کوئی علم ہوتا ہے اور نہ ہی پالیسی ساز یہ ذہنی مشقت کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ سرمایہ داروں اور ان کے دلالوں پر مشتمل پالیسی سازوں کے یہ گروہ این جی اوز یا محکمہ خصوصی تعلیم کی شکل میں سالانہ فوٹو شوٹ کر وا کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔

سرمایہ دار وں اور ان کے دلالوں پر مشتمل یہ گروہ جہاں اس انسانوں کے استحصال کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا،وہیں سالانہ بنیادوں پر خیرات تقسیم کرنے کے ایک آدھ پروگرام کا انعقاد کرنے اپنے انسان دوست ہونے کی بھونڈی کوشش کرتے ہیں جو دراصل سکولوں سے دور گھرو ں میں بیٹھے لاکھوں معذور بچوں اور ان کے والدین کے زخموں پر پاشی کے مترادف ہوتی ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان میں ابتداء ہی سے معذوری کے شکار افراد اور بچوں کو انسانی حقوق کے مستحق سمجھے جانے کی بجائے خیرات کا مستحق سمجھنے کا راستہ اپنا یا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج کم و بیش 96 فیصد معذور بچے تعلیم تک رسائی نہیں رکھتے۔ علاوہ ازیں، سماج میں ہر سطح پر رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہیں، بڑے بڑے سرمایہ دار معذورافراد کو نوکریاں دینے کی بجائے معذور کوٹے پر عملدرآمد کرنے کا جرمانہ دینا اس لیے آسان سمجھتے ہیں کیونکہ وہ جرمانہ انتہائی معمولی نوعیت کا ہوتا ہے اور اپنی فیکٹریوں اور دفتروں کو معذور محنت کشوں کے لیے قابل رسائی بنانے پر ہونے والے اخراجات سے کم ہے۔ یہ بات تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ معذور بچوں کے لیے اگر عام سکولوں کو بھی قابل رسائی بنا دیا جائے توان کی غالب اکثریت عام سکولوں میں ہی تعلیم حاصل کر سکتی ہے اور ان کے لیے انتہائی مخصوص سطح کے انتظامات کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ چند سال قبل پنجاب کے دو اضلاع مظفر گڑھ اور بہاولپور میں معمولی معذور بچوں کو عام سکولوں تک لانے کا تجربہ کیا گیا جو کہ کمزور منصوبہ بندی اور نفاذ کے نظام کی بنیاد پر ناکام ہوا ور قومی خزانے کو کم و بیش 87 کروڑ روپے کا نقصان ہوا جس کا نتیجہ معذور بچوں کے والدین کے لیے مزید مایوسی کی صورت میں برآمد ہوا۔ علاوہ ازیں، معذور افراد کی ایک انتہائی قلیل افراد پر مشتمل ایک اشرافیہ بھی موجود ہے جو کہ این جی اوز کے مالکان پر مشتمل ہے اور معذور افراد کے زخموں کا کاروبار کرتی ہے اور وہ قومی و بین الاقوامی دوروں سے خیرات اکٹھی کرنے کا کام کرتی ہے۔ یہ اشرافیہ معذور افراد کی اصل صورتحال پر پردہ ڈالنے میں سرمایہ دارو ں اور ریاست کی ہر طرح سے ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔

اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو نہ صرف ریاستی اداروں کی سنجیدگی کی سطح واضح ہو جاتی ہے جو کہ فیاض چوہان جیسے بد طینت وزیر کے اہانت آمیز بیان سے کہیں زیادہ گھمبیر اور تاریک ہے۔ سرمایہ دار وں اور ان کے دلالوں پر مشتمل یہ گروہ جہاں اس انسانوں کے استحصال کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا،وہیں سالانہ بنیادوں پر خیرات تقسیم کرنے کے ایک آدھ پروگرام کا انعقاد کرنے اپنے انسان دوست ہونے کی بھونڈی کوشش کرتے ہیں جو دراصل سکولوں سے دور گھرو ں میں بیٹھے لاکھوں معذور بچوں اور ان کے والدین کے زخموں پر پاشی کے مترادف ہوتی ہے۔ فیاض چوہان کا بیان دراصل سرمایہ دار طبقے اور ان کے تنخواہ داروں کے اصل اور گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کر رہا ہے بلکہ عوام کے لیے بھی ایک سبق کی حیثیت رکھتا ہے کہ یہ کس طرح یہ دھوکے باز لٹیرے اپنے چہروں پر انسان دوستی کا نقاب سجاتے ہیں اور موقع ملنے پر سماج کی کمزور ترین پرت کی اہانت سے بھی باز نہیں آتے۔

معذور افراد کے ساتھ ساتھ سماج کی ہر کمزور پرت کی بھلائی کی توقع ان سرمایہ دار وں سے کرنا عبث ہے جو 78 سال کی اداکاری کے بعد صرف 4فیصد معذور بچوں کو انتہائی ناقص تعلیم تک رسائی دلوا سکے ہیں۔ ایسے میں جبرو استحصال کے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور اس کی جگہ پر برابری اور مساوات کی بنیادو ں پر قائم سوشلسٹ سماج ہی معذور افراد کو ان تمام دکھو ں اور تکلیفوں سے نجات دلا سکتا ہے جہاں ان کی تعلیم اور خدمت کو رعایت کی بجائے حق سمجھتے ہوئے نہ صرف مہیا کیا جائے گا بلکہ انہیں وسییع تر بنیادوں پر سماج کی پیداواری قوتوں کا مفید حصہ بنایا جائے جو ہر طرح سے ممکن بھی ہے۔

حوالہ جات:
(1) HHRD. (2012). Persons with disabilities (PWDs) statistics in Pakistan 2012. (1st ed.). Islamabad: HHRD.
(2) Pakistan Ministry of Women Development, Social Welfare and Special Education (2002). National Policy for Persons with Disabilities, Islamabad. Government of Pakistan.
(3) Pakistan, A. S. E. R. (2015). Annual Status of Education Report: ASER Pakistan 2015 National (Urban). In Lahore, Pakistan: South Asian Forum for Education Development (Vol. 30).
(4) Hameed, A. & Manzoor, A. (2014). Making children visible as right bearers for education. Husain, A., Masih, A., Husain, I. and Bhatia, H.K. (Edts.). Eduaction as a Right Across the Levels: Challenges, Opportunities and Strategies. New Delhi.
(5) DGSE,. (2006). Directory of facilities and services for the persons with disabilities in Pakistan. Islamaabad: DGSE.
(6) (7) Manzoor, A., Hameed, A., & Nabeel, T. (2016). Voices of out of school children with disabilities in Pakistan. Journal of Research in Special Educational Needs, 16, 1099-1103.
(7) (7) Manzoor, A., Hameed, A., & Nabeel, T. (2016). Voices of out of school children with disabilities in Pakistan. Journal of Research in Special Educational Needs, 16, 1099-1103.
(8) Special Education Department, Govt of the Punjab,. (2020). School Enrollment. Retrieved 18 March 2020, from http://spd.pitb.gov.pk/school_enrollment
(9) I-SAPS and AlifAilan. (2014). Review of the Punjab Free and Compulsory Education Act, Lahore.
(10)
(11) Pakistan Ministry of Health, Social Welfare and Special Education (1986). National Policy for Rehabilitation of the Disabled, Islamabad. Government of Pakistan
(12)
(13)
(14) Pakistan Ministry of Women Development, Social Welfare and Special Education (2002). National Policy for Persons with Disabilities, Islamabad. Government of Pakistan.
(15)
(16) Pakistan Ministry of Women Development, Social Welfare and Special Education (1999). The National Policy for Special Education, Islamabad. Government of Pakistan.

Comments are closed.