|تحریر: پارس جان|
وزیراعظم پاکستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف ان دنوں گرما گرم خبروں کے مرکزی کردار بنے ہوئے ہیں۔ وہ رسمی سفارتی و سرکاری تکلفات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے بیانات اور انٹرویوز میں برملا امریکی آقاؤں کے آگے گڑگڑاتے ہوئے نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن سے وزیراعظم عمران خان کے لیے ایک فون کال کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ اس ملک کی غلامانہ تاریخ کی سات دہائیوں میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی امریکی صدر نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد پاکستان کو اس بے اعتنائی اور دھتکار سے نظر انداز کیا ہے۔ ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب وزیراعظم عمران خان دھڑلے سے امریکہ کے لیے ”اب ہرگز نہیں“ (absolutely not) کا عندیہ سنا رہے تھے اور ان کے سیاسی و صحافتی وظیفہ خوار اور درمیانے طبقے کے بچے کھچے حمایتی فخریہ انداز میں وزیراعظم کی قائدانہ صلاحیتوں پر فریفتہ ہوئے جا رہے تھے۔ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف حکومت بلکہ ان کے ریاستی پروردگاروں کی فرسٹریشن بھی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ ایک دفعہ پھر امریکی آقاؤں کی قدم بوسی کے لیے اتاولے ہوئے جا رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف امریکی آقاؤں کی طرف سے دھتکار اور پھٹکار میں کمی آنے کی بجائے مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بلکہ ان ایڑیاں رگڑتے ہوئے غلیظ حکمرانوں کی امیدوں کے برعکس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے انسداد کے لیے امریکہ کا بھارت پر انحصار آئے روز بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال اس ریاست کے سفارتی دیوالیہ پن کی عکاسی کرتی ہے۔ صحافتی زبان میں پاکستان کو ہمیشہ امریکہ کا اتحادی بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے مگر خطے میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری عدم استحکام اور طاقتوں کے بدلتے ہوئے توازن نے اس نام نہاد اتحاد کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور اب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سامراجی آقاؤں کی نظر میں یہاں کے حکمران طبقات اور ادارے ہمیشہ سے ہی کمتر اور حقیر غلاموں سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھے۔ بین الاقوامی تعلقات میں دوستی یا دشمنی کچھ نہیں ہوتی، صرف اور صرف مفادات ہوتے ہیں۔ امریکی آقا جن مفادات کی بنیاد پر ان غلاموں کی عیاشیوں کا خرچ برداشت کیا کرتے تھے، وہ تبدیل ہو چکے ہیں اور وہ اپنے ان سستے غلاموں سے اس لیے نالاں ہیں کہ انہوں نے اتحاد کی آڑ میں ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی امریکی حکام کی طرف سے نظرِ کرم ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں اور اگر وقتی طور پر ایسا کچھ ہوتا بھی ہے تو وہ پہلے سے کہیں کم معاوضے پر اور پہلے سے کہیں زیادہ اطاعت اور جی حضوری کی قیمت پر ہی ہو گا، جو کہ ہر لحظہ تڑختی ہوئی اس ریاست کے لیے ایسے دیو ہیکل بحرانوں کا باعث بنے گا جن کے سامنے حالیہ بحران ایک پکنک لگنے لگیں گے۔ یہ ”تزویراتی پالیسی“ کا منطقی نتیجہ ہے جس کی ذمہ داری ریاست کے کسی ایک یا دوسرے ادارے پر نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی اس متعفن حکمران طبقے اور ان کے پالیسی سازوں پر عائد ہوتی ہے اور اب اس کی تلافی کی ہر کوشش ان کے تابوت میں ایک نئی کیل ہی ثابت ہوتی رہے گی۔
افغانستان میں یوں تو گزشتہ کئی دہائیوں سے امن ناپید ہی رہا ہے مگر ایک دفعہ پھر بہت بڑے پیمانے کی تباہی اور بربادی کی راہ ہموار ہو رہی ہے اور پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے پر اس تباہی کا ملبہ ڈال کر خود نام نہاد عالمی برادری اور اپنی اپنی عوام کے آگے بری الذمہ ہونے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ طالبان کی پیش رفت جاری ہے مگر افغان عوام کی طرف سے ماضی کے برعکس اس بار طالبان کے لیے شدید غم و غصّے اور نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ افغان طالبان جانتے ہیں کہ اس بار محض پاکستانی ریاست کی افرادی یا مالی کمک پر انحصار نہیں کیا جاسکتا اسی لیے وہ ایران، چین، روس اور حتیٰ کہ بھارت سمیت خطے کی تمام طاقتوں سے ہر ممکن مدد لے کر اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو بھی جائیں تو یہ کوئی دیرپا کامیابی نہیں ہو گی اور اس اقتدار کو طول دینا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ اس ساری صورتحال میں جہاں افغان طالبان پاکستان کے ساتھ دوہرا کھیل کھیل رہے ہیں وہیں پاکستان کی ریاستی مشینری میں ماضی کی پالیسی کے تسلسل اور امریکی خوشنودی کے واپس حصول کے لیے اختلافات شدید تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں بننے والی طالبان کی ممکنہ حکومت پر بھی اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا جائے جبکہ ساتھ ہی امریکہ سے بھی فوجی و مالی امداد بحال کروا لی جائے۔ ان دونوں متضاد سیاسی اہداف کے بیک وقت حصول کی ہر کوشش ان دونوں کو مشکل سے ناممکن بناتی چلی جا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف افغانستان میں عوامی سطح پر پاکستان مخالف جذبات میں شدت آتی جا رہی ہے وہیں پاکستان کے اندر بھی ریاستی پالیسیوں کی جعلسازی اور ہٹ دھرمی کے خلاف رائے عامہ ہموار ہوتی جا رہی ہے۔ بالخصوص افغان سرحد پر واقع پشتون آبادی پر مشتمل علاقہ جات میں پہلے ہی عسکری اداروں کے ناروا اور جابرانہ سلوک کے خلاف ایک تحریک موجود ہے جو قیادت کی طفلانہ کمزوریوں کے باوجود بھی ختم نہیں ہو سکی۔ ایسے میں ماضی کی طرح ان علاقوں کو افغانستان میں کسی بھی نئی گریٹ گیم کے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنا ممکن نہیں رہا، اور اس طرح کی ہر کوشش کی بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ حال ہی میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود نے بھی ایک امریکی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد ایک دفعہ پھر پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں جہاد شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ پاکستانی ریاست کی داخلی خانہ جنگی کی ہی ایک جھلک ہے۔ اس سے قبل احسان اللہ احسان پاکستانی عسکری اداروں کی تحویل سے ’پر اسرار‘ طور پر فرار ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی بار اپنی ریاستی سرپرستی کا پردہ فاش کر چکا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں ایک دفعہ پھر لگنے والی آگ کے شعلے پاکستان کی طرف لپک رہے ہیں۔ پاکستان میں پرویز مشرف کے دورحکومت جیسی صورتحال کے پیدا ہونے کے امکانات کو یکسر رد نہیں کیا جاسکتا۔ ان حکمرانوں کے اس خونی کھلواڑ کی قیمت ایک دفعہ پھر اس خطے کے محنت کشوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ افغانستان میں کئی عشروں سے جاری جنگ اب نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور پورے خطے کے امن کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔
1917ء میں روس کو ایک انقلاب نے ہی جنگ سے نکالا تھا، اس حوالے سے افغانستان کی صورتحال بھی بہت سے پہلوؤں سے روس کی قبل از انقلاب کی صورتحال سے مشابہہ ہے کہ افغانستان میں بھی موجودہ نظام میں رہتے ہوئے کوئی بھی مسئلہ حل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ مگر دوسری طرف افغانستان میں طبقاتی توازن روس سے یکسر مختلف ہے اور فی الوقت بالشویک طرز کی کوئی انقلابی قیادت بھی موجود نہیں، ایسے میں افغانستان میں جنگ مخالف کسی بھی عوامی تحریک کو خطے کے دیگر ممالک کے محنت کشوں کی طرف سے طبقاتی یکجہتی پر مبنی ایک انقلابی سرکشی ہی کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ اس طبقاتی یکجہتی کے رستے میں قوم پرستی بنیاد پرستی سے بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے قوم پرست امریکی سامراج کی گماشتگی کی وجہ سے اس بحران کا کوئی بھی سنجیدہ حل پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ تکلف برطرف یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ اب کوئی سنجیدہ حل پیش کرنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو چکے ہیں۔ قوم پرستی کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ کسی بھی بحران کے حل کے لیے طبقاتی یکجہتی جتنی ناگزیر اور ضروری ہوتی چلی جاتی ہے، قوم پرستی اتنی ہی تنگ نظر ہوتی ہوئی شاونزم کی شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہے، یوں ظالم کے خلاف مزاحمت کی تعمیر کی بجائے یہ مظلوموں کو ہی دست و گریبان کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔
پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف نے امریکہ کو بظاہر یہ تڑی بھی لگائی ہے کہ اگر امریکہ نے پاکستان کو ایسے ہی نظرانداز کیے رکھا تو پاکستان کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا اشارہ چین کی طرف ہے۔ مگر چین کے ساتھ نام نہاد دوستی کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ سی پیک کے افتتاح کو بھی ایک عشرہ ہونے کو آیا ہے۔ اس وقت بھی چین کو امریکی سامراج کا مالی و سٹریٹجک متبادل بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ دعویٰ یہ کیا جا رہا تھا کہ رفتہ رفتہ پاکستان معاشی طور پر خود کفیل ہو جائے گا اور یوں امریکہ پر انحصار کم ہوتے ہوتے یکسر ختم ہو جائے گا۔ مگر آج ایک دہائی بعد نتائج ان خوش فہمیوں کے بالکل برعکس برآمد ہوئے ہیں اور آج چین کی تیس ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے باوجود پاکستان کا امریکہ اور آئی ایم ایف پر انحصار کم ہونے کی بجائے کئی گنا بڑھ گیا ہے اور اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ تعطل پذیر پروگرام بحال نہیں ہوتا تو پاکستان کو آئندہ چند ماہ میں ادائیگیوں کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دراصل ریاستی پالیسی سازوں اور ان کے دم چھلہ مختلف حکومتوں کے معاشی نمائندوں کے دعووں کے برعکس چین کی مبینہ دوستی پاکستان کو امریکی غلامی سے بھی کہیں مہنگی پڑی ہے۔ چین سے ملنے والی امداد ماضی میں امریکہ سے اتنے ہی عرصے میں ملنے والی امداد کا عشرِعشیر بھی نہیں اور جس چینی سرمایہ کاری پر بغلیں بجائی جاتی رہی ہیں وہ درحقیقت تاریخ کے مہنگے ترین قرضے ہیں جن کے بوجھ سے اب پاکستان کی پہلے سے زبوں حال معیشت کا دم گھٹنا شروع ہو چکا ہے۔ چین اب ان قرضوں کی واپسی کے لیے دائرہ تنگ کرتا جا رہا ہے جبکہ امریکہ آئی ایم ایف کے ذریعے مسلسل دباؤ بڑھاتے ہوئے اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والی رقوم کسی بھی صورت چینی ادائیگیوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہئیں۔ یوں پاکستانی معیشت کے ساتھ ساتھ ریاست بھی چکی کے ان دو پاٹوں میں بری طرح پستی چلی جا رہی ہے۔ جہاں افعانستان میں جاری بحران کے باعث امریکہ سے تعلقات مزید بگڑتے جا رہے ہیں، وہیں چین کے ساتھ بھی نام نہاد دوستی کی بیساکھیاں لرزنا شروع ہو چکی ہیں۔ داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کے مبینہ قتل کے بعد ہم نے چینی سرکار کی شدید برہمی اور اس کے نتیجے کے طور پر حکومت اور ریاست کی شدید قلابازیاں بھی دیکھیں جو قطعی طور پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں۔ چند روز قبل سی پیک اتھارٹی کے سربراہ جنرل عاصم باجوہ کا استعفیٰ بھی بہت سے نئے سوال چھوڑ کر گیا ہے۔ بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ امریکہ کی طرح چین کے بھی خطے میں اپنے معاشی اور سامراجی مفادات کی تکمیل کے حوالے سے پاکستانی ریاست کے منصوبہ سازوں پر تحفظات بڑھنا شروع ہو گئے ہیں اور اب وہ بھی امریکہ کی طرز پر ”ڈو مور“ پر اصرار کرنے لگے ہیں۔ سعودی عرب کی ”لبرلائزیشن“ نے بھی یہاں کے حکمرانوں کی نیندیں اڑائی ہوئی ہیں۔ یوں پاکستانی ریاست کی بند گلی کی تاریکی اور وحشت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو اسے نئی مہم جوئیوں کی جانب دھکیل بھی رہا ہے اور ان مہم جوئیوں کی اہلیت کو سکیڑتا بھی چلا جا رہا ہے۔
اس وقت حکومت کو جہاں شدید سفارتی بحرانوں کا سامنا ہے، وہیں معیشت کی بحالی کے تمام حربے بھی بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ وزارت خزانہ کے تین وزراء تبدیل کرنے کے باوجود معیشت کو سہی ڈگر پر نہیں لایا جا سکا۔ جھوٹے اعدادوشمار کے ذریعے ترقی کے راگ الاپے جاتے رہے اور مصنوعی طریقے سے زرِمبادلہ کے ذخائر کو مطلوبہ سطح پر رکھا گیا مگر یہ عمل اب اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہا ہے 29 ارب ڈالر کے ترسیلات زر کے باوجود اب زر مبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بھی مسلسل بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کے باعث تیزی سے بخارات بن کر اڑنا شروع ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں مثبت پیش رفت نہ ہونے کے باعث حکومت کا ٹریژری بلز اور بانڈز پر انحصار کئی گنا بڑھ گیا ہے، جس میں شامل شارٹ ٹرم اور مہنگے قرضے حکومتی آپشنز کو دن بدن معدوم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ رواں سہ ماہی میں 5.9 ٹریلین روپے جمع کرنے کا ٹارگٹ ہے۔ دوسری طرف عالمی معاشی بحران کے باعث بیرونی سرمایہ کاری میں بھی مسلسل گراوٹ آ رہی ہے اور اگر کوئی بیرونی سرمایہ کاری آ بھی رہی ہے تو اس کا رُخ پبلک سیکٹر کے اداروں کی جانب ہی ہو گا اور حکومت کے پاس ان اداروں کی تیز ترین نجکاری کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچا جس کی مد میں موجودہ سال کے بجٹ میں 250 ارب روپے کی آمدن کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس سے بیروزگاری کا بہت بڑا سیلاب آئے گا، پہلے ہی کرونا کے باعث تین کروڑ سے زیادہ لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مسلسل بڑھتی ہوئی بیروزگاری سے داخلی مانگ میں مزید گراوٹ آئے گی اور معیشت کا پہیہ سست ہونے کی طرف جائے گا۔ حکومت نے گزشتہ کئی ماہ سے روپے کی قدر کو بھی مصنوعی طور پر روک کر رکھا تھا، مگر اب ملک میں ڈالر کی مسلسل کمی کے باعث روپے کی قدر کو بھی کم ہونے سے زیادہ دیر تک روکے رکھنا ممکن نہیں۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والا تھوڑا سا اضافہ بھی پاکستان کے مالیاتی خسارے میں بہت بڑے اضافے کا باعث بنے گا۔ داخلی گردشی قرضے بھی کبھی نہ دیکھی گئی سطح کو چھو رہے ہیں۔ عوام پر نت نئے ٹیکس لگانے، سبسڈیز کے خاتمے، نوٹ چھاپنے، تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ماہانہ یا ہفتہ وار اضافے کرنے کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی دوسری آپشن نہیں ہے۔ اس سے حکومت کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا ہے اور ریاستی رسہ کشی میں بھی حکومت کے لیے مشکلات مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس وقت موجودہ اسٹیٹس کو کو جاری رکھنا ہی حکمران طبقے اور ریاست کے مفاد میں ہے، مگر ریاست کا بحران اتنا شدید ہے کہ تمام تر اطاعت اور جی حضوری کے باوجود اس حکومت کے خاتمے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ ریاست کے پالیسی ساز اتنی شدید مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث عوامی ردعمل سے بھی خوفزدہ ہیں اور وہ اسے قبل از وقت زائل کرنے کے لیے انتخابی ڈھونگ رچانے کی طرف جا سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں نئے عام انتخابات کی تیاری کی بات کی ہے۔ لیکن اگر یہ حکومت گر بھی جاتی ہے تو نئی آنے والی حکومت انہی پالیسیوں کو جاری رکھنے پر مجبور ہوگی۔ ان کو بھی بیرونی قرضوں کے سود کی اقساط کی ادائیگی اور بجٹ خسارے وغیرہ کو پورا کرنے کے لیے عوام پر مزید معاشی حملے ہی کرنے پڑیں گے۔ رواں برس 2016ء میں نواز شریف کی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے بانڈز کی مدت پوری ہونے کے باعث سود کی اقساط کے ساتھ ساتھ اصل رقم بھی واجب الادا ہو چکی ہے، یوں رواں برس مجموعی طور پر 14 ارب ڈالر کے لگ بھگ ادائیگیاں کرنی ہوں گی جو پاکستان کے اس وقت موجودکل زر مبادلہ کے ذخائر کے قریب قریب کی رقم بنتی ہے۔ یہ صورت حال ہر گزرتے برس کے ساتھ پہلے سے زیادہ تشویشناک ہوتی چلی جائے گی، یوں کسی بھی نئی آنے والی حکومت کے لیے کسی بھی ہنی مون کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاستدانوں کی روایتی بیان بازیوں کے برعکس عوام میں نئے انتخابات کے لیے جوش و خروش نہ ہونے کے برابر ہی رہ گیا ہے۔ محنت کشوں نے تو کبھی اس انتخابی کھلواڑ کو سنجیدہ لیا ہی نہیں تھا مگر اب درمیانے طبقے کا جمہوریت کا بخار بھی اترنا شروع ہو چکا ہے۔ وہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سے نالاں ہیں۔انہوں نے ماضی کے تجربات سے یہی سیکھا ہے کہ ہر حکومت میں وہی لوگ چہرے بدل بدل کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں حتیٰ کہ گزشتہ دو دہائیوں سے تو ایک ہی کابینہ مختلف حکومتوں میں قلمدانوں اور ناموں کے معمولی سے رد و بدل کے ساتھ ہی عوام پر مسلط رہی ہے۔ نام نہاد پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ سوائے اپنی تنخواہوں، مراعات اور لوٹ مار میں اضافے کے نہ تو کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حال ہی میں کشمیر میں ہونے والے انتخابات اور اس کے بعد وہاں بننے والی نئی حکومت نے بھی اس ”جمہوریت“ کے حسن کو مزید چار چاند لگا دیئے ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے نعرے پر بننے والی تحریک انصاف کی اس حکومت کے دوران کرپشن میں تاریخی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور جواریوں نے لوٹ مار کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور درمیانہ طبقہ شدید معاشی دباؤ کا شکار ہو چکا ہے۔ تین چار فیصد مٹھی بھر حکمران طبقے کی تاریخی منافع خوری کی قیمت محنت کشوں کے ساتھ ساتھ درمیانے طبقے کو بھی چکانی پڑی ہے۔ اب علاج اور تعلیم محنت کش طبقے کی طرح درمیانے طبقے کی خاطر خواہ پرتوں کے لیے بھی ایک عیاشی بن چکے ہیں۔ تحریک انصاف سے نا امید ہونے والے درمیانے طبقے کی کچھ پرتوں میں وقتی طور پر نون لیگ کی طرف کچھ ہمدردیاں پیدا ہوئی تھیں مگر اب اس غبارے سے بھی ہوا نکلنا شروع ہو گئی ہے اور لبرلز کا محبوب و مرغوب نواز شریف کا مبینہ بیانیہ بھی اب اپنی موت آپ مرنا شروع ہو چکا ہے اور نون لیگ بھی شدید داخلی خلفشار کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ نون لیگ میں موجود بہت سے گھاگھ سیاستدان اقتدار کے لیے اب ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں، اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جلد از جلد ڈیل کے لیے قیادت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ ایسے میں آنے والے دنوں میں نون لیگ عوام کے سامنے مزید ایکسپوز ہو گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی سندھ میں اپنی مقبولیت بچانے کے لیے قومی کارڈ پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ یوں درمیانے طبقے کے تاجروں، دانشوروں اور سیاسی ٹھیکیداروں کی حمایت برقرار رکھنے کی قیمت پر محنت کش طبقے میں اپنی بچی کھچی حمایت سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف حال ہی میں بحریہ ٹاؤن کی کراچی میں ننگی جارحیت اور بدمعاشی کے دفاع کے باعث سندھ کے درمیانے طبقے کے سامنے بھی پیپلزپارٹی کا عوام دشمن اور طفیلیہ کردار عیاں ہوا ہے جبکہ بلوچستان سے عوام دشمن افراد کی شادیانے بجا کر پیپلز پارٹی میں شمولیت بھی عوام میں مزید نفرت اور حقارت کا باعث بنی ہے۔ یوں ملک بھر کا درمیانہ طبقہ سیاسی بیگانگی کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ ایسے میں جہاں وہ قوم پرستی اور بنیاد پرستی جیسے رجعتی سیاسی رجحانات کے مابین ہچکولے لیتا رہتا ہے، وہیں اس کے اندر سنجیدہ تبدیلی کی خواہش بھی وقتاً فوقتاً سیاسی منظر نامے پر طلبہ، وکلا اور صحافیوں وغیرہ کی محدود اور بکھری ہوئی تحریکوں کی شکل میں ظاہر ہوتی رہے گی اور ان تحریکوں میں مزدور تحریک سے جڑنے کی خواہش نامیاتی طور پر بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند ماہ میں قیادتوں کی سیاسی بے راہ روی کے باعث پاکستان میں مزدور تحریک قدرے پسپائی کا شکار ہوئی ہے جس نے درمیانے طبقے کے ہیجان کو بھی بڑھاوا دیا ہے۔ مگر یہ پسپائی حادثاتی ہر گز نہیں تھی بلکہ یہ مزدور تحریک کے ارتقاء کے داخلی قوانین کے باعث ایک ایسا ناگزیر مرحلہ ہے جسے تحریک کے سیاسی معیار میں بڑھوتری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ جو افواج پہلے سے مستعد اور تیار نہیں ہوتیں ان کی شکست یقینی ہوتی ہے، مگر فیصلہ کن شکست سے پہلے پسپائی کے عبوری دور بھی آیا کرتے ہیں اور جو افواج ان عبوری ادوار سے اہم اور ضروری اسباق سیکھ لیتی ہیں فتح ان کا مقدر بن جایا کرتی ہے۔ کسی جنگی سالار کا قول ہے کہ پسپا افواج فاتح افواج سے زیادہ سیکھتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک انقلابی نظریات سے آراستہ سائنسی حکمت عملی سے مسلح قیادت کی عدم موجودگی میں یہ وقتی پسپائی ہونا ہی تھی۔ مگر سرمایہ داری کے اپنے بحرانوں نے ان وقتی پسپائیوں کے عبوری دورانیے کو بہت مختصر کر دیا ہے۔ حکمران طبقے کے پے در پے معاشی حملے محنت کشوں کو مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکل کر پھر مزاحمت پر اکسائیں گے اور عین ممکن ہے کہ لڑائی کے اگلے مرحلے میں محنت کش معاشی اور دفاعی پیش رفت کی بجائے سیاسی مطالبات کے ساتھ جوابی حملے سے ناقدین کو فرطِ حیرت میں ڈال دیں۔ وہ جہاں اپنی قیادتوں کی نا اہلی کی وجہ سے سیاسی طور پر بدظن ہیں وہیں فروری میں اسلام آباد کی سڑکوں پر ہونے والی فتح بھی فراموش نہیں کر سکتے، جس کا ایک ہی سبق تھا کہ لڑ کر ہی جیتا اور جیا جا سکتا ہے۔ سرکاری شعبے کے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کے محنت کشوں کی قوت برداشت بھی جواب دے رہی ہے اگر وہ بھی آگے بڑھتے ہیں اور مزاحمت کی اگلی صفوں میں شامل ہوتے ہیں تو مطالبات کی نیرنگی مزدور تحریک کے معاشی مطالبات سے سیاسی پروگرام کی طرف سفر کی رفتار کو بڑھانے کا موجب بنے گی۔ جوں جوں مزدور تحریک اپنے معاشی سرکل سے نکل کر سیاسی شکل اختیار کرتی جائے گی توں توں درمیانے طبقے کے لیے اس میں کشش بھی بڑھتی جائے گی۔ حکمران طبقے کی داخلی لڑائیاں اور مزدور تحریک کی طرف مخاصمانہ اور جابرانہ رویہ بھی اس عمل کو مہمیز دے گا۔ حال ہی میں ایک فوجی جرنیل نے جس ڈھٹائی اور سفاکی سے محنت کشوں کی تذلیل کی ہے، اس سے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ درمیانے طبقے میں بھی نفرت اور اشتعال میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ انفرادی رویہ حکمران طبقے کی اجتماعی روش کا آئینہ دار تھا، یہ آئینہ وقتاً فوقتاً ایسے ہی محنت کشوں کی آنکھوں اور شعور کو چندھیاتا رہے گا۔ انقلابیوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ پسپائیوں کے ان عبوری مراحل میں، جو کہ بار بار خود کو دہرائیں گے، محنت کشوں کے ساتھ رابطوں کے تسلسل اور دورانیوں میں اضافہ کر دیں، اور صبر کے ساتھ ان کے سامنے نظام اور ان کی قیادتوں کی محدودیت کی وضاحت کریں تاکہ تحریک کے اگلے مرحلے کے آغاز میں ہی نئی لڑاکا قیادت کی تشکیل کا عمل آگے بڑھنا شروع ہو سکے۔ یہ کام یکطرفہ اور میکانکی طرزِ عمل سے ممکن نہیں ہے، اس کے لیے محنت کشوں کی نفسیات سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے ان کے شعور اور سیاسی معیار کو بلند کرنا ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انقلابی محنت کشوں کے کسی بھی احتجاج یا اجلاس میں شرکت کریں اور ان سے مخاطب ہوتے ہی ان کو یہ بتانا شروع کر دیں کہ یہ قیادت جعلی یا اصلاح پسند ہے، ہر گز نہیں یوں محنت کشوں میں آغاز میں ہی بدگمانی اور مایوسی پیدا ہو گی جو تحریک کو مضبوط کرنے کی بجائے اور کمزور کرے گی۔ کسی بھی شعبے کی علیحدہ یا بکھری ہوئی تحریک میں ایک ملک گیر تحریک سے بھی بڑھ کر جذبے اور مورال کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہر لڑائی کی کامیابی کا انحصار نوے فیصد لڑاکا پرتوں کے مورال پر ہی ہوتا ہے۔ ایک ملک گیر تحریک میں تو وہ جذبہ اور مورال ایک داخلی میکانزم کے ذریعے ازخود ابھرتا اور ناقابل تسخیر قوت کی شکل اختیار کر جاتا ہے مگر ایک بکھری ہوئی تحریک میں اس کا فقدان ہوتا ہے۔ مداخلت کرنے والے انقلابیوں کا سب سے پہلا فریضہ ہی اس فقدان کو شکست دے کر تحریک کے شرکا میں ان کے عددی پوٹینشل سے کہیں زیادہ جوش و خروش پیدا کر دینا ہوتا ہے، جیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر کے محنت کشوں سے نہ تو کچھ سیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں کچھ سکھایا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ زیادہ تر تحریکوں کی قیادت تحریک کی صفوں سے خود بھی بیگانہ ہوتی ہے مگر محنت کشوں کو اس کا ادراک نہیں ہوتا، مگر اس سے پہلے کہ محنت کشوں کو یہ بتایا جائے کہ یہ قیادت تم میں سے نہیں، یا اس کے مفادات تم سے الگ اور جداگانہ ہیں، ضروری ہے کہ ان کا اعتماد جیتا جائے یعنی پہلے انہیں یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ ہم آپ میں سے ہی ہیں اور آپ کے مفادات سے الگ ہمارے کوئی جداگانہ مفادات نہیں ہیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ تحریک کے فوری مطالبات کی بھرپور حمایت سے آغاز کرتے ہوئے لڑائی میں شامل محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے اور انہیں ان کے آباء و اجداد کی فقید المثال جدوجہد یاد کرائی جائے اور اس کے فوری بعد ملک میں یا دیگر ممالک میں اس وقت جاری محنت کشوں کی دیگر تحریکوں سے یکجہتی کی جائے تاکہ ایک طبقاتی تشخص کو ابھارا جا سکے اور پھر دیگر تحریکوں کی قیادتوں کی کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی موجودہ قیادت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ مگر متبادل پروگرام اور آگے بڑھنے کی عملی تجاویز کے بغیر ایسی کوئی بھی تنقید غیر موثر ہو گی اور خلاف توقع نتائج مرتب کرے گی۔ ملک بھر کی بکھری ہوئی اور علیحدہ علیحدہ تحریکوں میں اس نوعیت کی مسلسل اور بار بار مداخلت جہاں ایک ملک گیر عام ہڑتال اور مزدور تحریک کی معروضی پیش رفت کو یقینی بنائے گی وہیں اس تحریک کو اس انقلابی پروگرام اور قیادت سے مسلح بھی کرے گی جو سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں اس کی حتمی کامیابی اور اس انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام کی فیصلہ کن شکست کی لازمی شرط ہے۔
(نوٹ: یہ تحریر ماہانہ ورکرنامہ کے نئے شمارے کیلئے کابل پر طالبان کے قبضے سے پہلے لکھی گئی تھی)