تحریر: آدم پال:-
4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی 33ویں برسی ایک ایسے وقت میں منائی جا رہی ہے جب پاکستان میں ہر روز طلوع ہونے والا سورج اپنے ساتھ نئے عذاب لاتا ہے۔ان عذابوں کی تکلیف سورج کے غروب ہونے کے بعد ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک لمبے عرصے تک جاری رہتی ہے یہاں تک کہ اگلی نسل کو منتقل ہو جاتی ہے۔خوشیاں،جشن، مسرتیں سب ختم ہوتی جارہی ہیں اور دکھوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ پوری آب و تا ب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ جبکہ بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے قیام کا مقصد سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ان ذلتوں اور بربادیوں کا خاتمہ تھا۔
موجودہ دور کے ان عذابوں میں سر فہرست یہاں کے حکمران طبقات ہیں جن کی حرکتیں تو ہمیشہ سے ہی عوام دشمن تھیں لیکن اب ان کی شکلیں بھی بھیانک ہوتی جا رہی ہیں اور لگتا ہے کہ انسان جاگتے میں کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہے، جس میں یہ بھدی شکلیں ٹی وی کی سکرین پر نمودار ہو رہی ہیں ۔ان کی مسکراہٹیں اور قہقہے ایسے محسوس ہوتی ہیں جیسے کوئی ظالم دیو انسانوں کی بربادی پر اپنے نوکیلے دانتوں اور خون آلود چہرے کے ساتھ خوش ہو رہا ہو۔
بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ایک معمول بن چکا ہے ۔ اسی کے ساتھ ہی محنت کش عوام کے معیار زندگی میں گراوٹ اور موت کے منہ کی جانب سفر میں تیزی بھی ایک معمول بن چکا ہے۔
اس پر ہر روز قتل و غارت، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات جلتی پر تیل گراتے ہیں۔
بہت سے لوگ ہر روز اس امید کے ساتھ آنکھ کھولتے ہیں کہ شاید آج کا دن کچھ تکلیفوں میں کمی ہو پائے گی اور مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے جو منصوبے بنائے تھے انہیں کامیابی سے ہمکنار کر پائیں گے لیکن نئے عذاب ابل پڑتے ہیں اور بہتری کے تمام منصوبے آغاز سے پہلے ہی ناکام ہو جاتے ہیں۔
اس ملک کی معیشت پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بہتری کے تمام دعوے اور امکانات جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔پاکستان کی وزارت خزانہ اس سال کے لیے بجٹ خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کا4.7فیصد لگا رہی ہے جبکہ آئی ایم ایف کے مطابق یہ خسارہ جی ڈی پی کے 7فیصد تک جائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ اس سال اب تک کیے گئے اخراجات میں حکومت اپنی آمدن سے 1047ارب روپے زیادہ خرچ کر چکی ہے اور 12فیصد خسارہ ابھی تک جاری ہے۔حکومت کے لیے 413ارب روپے کی بیرونی ذرائع سے آمدن کا خیال پورا ہونے کا امکان انتہائی کم ہے۔
اگر 7فیصد کا بھی خسارہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ایک کھرب روپے کا خسارہ ہو گا۔ جس کا مطلب ہو گا کہ پورا سال ہر روز تقریباً 300کروڑ روپے چھاپنے، ادھار لینے،مانگنے یا چوری کرنے پڑیں گے۔ بجٹ خسارے میں اضافے کا مطلب افراط زر میں اضافہ، بیروزگاری میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور سرمایہ کاری میں کمی ہو گا۔ ملکی قرضوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گا۔ان حالات میں اگلے مالی سال کے لیے بڑے پیمانے غیر ملکی ذرائع کی امداد پر انحصار کرنا پڑے گا جس کے بغیر نہ تو روز مرہ کے حکومتی اخراجات پورے کیے جا سکیں گے اور نہ دفاع پر ہونے والے دیو ہیکل اخراجات۔
اس انحصار کا یقینی طور پر مطلب ہے کہ حکمران طبقہ اپنی پر تعیش زندگیون کو جاری رکھنے کے لیے امریکی سامراج کی کئی گنا مزید غلامی پر مجبور ہو گااور زیادہ کڑی شرائط پر عوام کے خون اور پسینے کا سودا کرے گا۔عالمی سطح پر جاری بڑھتے ہوئے معاشی و اقتصادی بحران کے باعث غیر ملکی امداد کے حصول میں مشکلات بڑھیں گی اور اس امداد میں کمی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ خاص طور پر امریکہ جو پاکستان کو دی جانے والی امداد میں سر فہرست ہے وہاں ایک شدید معاشی بحران جاری ہے۔ اس کے علاوہ افغانستا ن میں امریکہ کو شکست کا سامنا ہے جس کے باعث وہ وہاں سے فوجیں واپس بلانے پر غور کر رہا ہے۔فوجوں کو واپس بلانے کی تجویز پر غور کی وجہ بھی دنیا کی اس سب سے بری معیشت کو درپیش معاشی مشکلات ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی امداد میں مزید کمی آ سکتی ہے۔
پہلے ہی موجودہ حکومت غیر ملکی امداد کی کمی کے باعث ملکی بینکوں سے قرضے لینے پر مجبور ہو چکی ہے۔لیکن یہ رجحان بھی زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکتا کیونکہ اب ملکی بینک بھی زوال پذیر ہو رہے ہیں۔ حالیہ رپورٹوں کے مطابق ملکی بینک اپنے نصف اثاثے بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کو قرضے پر دے چکے ہیں جس کا حجم چار کھرب روپے کے قریب بنتا ہے۔جبکہ حکومت پاکستان کی حالت زار دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ اتنے بڑے حجم کے قرضے واپس کر پائے گی۔ایسی صورتحال میں بینکوں کے نظام کے دیوالیہ پن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ بینکوں کے دیگر قرضوں کی واپسی کے رجحان میں بھی تیز ترین کمی ہو رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے آنے کے وقت 2008ء میں ڈوبے ہوئے قرضوں کی شرح کل قرضوں کا10.5فیصدتھی جو ستمبر 2011ء میں بہت زیادہ اضافے کے بعد 16.7فیصد ہو گئی۔اسی عرصے کے دوران ڈوبے ہوئے قرضوں کا حجم 359ارب سے بڑھ کر 613ارب روپے ہو چکا ہے جو تین سالوں میں70فیصد اضافہ ہے۔اسی طرح بینکوں کی جانب سے سرکاری اداروں کو دیے جانے والے قرضوں کا حجم 700ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جس کی واپسی کے امکانات انتہائی معدوم ہیں۔
تباہی اور بربادی کا باعث ان معاشی پالیسیوں کے باعث آنے والے عرصے میں ملکی بینکوں کے بحران میں اضافے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ بینکوں کے اس بحران کا نزلہ بھی مختلف شکلوں میں عام لوگوں پر گر رہا ہے ۔ اس کا ایک اظہار تو چند روز قبل آنے والی ایک رپورٹ سے ہوتا ہے جس کے مطابق اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بینکوں کا عملہ بھی ملوث ہے۔جو اغوا کرنے والوں کو مختلف اکاؤنٹ ہولڈروں کی دولت اور ان کی جائیداد سے متعلق اطلاع فراہم کرتا ہے۔ صرف لاہور میں گزشتہ تین ماہ میں 374اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ بینکوں کے بحران کے باعث اس خیال کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ مالکان کسی نہ کسی شکل میں اس عمل میں ملوث ہوں کیونکہ ایسا کوئی بڑا گینگ ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔
براہ راست وارداتوں کی بجائے حکمران بالواسطہ ڈکیتی پر زیادہ یقین رکھتے ہیں اور مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کی محنت کی کمائی پر ڈکیتی ڈالی جاتی ہے جس کا حجم کسی بھی براہ راست ڈکیتی سے ہزاروں گنا زیادہ ہوتا ہے۔یہ ظالم حکمران دولت مندوں پر بلاواسطہ ٹیکس لگانے کی بجائے غریب عوام پر معاشی حملوں کے ایک نئے دور کا آغاز کرچکے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں آج تک اس ملک میں ہونے والی تمام جنگوں اور خانہ جنگیوں میں ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ کر دیا گیا ہے اور ہر آنے والاماہ اس اضافے کی رفتار کو تیز کرے گا۔یکم اپریل سے پٹرولیم مصنوعات میں مزید 8روپے 90پیسے اضافے کی سمری ان انسان نما خونخوار درندوں کے سامنے زیر غور ہے۔
اس کے علاوہ بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بھی اسی مناسبت سے اضافہ کیا جا رہا ہے۔ فلور ملز مالکان کے حالیہ اعلانات کے مطابق آٹے کے بیس کلوتھیلے کی قیمت 700روپے تک جا سکتی ہے۔اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ انسانی زندگی کو ارزاں کرتا جا رہا ہے۔پہلے ہی علاج، تعلیم،روٹی، کپڑا اور مکان عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے ایسے میں مہنگائی کی یہ مسلسل لہر زندگیوں کواس جہنم کے مزید نچلے درجوں میں دھکیلنے کا باعث بنے گی۔
2011ء میں کیے گئے پانچ سال سے کم عمر بچوں کے نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق پاکستان میں 43.6فیصد بچے نا مکمل(stunted) ہیں جبکہ 62.5فیصد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ یعنی غذا ئیت میں کمی کے باعث وہ دوسرے بچوں کی طرح مکمل جسم حاصل نہیں کر پائے۔زندگی کے لیے موجود اس کرہ ارض پردیگر ضروریات تک ان کی رسائی تو بعد کی بات ہے اس تمام کے حصول کے لیے ایک مکمل جسم ہی آبادی کی اتنی بڑی اکثریت حاصل نہیں کر پا رہی۔
لیکن اس ملک کے حکمران طبقات کی عیاشیوں میں کوئی کمی نہیں آ رہی بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ان مصائب سے چھٹکارا دلانے کے دعویدار ان مصائب میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں ۔ رہبر آج کے دور کے سب سے بڑے رہزن ہیں۔سیاست ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جس میں جتنی زیادہ سرمایہ کاری کی جائے اتنا ہی شرح منافع بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایک حالیہ تجزیے کے مطابق ایک درمیانی سطح کی ٹیکسٹائل مل لگانے کے لیے 50کروڑ روپے درکار ہیں جبکہ سینٹ کے حالیہ انتخابات میں ایک سیٹ کی قیمت65کروڑ روپے ادا کی گئی ہے۔اس منافع بخش کاروبار میں ایک طرف تو حکومت کی جانب سے کروڑوں روپے کی ’’ترقیاتی اخراجات‘‘ کے لیے خطیر رقم مہیا کی جاتی ہے جسے ٹھیکیداروں کے ذریعے منافع سمیت وصول کیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب بہت سے جرائم ، زمینوں پر قبضوں اوردیگر غیرقانونی دھندوں کو ’پارلیمانی‘ تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔
حکمرانوں کی جانب سے مسلط کردہ عذابوں کی فہر ست یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ملائیت اور رجعتیت کے بہت سے علمبرداروں کو عوام کو گمراہ کرنے اور انہیں مختلف تعصبات کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔عرب انقلاب نے پوری دنیا کے حکمرانوں کو خوفزدہ کر دیا ہے اور وہ اپنے جبر اور تسلط کو قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہے ہیں۔مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے ممالک پہلے بھی پاکستان میں ملائیت کے مختلف حصوں کو قتل و غارت گری کے لیے مالی امداد فراہم کرتے رہے ہیں۔موجودہ حالات میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔جہاں ان ملکوں کے اندر حکمران طبقات کی آپس کی پھوٹ میں اضافہ ہوا ہے وہاں ان کے دوسرے ممالک کے حکمران طبقات سے تضادات بھی بڑھے ہیں۔ خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے سامراجی مفادات میں شدید ٹکراؤ پیدا ہو رہا ہے۔اس کا اظہار جہاں شام، لبنان اور دیگر ممالک میں ہو رہا ہے وہاں پاکستان بھی مفادات کے اس ٹکراؤ کی لپیٹ میں ہے۔فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردی میں اضافہ اور مذہبی بنیاد پرست تنظیموں کی تنظیم نو اسی سلسلے کی ایک اور خون میں لتھڑی ہوئی کڑی ہے۔پاکستان کا حکمران طبقہ پہلے کی طرح اس لڑائی میں بھی دونوں جانب سے کرائے کے پیسے وصول کرنے کا کرداراداکرتے ہوئے محنت کش عوام کی لاشوں کی قیمت لگا رہا ہے۔
کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ جہاں مختلف سامراجی طاقتوں کی ہاں مداخلت کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں موجودہ ریاست کی ناکامی اور حکمرانوں کے خصی پن کا بھی واویلا کر رہی ہے۔عدلیہ، فوج، پارلیمنٹ اور دیگر ریاستی اداروں کے سربراہان کے مضحکہ خیز بیانات اور سرگرمیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں لیکن سماج پر ان کی گرفت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ علاقے پر کنٹرول کی جنگ ایک اندھی گلی میں جا پہنچی ہے جہاں ہر روز معصوم انسانو ں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔
ایم کیو ایم کے لسانی تعصب کے شکنجے میں مقید کراچی کے عوام کے سینوں پر اب خون اور زہر میں بجھے پشتون ، سندھی اور بلوچی قومی اور لسانی تعصبات بھیپیوست کیے جا رہے ہیں۔اندھی طاقتوں کی اس لڑائی میں جہاں ہر روز کئی معصوم ہلاک ہو جاتے ہیں وہاں بیروزگاری کے باعث لاکھوں بھوک اور افلاس کی دلد ل میں مزید دھنس جاتے ہیں۔
مرکز اور صوبے میں پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت ہونے کے باوجوداس کے اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔مفاہمت کی عوام دشمن پالیسی کا اور کیا انجام ہو سکتا ہے۔ و ہ پارٹی جس کے قیام کا مقصد ہر شخص کو روٹی، کپڑے اور مکان کی سہولت دینا تھا آج انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔جس پارٹی نے اپنے پہلے دور حکومت میں بڑے پیمانے پر روزگار مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ مزدور اور طلبا یونین کو مستحکم کیا تھا آج بیروزگاریکے عفریت کو پھیلانے کا سبب بن رہی ہے۔
نجکاری کی مزدور دشمن پالیسی کو عالمی سود خود مالیاتی اداروں کے اشاروں پر تیزی سے مسلط کیا جارہا ہے جس کے باعث نہ صرف بیروزگاری بڑھ رہی ہے بلکہ سرکاری ادارے ملازمین کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کر رہے۔ایسے میں اگر محنت کش کوئی احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں تو ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔ جبکہ دہشت گرد سرکاری پناہ گاہوں میں محفوظ ہیں۔چند دن قبل ہی اسلام آباد میں دہشت گردی کے بہت سے مقدمات میں ملوث رجعتیت کے ستون پولیس کی آنکھوں کے سامنے کروڑوں روپے مالیت کی کار میں فرار ہو گئے۔جبکہ محنت کشوں کو اپنا بنیادی حق مانگنے پر بھی کڑی سزا دی جاتی ہے۔
محنت کشوں کے احتجاجی مظاہروں کو زائل کرنے کے لیے اب حکمران زیادہ زہریلے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ ماضی میں ان مظاہروں میں پولیس کے ایجنٹ داخل کر کے اشتعال پھیلایا جاتا تھا اور ان کے ذریعے توڑ پھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ کروایا جاتا تھا تا کہ پولیس کو حملہ کرنے کا موقع مل سکے۔ اب پنجاب کے ظالم اعلیٰ کی سربراہی میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کی بات کروائی جا رہی ہے۔ایسا شخص جو خودبجلی کی عدم موجودگی میں چند دن بھی زندہ نہ رہ سکے وہ بجلی کی بحالی کی جدوجہد کا ناٹک کر رہا ہے۔اپنے ممبران اسمبلی کے ذریعے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کروا کر وہ محنت کشوں کی تحریکوں کو رسوا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حکمرانوں کے ہر حملے ، ہر جبر اور ہر ظلم کا جواب محنت کشوں نے جرات اور بہادری سے دیا ہے۔ان کی کاوشیں پہلے بھی کئی دفعہ ناکام ہوئی ہیں اور اب بھی ان بڑھتے ہوئے عذابوں کو کچلنے کے لیے محنت کش دوبارہ ایک تحریک میں ناگزیر طور پر باہر نکلیں گے۔محنت کشوں کی تحریکیں اور انقلابات روز روز برپا نہیں ہوتے لیکن جب وہ برپا ہوتے ہیں تو عمارتوں کے شیشے اورسڑک پر لگی لائٹوں کو نہیں توڑتے نظاموں کو توڑتے ہیں، سماجوں کو تبدیل کرتے ہیں، لٹیروں کو بے نقاب کرتے ہیں اور اپنے اوپر کیے جانے والے مظالم کا انتقام لیتے ہیں۔آج کے عہد میں یہ انتقام کوئی سرمایہ دارانہ جمہوریت نہیں جس میں امارت اور غربت کی خلیج مزید وسیع ہو جائے بلکہ وہ انتقام ایک سوشلسٹ انقلاب ہے ۔ ایک ایسا سوشلسٹ انقلاب جس کا وعدہ پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویز میں کیا گیا تھا لیکن آج تک پورا نہیں کیا گیا۔ آج کے عہد میں اگر محنت کشوں کی کوئی تحریک ابھرتی ہے تو سماج میں موجود مارکسی قوتیں پیپلز پارٹی کی بد عنوان قیادت کا خاتمہ کر کے ایک انقلابی پارٹی کی شکل میں اس کی قیادت کریں گی۔