|رپورٹ: انٹونیو بامر، ترجمہ: آصف لاشاری|
2-3 مارچ 2024ء کو عالمی مارکسی رجحان (IMT) کے پاکستانی سیکشن لال سلام کی کانگریس کے لیے جمع ہونے والے سینکڑوں کامریڈز کی گونج دار آواز میں ”کالی رات جاوے ہی جاوے، سرخ سویرا آوے ہی آوے“ کے نعروں سے ہال گونجتا رہا۔ یہ ایک ایسا ہفتہ تھا جس نے خوش کن انقلابی رجائیت پسندی کو ایک جنون کے ساتھ طبقاتی جدوجہد کے نئے مرحلے کی تیاری کی عجلت کے احساس کے ساتھ جوڑ دیا۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عالمی سطح پر حکمران طبقے کو درپیش تباہ کن صورتحال اور بالخصوص شدید ترین معاشی بحران کے پیشِ نظر آنے والے عہد میں درپیش فرائض یعنی کہ انقلابی قوتوں کی تعمیر کی ضرورت نے عجلت کے احساس کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
اسی وجہ سے شمال میں چین کے بارڈر کے ساتھ موجود پہاڑی خطے گلگت بلتستان سے لے کر جنوب میں بحیرہ عرب کے قریب کراچی تک ملک کے ہر کونے سے لمبا سفر کرتے ہوئے 350 سے زائد کامریڈز کانگریس میں شریک ہوئے۔
افغانستان کے بارڈر سے منسلک سرحدی علاقوں سے بھی کامریڈز سفر کر کے کانگریس میں شرکت کیلئے آئے جہاں طالبان اپنے قبضے کے لیے مقامی حکومت سے برسرپیکار رہتے ہیں، اسی طرح کشمیر کے دور دراز علاقوں سے بھی 100 سے زیادہ کامریڈز کا وفد کانگریس میں شریک ہوا۔ تقریباً ملک کے ہر کونے سے کانگریس کے اندر نمائندگی موجود تھی۔
پاکستان بھر سے سفر کر آنا آسان کام ہرگز نہیں ہے۔ کانگریس سے کچھ دن قبل طوفانی بارشوں نے کئی علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا کر دی اور پہلے سے تباہ حال انفرا سٹرکچر کو مزید ابتر بنا دیا۔ بہت سے کامریڈوں کو کانگریس میں شرکت کیلئے 30 گھنٹے سے بھی زیادہ مسلسل سفر کرنا پڑا۔ کانگریس میں شرکت کیلئے آنے والے سفری اخراجات کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ بہت سوں کو کانگریس میں شرکت کے لیے بہت قابلِ ذکر معاشی قربانی دینی پڑیں اور 30-35 فیصد افراط زر میں اپنی ایک ماہ کی تنخواہ خرچ کرنی پڑی۔ لیکن بالشویکوں کو ان مشکلات کو عبور کرنا آتا ہے اور آئی ایم ٹی کے تمام کامریڈوں کے لیے جو آنے والے عہد کے فریضوں سے مکمل آشنا تھے، یہ کوششیں لائق ایثار تھیں۔
ہفتے کی صبح شرکاء ریلوے ورکرز کالونی لاہور میں واقع ایک ہال میں جمع ہونا شروع ہوئے۔ شرکاء نے روشنیوں سے جگمگاتے درانتی ہتھوڑوں کے نشان والے سرخ جھنڈوں سے سجے ہال میں آنے سے پہلے صبح کی ٹھنڈی ہوا میں گرم چائے کے پیالوں سے لطف اٹھایا۔ شرکاء کے اپنی نشستوں پر دراز ہونے کے بعد ہال برصغیر کے روایتی انقلابی نغموں سے گونج اٹھا۔
روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سیشن کے باقاعدہ آغاز سے قبل کامریڈوں نے مختلف مقامی زبانوں میں اپنی انقلابی شاعری سنائی۔ شاعری کے بیچ میں ہال انقلابی نعروں سے بھی گونجتا رہا۔ چئیر کے رسمی طور پر شرکاء کو ویلکم کرنے کے بعد کامریڈ آدم پال نے غیر ملکی مندوبین کا تعارف کرایا۔ اس سال کانگریس میں اٹلی، سری لنکا، امریکہ اور لندن میں واقع آئی ایم ٹی کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے راب سیول نے شرکت کی۔
پہلا سیشن عالمی تناظر کی بحث کے لیے وقف تھا۔ راب سیول نے بحث کا آغاز تباہی و بربادی کی جانب آنکھیں بند کر کے بڑھتے ہوئے حکمران طبقے کی واضح تصویر کشی سے کیا۔ عالمی معیشت اس وقت ایک ایسے بھنور میں پھنس چکی ہے جو مسلسل گہرائی کی جانب بڑھ رہا ہے اور جس کی رفتار ہر سال مسلسل بڑھ رہی ہے۔ عالمی بورژوازی موجودہ صورتحال میں کوئی درست قدم نہیں اٹھا سکتی، معاشی توازن کو بحال کرنے کی ہر کوشش سماجی و سیاسی توازن کے لیے براہِ راست خطرہ ثابت ہوتی ہے اور اسی طرح سماجی و سیاسی توازن بحال کرنے کی کوشش معاشی توازن کو بگاڑنے کا باعث بن جاتی ہے۔
امریکی سامراج کے معاملے میں یہ بالکل واضح ہے۔ عالمی میدان میں لمبے عرصے تک بلاشرکت غیرے عالمی طاقت کے رہنے کے بعد کئی دہائیوں کے سامراجی طاقت کے زوال کے بعد آج امریکی سامراج زوال کی نئی جہتوں کو چھو رہا ہے۔ نیٹو کو یوکرین کے خلاف اپنی پراکسی جنگ میں ہزیمت اٹھانی پڑی ہے جس میں وہ اپنے سب سے بڑے دشمن کو کمزور اور تنہا کرنے میں ناکام رہا۔ پابندیاں نافذ کر کے روسی معیشت کو کمزور کرنے کی بجائے جنگ نے یورپ اور امریکہ کو کمزور کر دیا ہے، اس کے گولہ و بارود کے زخائر کو کم کیا ہے اور کیف پر براجمان امریکہ کے حمایت یافتہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نااہلی کو عیاں کر دیا ہے۔
جو بائیڈن کا ہیجان انگیز جوا اس کے اپنے گلے پڑنے کی طرف گیا اور ہزاروں یوکرینی نوجوانوں کے خون سے یوکرین کو اس جوے کی قیمت ادا کرنی پڑی۔
ایسا لگتا ہے یہ جوا کافی نہیں تھا اور جوبائیڈن نیتن یاہو کے نسل کشی کے جرائم کی حمایت میں فوراً کود پڑا جس میں اب تک تقریباً پچھلے پانچ مہینوں میں یوکرین جنگ میں دو سالوں میں بہائے جانے والے خون سے کہیں گنا زیادہ خون بہایا گیا ہے۔ لیکن اس سب سے جو کچھ حاصل کیا گیا ہے وہ پورے خطے میں مزید عدم استحکام ہے اور اب جو پہلے سے کہیں گنا بڑے تنازعات کے دروازے کھول رہا ہے۔
رفاہ پر تازہ ترین حملے نے ایک نئی عرب بہار کے خطرے کو اجاگر کیا ہے جو پورے خطے میں ہر حکومت کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔
اس ہیجان انگیز پس منظر کے ساتھ ساتھ ہم تمام حکمران اداروں کے ایک گہرے سیاسی بحران کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو دنیا بھر کے مزدوروں کی بڑی اکثریت کی نظر میں اپنی وقعت کھو بیٹھے ہیں۔ ہر ملک میں سرمایہ داری کے بند گلی میں پھنسنے کے عمل نے عوام کے شعور پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا ہے۔ اس کا اظہار ہمیں عمومی طور پر پھیلے ہوئے غصے کے جذبات کے اظہار میں نظر آتا ہے اور یہ پوری دنیا میں عمل نوجوانوں کی بڑی اکثریت کو ریڈیکلائز کرتے ہوئے کمیونسٹوں کی ایک پوری نئی نسل کو تیار کررہا ہے۔
راب سیول نے اپنے تجزیے کا اختتام تمام کامریڈوں سے اپیل کرتے ہوئے کیا کہ ہمیں اپنے پیش کردہ تناظر سے ضروری نتائج اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے آپ کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے اور موجودہ وقت کے فرائض کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس تاریخی لمحے کا ادراک کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اصلاحات کے لیے ہر جدوجہد میں محنت کش طبقے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی وضاحت کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ حقیقی تبدیلی صرف سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے سے ہی ممکن ہے۔ انقلابی پارٹی کی تعمیر کا یہی وقت ہے!“
کامریڈ راب کی لیڈ آف کے بعد دیگر ممالک کے وفود نے گفتگو میں حصّہ لیا اور عالمی سطح پر انقلاب کے لیے جاری کمیونسٹوں کی جدوجہد کو واضح کیا۔
امریکہ اور اٹلی کے کامریڈز نے نئے عہد میں ابھرنے والے مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے امریکہ اور اٹلی میں کمیونسٹ پارٹیوں کے اعلان جیسے پرجوش اقدامات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ رکھی۔
سری لنکا سے آئے کامریڈ۔۔۔جس نے 2022ء میں صدارتی محل پر قبضہ کرنے والی عوامی تحریک میں حصہ لیا تھا۔۔ کا کہنا تھا کہ سری لنکا میں جو کچھ ہوا وہ ایک انقلاب سے کم نہیں تھا ”عوامی بغاوت کے تجربے سے گزر کر میں آپ کو پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ عوامی تحریک کی طاقت سے زیادہ طاقتور کوئی چیز نہیں۔ سری لنکا میں جس چیز کی کمی تھی وہ انقلابی پارٹی اور انقلابی قیادت کی کمی تھی“۔
دوسرے سیشن کا آغاز پاکستان تناظر کے موضوع پر کامریڈ آدم پال کی لیڈ آف سے ہوا۔ کامریڈ آدم نے صبح کے سیشن میں ہونے والی گفتگو کو پاکستان سے جوڑتے ہوئے بات کو آگے بڑھایا۔ آدم کا کہنا تھا کہ اگر آج مغربی سرمایہ دارانہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس قدر تاریخی زبوں حالی کا شکار ہیں تو کوئی کیسے توقع کر سکتا ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کی غلامی میں جکڑا ہوا پاکستان جیسا ملک بہتر چل سکتا ہے۔
صدیوں کے کالونیل استحصال اور بے انت کرپشن اور لوٹ کھسوٹ نے پاکستان کو کروڑوں لوگوں کے لیے ناقابلِ رہائش ملک بنا دیا ہے۔ ہزاروں لوگ ہر سال ملک سے بھاگ جانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ لاکھوں بھوک کا شکار ہیں اور عام بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ لگ بھگ تین کروڑ لوگ سیلاب کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ آج پاکستان میں آبادی کی اکثریت کو دینے کے لیے سرمایہ داری کے پاس یہی کچھ ہی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ زرخیز زمین رکھتا ہے، خوبصورت پہاڑی سلسلے ہیں اور زرخیز و صحت مند ثقافتی ورثے اور باغیانہ انقلابی روایات کا حامل ہے۔
فطری طور پر کرپشن زدہ حکمران کلاس جو اس ملک پر حکمرانی کرتی ہے اور جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی کرتی ہے، کے بالکل برعکس پاکستان کے عوام سخت جان و مضبوط اور جدوجہد کرنے کی ناقابلِ شکست ہمت رکھتے ہیں۔
اس نکتے کی گونج کامریڈ سلمیٰ کے شاندار کنڑیبیوشن میں بھی نظر آئی۔۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سب سے استحصال زدہ پرتوں میں خواتین کا شمار ہوتا ہے۔لیکن ہم اس جہنم کی گہرائیوں میں رہنے سے انکار کرتی ہیں۔ نہ جانے پاکستان میں خواتین کو کس گناہ کی سزا دی جارہی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان میں حالیہ احتجاجی تحریکوں میں خواتین نے انتہائی سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ سلمیٰ کے بعد ہیلتھ ورکرز کی راہنما رخسانہ انور نے انتہائی جاندار گفتگو رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو صنف نازک کا کہا جاتا ہے لیکن خواتین نے ہر میدان میں ثابت کیا ہے کہ وہ صنفِ نازک نہیں بلکہ صنف نازک تو اس ملک کا حکمران طبقہ ہے جو اتنا نازک ہے کہ کوئی بھی کام کرنے کا اہل نہیں۔
آدم پال نے بات کرتے ہوئے کہا پچھلے عرصے میں ملک کے مختلف حصوں میں بہت سی شاندار تحریکیں ابھرنے کی طرف گئیں جس میں نہ صرف ہمارے کامریڈز نے شاندار مداخلت کی بلکہ کئی جگہوں پر قائدانہ کردار بھی ادا کیا۔
گلگت بلتستان میں ہزاروں لوگ مسلسل 40 دن سے زیادہ دن تک سڑکوں پر رہے اور انہوں نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ گندم پر حاصل سابقہ سبسڈی کو بحال کرے جو حکومت نے آئی ایم ایف کی ایما پر ختم کر دی تھی۔ ہمارے کامریڈز نے اس تحریک کو جوڑنے اور آگے بڑھانے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔
کشمیر میں اسی طرح گندم سبسڈی ختم کرنے کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹیوں کی جانب سے 10 ماہ تک طویل جدوجہد کی گئی اور ان ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل میں ہمارے کامریڈز نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے بعد یہ کمیٹیاں کشمیر بھر میں پھیلنے کی طرف گئیں اور بجلی کے بلوں کے خلاف جدوجہد میں عوامی مزاحمت کا مرکزی نقطہ بنیں، بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاجوں میں کشمیر بھر سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ کئی ماہ تک سڑکوں پر رہے۔ یہ تحریک اس وقت اپنے نقطہ عروج کی طرف گئی جب ایکشن کمیٹی نے کشمیر بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا اور سڑکوں و کاروباروں کو مکمل طور پر بند کر دیا۔
بلوچستان میں بھی ہمارے کامریڈز نے ایک بڑی عوامی تحریک میں مداخلت کی اور ہزاروں کی ریلیوں سے خطاب کیا اور پمفلٹ تقسیم کیے اور یوں ان تحریکوں میں انقلابی نقطہ نظر پہنچایا۔
اس تمام عمل میں ہمارے کامریڈز نے تنظیمی رابطوں کی ایک خاطر خواہ تعداد کے سامنے اپنی سیاسی اتھارٹی جیتی ہے اور اپنے درست تناظر و حکمت عملی کو ثابت کیاہے۔
اب فوری فریضہ ان لڑاکا نوجوانوں اور محنت کشوں میں موجود ان رابطوں کی پرتوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنا ہے۔
دوسرے دن بحث کا آغاز لینن کے نظریات اور طریقہ کار پر کامریڈ پارس جان کی لیڈ آف سے ہوا جنہوں نے حال ہی میں کتاب ’روحِ وصر اور لینن ازم‘ کی تصنیف کی۔
پارس نے پرجوش اور پر مغز انداز میں لینن کے نظریات و طریقہ کار کی آج کے عہد میں متعلقیت کا دفاع کیا اور جدوجہد کے میدان سے عملی مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے آج کے معروض میں انقلابی جدوجہد میں لینن کے میتھڈ اور بالشویزم کو لاگو کرنے کی وضاحت کی۔ یہ سیشن انٹرنیشنل کی جانب سے دنیا بھر میں لینن کی سوویں برسی کو منانے اور انسانی تاریخ کے عظیم انقلابی لینن کے حقیقی نظریات کو اجاگر کرنے کے حوالے سے کمپئین کا حصہ تھا۔
انقلابی تحریک کے پس منظر میں ایک انقلابی پارٹی کا فریضہ بغاوت کو ایک منظم اظہار فراہم کرنا اور محنت کش طبقے کو اقتدار پر قبضے کی جانب آگے بڑھانے میں راہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب تاریخی لمحات میں بر وقت عمل کرتے ہوئے محنت کشوں کو فیکٹریوں اور معیشت کے بنیادی ستونوں پر قبضے جیسے عملی فرائض کی تکمیل کے لیے ایکشن کمیٹیوں میں منظم کرنا ہے۔ پارس نے وضاحت کی کہ ایسا کرنے کے قابل ہونے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ پارٹی کی واضح اور مستقل نظریاتی بنیاد موجود ہو۔ لینن نے کبھی بھی انقلابی نظریے کو عمل کے سوال کی نسبت دوسرے درجہ پر نہیں رکھا۔ بالشویزم نے اپنا انقلابی ڈسپلن اور کچھ کر گزرنے کی جرات کو اپنے مارکسی نقطہ نظر اور نظریات سے کشید کیا۔
پارس نے شعلہ بیانی سے گفتگو کو سمیٹا، انہوں نے اپنے عزم میں سچا ہونے کے لیے اپنی اردگرد کی دنیا کی سائنسی توضیح کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ”محکوموں کو موت کے بعد اچھی زندگی کی لوریاں اس لیے دی جاتی ہیں کہ وہ اس بربریت بھری زندگی کو تسلیم کر لیں اور یہ سب سراسر جھوٹ اور بکواس ہے۔۔لیکن کمیونزم کا مقصد اسی دنیا کو جنت بنانا ہے اور ایک ایسی دنیا تعمیر کرنا ہے جہان انسان واقعی معنوں میں انسانی زندگی گزار سکیں۔“
لینن کی بنیادی خوبیوں میں سے ایک حالات و واقعات کا درست ادراک اور کسی عہد کے ان فوری فرائض کی پہچان کرنا تھا کہ جس کے ذریعے عمومی مقاصد کی تکمیل جلد از جلد حاصل ہو سکے۔ کانگریس کا اگلا سیشن بھی اسی فن کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے تنظیمی ذمہ داریوں کے متعلق بحث کے لیے وقف تھا۔ اس سیشن کے دوران دونوں دن ہونے والے مختلف کمیشنز جیسا کہ وومن کمیشن، یوتھ کمیشن، ورکرز کمیشن اور پیپر پبلیکیشن کمیشن کی رپورٹس رکھی گئیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی صدر کامریڈ فضیل اصغر نے نوجوانوں سے انقلابی فرائض کو آگے بڑھانے کے لیے ایک نڈر اور بے باک رویے پر مبنی اپروچ اپنانے کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مثالی برانچ میٹنگ کو کیسا ہونا چاہیے؟ایک برانچ میٹنگ کا انعقاد بھی اسی طرح کی سنجیدگی کے ساتھ ہونا چاہیے جس سنجیدگی کے ساتھ کسی فیکٹری میں ہڑتال منظم کرنے کے لیے محنت کش میٹنگ میں شریک ہوتے ہیں۔
کامریڈ فضیل نے انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل کے دوران عملیت پسندی کا شکار ہونے سے بچنے کی تلقین کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عملیت پسندی پر مبنی سوچ کسی بھی انقلابی تنظیم کے لیے موت کا پروانہ ہوتی ہے۔ جو کچھ ممکن اور آسان نظر آرہا ہو صرف وہیں تک کا سوچنا عملیت پسندی ہے۔ جبکہ انقلابیوں کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ جو کچھ ممکن نظر آ رہا ہو اس سے کہیں آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا اور ناممکن کو ممکن بنانا۔ کامریڈ فضیل نے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہ آج ہم پاکستان میں کسی معمول کے عہد میں نہیں جی رہے اس لیے ہمیں اس عہد کے فرائض کا بھی ادراک ہونا چاہیے۔
اگلے سیشن میں مختلف سیکشنز کے حوالے سے تفصیلی رپورٹس پیش کی گئیں اور ہر جگہ آئی ایم ٹی کی تیز ترین گروتھ اور حال ہی میں شروع کی جانے والی کمپئین کی رپورٹ رکھی گئی۔ اس سیشن کو کامریڈ راب سیول نے انٹرنیشنل رپورٹس اور اختتامی کلمات کے ساتھ سمیٹا۔
راب کا کہنا تھا کہ کمیونسٹ جدوجہد کے ساتھ سالوں میں انہوں نے کمیونسٹ نظریات کے لیے ایسا سازگار ماحول پہلے کبھی نہیں دیکھا، اس لیے یہی وقت ہے کہ انٹرنیشنل کا ہر سیکشن اپنے پرانے خول سے باہر آئے اور پرانی روٹین کو توڑتے ہوئے آگے بڑھے۔ آج سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ہم کہیں آج موجود مواقعوں کو ضائع نہ کر بیٹھیں۔ ہمیں اپنے آپ پر،اپنے نظریات پر اور اپنی تنظیم پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے ہم اس سال جون میں عالمی کمیونسٹ سکول کے موقع پر انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔
کانگریس کا اختتام انٹرنیشنل گا کر ہوا اور جس کے فوراً بعد ہال نوجوانوں کے انقلابی نعروں سے گونج اٹھا۔