|تحریر: ڈاکٹر یاسر ارشاد|
ریاستِ پاکستان کی تاریخ کا طائرانہ جائزہ جو چند اسباق ہمیں دیتا ہے، ان میں سب سے اہم یہ ہے کے پاکستان اور نازک صورتحال کا آپس میں وہی تعلق ہے جو چولی کا دامن سے ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے سابقہ نوآبادیاتی ملکوں کی سرمایہ داری ان ملکوں کو بحرانوں کے سوا اور دے بھی کیا سکتی ہے؟ پاکستان کی پوری تاریخ میں محنت کش طبقہ بد ترین استحصال، غربت و محرومی کا شکار رہا ہے اور کسی بغاوت سے بچنے کے لیے حکمران طبقہ اس ملک کے باسیوں کو کوئی نہ کوئی سبز باغ اور جھوٹی امیدبھی دیتا رہا ہے۔ ہمیشہ ہی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اگرچہ اس وقت حالات بہت خراب ہیں مگر فکر کی کوئی بات نہیں فلاں پالیسی یا فلاں منصوبہ ملک کی تقدیر بدل دے گا۔ تقدیر بدلتی ہے مگر صرف حکمران طبقے کی۔ جب بھی وہ کہتے ہیں ملک ترقی کا موڑ مڑنے والا ہے تو پہلے سے زیادہ بدحالی محنت کش عوام کے حصے میں آتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کے ترقی وخوشحالی آتی کیوں نہیں؟ اس کا درست جواب ہمیں حکمران طبقے کے تنخواہ دار سرمایہ پرست دانشور خواتین و حضرات نہیں دے سکتے کیونکہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ نظام جس سے ان کے مفادات وابستہ ہیں، محنت کش عوام کی بربادی کا بنیادی سبب ہے۔ تمام تر بحرانوں کی ذمہ داری چند اشخاص پر ڈال کر یہ خواتین وحضرات نظام کو بچانے کا واویلہ کرتے ہیں۔ محنت کش طبقے کی نجات کے لیے ضروری ہے کے ہم اس سماج، سیاست و معیشت کا تجزیہ ٹھوس مارکسی نظریات کی روشنی میں کریں تاکہ حکمران طبقہ کے مکر و فریب اور جھوٹے نظریات سے بچتے ہوئے اس سماج کو درپیش مسائل اور بحرانوں کا درست تجزیہ کر سکیں نیز سماج میں سطح کے نیچے جو تضادات تہہ در تہہ جمع ہو رہے ہیں ان کی درست وضاحت کر سکیں۔
پاکستانی معیشت کا سنجیدہ تجزیہ ہمیں تشویشناک حقائق کی دنیا کی سیر کرواتا ہے۔ اپنی تاریخی تاخیرزدگی کے باعث پاکستانی بورواژزی اس ملک کو ایک جدید سرمایہ دارانہ ریاست بنانے سے قاصر تھی۔ نام نہاد آزادی کے بعد 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں صنعتی ترقی کی کچھ سنجیدہ کو ششیں ہوئیں مگر جلد ہی حکمران طبقے کا خصی پن عیاں ہوگیا اور یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ کوششیں بے سود ہیں۔ یورپی بورژوازی کے برعکس یہاں کی بورژوازی کا کردار طفیلی اور بدعنوان تھا۔ یہ پہلے دن سے ریاستی وسائل کو لوٹتے رہے اور ہمیشہ سے ہی ٹیکسوں اور مختلف ڈیوٹیوں میں ہیر پھیر کرتے رہے ہیں۔ اپنے اس مخصوص کردار کے پیش نظر ان کے لیے سامراجی اجارہ داریوں کا حصہ بننا سہل بھی تھا اور منافع بخش بھی۔ جیسا کے اوپر ذکر کیا گیا ہے، پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ ہمیشہ سے ہی بدترین ٹیکس چور رہا ہے۔ ریاستی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بالواسطہ ٹیکس لگائے گئے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ انکم ٹیکس جیسے محصول کی بجائے بجلی، گیس اور تیل کو مہنگا کر کے کام چلایا گیا۔ اس سے جہاں بنیادی ضروریات زندگی کا حصول آبادی کے ایک بڑے حصے کی دسترس سے باہر ہو گیا، وہاں پیداواری لاگت زیادہ ہونے سے چھوٹی صنعتیں بند ہوئیں، بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور قوت خرید مجموعی طور پر کم ہوئی۔ 2008ء کے معاشی بحران نے پہلے سے کمزور معاشی ڈھانچوں کو اور بھی مضمحل کیا ہے۔ آج نا صرف ملکی معیشت شدید بحرانی حالت میں ہے بلکہ اپنی تاریخ کی سب سے خوفناک گراوٹ کے کنارے کھڑی ہے۔ اندرونی وبیرونی قرضوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ جولائی2014ء میں غیر ملکی قرضے 64 ارب ڈالر تھے، جولائی 2016ء میں یہ بڑھ کر 73 ارب امریکی ڈالر ہو گئے اور جولائی 2018ء تک اندازاً 82 ارب امریکی ڈالر ہو جائیں گے۔ یاد رہے اس میں سی پیک کے قرضے شامل نہیں اگر وہ شامل کر لئے جائیں تو یہ 140ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرجائیں گے۔ 29 ستمبر2017ء دی نیوز اخبار میں چینی سفارتخانے کے حوالے سے چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2024ء تک پاکستان کو سی پیک کی سرمایہ کاری کی مد میں چین کو تقریباً 100 ارب ڈالر کی واپس ادائیگی کرنی ہوگی۔ عالمی مالیاتی بحران کے باعث بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی جانے والی رقوم میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2016ء اور 2017ء کے درمیان ان رقوم میں 30 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ رقوم ریاستی زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالہ سے مرکزی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس حوالے سے سعودی عرب کے معاشی بحران نے سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے۔ لاکھوں پاکستانی محنت کش سعودی عرب سے یا تو واپس آچکے ہیں یا کیمپوں میں انتظار کررہے ہیں۔ سعودی عرب میں اگر آنے والے دنوں معاشی اور سیاسی بحران گہرا ہوتا ہے تو اس کے شدید ترین اثرات پاکستانی محنت کشوں واپسی کی صورت میں اور زر مبادلہ کے اس اہم اور ناگزیر ذریعے کے ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں نکلیں گے۔ اس کا پاکستان میں بیروزگاری کی صورت میں بھی اثر آئے گا جس سے بچ نکلنے کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ اس عرصے میں برآمدات میں شدید کمی اور درآمدات میں تشویشناک اضافہ نے ریکارڈ تجارتی خسارے کو جنم دیا ہے۔ تجارتی خسارہ اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح 33 ارب ڈالر تک پہنچ چکاہے ۔ ا س سے زرمبادلہ کے ذخائر کمی واقع ہوئی ہے جس کو مصنوعی طور پر قرضے لے کر برقرار رکھا گیاہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12ا ر ب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے اور ان تمام صدموں کو پاکستان کی نحیف معیشت زیادہ عرصہ برداشت نہیں کر سکتی۔ اس تباہ حال معیشت کوپہلے ہی کالی معیشت نے سہارا دیا ہواہے اور معاشی گراوٹ کی وجہ سے کالی معیشت پر انحصار مزید بڑھے گا جس کی وجہ اس کے حجم میں ناگزیر طورپر اضافہ ہوگا جس کے سماجی اور سیاسی اثرات پاکستانی معاشرے کو مزید انتشار کاشکار کرینگے۔
حکمران طبقے کے دانشور سی پیک پر بہت شور ڈال رہے ہیں۔ اس موضوع پر مارکس وادی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ چین سرمایہ داری کی گراوٹ کے عہد کا سامراج ہے لہٰذا اس کی لوٹ مار اپنے پیش رو سامراجوں سے زیادہ شدید اور سرمایہ کاری کی افادیت بہت کم ہو گی۔ گوادر میں چین کی دلچسپی تجارت سے زیادہ سٹرٹیجک نوعیت کی ہے۔ زراعت میں سرمایہ کاری زراعت کے شعبے کے بحران کو بڑھاتے ہوئے اس پر چینی قبضہ کو یقینی بنائے گی جبکہ بجلی گھروں میں سرمایہ کاری کا نتیجہ بجلی کے مہنگا ہونے کی صورت میں نکلے گا۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ تمام سرمایہ کاری قرضوں کی صورت میں کی گئی ہے جن پر سود عالمی مارکیٹ کی نسبت کئی گنا ذیادہ ہے۔ اگر کسی کو مزید تسلی کرنی ہو تو وہ افریقی ممالک اور سری لنکا میں چینی سرمایہ کاری کے نتائج پر نظر ڈال لے۔ حالیہ برسوں میں بیج، کھاد، سپرے، بجلی اور ڈیزل کی مہنگائی، جس کی بنیادی وجہ ناجائز منافع خوری ہے، نے زرعی شعبے کے بحران کو مزید گہرا کیا ہے۔ کسان جب اپنی فصل بیچنے نکلتا ہے تو اس کو پتہ چلتا ہے کے پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے پیداوار کا مناسب معاوضہ ملنا ممکن نہیں۔ اس سے دیہی علاقوں کی غربت میں ہولناک اضافہ ہوا ہے اور دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
اس پس منظر میں دیکھیں تو پاکستانی سیاستدان کسی اور ہی سیارے کی مخلوق نظر آتی ہے۔ عوامی مسائل پر بات کرناتو درکنار یہ اپنی سر مایہ داری معیشت کو لا حق سنجیدہ خطرات پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں، شاید یہ اس کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ سیاستدانوں کے تمام تر اختلافات گھٹیا ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں جن میں شخصیات کو زیر بحث لا یا جاتا ہے کسی قسم کانظریاتی اختلاف ناپید ہے ۔ آئے روز حکمران طبقے کے نت نئے مالیاتی اور اخلاقی سکینڈلز سامنے آنا معمول بن چکا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں میڈیا چینلز کی سیاسی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اگر پچاس اور ساٹھ کی دھائی کی سیاست کو ڈرائنگ روم کی سیاست بولا جاتا تھاتو آج کی سیاست کو میڈیا کی سیاست کہا جاسکتاہے۔ ان میڈیا چینلز کے مالکان ارب پتی سر مایہ دار ہیں اور لوٹ مار کے اس نظام میں حکمران طبقے کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی مذاکروں میں سنجیدہ عوامی مسائل پر گفتگو عنقا ہے۔ نان ایشوز کو ایشوز بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور بدترین بدزبانی کی معراج پانے والے پروگرام زیادہ ریٹنگ پاتے ہیں۔ اینکر پرسنز اور نیوز چینلز کو سنتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کے آج کل ان کو کس نے کرایہ پر حاصل کیا ہوا ہے۔ عوام کی اکثریت ان مذاکروں کو سننے سے پرہیز ہی کرتی ہے۔
عالمی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو پچھلی دو دہائیوں میں امریکی سامراج کی طاقت میں بتدریخ ضعف آیا ہے اس عمل کو مہمیز افغانستان اور عراق میں ناکام امریکی جارحیت اور 2008ء کے معاشی بحران نے دی ہے۔ اگر چہ آج بھی امریکہ دنیا کی سب سے طاقتور اور بڑی سامراجی طاقت ہے مگر اس کا پہلے والا غلبہ اب موجود نہیں۔ اسی تسلسل چھوٹی علاقائی سامراجی طاقتوں کے باہمی تنا زعات جو پہلے کسی حد تک دبے ہوئے تھے کھل کر سامنے آئے ہیں۔ اسی عرصہ میں چینی معیشت کی بلند شرح نمو کی وجہ سے چین کو عالمی سطح پر ایک سامراجی طاقت کے طور پر سامنے آنے کا موقع ملا۔ اسی عمل کے زیر اثر پاکستانی حکمران طبقے کے اندر چینی اثرورسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کا گماشتہ حکمران طبقہ بیک وقت اپنے چینی اور امریکی آقاؤں کے احکامات کی تعمیل کی کوششوں میں شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہے جس سے ریاستی بحران میں شدت آئی ہے۔ پہلے ہی معاشی گراوٹ کے عہد میں لوٹ کے مال پر مقتدر حلقوں کی باہمی لڑائیاں کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ ادارے نہ صرف اندرونی طور پر منقسم ہیں بلکہ مختلف اداروں کے مابین لڑائیاں شدت اختیار کررہی ہیں۔ اس کے اثرات ہمیں پاکستانی سیاست میں واضح نظر آتے ہیں۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد ہم نے اس کو عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان کھلی محاذ آرائی اور بیان بازی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کے نواز شریف جو کہ خود ضیا آمریت کی پیداوار اور کرپٹ سیاستدان ہے، وہ جمہوریت کی دہائیاں، عدلیہ سے لے کر جرنیلوں پر تنقید اور بھٹو کے حوالے دے رہا ہے۔ آئی بی کے اعلیٰ افسران کے خلاف آئی بی کے ہی ایک چھوٹے اہلکار سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن درج کروائی گئی ہے جس میں ان پر دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کا الزام لگایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ مختلف جہادی اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ کس سیکورٹی ایجنسی کے تعلقات نہیں رہے؟ عمران خان سے آئی بی سربراہ کے خلاف بیان بازی کروئی گئی ہے، جو اداروں کے بیچ شدید ٹکراؤ کا پتہ دیتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خواجہ آصف کو امریکہ میں افغان انقلاب کے خلاف پاکستانی ریاست کے گھناؤنے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے بنیادپرستی میں امریکی کردار پر بات کرنی پڑی ہے جس پر بہت سے بائیں بازو کے ’سادہ لوح‘ لوگ حکمران طبقے کے اس فرد کو سراہ رہے ہیں اور اسے ایک ترقی پسند عمل قرار دے رہے ہیں۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!
محنت کش عوام حکمران طبقے کی اس باہمی لڑائی سے کہیں بہت دور کھڑے نظر آتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں این اے 120 کے انتخابات بہت دلچسپ نظر آئے۔ میڈیا نے انتخابی بخار چڑھانے کی بھرپور کوشش کی۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی،تحریک انصاف،لبیک یارسول اللہ اور ملا ملٹری لیگ نے خوب زور لگا کر انتخابی مہم چلائی۔ پیسہ اور ریاستی وسائل بھی دل کھول کر خرچ کیے گئے مگر خود حکمران طبقہ کے اعلان کردہ نتائج کے مطابق 63 فیصد ووٹروں نے ووٹ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا۔ صرف یہی بات حکمرانوں کی سیاست میں محنت کش طبقے کی عدم دلچسپی کا پتہ دینے کیلئے کافی ہے۔
میڈیا پر نظر آنے والی گھٹیا پاور پالیٹکس کے متوازی اور ایک سیاست محنت کشوں کی چھوٹی بڑی سرکشیوں، ہڑتالوں اور احتجاجوں کی صورت میں جاری ہے۔ گزشتہ دو سالوں کا ہی جائزہ لیں تو پیرامیڈیکس، ینگ ڈاکٹرز،نرسز، ٹیچرز، واپڈا،پی آئی اے، ریلویز سمیت مختلف نجی اداروں کے محنت کشوں اور ملازمین کے چھوٹے بڑے احتجاج اور ہڑتالیں نظر آتی ہیں۔ محنت کش ان ہڑتالوں اور احتجاجوں سے سیکھ رہے ہیں۔ وہ ریاستی اداروں کا حقیقی چہرہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ میڈیا کا مکروہ چہرہ دیکھ رہے ہیں جو نان ایشوز کو تو بہت اٹھاتا ہے مگر محنت کشوں کی تحریکوں کو یا تو نظر انداز کرتا ہے یا بدنام۔ محنت کش دیکھ رہے ہیں کے ہر وقت کتوں کی طرح لڑنے والے سیاستدان ان کی تحریکوں کو کس طرح نظر انداز کرتے ہیں۔ وہ عدلیہ کا کردار بھی سمجھ رہے ہیں اور پولیس کا بھی۔ ساتھ میں سب سے اہم سبق وہ یہ حاصل کر رہے ہیں کے اس نظام کی حدود میں حکمران طبقے سے چھوٹی سے چھوٹی رعایت کا حصول بھی کتنا مشکل ہو گیا ہے اور اکیلے اکیلے لڑ کر کامیابی کا حصول کتنا کٹھن۔
نوجوانوں کی بات کی جائے تو بے روزگاری کا کرب ان کو بہت سے اہم اور تلخ اسباق دے رہا ہے۔ حد تو یہ کے مستقبل کی بے روزگاری کا خوف طلبہ میں بھی سرائیت کر چکا ہے۔ سب جانتے ہیں کے منڈی میں یا تو روزگار ہے نہیں یا بہت کم اجرت پر بیگار کرنی پڑتی ہے۔ ان حالات نے نوجوانوں میں شدید بے چینی پیدا کی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کے نوجوانوں اور طلبہ میں مزاحمتی سیاسی نظریات کو سیکھنے میں پہلے سے زیادہ دلچسپی نظر آتی ہے۔ مشال خان کے دردناک قتل کے واقعہ نے پورے ملک میں طلبہ کے خود رو احتجاجوں کو جنم دیا تھا۔ یہ احتجاج طلبہ میں موجود غم وغصہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ تمام سماجی، معاشی اور سیاسی بحران آخر میں پھٹ کر ایک بڑی انقلابی تحریک پیدا کرنے کی طرف جائیں گے۔ یہ تحریک اپنے پھیلاؤ اور شدت میں ماضی کی تمام تحریکوں کو گہنا دے گی۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کے اس ممکنہ تحریک کے سامنے 69-1968ء کی تحریک بھی ہیچ نظر آئے گی۔ ایسی صورتحال میں سنجیدہ مارکسی انقلابیوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کے وہ مارکسزم کے انقلابی نظریات محنت کشوں اور نوجوانوں کے وسیع تر حلقوں میں پوری جرأت اور عزم کے ساتھ لے کر جائیں۔ زیادہ سے زیادہ ساتھیوں کو اپنی صفوں سے جوڑتے ہوئے انقلابی قوتوں کو مقداری و معیاری طور پر تقویت پہنچائیں۔ ایک انقلابی پارٹی انقلاب کے عمل کو تیز بھی کرتی ہے اور مربوط بھی۔ ہمارا سب سے اہم تاریخی فریضہ انقلابی پارٹی کی تعمیر ہے۔ سرمایہ داری اکثر اپنی کمزور کڑی سے ٹوٹتی ہے اور پاکستان سرمایہ داری کی ایک انتہائی کمزور کڑی ہے۔ پاکستان کا کامیاب انقلاب صرف اس خطے یعنی برصغیر میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مزدور تحریک کو ناقابل بیان تقویت دے گا۔ ہمارے پاس آنے والے انقلابی حالات کو ضائع کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ آگے بڑھو ساتھیو! سوشلسٹ انقلاب کو اس دھرتی کا مقدر بنا دو۔