|تحریر: ارسلان گوپانگ، ریڈ ورکرز فرنٹ (لاہور)|
عملاً دیوالیہ ہوچکی پاکستانی ریاست کا معاشی بحران محنت کش عوام کے لئے روز بربادی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ جبکہ حکمران طبقے کی طرف سے تمام تر امیدیں آئی ایم ایف سے لگائی جا رہی ہیں اورایک قسط کے بعد دوسری اور پھر تیسری قسط کیلئے تگ و دود کی جائے گی، یعنی پاکستانی سرمایہ دارانہ ریاست اب مکمل طور پر وینٹی لیٹر پر آگئی ہے اور آئی ایم ایف و دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے بغیر ایک لمحہ بھی سانس لینا اس کیلئے مشکل ہو چکا ہے۔ انتہائی عوام دشمن اور مزدور کش شرائط پوری کرنے کے ایک طویل سلسلے کے بعد پہلے کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے پا گئے ہیں اور اس کے کچھ دن بعد یہ بتایا جا تا ہے کہ قرض قسط کے اجرا کیلئے ہمیں کچھ مزید”مشکل فیصلے“ یعنی مزدور دشمن اقدامات کرنے ہوں گے۔مگر ان تمام اقدامات سے حکمران طبقے میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے کیونکہ ان حکمران طبقات کی عیاشیاں اس میں پنہاں ہیں، دراصل ان تمام نام نہاد مشکل فیصلوں کا مقصد مہنگائی، بیروزگاری، بالواسطہ ٹیکسوں، افراط زر، نجکاری، عوامی سبسڈیوں کے خاتمے وغیرہ کے ذریعے بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر منتقل کرنا اور سرمایہ دار طبقے کو لوٹ مار اور منافع خوری کے نت نئے مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔
اس پس منظر میں اگر پاکستان کے عوامی اداروں کی بات کی جائے تو ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ایسے ہی ان میں سے ایک یعنی پاکستان ریلویز کی بات کی جائے تو اس کا11ہزار کلومیٹر لمبا ٹریک، دیگر انفراسٹرکچر اور لوکو شاپس وغیرہ زیادہ تر برطانوی سامراج سے ورثے میں ملے تھے لیکن پچھلے 75 سالوں میں اس ادارے کو ترقی دینے کی بجائے مسلسل پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کا ایک اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے برطانوی راج سے ورثے میں ملے ٹریک میں سے بمشکل نصف کے قریب فنکشنل ہے۔ آج پاکستان ریلویز میں ریاستی سرمایہ کاری کو آئی ایم ایف کے ایما پر انتہائی کم کر دیا گیا ہے اور باقی کی کسر پاکستان کی بیوروکریسی اور حکمران طبقات کی لوٹ مار نے پوری کر دی ہے اور حکمران طبقات کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آتے رہتے ہیں کہ پاکستان ریلوے کا ادارہ خسارے میں جا رہا ہے جس کے سبب ریلوے کی نجکاری ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ریل مزدوروں کی محنت اور لگن ہی ہے جو کہ وسائل کی عدم موجودگی اور تباہی کے دہانے پر پہنچے ریل کے انفرا سٹرکچر کے باوجود ریل کا پہیہ شدید مشکل حالات اور کم ترین اجرتوں میں بھی چالو رکھے ہوئے ہیں۔ جتنی بھی ٹرینیں اب تک نجی شعبے کے حوالے کی گئیں اس میں سے سرمایہ داروں نے ہی مال کمایا ہے اور چند سال ریل کا انفرا سٹرکچر اور افرادی قوت بے رحمی سے استعمال کرتے ہوئے صارفین کو لوٹ کر اربوں روپے جیب میں ڈال کر چلتے بنے ہیں۔ لیکن اس امر کی بابت کوئی میڈیا یا دانشور توجہ نہیں دلاتا کیونکہ نجکاری امریکی سامراج اور عالمی مالیاتی اداروں کا اتارا ہوا صحیفہ ہے جس کے خلاف بات کرنا بلاسفیمی کے زمرے میں آتا ہے اور بڑے بڑے جغادریوں کے اس نقطے سے پر جلتے ہیں۔
پاکستان ریلویز کے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو آج ریلوے کے فنڈز ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ریل مزدور کی محنت سے پیدا کردہ دولت نجی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کی جیبوں میں جارہی ہے، جس میں نجکاری شدہ ٹرینیں ٹھیکے پر لینے والے سرمایہ داروں سے لیکر انڈیپنڈنٹ پاور پروڈویوسرز (IIPs) تک سب شامل ہیں جبکہ افسر شاہی اور سیاسی حکام کو بھی ان کا بھرپور حصہ ملتا ہے۔ باقی کے عوامی اداروں کی طرح پاکستان ریلویز سے حاصل ہونے والی دولت بھی حکمران طبقے کی عیاشیوں کی نذر ہو رہی ہے اور ریلوے کی حالت دن بہ دن خستہ حالی کا شکار ہے،جس کا خمیازہ ریل مزدوروں کے ساتھ ساتھ یہاں کی عوام بھی انتہائی تکلیف دہ سفر اور خونی حادثات کی صورت میں بھگت رہی ہے۔اور یہ سارے اقدامات آئی ایم ایف کی طرف سے پچھلی کئی دہائیوں سے لاگو کئے جانے والے ”مشکل فیصلوں“ کا ہی حصہ ہیں۔ اس کے ساتھ ایک اور اہم نقطہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کے مفادات ہیں جو کہ ریل نظام کی بہتری صورت میں متاثر ہوں گے کیونکہ ٹرین کے سستے ہونے کے سبب عام عوام کی پہلی ترجیح ٹرین سے سفر کرنا ہی ہوتی ہے، لیکن پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست کا مقصد عوام کے مفادات کا دفاع کرنا نہیں بلکہ سرمایہ دار کے سرمائے کی حفاظت اور اس سرمائے کو مزید بڑھانا ہے۔
ریلوے مزدور اور ٹریڈ یونینز
جہاں تک بات ہے ریل مزدور کی تو اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ اگر آج ریلوے کا پہیہ چل رہا ہے تو اس کو پٹری پر چلائے رکھنے میں سارے کا سارا کردار ریل مزدور کا ہے۔ ڈیزل شیڈز میں مزدور اکثر یہ شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کو انجن کی مرمت کیلئے بھی مکمل سامان فراہم نہیں کیا جاتا جبکہ ریلوے کے افسران جن کا کام صرف اور صرف کرسی پر کمر اور کاغذ پر قلم توڑنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ان کی طرف سے مزدوروں کو سختی سے یہ احکامات دیے جاتے ہیں کہ جتنا سامان ہے اتنے میں ہی کام کو مکمل کرو، جس سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ کم اور ناقص سامان کی بدولت اگر ٹرین کسی حادثے کا شکار ہوتی ہے تو یہ حکمران اور ان کی وظیفہ خوار یہ شور مچا سکیں کہ ریلوے کا حل صرف نجکاری ہے۔ لیکن ان سارے مشکل حالات میں ریلوے جیسے ادارے کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک رواں دواں رکھنا بلاشبہ ریلوے کے محنت کشو ں کا کام ہے لیکن بدلے میں ریل مزدور کی زندگی اس کے ادارے کی طرح ہی شدید مشکلات سے دوچار ہے جس میں تنخواہوں کا بر وقت ملنا ہی مشکل ہو چکا ہے، مہنگائی کے تناسب سے تنخواہ کا بڑھنا تو دور کی بات ہے۔ تنخواہوں کی ادائیگی میں دو سے تین ماہ تاخیر ہونے پر اب مزدوروں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ حکومت کے پاس فنڈ نہیں ہیں جس کی وجہ سے تنخواہوں میں تاخیر ہورہی ہے جبکہ اس سے پہلے سیلاب کا بہانہ بنایا جا رہا تھا، لیکن ان مسائل کی اصل جڑ مذکورہ بالا وجوہات ہیں جس میں نجی کمپنیوں، ٹھیکیداروں، افسر شاہی وغیرہ کی منافع خوری اور لوٹ مار شامل ہے۔
نجکاری کے سلسلے کو تیز کرنے کیلئے ریلوے میں نئی بھرتیاں بھی نہیں کی جارہی ہیں بلکہ الٹا چھانٹیاں کی جا رہی ہیں جس کے سبب اگر ایک سیکشن میں دس مزدوروں کی ضرورت ہے تو وہاں اب دو مزدور ہی کام کر رہے ہیں اور ان سے بغیر ادائیگی کے اوور ٹائم کام لیا جا رہا ہے۔ یہ کیسا بھیانک تضاد ہے کہ ایک طرف ملک میں بیروزگاری کا عفریت چھایا ہوا ہے اور دوسری طرف عوامی اداروں میں ایک شخص سے تین سے چار بندوں کا کام لیا جارہا ہے اور یہ سب صرف اور صرف ملکی و عالمی سرمایہ داروں اور ان کے گماشتہ حکمرانوں کے مفاد ات کی ترجمانی کرتا ہے کیونکہ نجکاری میں ضروری ہے کہ کم مزدوروں سے زیادہ کام لے کر شرح منافع کو بڑھایا جائے۔
اس سب میں اگر ریلوے کی یونین قیادتوں پر بات کی جائے تو ان کا کردار صرف اور صرف حکمران طبقے و بیوروکریسی کی بی ٹیم کے طور پر ہے جس کا کام صرف مزدوروں کو اپنے حق کیلئے اکٹھے ہونے اور احتجاج کرنے سے روکنا ہے۔ موجودہ یونین قیادتوں نے کبھی بھی محنت کشوں کے کسی بھی سلگتے ہوئے مسئلے پر احتجاج کی کال نہیں دی بلکہ تنخواہوں میں دو ماہ کی تاخیر بھی ان قیادتوں کو حرکت میں نہ لاسکی۔ اس کے برعکس ریلوے مزدوروں نے تنخواہوں کی وقت پر ادائیگی کیلئے آزادانہ طور پر احتجاجات کیے ہیں جس میں لاہور نیو ڈیزل شیڈ میں ریل کا پہیہ جام کیا گیا اور اس جراًت مندانہ اقدام کے نتیجے میں اپنی تنخواہیں حاصل کیں۔مگر اس کی پاداش میں ان ورکرز کو انتظامیہ کی طرف سے شو کاز نوٹس بھی جاری کیے گئے، لیکن ریلوے کے محنت کش پیچھے نہیں ہٹے اور اگلے ماہ کی تنخواہ کیلئے دوبارہ سے احتجاج ریکارڈ کرا کے صرف اپنے سیکشن کو ہی نہیں بلکہ ریلوے کے دوسرے سیکشنز جن میں اولڈ ڈیزل شیڈ وغیرہ شامل ہیں، کے مزدوروں کی تنخواہ کا مسئلہ بھی حل کرایا۔ جس کے بعد نام نہاد یونین قیادتوں کی طرف مزدوروں کو احتجاجات سے روکنے کیلئے حکومتی بیانیہ اپناتے ہوئے کہا گیا کہ تنخواہوں میں تاخیر سیلاب کی وجہ سے ہے اور جلد ہی یہ مسئلہ ہو جائے لیکن یہ مسئلہ اب حل ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہا ہے۔
تمام تر یونین لیڈران کسی نہ کسی حوالے سے ریلوے افسر شاہی اور انتظامیہ سے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے نجکاری، ورک فورس کی شارٹیج اور جبری بر طرفیوں پر یہ سرمایہ دارانہ ریاست اور افسر شاہی کی گماشتہ یونین قیادتیں کوئی حکمت عملی نہیں اپنا سکتیں اور تنخواہوں میں تاخیر کے مسئلے پر پورا عرصہ خاموش رہنے کے بعدجونہی تنخواہ کا دن قریب آتا ہے(جو کہ ایک ماہ پہلے ہی تاخیر کا شکار ہوتی ہے) تو اپنے نام نہاد احتجاج ریکارڈ کرا کے ریل مزدور کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس کے ساتھ ریلوے میں ایسی پرانی یونین قیادتوں کو دوبارہ انجن شیڈاور لوکو شاپس میں واپس لایا جا رہا ہے جن کی نام نہاد جدوجہد میں صرف ریلوے محنت کشوں کی قربانیوں کو بیچ کر اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی داستانیں رقم ہیں۔ ایک خوش آئند امر یہ ہے کہ ریلوے کے مزدوروں کی طرف سے ان حکومتی کاسہ لیس یونین قیادتوں پر شدید غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے جس کی ایک مثال تنخواہوں میں تاخیر کے مسئلے پر مزدوروں کے خود رو احتجاج ہیں۔
پاکستان ریلویز کا مستقبل اور مسائل کا حل
ریلوے کے محنت کشوں کیلئے ضروری ہے کہ تنخواہوں میں تاخیر، اجرتوں میں اضافے، نجکاری کے خاتمے، نئی بھرتیوں اور ان جیسے تمام مسائل کے حل کیلئے وہ ریل مزدوروں پر مشتمل ایکشن کمیٹیاں تشکیل کریں اور ان کمیٹیوں کا دائرہ کار ریلوے کے تمام سیکشنز اور انجن شیڈ سے لے کر لوکو ورکشاپس اور اسٹیشنز تک تمام ذیلی شعبوں تک بڑھائیں۔ اس طرح اپنی جڑت بناتے ہوئے مشترکہ مسائل پر مشترکہ احتجاج اور ایک پہیہ جام ہڑتال کی تیاری کریں۔لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ایک سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کا کردار ہمیشہ مزدور مخالف ہوتا ہے اور تمام مسائل کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنا بھی یہاں کے محنت کش طبقے کا ہی فریضہ ہے اور یہ صرف سرمایہ دارانہ نظام و ریاست کے انقلابی خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اس کیلئے یہ جاننا اہم ہے کہ کس طرح سرمایہ دارانہ ریاست اور سرمایہ دار طبقہ صرف ریلوے کے مزدوروں کا ہی نہیں بلکہ ہر شعبے کے محنت کشوں کی محنت کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتا ہے۔ ریل مزدورں اور باقی تمام محنت کش طبقے کی جو یہ حالت ہے اس کے پیچھے صرف اور صرف ملکی و عالمی سرمایہ دار طبقے کے مفادات ہیں۔ پاکستانی سماج آج شدید اتھل پتھل کا شکار ہے اور تاریخی بحران کا شکار ہے اور مسئلہ صرف ریلوے کے ادارے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کے تمام محنت کشوں کا مسئلہ ہے تو اس مسئلے کی جڑ یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کے خاتمے کے لئے تمام عوامی اداروں،نجی صنعتوں و دیگر شعبوں کے محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر اکٹھا ہونا پڑے گا اور اس طبقاتی اتحاد کے بلبوتے پر ایک ملک گیر احتجاجی تحریک اور عام ہڑتال کرتے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ صرف اسی طرح ہی ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت اور مزدور ریاست کی تعمیر جا سکتی ہے جس میں فیکٹریوں، ملوں، بنکوں، جاگیروں اور معدنی وسائل سمیت تمام ذرائع پیداوار محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں ہوں گے اور پیداوار کا مقصد منافع خوری نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی تکمیل ہو گا۔ اسی طرح ایک سوشلسٹ مزدور ریاست تمام سامراجی قرضوں کو بھی ضبط کرتے ہوئے ان کی واپسی سے یکسر انکار کر دے گی کیونکہ یہ قرضے نہ تو یہاں کے محنت کش عوام نے لئے ہیں اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے ہیں۔ ایسے ہی ایک مزدور ریاست میں سیاسی اقتدار بھی محنت کشوں،کسانوں اور نوجوانوں کے منتخب کردہ جمہوری اداروں یا پنچائیتوں پر مشتمل ہوگا۔
اگر خاص طور پر ٹرانسپورٹ کے مسئلے پر بات کی جائے تو ایک سوشلسٹ نظام ہی ریلوے کے تمام مسائل کو حل کرسکتا ہے جس میں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی بجائے انتہائی سستی و معیاری پبلک ٹرانسپورٹ کی سفری سہولت ہوگی اور اس جدید دور میں نئے اور جدید انجن استعمال میں لائیں جائیں گے اور نئی ٹریک لائنز بچھائی جائیں گی جو ہر شہر اور علاقے کو سفر کی سہولت فراہم کریں گی۔ سگنلز کا پورا نظام خودکار کیا جائے گا،بلٹ ٹرینز چلائی جائیں گی اور بھاری سامان کی آمدو رفت کا مکمل انحصار ریلوے پر ہو گا۔ ریلوے کے تمام فیصلے اور انتظامات خود ریل مزدور ہی اپنی جمہوری طور پر منتخب کردہ کمیٹیوں کے ذریعے کریں گے جس میں الگ سے کوئی افسر شاہی ریلوے پر مسلط نہیں ہو گی اور تمام فیصلے عوامی امنگوں کے مطابق خود ریل مزدور ہی کریں گے۔