|منجانب: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
29جولائی کو اسلام آباد میں ریلوے لیبر یونین،ریلوے ورکرز یونین(ورکشاپس) اور ریل مزدوروں کی دیگر کئی ایسوسی ایشنزپر مبنی ریل مزدور اتحاد کی مرکزی قیادت نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید سے ملاقات کے بعد 5اگست کو ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کی کال واپس لے لی اور یوں وفاقی بجٹ پیش ہونے کے فوراً بعد شروع ہونے والی یہ جدوجہد فی الحال کے لئے اختتام پذیر ہوئی۔اتحاد کی قیادت کے مطابق ان کے وزیر ریلوے سے مذاکرات انتہائی کامیاب رہے اور ان کے زیادہ تر مطالبات تسلیم کر لئے گئے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہڑتال کی کال واپس لی ہے۔
اس تحریک کے بنیادی مطالبات میں تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ، متوقع جبری بر طرفیوں کی روک تھام،کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی،ٹیکنکل الاؤنس میں اضافہ اور سکیل اپ گریڈیشن شامل تھے۔ یہ تمام انتہائی جائز مطالبات تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کو لے کر ریلوے کے محنت کشوں میں خاصا جوش و خروش بھی موجود تھا جس کا اظہار اتحاد کے زیر اہتمام ہونے والے بے شمار احتجاجی جلسوں میں بھی ہوا۔بلاشبہ ریل مزدور اتحاد کی قیادت اس معاملے میں مبارکباد کی مستحق ہے کہ انہوں نے ان مطالبات کے گرد اچھی موبلائزیشن کرتے ہوئے ایک زبردست احتجاجی تحریک چلائی۔مزید برآں یہ امر بھی نہایت خوش آئند ہے کہ اتحاد کی قیادت نے یونین قیادتوں کی روایتی تنگ نظری سے ہٹ کر حکومت کے معاشی حملوں کا شکار دیگر عوامی اداروں، شعبہ جات کی ٹریڈ یونینز اور ایسو سی ایشنز نے نہ صرف خود یکجہتی کی اپیل کی بلکہ ریڈ ورکرز فرنٹ سمیت بائیں بازو کی دیگر تنظیموں کو بھی یکجہتی کیمپئین چلانے کی دعوت دی جس کے نتیجے میں نہ صرف ریل مزدوروں کی جدوجہد کو بے شمار عوامی اداروں کی مزدور یونینز اور ایسوسی ایشنز سے بھر پور حمایت و یکجہتی حاصل ہوئی بلکہ بحثیت مجموعی مزدور اتحاد کے قیام کا عمل بھی آگے بڑھا۔
لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اتحاد کی قیادت کی طرف سے ہڑتال کی کال کا واپس لیا جانا جلد بازی میں کیا گیا ایک نامناسب فیصلہ تھا۔یہ بات درست ہے کہ اگر احتجاجی سلسلے کے دباؤ سے ہی مزدوروں کے مطالبات ایک قابل ذکر حد تک پورے ہو جائیں تو پھر ہڑتال پر جانا غیر ضروری ہو جاتا ہے لیکن زیر بحث صورتحال میں ہمیں نہیں لگتا کہ ایسا ہوا ہے۔اتحاد کی قیادت کے دعوؤں سے قطع نظر اگر ہم میٹنگ کے متعلق وزارت ریلوے کی جانب سے شائع ہونے والی پریس ریلیز کو پڑھیں تو نہ تو اس میں تنخواہوں میں اضافے کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی متوقع جبری برطرفیوں کے حوالے سے کوئی بات ہے۔اسی طرح کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی کے بارے میں بھی پریس ریلیز میں کچھ نہیں ہے۔سکیل 4 تا16 کے ٹیکنیکل الاؤنس کو 11فیصد سے بڑھا کر 25فیصد کرنے کی”یقین دہانی“ کرائی گئی ہے لیکن اس بارے میں کوئی نو ٹیفیکشن تا حال جاری نہیں کیا گیا۔مزید برآں سکیل1تا 3(مثلاً گینگ مینز) کو اس معاملے میں بالکل چھوڑ دیا گیا ہے۔اسی طرح سکیل اپ گریڈیشن بھی”جلد“ کرنے کی ”یقین دہانی“ کرائی گئی ہے لیکن نہ تو اس حوالے سے ابھی تک کوئی نوٹیفیکشن جاری ہوا ہے اور نہ پریس ریلیز میں اپ گریڈیشن کے لئے کسی فکسڈ مدت کا کوئی تذکرہ ہے۔ شدید معاشی بحران اور محنت کش طبقے پر ہونے والے تابڑ توڑ حملوں کی کیفیت میں یہ مبہم یقین دہانیاں بھی آئی ایم ایف کے اشاروں پر ناچنے والی ایک ایسی مزدور دشمن حکومت کی جانب سے کرائی گئیں ہیں جو اپنی وعدہ خلافی اور آئے روز کے یو ٹرنز کی وجہ سے بد نام ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ریل مزدوروں کی اس تحریک میں بہت دم تھااور اسے دیگر عوامی اداروں کے محنت کشوں کی حمایت بھی مل رہی تھی اور اس تمام صورتحال سے حکومت پر ٹھیک ٹھاک دباؤ بھی پڑ رہا تھا۔”بیمار وزیر صاحب“ کا ہنگامی بنیادوں پر اتحاد کی قیادت سے ملاقات کرنا اسی دباؤ کی غمازی کرتا ہے۔ اسی لئے اگر تحریک اپنے طے شدہ پلان کے مطابق آگے بڑھتی تو نہ صرف بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا بلکہ ایک کامیاب ہڑتال کے نتیجے میں نہ صرف ریلوے بلکہ باقی تمام اداروں اور صنعتوں کے محنت کشوں کے حوصلے بھی بہت بلند ہوجاتے۔ لیکن بد قسمتی سے اتحاد کی قیادت نے عین فیصلہ کن وقت پر کمزوری دکھائی اورمحنت کشوں کی خواہشات کے برعکس ہڑتال کی کال واپس لے لی۔اس غلط فیصلے سے نہ صرف ریلوے کے محنت کشوں میں مایوسی پھیلی ہے بلکہ باقی اداروں کے محنت کشوں کو بھی ایک دھچکا لگا ہے۔
اسی طرح ریل مزدور اتحاد کی قیادت کی ایک اور بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ اس تحریک کے دوران پاکستان ریلوے میں ریل مزدور محاذ کے نام سے موجود ایک دوسرے الائنس کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ملتے جلتے مطالبات کے گردریلوے ورکرز یونین(اوپن لائن)،ریلوے انقلابی یونین،محنت کش یونین اور کئی ایک ایسو سی ایشنز پر مشتمل یہ الائنس حال ہی میں تشکیل پایا ہے۔مگر اس نا اتفاقی اور تقسیم کی ذمہ داری ریل مزدور محاذ کی قیادت پر بھی اتنی ہی عائد ہوتی ہے جتنی کہ ریل مزدور اتحاد کی قیادت پرکیونکہ انہوں نے بھی پہلے سے چلنے والی ایک تحریک کا حصہ بننے کی بجائے فرقہ پرور انداز میں اپنی”الگ تحریک“ چلانے کو ترجیح دی۔لیکن حتمی تجزئیے میں ”لیڈری“ کی اس تما م رسی کشی کا نقصان ریلوے کے محنت کشوں کو ہوا اور حکومت فی الوقت کامیاب ہو گئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ریل مزدوروں کا جوش وخروش اور دیگر اداروں کے محنت کشوں سے ملنے والی حمایت دیکھ کر حکومت کے پسینے چھوٹ گئے تھے لیکن دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ قیادتوں کی کمزوریوں اور غلطیوں کے کارن تحریک کو ایک وقتی دھچکا بھی لگا ہے۔لیکن یہ صورتحال نہایت عارضی ہے۔باقی تمام عوامی اداروں کی طرح حکومت ریلوے کے محنت کشوں پر بھی معاشی و سیاسی حملوں سے باز نہیں آنے والی بلکہ عین ممکن ہے کہ اپنی حالیہ کامیابی سے حوصلہ پکڑتے ہوئے وہ ریل مزدورں پر پہلے سے بھی بڑے حملے کرے۔مزید برآں وزارت ریلوے کی جانب سے کرائی جانے والی یقین دہانیوں پر عمل درآمد کرانے کے لئے بھی ریل مزدوروں کو پھر حرکت میں آنا پڑے گا۔لہذا غالب امکانات ہیں کہ بہت جلد اس تحریک کا دوبارہ احیا ہو گا۔ہم امید کرتے ہیں کہ اگلی بار ریلوے کے محنت کش حالیہ تحریک کے نتائج و اسباق کو ذہن میں رکھتے ہوئے میدان عمل میں اتریں گے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ریل مزدوروں کے تمام مطالبات کی بھر پور حمایت کرتا ہے اور ان کی جدوجہد میں ہمیشہ شانہ بشانہ ساتھ کھڑے رہنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔