|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، ملتان|
مزدور دشمن حکومت نے پورے ملک کو سیل پر لگا رکھا ہے۔ ہر ادارہ برائے فروخت ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں کے ایما پر ہر عوامی فلاح کے ادارے کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ دیو ہیکل قرضوں کی ادائیگی کیلئے ہر حکومت کو بالآخر محنت کش ہی نظر آتے ہیں جن پر سارا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ نجکاری کی اس مزدور دشمن پالیسی کے تسلسل میں سول ایویشن اتھارٹی(CAA) کے تین بڑے اور منافع بخش ائیر پورٹس کو آؤٹ سورسنگ کے نام پر حکومت کی جانب سے پرائیوٹائز کرنے کی مکمل تیاری کر لی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے پچھلے کچھ عرصے سے ملازمین میں انتہائی تشویش پائی جا رہی ہے۔
ان ائیرپورٹس کی نجکاری کی وجہ سے قریباً 5500 ملازمین متاثر ہونگے۔ CBAنے پچھلے چند دنوں میں CAAانتظامیہ کو تین خط لکھے ہیں جن میں فوری طور پر ڈائریکٹر جنرل سول ایویشن سے ملاقات کیلئے درخواست کی گئی مگر CAAانتظامیہ نے کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی کوئی اہمیت دی جس کی وجہ سے ملازمین میں بے چینی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔سول ایوی ایشن بیوروکریسی کی جانب سے آؤٹ سورس کرنے کی بہت تیزی کے ساتھ تیاریاں کی جا رہی ہیں جس سے ملازمین کے گھروں میں ایک سوگ کی کیفیت ہو چکی ہے۔ CBA اور دیگر یونینوں نے مل کر بات چیت کا راستہ نکالنے کی کوشش کی مگر نتیجہ صفر نکلا۔ یہ بات یاد رہے کہ سول ایوی ایشن وہ ادارہ ہے جس نے 2015-16ء میں 60 ارب سے زیادہ منافع کمایا اور 2016-17ء میں تقریبا 80 ارب آمدن ہونے کا امکان ہے۔ یہ ادارہ اپنے آغاز سے اب تک کبھی خسارے میں نہیں گیابلکہ گورنمنٹ اور دیگر اداروں کی مدد بھی کرتا رہا ہے۔ اس کے باوجود بھی اس منافع بخش ادارے کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے۔جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اس آؤٹ سورسنگ کیخلاف جنگ کا اعلان کیا ہے اور اس جنگ کو تب تک جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے جب تک آؤٹ سورسنگ کے فیصلے کو واپس نہیں لے لیا جاتا۔
آج پورے پاکستان کے محنت کشوں کو یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ نجکاری کا یہ مسئلہ کسی حکومت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ نجکاری کا یہ مسئلہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی بحران کی وجہ سے ہے۔ اسی لیے آج پوری دنیا میں نجکاری کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے اور محنت کشوں کی تنخواہوں اور مراعات میں کٹوتیاں کی جارہی ہیں۔ اس لڑائی کو لڑنے کیلئے سب سے پہلے تو پاکستان کے تمام اداروں کے محنت کشوں کو ایک الائنس بنانا ہوگا جو کسی بھی روایتی مفاد پرست قیادت کے زیر سایہ نہ ہو بلکہ محنت کش جمہوری طریقے سے اس کی قیادت کا چناؤ کریں اورپھر حکومت کی نجکاری کی مزدور دشمن پالیسی کے خلاف ایک ملک گیر احتجاج کا آغاز کریں۔ یہ حکمران ایک ہیں محنت کشوں کو بھی ان کے خلاف ایک ہونا ہوگا۔