|تحریر: زاہدہ ملک|
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر ملک بھر میں سکولوں کی بندش کے باوجود ایک طرف پرائیویٹ سکول بچوں کے والدین سے پوری پوری فیسیں وصول کر رہے ہیں، تو دوسری جانب اکثر پرائیویٹ سکولوں نے اساتذہ اور دیگر نان ٹیچنگ سٹاف کو تنخواہیں دینے سے صاف انکار کردیا ہے۔ بہت سارے سکولوں میں آن لائن کلاسز کا بھی آغاز کیا گیا ہے اور اساتذہ کو آدھی تنخواہ پر آن لائن کلاسز کے ذریعے بچوں کو پڑھانے کا عمل جاری ہے۔
وفاقی وزیر تعلیم نے 4 اپریل کو اپنے بیان میں ملک بھر کے سکولوں کو اپنے ٹیچرز کی پوری تنخواہیں ادا کرنے کی تاکید کی تھی اور خلاف ورزی کی صورت میں سکولوں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جانے کی بات کی تھی۔ اسی طرح کے بیانات سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومت نے بھی دئیے مگر اکثر پرائیویٹ سکول مالکان اپنے اساتذہ کو تنخواہیں ادا نہ کرنے پر بضد ہیں۔ پرائیوٹ سکول مالکان کی یہ ہٹ دھرمی سابقہ اور موجودہ حکومتوں کی تعلیم دشمن اور مزدور دشمن نیولبرل پالیسی کا نتیجہ ہے جس پر وہ آج تک آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت عمل پیرا ہیں۔
آج پورے پاکستان میں دو لاکھ سے زائد پرائیویٹ سکولوں میں 15 لاکھ اساتذہ جبکہ کئی لاکھ نان ٹیچنگ سٹاف کام کرتا ہے۔ انتہائی کم اجرت پر کام کرنے والے اساتذہ اور دیگر سٹاف تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بمشکل اپنے گھر کا خرچہ پورا کر رہے ہیں۔ خاص طور پر تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے خواتین اساتذہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ مکان مالکان کرایہ ادا نہ کرنے کی صورت میں محنت کش خواتین کو جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اگر صورتحال اسی طرح رہی تو خواتین کی جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہوگا اور بے روزگاری کی وجہ سے بہت ساری خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ پاکستان میں خواتین کے لیے پہلے سے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور اب سکولوں کی جانب سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے خواتین کی سماجی حیثیت اور کم ہونے کی طرف جا سکتی ہے۔
دراصل پرائیویٹ سکول منافع خوری کی مشینیں ہیں جہاں اساتذہ کا بدترین استحصال ہوتا ہے اور گلی محلوں میں بنے بہت سارے سکولوں کے اساتذہ کو تو مزدور کی ماہانہ اجرت کا آدھا بھی نہیں دیا جاتا۔ بہت سارے سکول مالکان نے تو کرونا کے نام پر خیرات جمع کرنا بھی شروع کردی ہے اور اپنے سکول کے اساتذہ پر زور ڈال رہے ہیں کہ وہ بھی چندہ دیں۔ بظاہر تو وہ اس خیرات کو غریبوں کی مدد کرنے کے لئے جمع کر رہے ہیں لیکن اس کا اصل مقصد اپنی چوری اور لوٹ مار پر پردہ ڈالنا ہے۔ جو سکول مالکان اپنے اساتذہ کو تنخواہیں دینے سے انکاری ہیں وہ بھی بڑی بے شرمی سے غریبوں کے لئے امداد اکٹھی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
تعلیم کو کاروبار بنا کر نجی سکولوں کے جال بچھانے کی نیو لبرل پالیسی کی پچھلے 30 سالوں سے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے مکمل حمایت کی۔ جن پارٹیوں کو حکومت کرنے کا موقع ملا انہوں نے آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت اقوام متحدہ اور دیگر این جی اوز کے ساتھ مل کر تعلیم کو ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل کردیا۔ پرائیویٹ سکولوں کے ذریعے ناخواندگی پر قابو پانا تو دور کی بات، اکثر محنت کشوں کے بچوں سے تعلیم کا حق بھی چھین لیا۔ سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز (SME) اور پبلک پرائیوٹ انٹرپرائز کے نام پر تعلیم کے کاروبار کو ایک منافع بخش صنعت بنادیا گیا ہے۔ سرکاری سکولوں کی تباہ حالی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پرائیویٹ سکولوں سے پر کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرائیویٹ سکولوں کے مالکان لکھ پتی اور کروڑپتی بن گئے اور انہیں مزید منافع کمانے کے لئے آسانی سے کم اجرت پر تدریسی مزدور بھی مل جاتے ہیں۔
کرونا وبا نے آج بہت سارے چھوٹے پرائیویٹ سکولوں کو دیوالیہ بھی کر دیا ہے کیونکہ بہت سارے والدین نے بھی سکولوں کی فیسیں ادا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ لیکن اکثر سکول آج بھی منافع خوری کی مشینیں ہی ہیں اور اس بحرانی کیفیت میں بھی منافع خوری میں مصروف ہیں۔ مثلاً سکولوں میں آن لائن کلاسز کا آغاز کرنا بھی سکول مالکان کی لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ایک طرف آن لائن کلاسز کے ذریعے سکول مالکان بچوں سے فیسیں وصول کرنے کے لئے جواز پیدا کر رہے ہیں تو دوسری جانب وہ والدین جو سکولوں کی بندش کی وجہ سے فیسیں دینے سے انکاری تھے ان کے جیب سے بھی پیسہ نکالنے کی کوشش ہے۔
کرونا وبا نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم کی بوسیدگی اور پسماندگی کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اس مختصر لاک ڈاؤن کے عرصے میں یہ بات واضح ہوگئی کہ پرائیویٹ اسکولز کا مقصد طلبہ کو تعلیم فراہم کرنا نہیں بلکہ منافع کمانا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بھی سرمایہ دار خدمتِ خلق کے لئے سرمایہ کاری نہیں کرتا بلکہ اپنے منافع بڑھانے کے لئے سرمایہ کاری کرتا ہے۔ پاکستان میں سکولوں اور تعلیمی اداروں میں جو بھی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے ان کے بدلے سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کو کرونا وبا پھیلنے سے پہلے بہت سارے لوگ اہمیت نہیں دیا کرتے تھے لیکن آج پرائیویٹ سکولوں کی اصلیت سب کے سامنے واضح ہو چکی ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ہر بحران کے وقت میں حکمران طبقہ ہمیشہ سارا بوجھ محنت کشوں پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ آنے والے عرصے میں بھی بیروزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو سکتا ہے۔ بیروزگاری بڑھنے سے جہاں ایک طرف غریب عوام کے لئے مشکلات پیدا ہوں گے وہیں پر غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور معیارِ زندگی میں ہونے والی گراوٹ کی وجہ سے محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکیں اٹھنے کا بھی امکان بڑھ چکا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر کے تمام نوجوان اس لوٹ مار کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور خود کو منظم کرتے ہوئے اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس ظلم اور لوٹ مار کے نظام کے خاتمے کی جانب بڑھیں اور استحصال سے پاک سوشلسٹ نظام کے قیام کی جدوجہد تیز کریں۔ کیونکہ ہمارے پاس کھونے کے لئے صرف زنجیریں ہیں اور پانے کے لئے پورا جہاں۔