|تحریر: اسماء فاروق|
سرمایہ دارانہ نظام کے اندر خواتین کی زندگی اور خاص طور پر محنت کش خواتین کی زندگی درد کی آخری حدیں پھلانگ چکی ہے۔ محنت کش خواتین کا اس سماج کو چلانے میں اتنا ہی کردار ہے جتنا محنت کش مردوں کا۔ کہیں پڑھا تھا کہ ”عورت ہونا آسان نہیں“ لیکن میں یہاں ایک اضافہ کروں گی کہ ”محنت کش عورت ہونا آسان نہیں“۔
یوں تو ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی حالت اور مسائل ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ لیکن کرونا وبا کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ شعبہ صحت میں کام کرنے والی محنت کش خواتین کی زندگیاں اذیت کی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ ہیلتھ سیکٹر کے باقی ملازمین کی طرح خواتین پیرامیڈکس بھی بغیر ہتھیار کے زندگی اور موت کے درمیان کھڑی ہیں۔
بظاہر تو لگتا ہے کہ دنیا میں ہونے والی اس اتھل پتھل کی واحد وجہ کرونا وبا ہے۔ یعنی ایک وبا نے پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا۔ لیکن اس سے وبا پہلے بھی انسانی سماج بہت سی وباؤں میں گھرا ہوا تھا۔ بیروزگاری کی وبا، غربت کی وبا، قابل علاج بیماریوں سے مر جانے کی وبا، مہنگائی کی وبا، بھوک، افلاس اور فاقوں کی وبا، صحت کے نظام کی خستگی کی وبا، تعلیم کے کاروبار اور تعلیم کے بجٹ میں کٹوتیوں کی وبا اور پھر ان ساری وباؤں کی ماں سرمایہ داری کی وبا۔
ان وباؤں کے بڑھتے حملوں میں جہاں ڈاکٹر اور نرسز بے یارو مددگار ہیں وہاں پیرامیڈیکس کی صورتحال ان سے بھی بدتر ہے۔ بہت بڑی تعداد پیرامیڈیکس خواتین کی ایسی ہے جو کنٹریکٹ یا ایڈہاک پر کام کر رہی ہیں اور اکثر خواتین پورے گھر کی واحد کفیل ہیں۔ فرنٹ لائن پر لڑنے والی پیرامیڈکس خواتین ہوں یا ہسپتالوں میں ڈیوٹی کرنے والی خواتین ان سب کا ڈائریکٹ کنٹیکٹ مریضوں سے ہوتا ہے اور کرونا سے بچاؤ کے لیے ان کو PPEs تو دور کی بات عام سرجیکل ماسک تک میسر نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ملازمین کو ایک دو دن ماسک دیے بھی گئے ہیں تو اس ایک ماسک کے لئے بھی دستخط لیے گئے ہیں اور ساتھ پدایت کی جاتی ہے کہ بس اب اسی میں گزارہ کریں۔
محنت کشوں کو بھیڑ بکریاں سمجھنا حکمرانوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ حفاظتی سامان نہ ہونے کی وجہ سے عدم تحفظ نے ان محنت کش خواتین کو بہت سے دوسرے خدشات کا شکار بنادیا ہے۔ بڑھتی مہنگائی کے اس سارے عالم میں رسک الاؤنس کے ملنے کی بجائے تنخواہوں میں کٹوتی کی خبر نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ کبھی حکمران رسک الاؤنس کا لارا دے کر ہیلتھ کے محنت کشوں کو بہلاتے ہیں اور کبھی ڈبل تنخواہ کا، اس وبا کی صورتحال اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے محنت کشوں کی تنخواہوں میں تیز ترین کٹوتیاں شروع ہوچکی ہیں۔ محنت کش خواتین کی تنخواہوں میں ہمیشہ سے ہی محنت کش مرد کی تنخواہوں کی نسبت ایک فرق موجود رہا ہے اور اب ان تنخواہوں میں کٹوتیوں نے ان خواتین پیرامیڈکس کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ کنٹریکٹ پر کام کرنے والی پیرامیڈیکس خواتین کو پہلے ہی بہت سے مسائل کا سامنا ہے اس میں کنٹریکٹ میں توسیع نہ ہونے کے خطرات اور اگر کنٹریکٹ ری نیو ہو بھی جاتا ہے تو اس کے بعد تنخواہوں کا تین تین چار چار ماہ تک رک جانا اور انہیں تنخواہوں کے حصول کے لیے لاکھوں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ انہیں بار بار سی ای او کے دفتر کے چکر کاٹنا، کبھی یہ دستخط کرواؤ تو کبھی وہ دستخط۔ کبھی کسی کی سفارش تو کبھی کسی کی سفارش کروانا اور پھر بھی اپنی محنت کی کمائی میں سے، جو ان کو پہلے ہی منصفانہ طریقے سے نہیں دی جاتی، اس میں سے بھی 25 سے 50 فیصد رشوت کے طور پر دینا پڑتی ہے تاکہ وہ اپنی رکی ہوئی تنخواہ حاصل کرکے اپنے گھر کے مسائل اور بھوک کو ختم کر سکیں۔ کرونا کے اندر ان خواتین کی زندگی دہکتے کوئلوں پر چلنے کے مترادف ہو گئی ہے۔ اپنے تحفظ کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں خاندان کا تحفظ اور پیٹ پالنا محال ہو گیا ہے۔
اس ساری صورت حال نے ان کے ذہنوں کو مفلوج کردیا ہے۔ ایک طرف اس خوف میں مبتلا ہیں کہ حکومت نے حفاظتی سامان مہیا نہیں کیا اور کسی بھی وقت کرونا کا شکار ہوئے تو ان کی فیملی کا کیا ہوگا۔کیونکہ کرونا سے متاثرہ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈکس کی طرف حکومت کا رویہ واضح ہوچکا ہے کہ نہ تو حفاظتی سامان دیا جاتا ہے نہ ہی کوئی خاص ٹیسٹوں کی سہولیات موجود ہیں اور نہ ہی آئسولیشن کے لئے کوئی مخصوص جگہ کے انتظامات ہیں۔ ان کو بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ٹیسٹ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کسی مریض کے متاثر ہونے کا پتا نہیں چل پائے گا اور اس مریض سے ہیلتھ ورکرز کا متاثر ہونا ناگزیر ہے اور جب تک پتہ چلتا ہے تب تک متاثرہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شعبہ صحت کا ملازم کرونا کے مریضوں سے متاثر ہوکر گھر جاتا ہے تو اپنے دوست احباب اور گھر والوں کو بھی انفیکٹ کر سکتا ہے۔ اس ڈرنے خواتین پیرامیڈکس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ عدم تحفظ کے اس خوف کی وجہ سے اگر یہ سوچا جائے کہ نوکری چھوڑ دی جائے اور گھر میں حفاظت سے رہا جائے لیکن اس سوچ کے ساتھ ہی ان محنت کش خواتین کو یہ خیال ستاتا ہے کہ نوکری چھوڑ دی تو گھر کا چولہا کیسے چلے گا۔
کرونا وبا اور بدترین معاشی بحران کے آغاز نے سرمایہ داری کے تمام تر تضادات کو عیاں کر دیا ہے اور یہ نظام آبادی کی ایک بھاری اکثریت کی بنیادی ضرویات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ صحت کے بجٹ پر کبھی بھی خاص توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے قابل علاج بیماریوں سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اسی وبا کی صورتحال میں محنت کش عوام کی حفاظت تو دور کی بات ہے بلکہ کرونا وبا سے فرنٹ لائن پر لڑنے والے شعبہ صحت کے ملازمین، جن کو مسیحا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ان کو سلیوٹ پیش کیے جا تے ہیں، جب حفاظتی سامان کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کو ریاستی تشدد اور جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے پروردہ حکمران طبقات کا بھیانک روپ عوام کے سامنے آشکار ہو رہا ہے۔ کرونا وباء بہت تیزی سے دنیا کے ہر حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے لاکھوں لوگ بے موت مارے جارہے ہیں۔ ہر سو موت کا رقص نظر آتا ہے۔ لیکن ان سب میں بھی کچھ چہرے بہت پر نور اور پر سکون نظر آتے ہیں۔ سوٹ بوٹ پہنے، اونچی کرسیوں پر بیٹھے، مہنگے سینٹوں کی خوشبوؤں سے مہکتے جسموں کے ساتھ بالکل ویسی ہی زندگی جیتے ہوئے جیسے لمبے عرصے سے جیتے آرہے ہیں لیکن ان کی یہ پر تعیش زندگیاں غریب اور محنت کش لوگوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔ ان کازندگی محنت کشوں کی زندگیوں کا قرض ہے۔ ان کے اجلے کپڑوں پر لاکھوں غریبوں کے خون کے دھبے واضح نظر آتے ہیں۔ ان کے جسموں سے اٹھنے والی مہنگے سینٹو کی خوشبو میں کئی زمانوں سے محنت کشوں پر ہونے والے ظلموں کی تعفن زدہ بدبو ناقابل برداشت ہے۔
یہ بات اب کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے محنت کش پر واضح ہوتی چلی جارہی ہے کہ ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں سوائے اپنی زنجیروں کے اور وہ وقت دور نہیں اب جب نہ صرف یہ پیرامیڈکس محنت کش خواتین بلکہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی محنت کش خواتین سڑکوں پر نکلتے ہوئے اپنے محنت کش مرد ساتھیوں کو ساتھ شانہ بشانہ انہیں سفید جھنڈوں کو، جنہیں ڈھونگی حکمران طبقہ مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے لہرانے کا حکم دیتا ہے، اپنے خون سے رنگتے ہوئے سرمایہ داری کا سینہ چیرتے ہوئے ایک حسین اور زندگی سے بھرپور نظام کی بنیاد رکھیں گی اور اسی نظام کی بنیاد رکھنے میں ایک کلیدی کردار بالشویک طرز کی انقلابی پارٹی کا ہوگا اور اسی پارٹی کی تعمیر کے لئے آج ہم مسلسل کوشاں ہیں۔دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!