|منجانب: ریڈ ورکرز فرنٹ لاہور|
کرونا وائرس وباء کے خلاف لڑائی میں جس طرح ریاست کا خصی پن کھل کر ننگا ہوا ہے اس کے تباہ کن اثرات پاکستانی سماج کے ہر شعبے اور محنت کش طبقے کی ہر پرت پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ تباہ حال صحت کے شعبے سے لے کر محض ٹی وی چینلوں تک محدود ہو جانے والے لاک ڈاؤن تک، محنت کشوں کو بھوکا مرنے کے لئے بے یارومددگار چھوڑنے سے لے کر سرمایہ داروں کو نوازنے تک ہر حوالے سے حکمران طبقے اور اس کی آلہ کار ریاست کا گھناؤنا چہرہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح ریاستی بانجھ پن کی ایک مثال پاکستانی کی قومی ائیر لائن پی آئی اے بھی ہے جس میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کو چھپا کر سب اچھا ہے کی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔
حکومت نے 23 خصوصی فلائٹس کا اعلان کیا ہے جس کے ذریعے بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک پھنسے مسافروں کو سفری سہولت فراہم کی جائے گی۔ لیکن پی آئی اے ملازمین میں اس حوالے سے شدید تحفظات پائے جا رہے ہیں۔اس ضمن میں پالپا کے ایک نمائندے کی ریڈ ورکرز فرنٹ سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ پالپا کے نمائندے کاکہنا تھا کہ اندرونِ ملک گلگت اور سکردو کی معمول کے مطابق فلائٹس ہوں یا اعلان کردہ بیرونِ ملک فلائٹس، کسی پر بھی عالمی ادارہ صحت(WHO) کے معیار کے مطابق حفاظتی سامان فراہم نہیں کیا جا رہا۔ ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ سامان اتنا ناقص ہے کہ استعمال کے دوران ہی پھٹ جاتا ہے یا کچھ دیر استعمال کے بعد ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ یعنی ایک طرف تو کیبن کریو کو دھوکہ دیا جا رہا ہے کہ اب ان کا حفاظتی سامان مکمل ہے اس لئے ڈیوٹیاں پوری کریں اور دوسری طرف نہ صرف ملازمین بلکہ مسافروں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈالی جا رہی ہیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی پچھلے دس دنوں میں متعدد مرتبہ SOPs تبدیل کر چکی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اتھارٹی جس کے ذمے پوری ائرلائن، ملازمین اور مسافروں کی ذمہ داری ہے کس قدر خلفشار کا شکار ہے۔ بیرونِ ملک سے آنے والے مسافروں کو قرنطینہ اور وائرس ٹیسٹ کے حوالے سے شدید مسائل او ر پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ائر لائن ملازمین کے مطابق کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ مسافروں اور کیبن کریو کے سرکاری ٹیسٹ مثبت ہونے کے بعد جب نجی لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرائے گئے تو وہ منفی آئے یا پھر منفی آنے والے ٹیسٹ مثبت ہو گئے۔ یعنی حکومت جو ٹیسٹنگ کر رہی ہے اس پر کسی قسم کا اعتبار ہی نہیں کیا جا سکتا! پھر کئی مرتبہ مختلف لوگوں کے ٹیسٹ نمونے آپس میں تبدیل بھی ہوئے ہیں۔ کیبن کریو کے قرنطینہ کے حوالے سے جو پالیسی بنائی گئی ہے وہ بھی ٹھوس نہیں۔ ملک کے مختلف ممالک میں جو قرنطینہ کے مراکز بنائے گئے ہیں ان کی تباہ حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ائیر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن پالپا کے شدید احتجاج پر اب بڑے شہروں کے کچھ ہوٹلوں کو پائلٹس اور کیبن کریو کے لئے قرنطینہ کے لیے مختص کیا گیا ہے مگر ہوٹل مالکان کی طرف سے مسلسل مزاحمت کا سامنا ہے۔ ملازمین نے بتایا کہ ائر فورس سے قرنطینہ کرنے کے حوالے سے معاونت کی بات کی گئی تو وہاں سے صاف انکار ہو گیا۔ یاد رہے کہ اس وقت ائر فورس کے آٹھ حاضر سروس سینئر افسران، ڈائریکٹر اور مختلف منصب پر کام کرتے ہوئے دونوں اداروں سے مراعات لے رہے ہیں جبکہ ائرلائن کا چیف اس وقت ائر فورس کا حاضر سروس ائیر مارشل بھی ہے۔ یعنی ایک قومی ادارے کی مراعات تو لی جا سکتی ہیں لیکن اس کو کوئی سہولت فراہم نہیں کی جا سکتی! اطلاعات کے مطابق اب ملٹری ہسپتال کیبن کریو کو قرنطینہ کرنے کے لئے استعمال ہوں گے لیکن اس حوالے سے ابھی تک کوئی نوٹس جاری نہیں ہو سکا ہے۔ ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ حکومت نے پروگرام بنایا کہ جو بھی کریو باہر سے آئے گا حفاظتی تدابیر میں اس کا سامان تلف کرنا بھی شامل ہو گا جسے شدید احتجاج کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔
یہ حالات صرف فلائٹ کے کریو کے ہی نہیں بلکہ ائرپورٹ پر موجود تمام عملے کے ہیں۔ گراؤنڈ سٹاف سے لے کر دیہاڑی دار مزدوروں تک ویسے تو سب سے ہی سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے لیکن حفاظتی سامان کے حوالے سے تو دشمنوں سے بدتر سلوک کیا جا رہا ہے۔ کئی ملازمین خود سے حفاظتی سامان خریدنے پر مجبور ہیں اور اگر ایک مرتبہ استعمال کے ڈسپوزبل ماسک اور دستانے دیے بھی جاتے ہیں تو ساتھ ہی تلقین بھی کی جاتی ہے کہ بس یہ ایک مرتبہ مل گیا ہے اسے مسلسل اور جتنی دیر استعمال کیا جا سکتا ہے کریں کیونکہ اگلی بار کا کچھ پتہ نہیں! باقی محکموں کی طرح ائرلائن ملازمین کی بھی بنیادی تنخواہ سے تین دن کی اجرت کرونا وائرس فنڈ میں دینے کے بجائے کل تنخواہ میں سے کٹوتی کر لی گئی۔ یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ انتظامیہ ائرلائن ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کرنے کے حوالے سے کوئی پروگرام بنا رہی ہے۔ یعنی ملازمین کے حالاتِ زندگی تو کیا بہتر کرنے لیکن ان کے جزبہ قربانی کو بھی انتظامیہ نے اپنی اعلیٰ کارکردگی دکھانے اور ملازمین پر کٹوتیاں لاگو کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔
اپریل کے آغاز میں حفاظتی سامان کی عدم فراہمی اور حکومتی بے حسی کے خلاف پالپا نے ہڑتال کردی کہ جب تک عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق حفاظتی سامان مہیا نہیں کیا جاتا وہ جہاز نہیں اڑائیں گے۔ حکومتی جھوٹے وعدوں پر ہڑتال ختم کر کے فلائٹس چلائی گئیں لیکن حالات ویسے کے ویسے ہیں۔ دوسری طرف ائر لائن میں موجود ٹریڈ یونینز مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ کچھ کے عہدیداران ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر حکومت اور متعلقہ سیاسی پارٹیوں کے قائدین کی چاپلوسی میں نئی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں، نام نہاد سول سوسائٹی، NGOs اور حکومتی اداروں کی خاموشی، حقائق کو چھپانے میں مکاری اور بلندوبانگ جھوٹے دعوے ثابت کر چکے ہیں کہ محنت کش طبقے سمیت پی آئی اے کے ملازمین کو بھی کرونا وائرس سے تنہا لڑنے اور مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ائر لائن کی لوٹ کھسوٹ اور مراعات میں نہانے کا عمل ویسے ہی جاری ہے۔ تمام ملازمین کو سمجھنا پڑے گا کہ نہ مانگنے سے مطالبات پورے ہوں گے اور نہ ایک دوسرے سے جدا رہ کر مسائل حل ہوں گے۔ تمام ملازمین کو مل کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا پڑے گا جس کے ذریعے اپنے جائز مطالبات منوا کر اپنا، اپنے خاندانوں مسافروں اور عوام کا تحفظ کیا جا سکے۔ ساتھ ہی دیگر قومی ادارے جن میں ملازمین کو انہی مسائل کا سامنا ہے ان کے ساتھ جڑت بنا کر ایک اجتماعی جدوجہد کرنی پڑے گی تاکہ طاقت کے نشے میں چور ریاست کا مقابلہ کرتے ہوئے اس وباء سے مقابلہ کیا جائے۔ اگر یہ وباء محنت کش طبقے کے لئے سب سے زیادہ جان لیوا ہے تو اس کا موثر مقابلہ بھی محنت کشوں نے ہی کرنا ہے۔ اس وقت ملک بھر کا طبی عملہ حفاظتی سامان کی عدم فراہمی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر طبی عملے کے کرونا کا نشانہ بننے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ بلوچستان میں حفاظتی کٹس کا مطالبہ کرنے پر ہیلتھ ورکر پر ہونے والا ریاستی جبر ساری دنیا نے دیکھا۔ اسی طرح، پنجاب میں بھی طبی عملہ حفاظتی کٹس کی عدم فراہمی کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ ضرورت اس امر کہ ہے کہ اس حکومتی و ریاستی نا اہلی اور بے حسی کے خلاف ایک مشترکہ جدوجہد کی جائے جس میں پہلے مرحلے پر طبی عملے اور ائیر لائن کے محنت کشوں کا اتحاد اس لڑائی میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔ تمام طبی عملے اور ائیر لائن کے محنت کشوں کا چاہیے کہ وہ اپنی قیادتوں پر دباؤ ڈالیں اور مل کر لڑائی پر زور دیں۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہو جائے تو حکومت سے تمام مطالبات فی الفور منوائے جا سکتے ہیں۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس جدوجہد میں ائیر لائن کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔