|منجانب: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
اطلاعات کے مطابق پی آئی اے سٹاف میں پانچ افراد کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جن میں دو پائلٹ اور تین کیبن کریو سٹاف شامل ہیں۔ متاثرین چند دن پہلے ٹورنٹو سے واپس آنے والی خصوصی خالی فلائٹ کے ذریعے ملک پہنچے جو 19 مارچ سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کینیڈا میں محصور تھے۔ اسی طرح ایک فلائٹ، جس میں پائلٹ اور کاک پٹ کریو سمیت چار افراد، بارہ کیبن کریو اور دو انجینئرموجود تھے، ٹورنٹو سے استنبول پہنچی جہاں سے 194 پاکستانی مسافروں کو واپس لایا گیا اور اب ان میں سے 26 میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ کینیڈین حکومت کی خصوصی سفارش پر مارچ کے آخری دنوں میں فلائیٹس چلائی گئیں تاکہ کینیڈین اور پاکستانی شہریوں کو اپنے ممالک واپس پہنچایا جا سکے۔ حکومتِ پاکستان اعلان کر چکی ہے کہ 4 سے 14 اپریل کے درمیان 17 خصوصی فلائٹس چلائی جائیں گی تاکہ پاکستان میں مختلف ممالک کے شہریوں کو واپس پہنچایا جا سکے اور دیگر ممالک میں پھنسے 2ہزار پاکستانی شہریوں کو واپس لایا جا سکے۔ ان میں زیادہ تر فلائیٹس ٹورنٹواور مانچسٹر کی ہوں گی جبکہ نیو یارک اور وسطی ایشیا کے لئے فلائٹس کی بھی اطلاعات ہیں۔ اندرونِ ملک فلائیٹس بند رہیں گی۔ اس کے علاوہ ائرلائن کے سی ای او نے وزیرِ اعظم سے لاک ڈاؤن کے دوران ائر لائن کو فعال رکھنے کے لئے خصوصی پیکج کی بھی درخواست کر رکھی ہے جس پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ لیکن اس دوران عملے کی زندگیوں کو انتہائی سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں جس کے لیے حکومت اور پی آئی اے کی انتظامیہ کوئی بھی حفاظتی اقدامات نہیں کر رہی۔ تمام ملازمین میں اس حوالے سے بے چینی موجود ہے اور وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت فلائیٹس کا دوبارہ آغاز کرنے سے پہلے انہیں حفاظتی سامان مہیا کرے۔ اس حوالے سے پی آئی اے کی پائلٹس ایسوسی ایشن ’پالپا‘ نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کا آغاز کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جب تک حکومت انہیں حفاظتی سامان مہیا نہیں کرے گی وہ کام پر واپس نہیں آئیں گے۔ جبکہ دوسری جانب حکومت انہیں بغیر حفاظتی سامان کے کام کرنے پر مجبور کررہی ہے جس سے نہ صرف ائر لائن ملازمین بلکہ مسافروں کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آج بغداد جانے والی فلائٹ کو کینسل کر دیا گیا ہے کیونکہ ائرلائن پائلٹس نے بغداد سے پاکستانی مسافر لانے سے انکار کر دیا ہے۔ پالپا نے دو دن پہلے اپنے تمام پائلٹس کو کرونا وائرس خطرات کے پیشِ نظر کسی بھی فلائٹ کو چلانے سے منع کر دیا تھا۔ یہ قدم پانچ ائر لائن ملازمین میں کرونا وائرس تصدیق کے بعد اٹھایا گیا۔ پالپا کا کہنا ہے کہ کسی قسم کے حفاظتی سامان کی عدم موجودگی میں وہ مسافروں اور اپنے خاندانوں کی زندگیاں خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ ساتھ ہی یہ تنازعہ بھی سامنے آیا ہے کہ انتظامیہ پائلٹس کو دو ماہ کے لئے تنخواہوں میں 20 فیصد کٹوتی پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ ایک شرمناک مذاق ہے کہ ایسے وقت میں جب فرنٹ لائن پر موجود ملازمین کو ہر قسم کی ذہنی اور جسمانی حفاظت فراہم ہونی چاہیے انتظامیہ موقع سے فائدہ اٹھا کر کٹوتیاں کرنے پر اتر آئی ہے لیکن اپنی گراں قدر مراعات کو کسی صورت قربان کرنے کے لئے تیار نہیں۔
لیکن یہ رویہ صرف پائلٹس کے ساتھ ہی نہیں ہے۔ رن وے پر لوڈرز سے لے کر صفائی کے عملے تک، بکنگ آفس سے لے کر کیٹرنگ تک، تمام ملازمین شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ اول تو پورا حفاظتی سامان نہیں دیا جا رہا۔ جو دیا جا رہا ہے وہ انتہائی ناقص اور کرونا وائرس سے بچاؤ میں خاص کارگر نہیں ہے۔ پھر آنے جانے والے مسافروں کے حوالے سے کوئی حفاظتی سامان یا کرونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر موجود نہیں۔ ایک جہاز میں 300 مسافر موجود ہوتے ہیں جو کندھے سے کندھا ملائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ پھر کون وائرس سے متاثرہ ہے اور کون نہیں، بغیر ٹیسٹنگ کے اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
پالپانے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ جو SOPs جاری کئے گئے ہیں ان میں سے ایک پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔ ائر لائن میں مختلف امور پر معمور ملازمین کا بھی یہی کہنا ہے کہ قول و فعل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حفاظت کے نام پر صرف سادہ ماسک اور دستانے دیے جا رہے ہیں جنہیں کئی کئی دن استعمال کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے جبکہ یہ سامان صرف ایک مرتبہ استعمال کا ڈسپوزیبل سامان ہے۔ زیادہ تر ملازمین کو یہ سامان بھی دستیاب نہیں۔
اس صورتحال میں ائر لائن میں موجود بیشتر یونین قیادتوں کی طرف سے مجرمانہ خاموشی برتی جا رہی ہے اور یونین اشرافیہ اپنی بیچارگی کا رونا روتے نظر آ رہے ہیں۔ مینجمنٹ کے جبر کیخلاف ملازمین کی حفاظت اور صرف انتہائی اہم آپریشنز کے لئے درکار سازوسامان کی فراہمی کا مطالبہ کرنا، اسے بروقت یقینی بنانا اور غیر اہم کام کو بند کروانا یونین قیادت کی ذمہ داری ہے۔ اگر یہ سب نہیں کیا جاتا تو پھر تمام ملازمین کو متحد کر کے مزاحمت کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینا بھی یونین قیادت کا ہی فریضہ ہے۔ تصویریں کھینچنے اور کھنچوانے سے نہ تو کبھی مسائل حل ہوئے ہیں اور نہ ہی ملازمین کو درپیش خطرات کا علاج ہوا ہے۔
پچھلے کئی دنوں سے حفاظتی سامان کی عدم فراہمی، سنگین حالات میں نوکریوں پر آنے کا دباؤ، ملازمین میں کرونا وائرس کی تصدیق اور محدود خصوصی فلائٹس چلانے کے اعلان کے باعث ملازمین مجبور ہو کر یونین قیادت کی رضامندی کے بغیر ہی بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ کیبن کریو کو آج کی فلائٹس کے لئے فون کالیں کر کے بلایا جاتا رہا لیکن ان حالات میں کوئی کام کرنے کو تیار نہیں تھا۔ آخر کار ایک دن قبل کچھ نام نہاد حفاظتی سامان ماسک، دستانے، گاؤن اور سینیٹائزر کیبن کریو اور پائلٹس کے لیے فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا گو کہ اس تمام تر سامان کا معیار انتہائی ناقص اور نا مکمل تھا۔ اس نام نہاد حفاظتی سامان کو ملازمین نے رد کر دیا جس کے باعث آج کی بغداد جانے والی فلائٹ مؤخر کر دی گئی ہے۔ اگرانتظامیہ ملازمین کو ایسے ہی مجبور کرتی رہی کہ وہ بغیر حفاظتی سامان کے کام پر واپس آئیں اور اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالیں تو ممکن ہے کہ 2016ء کی طرح ائرلائن ملازمین برجستہ کوئی جرات مند فیصلہ کر لیں جس میں ایک مرتبہ پھر یونین قیادت لنگڑاتی ہوئی ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائے۔
عالمی معاشی بحران اور ائرلائن انڈسٹری
اس وقت پوری دنیا میں ائرلائن صنعت بحران کا شکار ہے اور ہر طرف محنت کشوں پر بڑے حملے کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب دنیا بھر میں اس صنعت کو سرکار کی جانب سے بیل آؤٹ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بہت سی جگہوں پر نجی ائر لائنوں نے بھی حکومتوں سے بیل آؤٹ پیکج مانگ لیے ہیں جو خود اس نجکاری اور آزاد منڈی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ یعنی عوام کے پیسے سے نجی ائرلائنوں کے مالکان کو بیل آؤٹ کیا جائے جبکہ محنت کشوں کو ان مالکان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے جو ان کا مزید استحصال کریں، اجرتوں میں کٹوتیاں کریں یا پھر ان کی جبری برطرفیا ں کریں۔
2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد اور خصوصاً پچھلے پانچ سالوں میں عالمی ائرلائن انڈسٹری نے بے پناہ منافع کمائے ہیں جن کا حساب عوام کے سامنے اب پیش کرنا ضروری ہے۔ گو کہ عام ائر لائن ملازمین کے حالات میں کوئی فرق نہیں آیا لیکن کم از کم نوکریاں بحال رہی ہیں۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تمام ممالک کی ائر لائنز انتہائی محدود اور مخصوص فلائٹس کے علاوہ مکمل لاک ڈاؤن میں ہیں۔ روزانہ لاکھوں افراد کا سفر بند ہو چکا ہے اور ائر لائنز کے پاس محض دو مہینے کا سرمایہ موجود ہے جس سے وہ اپنے اخراجات پورے کر سکتے ہیں۔ International Air Transport Association (IATA) کے مطابق پوری دنیا کی ائر لائن انڈسٹری کو 2020ء میں 252ارب ڈالر خسارے کا سامنا ہے۔ فروری میں یہ تخمینہ 29.3 ارب ڈالر تھا۔ پچھلے سال کے مقابلے میں رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں مسافروں کی تعداد 65 فیصد کم ہو گی۔ اگر یورپ کی بڑی معیشتوں کو دیکھا جائے تو برطانیہ میں 21.7 ارب ڈالر اور4 لاکھ سے زائد نوکریاں، جرمنی میں 15 ارب ڈالر کا نقصان اور 4 لاکھ نوکریاں، فرانس میں 12 ارب ڈالر اور 3 لاکھ سے زائد نوکریاں جبکہ اٹلی میں 9.5 ارب ڈالر اور 2 لاکھ 50 ہزار نوکریاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ مختلف ممالک اپنی ائرلائنز کو بچانے کے لئے اربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج دے رہے ہیں۔ اسی طرح امریکی ائر لائنز کے کل نقصان کا تخمینہ 113 ارب ڈالر ہے جبکہ لاکھوں نوکریاں داؤ پر لگ چکی ہیں۔ امریکہ اپنی ائر و سپیس انڈسٹری کو 60 ارب ڈالر تک کے بیل آئٹ پیکج دے رہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ حکومت سے 17 ارب ڈالرمانگ رہی ہے جبکہ برطانوی ائرلائن Flybe دیوالیہ ہو چکی ہے۔ برٹش ائیر ویز نے اپنے 30 ہزار ملازمین کو عارضی طور پر فارغ کر کے بغیر تنخواہ کے گھر بٹھا دیا ہے جبکہ برطانوی حکومت نے ان کی تنخواہوں کی 80 فیصد ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ ایشیاء پیسیفک اور دیگر خطوں کی ائرلائنز بھی زبوں حال ہیں۔ عالمی لاک ڈاؤن اگر اسی طرح جاری رہتا ہے تو مختلف ذرائع کے مطابق موسمِ گرما میں ہم کئی نامور ائرلائنز کو دیوالیہ ہوتا دیکھیں گے۔ لیکن جہاں پوری دنیا کی ائرلائنز کے مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں، انہیں نوکریوں سے برخاست کیا جا رہا ہے اور دیو ہیکل بیل آؤٹ پیکج حاصل کئے جا رہے ہیں وہیں پر ائرلائن انتظامیہ اور ڈائریکٹرز کی مراعات اور تنخواہوں کے کروڑوں ڈالرز کے خرچے ویسے کے ویسے موجود ہیں۔آنے والے دنوں میں یہی ستم ظریفی پی آئی اے کے ساتھ برتی جائے گی۔
پی آئی اے کی تباہ حالی۔۔ ذمہ دار کون؟
پی آئی اے کی بربادی اس دن سے شروع ہو گئی تھی جب 1990ء کی دہائی کے اوائل میں اوپن سکائی پالیسی کے ذریعے مختلف عالمی ائرلائنز کو اندرونِ ملک آپریشن چلانے کی اجازت مل گئی اور ائرلائن کے روٹ اور دیگرسہولیات بیچتے ہوئے سست رو نجکاری عمل شروع کر دیا گیاتھا۔ لیکن جتنی لوٹ کھسوٹ اس ریاسست، سیاسی پارٹیوں کے حواریوں اور انتظامیہ نے کی ہے اس کی شاید ہی کوئی مثال ملے۔ نجکاری اور لوٹ کھسوٹ کے حوالے سے پی آئی اے اور ائرلائن انڈسٹری خاص طور پر ملک کے حکمرانوں کی منظورِ نظر رہی ہے۔ گو کہ پی آئی اے کو بیچنے کی 2016ء میں آخری کوشش کو پی آئی اے محنت کشوں کی شاندار جدوجہد، آٹھ روزہ مکمل ہڑتال اور دو ملازمین کی لازوال شہادت نے ناکام بنا دیا تھا لیکن اس کے بعد بھی پی آئی اے کو بحال کرنے کی نہ تو سنجیدہ کوشش کی گئی اور نہ ہی مزدوروں کے حالاتِ زندگی بہتر ہوئے۔ ابھی بھی سی ای او، ڈائریکٹرز، منیجرز اور دیگر انتظامیہ تنخواہوں سمیت مراعات کی مد میں کروڑوں روپیہ ماہانہ جلا رہے ہیں جبکہ پی آئی اے کے ڈیلی ویجز ملازمین کا مستقل ہونے کا دیرینہ مطالبہ ایک خوشنما خواب بن کر رہ گیا ہے۔
آڈیٹر جنرل پاکستان کے ایک ذیلی ادارے، کمرشل آڈٹ اینڈ اویلیو ایشن ڈائریکٹوریٹ کراچی کی جنوری 2020ء کی رپورٹ کے مطابق پی آئی اے میں 6 ارب روپے کی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ ان میں کروڑوں روپے کی مراعات اورغیر قانونی ادائیگیاں بھی شامل ہیں جس میں ساری انتظامیہ ملوث ہے۔
غیر قانونی طور پر دو عہدے رکھنے والا ائرلائن کا سی ای او ارشد ملک 30 لاکھ روپیہ تنخواہ لے رہا ہے جبکہ مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح سینئر مینجمنٹ اورڈائریکٹرز کی تنخواہیں اور مراعات ائر لائن پر ماہانہ کروڑوں روپوں کا بوجھ بنی بیٹھی ہیں۔ لیکن حکمران طبقات ملازمین کو بوجھ قرار دیتے ہیں اور ان کی تنخواہوں اور مراعات میں مسلسل کٹوتی کے ساتھ ساتھ ان کو مستقل ملازمت کی بجائے کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز کے ذریعے ان کا استحصال جاری رکھتے ہیں۔ یہاں ہم قارئین پر چھوڑے دیتے ہیں کہ پی آئی اے کی کرپشن، بدانتظامی اور خسارے کے ذمہ دار وہ ہیں جن کے کنٹرول میں تمام اکاؤنٹس اور فیصلہ سازی ہے یا وہ ملازمین جو دن رات ایک کر کے اس ائرلائن کو پرواز کے قابل بنائے ہوئے ہیں لیکن فیصلہ سازی میں کوئی حق نہیں رکھتے۔ اگر عام دنوں میں یہ صورتحال ہے تو اس وقت شدید معاشی بحران اور وباء کے خطرات کے پیشِ نظر ان خونخوار بھیڑیوں کے مزید خوفناک رویے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بیل آؤٹ پیکج اور نجکاری کے مزید حملے!
موجودہ حکومت کی کرپشن، نااہلی اور عوام دشمنی پہلے ہی واضح ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ ماضی کی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی نجکاری کی عوام دشمن پالیسی کا واضح اعلان کر چکی ہے۔ ایسے میں پی آئی اے کے موجودہ بحران کو نجکاری کے مزید حملے اور ملازمین کی جبری برطرفیوں میں نکل سکتا ہے۔ایک جانب حکومت اپنے منظور نظر سرمایہ داروں کو نوازنے کے لیے پی آئی اے ان کے حوالے کر سکتی ہے اور ساتھ ہی عوام کے ٹیکسوں کا اربوں روپیہ بھی سبسڈی کی شکل میں ان سرمایہ داروں کو دے سکتی ہے کہ وہ اس ادارے کو چلا سکیں۔ چینی اور آٹے کے حالیہ بحران نے ایک دفعہ پھر ان حکمرانوں اور اس ملک کے سرمایہ داروں کا بھیانک چہرہ عوام پر واضح کیا ہے جو آنے والے دنوں میں پی آئی اے پر حملوں کی صورت میں بھی دکھائی دے سکتا ہے۔
اگر حکومت کوئی ایسا اقدام لیتی ہے تو بحران کا تمام ملبہ محنت کشوں پر ڈالتے ہوئے نہ صرف بڑے پیمانے پر ملازمین کو جبری طور پر نوکریوں سے برطرف کیا جائے گا بلکہ رہ جانے والوں کی اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں ہوں گی اور ان کے کام کے اوقات کار میں بھی بہت زیادہ اضافہ کیا جائے گا جبکہ مراعات ختم کی جائیں گی۔اسی طرح یونین سازی کا حق چھیننے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے جس کے حوالے سے پہلے ہی پیش رفت ہو چکی ہے اور لازمی سروسز کا بہانہ بنا کر یونین سرگرمی پر روک لگایا گیا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ پی آئی اے کے محنت کش اپنی زندگیوں کے ساتھ ساتھ اپنے روزگار کے دفاع کے لیے بھی متحد ہوں اور حکومت کے ان ممکنہ حملوں کیخلاف لڑائی کا آغاز کریں۔محنت کشوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ پی آئی اے کے خسارے کے ذمہ دار محنت کش نہیں بلکہ انتظامیہ اور حکمران طبقے کی عوام دشمن پالیسیاں ہیں۔ اس لیے اس انتظامیہ سے خسارہ ختم کرنے کی امید کرنا ممکن نہیں۔ اسی طرح نجکاری کی پالیسی کا خاتمہ کر کے ہی اس عوامی ادارے کو خسارے سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے حکومت کو اوپن سکائی پالیسی کا مکمل خاتمہ کرنا ہو گا اور تمام انٹرنیشنل روٹس پر پی آئی اے کی مکمل اجارہ داری مکمل طور پر بحال کرنی ہو گی۔ اس کے علاوہ ملک کے اندر موجود دیگر نجی ایر لائنز کو بھی قومی تحویل میں لیتے ہوئے اس صنعت سے نجی شعبے کا مکمل خاتمہ کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ ائر لائن سے وابستہ تمام شعبوں سے نجی اداروں کو ختم کرنا ہو گا اور اس پورے شعبے کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہوگا جہاں وہ مکمل آزادی کے ساتھ ادارے کے حق میں فیصلے کر سکیں۔
ایسے کنٹرول سے پی آئی اے کے محنت کش کرونا وبا سے مقابلہ کرنے کے بھی اقدامات بہتر انداز میں کر سکتے ہیں اور عملے کو معیاری حفاظتی سامان مہیا کرتے ہوئے انتہائی اہم پروازوں کو منزل مقصود تک پہنچا سکتے ہیں۔ ان اقدامات سے ان کی زندگیاں بھی محفوظ رہیں گی اور ان کا روزگار بھی جبکہ عوام کے پیسوں سے بنے اس ادارے کو خسارے سے بھی نکال لیا جائے گا اور سرمایہ دارگدھ بھی اس کو اپنے منافعوں کے لیے نوچ نہیں سکیں گے۔
پی آئی اے کو کون بچائے گا۔۔ محنت کش!
ریڈ ورکرز فرنٹ، پی آئی اے کے پائلٹس اور کیبن کریو، گراؤنڈ سٹاف اور دیگر عملے کے تمام مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور جب تک انتظامیہ کی جانب سے معیاری حفاظتی سامان مطلوبہ تعداد میں فراہم نہیں کیا جاتا تو کام سے انکار کیا جائے۔ پالپا کے احتجاج نے سب کے لیے مثال قائم کی ہے اور تمام محنت کشوں کے لیے اپنی حفاظت اور روزگار کی ضمانت کا یہی ایک راستہ ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس جدوجہد میں پی آئی اے کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
اس وقت ریاست اور پی آئی اے انتظامیہ مکمل طور پر کرونا وائرس کے حوالے سے ائرلائن مزدوروں اور عوام کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکی ہے جبکہ یونین اشرافیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ ائرلائن کے ملازمین کو خود متحد ہو کر فیصلہ کرنا ہو گا کہ قومی ائرلائن کے ملازمین کی حفاظت اور عوامی سہولت کو کیسے ہنگامی بنیادوں پر احسن طریقے سے کامیاب کیا جا سکتا ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کا مطالبہ ہے کہ:
1۔ تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو فوری طور پر مستقل کیا جائے اور ائرلائن کے تمام ملازمین کی تنخواہ فوری طور پر نہ صرف دگنی کی جائے بلکہ ایک ماہ کی تنخواہ اضافی دی جائے۔
2۔ سی ای او، ڈائریکٹرز اور انتظامیہ کی مراعات پر اضافی خرچہ فوری طور پر بند کیا جائے اور سب کی تنخواہ ایک ہنرمند ملازم کے برابر کی جائے۔
3۔ تمام غیر اہم کام فوری طور پر بند کر دیا جائے، ملازمین کو مکمل تنخواہ کے ساتھ گھر بھیجا جائے اور کسی ملازم کو کسی صورت نوکری سے برخاست کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
4۔ انتہائی اہم فلائٹس پر کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے تمام احتیاطی تدابیر برتنے کے ساتھ ساتھ حفاظتی سامان مہیا کیا جائے اور تمام کام فی الفور پورا کر کے فلائٹس وباء کے خاتمے تک منسوخ کی جائیں۔
5۔ ائر لائن کے نجکاری کئے شعبے فوراً واپس قومی تحویل میں لئے جائیں اور نجکاری پالیسی کے فوری خاتمے کا اعلان کیا جائے۔
6۔ اوپن سکائی پالیسی کا خاتمہ کیا جائے۔ تمام انٹرنیشنل روٹس پر پی آئی اے کی اجارہ داری بحال کی جائے اور ملک کے اندرتمام نجی ائرلائنز کو نیشنلائز کرتے ہوئے قومی تحویل میں لیا جائے اور محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔ اس سے نہ صرف ادارے میں کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مار کا خاتمہ ہو گا بلکہ تمام تر خسارے بھی ختم ہوں گے اور ادارے کا معیار دوبارہ بلندیوں کو چھونے لگے گا۔